خدا وند ِ عظیم کی تسبیح کر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
تلاوت کی فضیلت ہم تجھے ہر اچھے کام کے لئے آمادہ کریں گے

یہ سورہ حقیقت میں مکتب انبیاء کی دعوت ِ فکر کا نچوڑ اور خلاصہ، یعنی پروردگار ِ عالم کی تسبیح اقدس سے شروع ہوتا ہے ۔
پروردگار عالم ابتداء میں روئے سخن پیغمبر اسلام کی طرف کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” اپنے بلند مرتبہ پروردگار کے نام کو ہر عیب و نقص سے منزہ شمارکر “۔ (سبح اسم ربک الاعلیٰ
مفسرین کی ایک جماعت کا نظریہ ہے کہ یہاں اسم سے مراد مسمیٰ ہے جبکہ ایک جماعت نے کہا ہے کہ مراد خود اسم پروردگار ہے ، وہ نام جو مسمیٰ پر دلالت کرتا ہے ان دونوں تفسیروںکے درمیان کوئی خاص فرق نہیں ۔
بہر حال مراد یہ ہے کہ خدا کا نام بتوں کا ہم ردیف قرار نہ دیا جائے اور اس کی ذات پاک کو ہم ہر قسم کے عیب و نقص سے جسم و جسمانیات کے عوارض سے اور ہر قسم کی محدودیت و نقصان سے منزہ شمار کریں ۔ بت پرستوں کی طرح نہیں جو خدا کا نام بتوں کے ساتھ لیتے تھے ، یا وہ لوگ جو خدا کو جسم جسمانیات سے منزہ خیال نہیں کرتے ۔
اعلیٰ “ کی تعبیر اس حقیقت کوبیان کرتی ہے کہ وہ ہرشخص اور ہر اس چیز سے ، جس کا اہم تصور کرسکتے ہیں، ہر خیال و قیاس و گمان سے اور ہر قسم کے جلی و خفی شرک سے برتروبالا ہے ۔
” ربک“ (تیرا پروردگار)کی تعبیر اس طرف اشارہ کرتاہے کہ وہ پروردگار جس کیطرف تو لوگوں کو بلاتا ہے بت پرستوںکے پروردگار سے الگ ہے
رب و اعلیٰ کی دو صفتوں کے بعد ان کی وضاحت کے لئے پانچ اور صفات بیان کرتاہے جو سب کی سب پر وردگار کی اعلیٰ ربوبیت کی تشریح ہیں، فرماتاہے :
وہ خدا جس نے پیدا کیا اور منظم و مرتب کیا “ ( الذی خلق فسوّی
سوّی“ تسویہ کے مادہ سے نظام بخشنے اور مرتب کرنے سے جو آسمانی ستاروں پر حاکم ہے ، یا جو زمینی مخلوقات پر حکم فرماتاہے انسان کی جسم و جان کے لحاظ سے ۔
اور جو مفسرین نے صرف انسان کے ہاتھ پاوٴں اور آنکھوں کے خاص نظام یا انسان کے راست قامت ہونے کے ساتھ تفسیر کی ہے ، در حقیقت وہ اس مفہوم کے ایک محدود و مصداق کا بیان ہے ۔ بہر حال عالم آفرینش کا نظام جو عظیم ترین آسمانی نظاموں پر حاوی ہے ، پروردگار کی ربوبیت اور اس کے وجود کے اثبات کے لئے سادہ اور عام موضوعات کا مویّد ہے ۔ مثلاً انسان کی انگلیوں کی پوروں کی لکیروں تک ، جن کی جانب سورہ قیامت میں اشارہ ہوا ہے :(بلیٰ قادرین علیٰ ان نسوّی بنانہ) ( قیامت، آیت ۴)اس مختصر سی تعبیر میں مطالب کا ایک جہان پوشیدہ ہے ۔
آفرینش اور خلقت کی تنظیم کے مسئلہ کے بعد حرکت ِ کمالی اور اس کی راہ میں موجودات کی ہدایت کے لئے لائحہ عمل مقرر کرنے کے موضوع کو پیش کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے : ” وہ جس نے تقدیر مقرر کی اور ہدایت فرمائی“ ( و الذی فھدیٰ
تقدیر سے مراد اندازہ ، اہداف و مقاصد اور روبہ عمل ہونے کے لائحہ عمل کی تعیین ہے جن کے لئے موجودات کو خلق کیا گیا ہے ۔ ہدایت سے مراد ہی ہدایت تکوینی ہے جو محر کات اور قوانین کی شکل میں ہے اور جسے ہر موجود پر حاکم قرار دیا جاتا ہے (عام اس سے کہ وہ اندرونی محرک ہوں یابیرونی )۔
مثلاً ایک طرف ماں کے پستا ن اور اس کے دودھ کو بچہ کی غذا کے لئے پیدا کیا ہے ، ماں کو شدید محبت مادری سے نوازا ہے اور دوسری طرف بچہ میں محرک پید اکیا ہے جو اسے ماں کے پستان کی طرف کھینچتا ہے یہ آمادگی دونوں طرف کی وقت جاذبہ تمام موجودات کی راہ مقاصد میں نظر آتی ہے ۔
خلاصہ یہ کہ ہر موجود کی ساخت کے بارے میں تدبر و تفکر کرنا اور وہ راہ عمل جسے وہ اپنی زندگی میں طے کرتا ہے ، یہ دونوں باتیں اس حقیقت کا پتہ دیتی ہیں کہ نہایت باریک بینی پر مبنی ایک لائحہ عمل تجویز کیاگیا ہے طاقت جست ہدایت کے پیچھے ہے جو اس لائحہ عمل کے اجزاء میں مدد کرتا ہے ، اور یہ پروردگار کی ربوبیت کی ایک نشانی ہے ۔
البتہ انسان کے لئے ہدایت تکوینی کے پروگرام کے علاوہ ایک اور قسم کی ہدایت بھی موجود ہے جو وحی اور بعثت انبیاء کے ذریعہ صورت پذیر ہوئی ہے ۔ اس کانام ہدایت تشریعی ہے ، قابل توجہ یہ امر ہے کہ انسان کی ہدایت تشریعی بھی اس کی ہدایت تکوینی کی تکمیل کرتی ہے ۔
اس مفہوم کو سورہ طٰہٰ کی آیت ۵۰ میں بھی پیش کیا گیا ہے جہاں حضرت موسیٰ  و فرعون کے اس سوال کے جواب میں کہ تم دونوں کاپروردگار کون ہے ؟ ( فمن ربکما یا موسیٰ ) فرماتے ہیں ( ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقہ ثم ھدیٰ ) ” ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر موجود کو اس کی خلقت لازمہ عطا فرمایا اور پھر اس کی ہدایت کی “۔
اس بات کامفہوم موسیٰ بن عمران کے زمانے میں یا نزول قرآن کے زمانے میں اگر چہ مختصراً معلوم تھا لیکن موجودہ زمانہ میں ، جبکہ انسانی علوم و دانش نے انواع ِ موجودات کی شناخت کے سلسلہ میں خصوصاً پودوں اور جاندار وں کے بارے میں بڑی پیش رفت کی ہے ، اب بہت سی معلومات عام ہو چکی ہیں اور ہزار ہا کتابیں اس تقدیر اور ہدایت کے سلسلہ میں معرض تحریر میں آچکی ہیں ۔ اس کے باوجودمحققین کہتے ہیں کہ جو کچھ ابھی معلوم نہیں کیا جاسکاوہ کئی گنا زیادہ ہے۔
بعد والے مرحلے میں گیاہ و نباتات یعنی چوپاوٴں کی غذا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے :
” وہ چراگاہ کو وجود میں لایا اور اسے زمین کے اندر سے باہر نکالا ہے “۔( و الذی اخرج المرعیٰ)
اخرج“ ۔”کی تعبیر “۔” اخراج“ کے مادہ سے اس طرف اشارہ ہے ۔ گویا یہ سب زمین کے اندر موجود تھے اور خدانے انہیں باہر نکا لا ہے ۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ حیوانات کی غذا انسانی غذا کی تمہید ہے اور اس کا فائدہ آخر کار انسان کو پہنچتا ہے ۔
اس کے بعد مزید فرماتاہے :” اس کے بعد خدا نے اسے خشک اور سیاہ قرار دیا “۔ ( فجعلہ غثاء احویٰ)۔ اصل میں خشک گھاس کے معنی میںہے جو سیلاب کے نتیجہ میں نکلتی ہے ۔ وہ جھاگ جو دیگ کے جوش کھانے سے پید اہوتاہے ، اسے بھی غثاء کہتے ہیں ۔ یہ تعبیر ہر اس چیز کے لئے کنایہ ہے جو ضائع ہوجاتی ہے ۔
زیر بحث غثاکے معنی خشک گھاس اور فضول چیز کے ہیں ۔
” احویٰ“ ” حوہ“ ( بروزن قوہ) کے مادہ سے کبھی سبزرنگ اور کبھی سیاہ رنگ کے معنی دیتاہے اور دونوں ایک ہی معنی کی طرف لوٹتے ہی ہیں ، اس لئے سبز رنگ جب زیادہ ہوتو سیاہی مائل ہوجاتاہے ، یہ تعبیر اس بناء پر ہے کہ خشک گھاس جب اوپر تلے پڑی ہوتو آہستہ آہستہ کالی ہونے لگتی ہے ، اس تعبیر کا انتخاب ، باوجودی خدائی نعمتوںکے بیان کے محل پر ، لیکن ہوسکتا ہے کہ مندرجہ ذیل تین علتوں میں سے اس کی ایک علت ہو ۔
۱۔ پہلی یہ کہ گھاس وغیرہ کی کیفیت دنیا کے فانی ہونے کو ظا ہرکر تی ہے اور انسانوںکے لئے ہمیشہ درس عبرت کا کام دیتی ہے ۔ وہ سبزہ جو فصل بہار میں تروتازہ اور مسرت بخش تھا ، چند گزرنے کے بعد خشک ہو کر سیاہ رنگ اختیار کر لیتا ہے اور اس پر مردنی چھا جاتی ہے گویا زبان حال سے دنیا کی ناپائیداری اور وقت کے تیزی سے گزرنی کی داستان سناتی ہے ۔
۲۔ دوسرے یہ کہ خشک گھاس جب اوپر نیچے رکھ دی جائے اور بوسیدہ ہوجائے تو ایک قسم کی کھاد بن جاتی ہے جو نئی گھاس کی پرورش کے لئے مفید ہوتی ہے اور زمین کی تقویت کا باعث بنتی ہے ۔
۳۔ تیسری علت یہ ہے کہ بعض مفسرین کے مطابق اس آیت میں گھاس اور درختوں سے پتھر کے کوئلوں کی تخلیق کی طرف اشارہ ہے ، اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ پتھر کا کا کوئلہ جو کرہٴ زمین سے حاصل ہونے والی قوتوں میں سے ایک اہم ترین قوت ہے انسان اپنی روز مرہ کی زندگی میں اپنی صنعتوں اور کار خانوں میں اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا چکا ہے اور اب بھی اٹھا تا ہے ۔
یہ کوئلہ گیاہ اور درختوں کا باقی ماندہ حصہ تھا جو کئی ملین سال سے خشک ہوکر زمین میں دفن ہو گیا اور امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ پتھر بن کر سیاہ رنگ اختیار کرچکا ہے ۔ بعض ماہرین کا نظر یہ ہے کہ وہ چرا گاہیں موجودہ زمانے میں پتھر کے کوئلے کی شکل اختیار کرکے نکل آئی ہےں تقریباً ڈھائی ملین سال پہلے موجود تھیں اور پھر زمین میں دفن ہوگئیں ۔
یہ چراگاہیں اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر موجودہ زمانے میں پتھر کے کوئلہ کا مصرف ہم اپنی نگاہ میں رکھیں تو وہ چار ہزار سال سے زیادہ دنیا کے لوگوں کی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے ۔ ۱
آیت کی تفسیر خصوصیت کے ساتھ آخری معنی کے حوالہ سے بعید از قیاس نظر آتی ہے ، لیکن ہوسکتا ہے کہ آیت کے جامع معانی ہوں ، جس میں تینوں تفسیریں جمع ہوں ۔
بہر حال ، ( غثاء ً احویٰ) ” خشک سیاہ رنگ کی گھاس “ بہت سی منفعتیں رکھتی ہے ۔ سردی کے زمانے میں جانوروں کی مناسب غذابھی ہے ، انسان کے لئے آگ کی فراہمی کا ذریعہ بھی اور زمینوں کے لئے مناسب کھاد بھی ہے ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ سات صفتیں ، جو مندرجہ بالا آیت میں آئی ہیں ، بلند و بالاربوبیت ، خلقت ، تسویہ، تقدیر ، ہدایت اور گیاہ و نباتات کی تخلیق ، یہ حقیقت میں پر ور دگار کی اعلیٰ ربوبیت کے مسئلہ کی نہایت احسن انداز میں تشریح ہے جس کا مطالعہ انسان کو خدا کے اعلیٰ مقام ِ ربوبیت سے اچھی طرح آشنا کرتاہے ، اس کے دل میں ایمان کی روشنی پیدا کرتا ہے ، خد اکی اہم ترین نعمتوں کو اجمالی طور پر بیان کرتا ہے اور انسان میں شکر گزاری کا احساس پید اکرتا ہے ۔
ایک نکتہ
مسئلہ تقدیر اور موجودات عالم کی عمومی ہدایت جو اوپر والی آیات میں پروردگار کی ربوبیت کے مظاہر میں شمار ہوئی ہے ، ایسے مسائل میں سے ہے کہ جس قدر زمانہ گزرتا جائے انسانی علم و دانش میں پیش رفت ہوگی ، اسی قدر اس میں زیادہ سے زیادہ حقائق آشکا رہوتے جائیں گے ، علمی انکشافات ہمیں یہ امکان فراہم کرتے ہیں کہ ہم تمام ذرات ِ عالم میں نئے تعجب انگیز اور زیادہ شوق آور چہرے دیکھیں ۔
بعض مفسرین نے یہاں مشہور ماہر حیوانات کمر یسی موریسن کی کتاب ( رازِ آفرینشِ ا نسان ) کی تحریروں سے استناد کرتے ہوئے مختلف جانداروں کے حوالے سے حیوانات کی ہدایت کے بارے میںاس عظیم راز کے نمونے پیش کئے ہیں جس سے ایک مختصر سا نمونہ درج ذیل کیا جاتا ہے :۔
۱۔ مہاجر پرندے ، جو کبھی ایک سال کے اندر سمندروں ، جنگلوں اور بیا بانوں کا ہزار ہا میل کا راستہ طے کرتے ہیں ، اپنے آشیانوں کو کبھی نہیں بھولتے ، اور واپسی پر ٹھیک اپنے وطن پہنچ جاتے ہیں، اسی طرح شہد کی مکھیاں اپنے چھتے سے خواہ کتنی ہی دور کیوں نہ ہو جائیں اور تیز ہوا انہیں کتنا منتشر کیوں نہ کردے ، پھر بھی وہ ٹھیک اپنے چھتے کی طرف واپس لوٹ آتی ہیں ، جبکہ انسان اپنے وطن کی طرف لوٹنے کے لئے واضح نشانیوں ، اور پتوں اور رہنماوٴں کا محتاج ہوتا ہے ۔
۲۔ حشرات الارض خورد بینی آنکھیں رکھتے ہیں جن کی ساخت اوردیکھنے کی طاقت انسان کو ورطہٴ حیرت میں ڈال دیتی ہے ، جبکہ باز جیسے پرندے دور بینی آنکھ رکھتے ہیں ۔
۳۔ انسان رات کے وقت اپناراستہ معلوم کرنے کے لئے مجبور ہے کہ منبع نور سے فائدہ اٹھائے لیکن بہت سے پرندے انتہائی تاریکی ٴ شب میں اچھی طرح دیکھ لیتے ہیں ۔ ان کایہ دیکھنا ایسی آنکھوںکے ذریعہ ہے جو ایسی شعاوٴں کے مقابلہ میں جو سرخ رنگ سے کم ہیں ، حساسیت رکھتی ہیں ، اور اس طرح راڈار کی دستگاہ کی مانند ہیں جن میں سے بعض کے اندر یہ دستگاہ یادگار کے طور پر رکھی ہوتی ہے ۔
۴۔ کتے ایک اضافی قوت شامہ رکھنے کی وجہ سے ہر اس جانور کو جو ان کے سامنے آئے ، سونگھ کر پہچان لیتے ہیں ، جبکہ انسان ، ان وسائل و ذرائع کے باوجود جو اسے میسر ہیں ، اس قسم کی قوت سے محروم ہے ۔
۵۔ تمام جانور ان آوازوں کو سن لیتے ہیں جن کی شدت ارتعاس ہماری قوتِ سامعہ کی گرفت سے باہر ہے ۔ ان کی قوت سماعت ہماری قوت سماعت سے کئی گناہ زیادہ ہے ۔ انسان اپنی اس کوتاہی کی تلافی علمی وسائل و آلات کے ذریعہ کرسکتا ہے اور مکھی کے پروں کی آواز جو کئی کلو میٹر دور ہو، اس طرح سن سکتاہے کہ گویا یہ آواز اس کی کان کی لو کے نزدیک ہے ۔ شاید انسان اور حیوان کی قوت و طاقت و سماعت کا یہ فرق ، جو خدا نے دونوں میں رکھا ہے ، اس بنا پر کہ انسان علم و عقل کے ذریعہ اپنی کوتاہیوں کی تلافی کر سکتا ہے جب کہ حیوان اس سے محروم ہیں ۔
۶۔ چھوٹی مچھلی ایک قسم ہے جو سالہا سال سمندر میں زندگی گزارتی ہے ۔ اس کے بعد تخم ریزی کے لئے اس نہر یادریا کی طرف لوٹ جاتی ہے جس میں وہ پیدا ہوئی ہے ۔ یہ مچھلی امواج کے برعکس بڑھتی ہے اور اپنے اصلی وطن کو ،جو اس کی پر ورش سے مناسبت رکھتا ہے کئی سال دور کے فاصلہ پر رہنے کے باوجود اسے تلاش کرلیتی ہے ۔
۷۔ پانی کے بعض جانوروں کی داستان اس سے زیادہ عجیب ہے ۔ وہ اپنے راستے کو اس طریقہ کے بر عکس طے کرتے ہیں ۔
۶۔ سنقر ئُک فلا تنسیٰٓ۔
۷۔ الاَّ ما شآءَ اللہ انّہ یعلم الجھر و ما یخفیٰ ۔
۸۔ ونیسرک للیسریٰ ۔
۹۔ فذکِّراِنْ نَّفعتِ الذِّکریٰ ۔
۱۰۔ سیذَّ کر من یخشیٰ۔
۱۱۔ ویتجنبُھا الاشقی۔
۱۲۔ الذی یصلی النار الکبریٰ ۔
۱۳۔ ثم لایموت فیھا ولا یحییٰ۔
ترجمہ
۶۔ ہم عنقریب تیرے سامنے( قرآن کو) پڑھیں گے اور تو اسے کبھی فراموش نہیں کرے گا ۔
۷۔ مگر جو کچھ خدا چاہے ۔ و ہ آشکار اور پنہاںکو جانتا ہے ۔
۸۔ اور ہم تمہیں ہر اچھے کام کے انجام دینے کے لئے آمادہ کریں گے ۔
۹۔ تو جہاں سمجھنا مفید ہو ، سمجھا تے رہو۔
۱۰۔ اور عنقریب وہ لوگ جو خدا سے ڈرتے ہیں متذکر ہوںگے ۔
۱۱۔ لیکن زیادہ بدبخت لوگ اس سے دوری اختیار کرتے ہیںَ
۱۲۔ وہی جو بہت بڑی آگ میں داخل ہوگا ۔
۱۳۔ پھر اس آگ میں نہ مر جائے گا، نہ زندہ رہے گا۔


 

ا۔ آخری تفسیر کتاب” قرآن بر فراز اعصار“ تالیف نوفل ترجمہ بہرام پور میں بیان ہوئی ہے ۔

تلاوت کی فضیلت ہم تجھے ہر اچھے کام کے لئے آمادہ کریں گے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma