تو کیا جانے سجین کیاہے ؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
کم تولنا فساد فی الارض کا ایک سبب ہے گناہ دلوں کا زنگ ہے

اس بحث کے بعد جو گزشتہ آیات میں کم تولنے والوں کے بارے میں اور قیامت کے دن کے بارے میں گناہ اور ایمان راسخ نہ ہونے کے رابطہ کے سلسلہ میں آئی تھی ، ان آیتوں میں اس روز بد کاروں اور فاجروں کا جو حال ہو گا ، اس کے ایک گوشہ کی طرف اشارہ کرتا ہے ، پہلے فرماتا ہے :
”اس طرح نہیں جیسا وہ قیا مت کے بارے میں خیال کرتے ہیں کہ حساب و کتاب نہیںہوگا بلکہ فاجروںکا نامہ اعمال سجین میںہے “ ( کلّا انَّ کتاب الفجار لفی سجّین ) ۔ ” تو کیا جانے سجین کیاہے “۔(و ما ادراک ما سجین )ایک مہر زدہ تحریر اور نامہ ہے “ (کتاب مرقوم
ان آیات کے سلسلہ میں دو عمدہ نظر ئیے ہیں :
۱۔ کتاب سے مراد انسان کا وہی اعمال نامہ ہے ۔ کوئی چھوٹا یا بڑا ایساکام نہیں ہے جس کا اس میں شمار نہ کیا گیا ہو۔ تمام باتیں بے کم و کاست اس میں درج ہیں ۔
اور سجین سے مراد ایک جامع کتاب ہے جس میں تمام انسانوں کے نامہ ہائے اعمال جمع کئے گئے ہیں ۔
سادہ اور عام تعبیروں میں وہ ایک ایسے مکمل رجسٹر کے مانند ہے جس میں ہر ایک قرض خواہ مقروض کا حساب علیحدہ اور مستقل صفحہ پر تحریر ہے ۔
البتہ ان آیات اور بعد کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام بد کاروںکے اعمال سجین نامی کتاب میں ہیں اور تمام نیک افراد کے اعمال ایک دوسری کتاب میں درج ہیں ، جس کانام علیین ہے ۔
سجین “ سجن کے مادہ سے لیا گیا ہے جس کے معنی زندان کے ہیں ۔ اس کے مختلف معانی ہیں ۔ سخت و شدید زندان ، محکم موجود، قعر جہنم میں ایک بہت ہی ہولناک وادی ، وہ جگہ جہاں بد کاروںکے اعمال نامے رکھے جاتے ہیں ، اور جہنم کی آگ ۔ ۱
طریحی مجمع البحرین میں سجن کے مادہ کے بارے میں کہتا ہے :
و فی التفسیر ھو کتاب جامع دیوان الشر دوّن اللہ فیہ اعمال الکفرة و الفسقة من الجن و الجنس )
تفسیر میں آیا ہے کہ سجّین ایک کتاب ہے جو برائیوں کے دیوان کا جامع ہے جس میں خدا نے جن و انس میں سے کافروں اور فاسقوں کے اعمال کو مدون کیا ہے طریحی نے واضح نہیںکیا کہ اس تفسیر سے مراد کونسی تفسیر ہے ، آیا معصوم سے منقول ہے یا کسی غیرسے ۔
جو قرائن ان معانی کی تائید کرتے ہیں وہ درج ذیل سے عبارت ہیں
ایک قرآن مجید میں اس قسم کے مواقع پر کتاب کی تعبیر عام طور پر نامہٴِ اعمال کے معنوں میں ہے ۔
۲۔ آخری آیت جو سجین کی تفسیر کی شکل میں بیان ہوئی ہے کہتی ہے : ”وہ کتاب ہے جو مہر زدہ اور یہ جو بعض نے آیات کو سجین کی تفسیر کے طور پر قبول نہیں کیا ، یقینا ظاہرکے بر خلاف ہے ۔
۳۔ بعض نے کہا کہ سجین اور سجیل کے ایک ہی معنی ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ سجلّ ( سین اور جیم کے زیر اور لام پر تشدید کے ساتھ ) بہت بڑی کتاب کے معنی میں ہے ۔ 2
۴۔ قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اعمال چند کتابوں میں منضبط ہوتے ہیں ، تاکہ حساب کے وقت کسی قسم کا عذر یا بہانہ کسی شخص کے لئے باقی نہ رہے ۔
ایک شخصی اعمال نامے ہیں جو قیامت میں متعلقہ افراد کے ہاتھوں میں دئے جائیںگے۔ نیکو کاروں کو دائیں ہاتھ میں اور بدکاروں کا بائیں ہاتھ میں ۔ آیات قرآنی میں اس کی طرف بہت اشارہ ہو اہے۔
دوسری کتاب وہ ہے جسے امتوں کے نامہ اعمال کا نام دیا جاسکتا ہے ، جس کی طرف وہ سورہٴ جاثیہ کی آیت ۲۸ میں اشارہ ہو اہے ۔ (کل امة تدعی الیٰ کتابھا) ” قیام کے دن ہر امت کو اس کے نامہٴ اعمال کی طرف پکارا جائے گا ۔
تیسری اعمال نامہ عمومی ہے ۔ وہ تمام نیکو کاروں اوربد کاروں کا نامہٴ اعمال ہے جس کا زیر بحث آیات اور آنے والی آیات میں سجین اور علیین کے نام سے ذکر کیا گیا ہے ۔
خلاصہ یہ کے اس تفسیر کے مطابق سجین وہی دیوان کل ہے جس میں تمام بد کاروں کے نامہ اعمال جمع ہوں گے ۔ اس کو سجین اس لئے کہا گیا کہ اس دیوان کے مشتملات ان کے جہنم میں زندانی اور مقید ہونے کا سبب ہوںگے نیکو کاروں کی کتاب کے بر عکس جو اعلیٰ علیین ِ بہشت میںہے ۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ سجین اسی مشہور و معروف معنی ، یعنی دوزخ کے لئے استعمال ہو اہے جو تمام بد کاروں کے لئے بہت بڑا زندان ہے ، یا دوزخ میں ایک سخت جگہ ہے ۔
اور کتاب فجار سے مرادہ وہی سر نوشت ہے ، جو ان کے لئے تحریر ہوئی ہے اس بناپر اس آیت میں معنی یہ ہو ں گے ” مقرر و مسلم سرنوشت بد کاروں کی جہنم میں ہے “۔
اور لفظ کتاب کے استعمال قرآن میں اسی معنی میں بہت مقامات پرہیں ۔ مثلاً سورہٴ نساء کی آیت ۲۴، بعد اس کے فرماتاہے :
” شوہر دار عورتیں تم پر حرام ہیں “ مزید کہتاہے :
( کتاب اللہ علیکم )یہ حکم ( اور اس سے پہلے کے احکام ) ایسے ہیں جو خدا نے تمہارے لئے مقرر کر دیئے ہیں “۔
اور سورہٴ انفال کی آیت ۷۵ میں ہم پڑھتے ہیں :
(و اولو ا الارحام بعضھم اولیٰ ببعض فی کتاب اللہ )
” رشتہ دار ایک دوسرے کی بہ نسبت ان احکام میں ، جو خدا کے لئے مقرر کئے ہیں ،( دوسروں سے ) زیادہ سزا واراور حقدار ہیں “۔
وہ مطلب جو اس آیت کی تائید کرتا ہے ، یہ کہ سجین اپنے اسی معنی میں ہیں جو اخبارو آثار اسلامی میں بیان ہو اہے ، یعنی اس کی تفسیر جہنم کی گئی ہے ۔
تفسیر علی ابن ابراہیم میں آیاہے کہ ” انّ اکتاب الفجار لفی سجین “ کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ ان کے لئے عذاب مقرر کیا گیا ہے وہ سجین ( دوزخ ) میں ہے ۔
ایک حدیث امام محمد باقر علیہ السلام سے بھی منقول ہے کہ ( السجین الارض السابعة و علیون السماء السابعة )سجین ساتویں زمین اور علیین ساتواں آسمان ہے ( سب سے نچلی اور سب سے اوپر والی جگہ کی طرف اشارہ ہے ۔ 3
متعدد روایا ت سے بھی معلوم ہوتاہے کہ وہ اعمال جو قرب خدا کے لائق نہیں ہیں ساقط ہو جائیں گے اور سجین میں قرار پائیں گے، جیسا کہ ایک حدیث میں پیغمبر اسلام سے منقول ہے :
ان الملک لیصعد بعمل العبد مبتھجاً فاذا صعد بحسناتہ یقول اللہ عز وجل اجعلوھا فی سجین انہ لیس ایای ارادفیھا ۔
کبھی ایسا ہوتاہے کہ فرشتہ بندہ کے عمل کو خوشی خوشی آسمان کی طرف لے جاتاہے تو خدا وند عزوجل فرماتا ہے اسے سجین میں قرار دو ، اس لئے کہ اس کا مقصد میری رضا نہیں تھا ۔
ان تمام روایات کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سجین جہنم میں ایک بہت ہی پست جگہ ہے جس میں بد کاروں کے اعمال یا نامہٴ اعمال رکھے جائیں گے ۔
یا ان کی سر نوشت یہ ہے کہ وہ اس زندان میں گرفتار رہیںگے ۔ اس تفسیر کے مطابق ( کتاب مرقوم ) کا جملہ تاکید ہے ”ان کتا ب الفجار لفی سجین “ کے جملے کی ( نہ یہ کہ سجین کی تفسیر ہے ) یعنی یہ ان کے لئے لکھی ہوئی حتمی اور قطعی سزا ہے ۔
مرقوم “ رقم ( بر وزن زخم ) واضح خط ( تحریر) کے معنی میں ہے اور چونکہ خطوط یا تحریریں ابہام سے خالی ہوتی ہیں لہٰذا ممکن ہے کہ یہ تعبیر ابہام سے پاک ہونے کی طرف اشارہ ہو ، وہ چیز جو نہ کبھی محو ہوتی ہے نہ فراموش ہوگی ۔
یہ دونوں تفسیریں بھی صحیح ہو سکتی ہیں اس لئے کے پہلی تفسیر میں سجین بد کاروں کے کل اعمال کے دیوان کے معنی میں ہے اور دوسری تفیسر میں دوزخ کی گہرائی اور گڑھے کے معنوں میں ہے اور یہ ظاہر ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی علت و معلول ہیں ۔
یعنی جس وقت انسان کا نامہ ٴ اعمال بد کاروںکے کل اعمال کا دیوان قرار دیا گیا تویہی سبب بنے گا کہ اسے پست ترین مقام یعنی دوزخ کے گڑھے میں کھینچ کر لے جائیں گے ۔
آخری اور زیر بحث آیت میں ایک دل ہلادینے والے جملے سے منکرین معاد قیامت کی منحوس عاقبت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :
”وائے ہے اس دن تکذیب کرنے والوں پر “ ( ویل یومئذ للمکذبین ) ۔
وہ تکذیب جو انواع و اقسام کے گناہوں کا سر چشمہ ہے ، جن میں سے ایک کم تولنا ہے ۔
پہلی آیت میں فرماتاہے :
( ویل للمطففین ) اور یہاں فرماتاہے : ( ویل یومئذ للمکذبین )، وہ تعبیر جو مختصر ہونے کے باوجود انواع اقسام کے درد ناک عذابوں اور ہولناک مصائب کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
قابل توجہ یہ کہ پہلی آیت میں گفتگو کم تولنے والوں کے بارے میں ہے اس کے بعد بد کاروں کی بات ہے ، اور آخری آیت میںمنکرین قیامت کا ذکر ہے اور اچھی طرح بتاتا ہے کہ اس اعتقاد اور ان اعمال کے درمیان قریبی رابطہ ہے جو آنے والی آیات میں زیادہ واضح طور پر منعکس ہواہے ۔
۱۱۔ الذین یکذِّبون بیوم الدین ۔
۱۲۔ ومایکذِّب بہ الَّا کلُّ مُعتدٍ واثیمٍ۔
۱۳۔ اذا تتلیٰ علیہ اٰیاتنا قال اساطیر الاولینَ۔
۱۴۔ کلّا بل ران علیٰ قلوبھم ماکانوا یکسبون۔
۱۵۔ کلّا ٓ انّھم عن ربھم یومئِذٍ لمَحجوبونَ۔
۱۶۔ ثم انّھم لصالوا الجحیم ۔
۱۷۔ ثم یقال ھٰذا الذی کنتم بہ تُکذِّبونَ۔
ترجمہ
۱۱۔ وہی جو قیامت کے دن کا انکار کرتے ہیں ۔
۱۲۔ صرف وہی لوگ اس کا انکار کرتے ہیں جوگناہگار اورتجاوز کرنے والے ہیں ۔
۱۳۔ وہی شخص کہ جب اسے ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو کہتاہے کہ یہ گذشتہ لوگوں کے افسانے ہیں ۔
۱۴۔ اس طرح نہیں جیساکہ وہ خیال کرتے ہیں بلکہ ان کے اعمال ان کے دلوں پر زنگ کی طرح ہیں ۔
۱۵۔ ایسانہیں جیساوہ خیال کرتے ہیں بلکہ وہ اس دن اپنے پروردگار سے محجوب ہوں گے ۔
۱۶۔ اس کے بعد وہ یقینا جہنم میں وارد ہوں گے۔
۱۷۔ پھر ان سے کہا جائے گا یہ وہی چیز ہے جس کی تم تکذیب کرتے تھے -


۱۔ لسان العرب ، مادہ سجن ۔
2۔ روح المعانی جلد ۳۰ ، ص ۷۰ اور مجمع البحرین مادہ سجلّ ۔
3۔ نو ر الثقلین ، جلد ۵، ص ۵۳۰ حدیث ۱۵۔

 

کم تولنا فساد فی الارض کا ایک سبب ہے گناہ دلوں کا زنگ ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma