تجھے اس قدر عطا کرے گا کہ تو خوش ہوجائے گا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
اس سورہ کی فضیلت انقطاع وحی کا فلسفہ

اس سورے کے آغاز میں بھی دو قسمیں کھائیں گئی ہیں :

۱۔ ”نور“ ( روشنی ) کی قسم

۲۔ ” ظلمت“ ( تاریکی ) کی قسم ، فرماتا ہے : ” قسم ہے دن کی جب کہ سورج نکل آئے اور ہر جگہ کو گھیر لے“ ( و الضحٰی)” اور قسم ہے رات کی جب کہ وہ ساکن اور ہر جگہ کو سکون و آرام میں غرق کردے“ ( و للیل اذا سجیٰ)۔ ” ضحی“دن کے پہلے حصہ کے معنی میں ہے جب کہ سورج آسمان پر اونچا ہو جائے ، اور اس کی روشنی ہر جگہ مسلط ہو جائے ،
اور یہ در حقیقت دن کا بہترین وقت ہوتا ہے ۔
اور بعض کی تعبیر کے مطابق یہ فصل جوانی کے حکم میں ہے ، جب کہ گرمیوں کی ہوا بھی گرم نہیں ہوتی، اور سر دیوں میںہوا کی سردی ٹوٹی ہوئی ہوتی ہے اور انسان کی روح و جان اس موقع پر ہر قسم کی فعالیت کے لئے آمادہ ہوتی ہے ۔ ” سجیٰ“ ” سجو“ ( بر وزن سرد، اور بر وزن غلو) کے مادہ سے اصل میں سکون و آرام کے معنی میںہے ، اور چھپانے “ اور ” تاریک ہونے “ کے معنی میں بھی آیا ہے ، اسی لئے جب ” میت “ کو کفن میںلپیٹ دیتے ہیں تو اسے ” مسجی“ کہاجاتا ہے ۔
لیکن یہاں یہ وہی اصلی معنی دیتا ہے جو سکون و آرام ہے ۔ اسی وجہ سے ان راتوں کو جن میں ہوا نہ چلے ” لیلة ساجیة“ (آرام و سکون کی رات ) کہتے ہیں ،اور طوفان و امواج ِ خروشاں سے خالی سمندر کو ” بحر ساج“ ( پر سکون سمندر) کہا جاتا ہے ۔
بہر حال جو چیز رات کے سلسلہ میں اہم بات ہے وہی سکون و آرام ہے جو اس پر حکم فرما ہے ، اور طبعاً انسان کے اعصاب اور روح کو سکون و آرام میں ڈبو دیتی ہے ہے اور کل اور آئندہ آنے والے دنوں میں سعی اور کوشش کے لئے آمادہ و تیار کرتی ہے ۔ اس لحاظ سے یہ بہت ہی اہم نعمت ہے اور اس لائق ہے کہ اس کی قسم کھائی جائے ۔
ان دونوں قسموں اور آیت کے مضمون کے درمیان شباہت اور ایک قریبی ربط موجود ہے ۔ دن تو پیغمبر کے پاک دل پروحی کے نور کے نزول کی مانند ہے اور رات وقتی طو پر وحی کے انقطاع کے مانند ہے جو بعض مقاطع اور اوقات میں ضروری ہے ۔ ان دونوں عظیم قسموں کے بعد نتیجہ او رجواب ِ قسم کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے :” تیرے پروردگار نے ہر گز تجھے چھوڑا نہیں ہے ، اور نہ ہی تجھ سے غصہ ہوا ہے “۔ ( ماودعک ربک وما قلیٰ
” ودع “ ” تودیع“ کے مادہ سے ، چھوڑنے اور وداع کردینے کے معنی میں ہے ۔
قلیٰ“قلا“ ( بروزن صدا) کے مادہ سے شدِت بعض و عداوت کے معنی میں ، اور مادّہ ” قلو“ ( بروزن سرو) پھینکنے اور دھکا دینے کے معنی میں بھی آیاہے ۔
راغب کا نظر یہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک ہی معنی کی طرف لوٹتے ہیں، کیونکہ جو شخص کسی سے دشمنی کرتا ہے تو گویا دل اسے دھکادے دیتا ہے ، اور اسے قبول نہیں کرتا ۔ ۱
بہرحال یہ تعبیر پیغمبر کی ذات کے لئے ایک دلداری اور تسلی کے طور پر ہے کہ اچھی طرح یہ جان لیں کہ اگر کبھی نزول ِ وحی میں تاخیر ہو جائے تو وہ کچھ مصالح کی بناء پر ہوتی ہے جسے خدا ہی جانتاہے ، اور ہر گز اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ دشمنوں کے قول کے مطابق خدا اس سے خشمگیں اور غصہ ہوگیا ، یا اس کو چھوڑ دیا ہے۔ وہ ہمیشہ ہی خدا کے خاص لطف و کرم اور عنایات کے مشمول ہوتے ہیں اور ہمیشہ اس کی خاص حمایت کے زیر سایہ رہتے ہیں ۔
اس کے بعد مزید فرماتا ہے : ” بیشک عالم آخرت تیرے لئے اس دنیا سے بہتر ہے “۔ ( وللاٰخرة خیر لک من الاولیٰ ) اورتو اس دنیا میں بھی اس کے ا لطاف کامشمول ہے، اور آخرت کی دراز مدت میں خلاصہ یہ ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو دنیا میں بھی محترم ہے اور آخرت میں بھی محترم ہے، البتہ دنیا میں عزیز و محترم تر ہے ۔
بعض مفسرین نے ” آخرت“ اور ” اولیٰ “ کی پیغمبر کی عمر کے آغاز و انجام کی طرف اشارہ سمجھا ہے اور یہ کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تو اپنی آخری عمر میں زیادہ موافق اور زیادہ کامیاب ہو گا ۔ اور یہ اسلام کی وسعت اور پھیلا و ٴاور مسلمانوں کی دشمنوں پر بار بار کی کامیابیوں اور جنگوں میں ان کی فتوحات اور اسلام کے پودے باور ہونے اور شرک و بت پرستی کے آثار کے ہٹ جانے کی طرف اشارہ ہے
ان دونوں تفسیرکے درمیان جمع میں بھی کوئی مانع نہیں ہے ۔
اور آخری زیر بحث آیت میں پیغمبر کو افضل و بر تر خوش خبری دیتے ہوئے مزید فرماتا ہے :” عنقریب تیرا پروردگار تجھے اس قدر عطا کرے گا کہ تو خوش ہوجائے گا “۔ ( ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ
یہ خدا کا اپنے بندہٴ خاص محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے بالاترین احترام و اکرام ہے کہ فرماتا ہے : اس قدر تجھے بخشوں گا کہ تو راضی ہوجائے گا“۔
دنیا میں تو دشمنوں پرکامیاب ہو جائے گااور تیرا دین عالم گیر ہو جائے گا، اور آخرت میں بھی تو عظیم ترین نعمتوں کا مشمول ہو گا۔
اس میں شک نہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، خاتم ِ انبیاء اور عالم ِ بشریت کا رہبر ہو نے کی حیثیت سے صرف اپنی ہی نجات پر خوش ہو سکتے ،بلکہ آپ اس وقت راضی و خوش ہوںگے جب آپ کی شفاعت آپ کی امت کے بارے میں قبول ہو جائے گی ، اس بناء پر روایات میں آیاہے کہ یہ آیت امید بخش ترین آیت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت کے قبول ہونے کی دلیل ہے ۔
ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے آیاہے کہ انہوں نے اپنے باپ زین العابدین علیہ السلام سے انہوں نے اپنے چچا ” محمد بن حنفیہ “ سے ، انہوں نے اپنے باپ امیر المومنین علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” قیامت کے دن میں موقف شفاعت میں کھڑا ہو جاوٴں گا اور گناہ گاروں کی اس قدر شفاعت کروں گا ، کہ خدا فرمائے گا:
ارضیت یا محمد؟! ” اے محمد کیا تم راضی ہوگئے“؟!تو میں کہوں گا، رضیت، رضیت : ” میں راضی ہوگیا ، میں راضی ہو گیا“!اس کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے اہل کو فہ کی ایک جماعت کی طرف رخ کیا اور مزید فرمایا - تمہارا یہ نظریہ ہے کہ قرآنی آیات میں سب سے زیادہ امید بخش آیت ” قل یا عبادی الذی اسرفوا علیٰ انفسھم لا تقنطوا من رحمة اللہ “ ہے ( یعنی اے میرے بندو! جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو)۔ اس جماعت نے کہا : جی ہاں ! ہم اسی طرح ہیں :آپ نے فرمایا : ” لیکن ہم اہل بیت یہ کہتے ہیں کہ آیاتِ قرآنی میں سب سے زیاد ہ امید بخش آیت ” ولسوف یعطیک ربک فتر ضیٰ “ ہے ۔ 2
یہ بات کہے بغیر واضح ہے کہ پیغمبر کی شفاعت کے لئے کچھ شرائط ہیں، نہ تو آپ ہر شخص کےلئے شفاعت کریں گے اور نہ ہیں ہر گنہگار اس کی توقع رکھ سکتا ہے ۔ ( اس کی بحث کی تفصیل جلد اول سورہ بقرہ کی آیت۴۸ میں مطالعہ فرمائیے)۔ ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیاہے :
” رسول خدا  فاطمہ  کے گھر میں داخل ہوئے، جب کہ آپ  کی بیٹی اونٹ کی اون کا سخت لباس پہنے ہوئے تھیں ، ایک ہاتھ سے چکی پیس رہی تھیں، اور دوسرے ہاتھ سے اپنے فرزند کو دودھ پلارہی تھیں ، پیغمبر صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا، بیٹی ! دنیاکی تلخی کو آخرت کی شیرینی کے مقابلہ میں برداشت کر، کیونکہ خدا نے مجھ پر یہ نازل کیا ہے کہ تیراپروردگار اس قدر تجھے دے گا کہ تو راضی ہوجائے گا“۔
( ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ) 3


  

۱۔ یہ مادہ ” ناقص یائی“ کی صورت میں بھی آیاہے اور ” ناقص“ واوی“ کی صورت میںبھی پہلی صورت میںبغض و عداوت کے معنی میںہے ، اور دوسری صورت میں پھینکنے اور دھکادینے کے معنی میں ہے ، اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے دونوں معنی ایک ہی جڑ اور ریشہ کی طرف لوٹتے ہیں ۔
2۔ ” ابو الفتوح رازی “ جلد ۱۲، صفحہ ۱۱۰۔
3۔ ” مجمع البیان “ جلد۱۰، ص ۵۰۵۔

اس سورہ کی فضیلت انقطاع وحی کا فلسفہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma