بہترین اوربد ترین مخلوق

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
یہ جاودانی دین ہے ۱۔ علی علیہ السلام اور ان کے شیعہ خیر البریہ ہیں

گزشتہ آیات میں آیاتھا کہ کفار اہل کتاب اور مشرکین اس انتظار میں تھے کہ خدا کی طرف سے کوئی واضح و روشن و دلیل ان کے پاس آئے، لیکن واضح و روشن دلیل ” بینہ“ کے آجانے کے بعد وہ متفرق اور پراگندہ ہوگئے اور ہرایک نے الگ الگ راہ اختیار کرلی۔
 زیر بحث آیات میں اس دعوت الہٰی کے مقابلہ میں ” کفر کرنے والے “ اور ایمان لانے والے “ دونوں گروہوں اور ان سے ہر ایک کے انجام کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔
 پہلے فرماتاہے : اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ اس جدید دین سے کافر ہوئے ہیں وہ دوزخ کی آگ میں ہوںگے اور ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ وہ بد ترین مخلوق ہیں “۔ ( انّ الذین کفروا من اھل الکتاب و المشرکین فی نار جھنم خالدین فیھا اولٰئک ھم شر البریة
 ” کفروا“ کی تعبیر دین اسلام کے مقابلہ میں ان کے کفر کی طرف اشارہ ہے ، ورنہ ان کا پہلے کا کفر و شرک کوئی نئی بات نہیں ہے ۔
 ” اولٰئک ھم شر البریة“ ( وہ بد ترین مخلوق ہیں ) کی تعبیر ایک لرزہ خیز تعبیر ہے ، جو اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ تمام چلنے پھر نے والی مخلوق ، اور نہ چلنے پھر نے والی مخلوق میں سے ، ان لوگوں سے بڑھ کر مردود اور دھتکاری ہوئی مخلوق اور کوئی نہیں ہے ، جنہوں نے حق کے واضح ہوتے ہوئے اور اتمام حجت کے بعد سیدھی راہ کو چھوڑ دیا اور ضلالت و گمراہی کی راہ اختیار کرلی ۔ اور یہ بات حقیقت میں اسی چیز کے مشابہ ہے جو سورہ انفال کی آیہ ۲۲ میں بیان ہوئی ہے : ان شر الدواب عند اللہ الصم البکم الذین لایعقلون:” خدا کے نزدیک بد ترین جاندار وہ لوگ ہیں جو نہ سننے والے کان رکھتے ہیں ، نہ گویا زبان اور نہ ہی بیدار فکر و اندیشہ“
 یا جو کچھ سورة اعراف کی آیہ ۱۷۹میں بیان ہوا ہے ، جہاں دوزخیوں کے گروہ کو ان ہی اوصاف کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد فرماتاہے : اولٰئک کالانعام بل ھم اضل اولٰئک ھم الغافلون: وہ چوپاوٴں کی طرح ہیں ۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ اور غافل ہیں ۔
 زیربحث آیت کا مطلب ان سے بھی کچھ آگے ہے کیونکہ یہ ان کا بد ترین مخلوق ہونے کے ساتھ ان کا تعارف کراتی ہے اور حقیقت میں ان کے جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کی ایک دلیل کے طور پرہے ۔ وہ بد ترین مخلوق کیوں نہ ہوں گے جب کہ سعادت کے تمام دروازے ان کے سامنے کھلے ہوئے تھے لیکن وہ کبر و غرور اور عناد و ہٹ دھرمی کی وجہ سے جان بوجھ کر مخالفت کے لیے کھڑے ہوگئے ۔
 اس آیت میں بھی ” اہل کتاب“ کو مشرکین پر مقدم رکھنے کی وجہ بھی ممکن ہے یہ ہو کہ وہ کتابِ آسمانی کے حامل او ر دانشمند تھے ۔
 اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نشانیاں ان کی کتابوں میں صراحت کے ساتھ آئی تھیں ۔ اس بناء پر ان کا مخالفت کرنا زیادہ قبیح و بد تر تھا۔
 بعد والی آیت میںدوسرے گروہ کی طرف ، جو ان کے مخالف نقطہٴ مقابل اور قوس صعودی میں واقع ہوئے ہیں اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انہوںنے اعمال صالح انجام دیئے ہیں ، وہ خدا کی بہترین مخلوق ہیں “: (انّ الذین امنوا و عملوا الصالحات اولٰئک ھم خیر البریة
 اس کے بعد ان کی جزا اور پاداش کو چند مختصر سے جملوں میں اس طرح بیان کرتا ہے ، : ان کی جزا ان کے پرورگار کے پاس بہشت کے جاودانی باغات میں ، جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں ، اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے“ ( جزاوٴھم عند ربھم جنات عدن تجری من تحت الانھار خالدین فیھا ابداً
 ” خدا بھی ان سے خوش اور راضی ہے ، اور وہ بھی خدا سے خوش اور راضی ہیں “ ۔(رضی اللہ عنھم و رضو عنہ
 ” یہ بلند و والا مقام اور اہم و بے نظیر جزائیں اس شخص کے لئے ہیں جو اپنے پر وردگار سے ڈرے“۔ (ذالک لمن خشی ربہ
 قابل توجہ بات یہ ہے کہ مومنین کے بارے میں اعمال صالح کی گفتگو بھی درمیان آئی ہے ، جو حقیقت میں ایمان کے درخت کا پھل ہے ۔ اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنا اکیلا کافی نہیں ہے ، بلکہ انسان کے اعمال بھی اس کے ایمان پرگواہ ہونا چاہئیں ، لیکن کفر اکیلا ہی ، چاہے اس کے ساتھ غیر صالح اعمال نہ بھی ہوں، سقوط و بد بختی کا سبب ہے ۔ اس سے قطع نظر کفر عام طور پر انواع و اقسام کے گناہوں ، جرائم اور غلط اعمال کا مبداء بھی ہوتا ہے ۔
 ” اولٰئک ھم خیر البریة“ کی تعبیر اچھی طرح اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ مومن اور اعمال صالح بجالانے والے انسان فرشتوں تک سے بھی بالاتر ہیں ، کیونکہ آیت مطلق ہے ، اور اس میں کسی قسم کا استثناء نہیں ہے۔ قرآن کی دوسری آیات بھی اسی معنی کی گواہ ہیں مثلاً: فرشتوں کے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کی آیات ، اور آیہ و لقد کرمنا بنی آدم ( اسراء ۷۰)
 بہرحال اس آیت میں پہلے تو ان کے مادی و جسمانی صلہ ، جو جنت کے پر نعمت باغات ہیں، کا ذکر کرتا ہے ، اور اس کے بعد ان کی معنوی و روحانی جزاء کو بیان کرتا ہے کہ خدا بھی ان سے راضی ہے اور وہ بھی خدا سے راضی اور خوش ہیں ۔
 وہ خدا سے راضی اور خوش ہیں کیونکہ جو کچھ وہ چاہتے تھے وہ اس نے انہیں دیا ہے ، اور خدا ان سے راضی اور خوش ہے چونکہ وہ جو کچھ چاہتا تھا وہ انہوں نے انجام دیا ، اور اگر ان سے کوئی لغزش ہوبھی گئی تو اس نے اپنے لطف و کرم سے اس سے صرف نظر کی ، اس سے بڑھ کر اور کون سی لذت ہو سکتی ہے کہ اسے اس بات کا احساس ہوجائے کہ اس کے کاموں کو معبود نے قبول کرلیا ہے اور اس کا محبوب اس سے راضی اور خوش ہے ۔ اور اسے اس کی لقاء حاصل ہوگئی ہے ۔
 دارند ہر کس از تو مرادے ومطلبے
 مقصود ما ز دنیا عقبیٰ لقایء تو است
 ” ہر شخص تجھ سے کوئی نہ کوئی خواہش اور مطلب رکھتا ہے لیکن ہمارا مقصد دنیا میں تیری لقاء ہے “۔
 ہاں ! انسان کے جسم کی جنت تو اس جہاں کے جاودانی باغات ہیں ، لیکن اس کی روح کی بہشت خدا کی رضا اور لقائے محبوب ہے ” ذٰلک لمن خشی ربہ“ کا جملہ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ان تمام برکات کا سر چشمہ خدا کا خوف ، خشیت اور ڈر ہے ، کیونکہ یہی خوف ہی ہر قسم کی اطاعت ، تقویٰ اور اعمال صالح کی طرف حرکت کرنے کا سبب بنتا ہے ۔
 بعض مفسرین نے اس آیت کو سورہٴ فاطر کی آیہ ۲۸ ۔انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء” صرف علماء ہی خد اسے ڈرتے ہیں “ کے ساتھ ملا کر یہ نتیجہ نکالاہے کہ بہشت پر حقیقتاًعلماء اور آگاہ دانش مند لوگوں کا مسلمہ حق ہے ۔
 البتہ اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ خشیت اور خوفِ خدا کے کئی درجے اور مرتبے ہوتے ہیں اور علم و دانش و آگاہی میں بھی کئی درجے اور مرتبے ہوتے ہیں اس بات کا مفہوم واضح اور روشن ہو جاتا ہے ۔
 ضمنی طور پربعض کا نظر یہ یہ ہے کہ ” مقام خشیت“ مقام ِ خوف سے بالاترہوتا ہے ، کیونکہ خوف تو ہر قسم کے ڈر پر بولاجاتا ہے ، لیکن خشیت اس خوف کو کہتے ہیں جو تعظیم و احترام کے ساتھ ہو۔

یہ جاودانی دین ہے ۱۔ علی علیہ السلام اور ان کے شیعہ خیر البریہ ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma