عِلیین ابرار کے انتظار میں ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
۲۔ روح و جان کے چہرہ پر عذاب ابرار اور مقربین کون لوگ ہیں ؟

اس توصیف کے بعد جو گزشتہ آیات میں فاجر لوگوں کے اعمال اور سر نوشت کے بارے میں آئی ہے ان آیات میں اس گروہ کے بارے میں گفتگو ہے جو ان کا مد مقابل ہے یعنی ابرار اور نیکو کار لو گ جن کا امتیاز ، افتخار اور اعزاز فاجروں کے مقابلہ میں ملاحظہ کرنے سے دونوں کی حیثیت واضح ہوجاتی ہے ۔ پہلے فرماتاہے :
ایسا نہیں ہے جیسا وہ قیامت کے بارے میں خیال کرتے ہیں بلکہ نیک لوگوں کے نامہ ہائے اعمال علیین میںہو ںگے “۔ (کلّاان کتاب الابرار لفی علیین
” علیین “۔’ ’ علی “ (بروزن ملی )کی جمع ہے بلند جگہ اور اس پر بیٹھنے والوں کے معنوں میںہے ۔ یہاں پہاڑوں کے بلند ترین حصوں پر رہنے والوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ، یہاں مفسرین کی ایک جماعت نے آسمان کی افضل ترین جگہ یا جنت کی بہترین جگہ کے معنی میں اس کی تفسیر کی ہے اور بعض نے کہا کہ اس کا ذکع جمع کے ساتھ جو ہے وہ تاکید کے لئے اور علوفی علو بلندی در بلندی کے معنوں میں ہے ۔
بہرحال وہ تفسیریں جو گزشتہ آیا ت میںہم سجین کے بارے میں کرچکے ہیں ان ہی سے مشابہ تفسیریں ہیں ۔
پہلی یہ کہ کتاب الابرار سے مراد نیک ، پاک اور مومنین کانامہ اعمال ہے اور مقصود کلام یہ ہے کہ ان کا نامہ اعمال ایک ایسے دیوان کل میں موجود ہے جو تمام مومنین اعمال کو بیان کرتا ہے ۔ وہ دیوان بہت ہی بلند منزلت رکھتاہے یا یہ کہ ان نامہ اعمال بلندترین مکان ی اجنت کے فراز پر ہے ۔ اور یہ بس معانی بتاتے ہیں کہ خود ان کامقام بہت ہی بلند و بالا ہے ۔
ایک حدیث میں ہمیںملتاہے کہ پیغمبر اکرم  نے فرمایا کہ علیین سے مراد ساتواں آسمان اور عرشِ خدا کا نچلا حصہ ہے ۔ ۱
اور یہ نقطہ فجا ر کا عین نقطہ مقابل ہے جو دوزخ کے طبقوں میں پست ترین جگہ قرار پائی ہے ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ کتاب سے مراد سرنوشت اور حکم قطعی ہے جو نیک لوگوں کو بہشت کے اعلیٰ درجوں میں مقرر کئے ہوئے ہیں ۔
ان دونوں تفسیروں میںکوئی تضاد نہیں ہے کہ ان کا نامہ اعمال ایک دیوان کل میں بر قرار ہے اور اس دیوان کا مجموعہ آسمانوں کی بلندی پرہے اور فرمانِ الٰہی بھی یہی قرارپایا ہے کہ وہ خود جنت کے بلند ترین مقامات میں ہوں ۔
اس کے بعد علیین کی اہمیت و عظمت کو بیان کرنے کے لئے مزید کہتاہے : ” تو کیا جانے کہ علیین کیا ہے “ ( وما ادراک ما علیین)یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ ایسا مقام ہے جو خیال و قیاس اور وہم و گمان سے بھی بر تر ہے ، جسے کوئی بھی حتی کہ پیغمبر اسلام بھی ، اس کی عظمت اور حدودِ اربعہ کا ادراک نہیں کر سکتے ۔
اس کے بعد خود قرآن وضاحت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ” علیین ایک لکھی ہوئی کتاب ہے “ ( کتاب مرقوم ) ۔ یہ اس تفسیر کی بناء پر جو علیین کو ابرار کے نامہ اعمال کے دیوان کل کے معنی میں پیش کرتی ہے ۔
باقی رہی دوسری تفسیر تو پھر آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ حتمی سر نوشت ہے جس کے بارے میں خدا نے تحریر کیا ہے ۔ان کی جگہ جنت کے افضل ترین درجات میںہو گی ۔ اس بناء پر کتاب مرقوم کتاب ا برار کی تفسیر ہے نہ کہ علیین کی ۔ ( غور کیجئے )۔
اس کے بعد مزید کہتا ہے :” یہ ایسی کتاب ہے جس میں یا جسے مقربین مشاہدہ کریں گے ، یا اس کی گواہی دیں گے “ ( یشھد ہ المقربون
اگر چہ مفسرین کی ایک جماعت اس آیت میں مقربون سے مراد فرشتے لیتی ہے جو بار گاہ الہٰی میں مقرب ہیں ، وہ فرشتے جو نیک لوگوں کے اعمال کے یا یقینی سر نوشت کے ناظر ہیں لیکن بعد کی آیت بتاتی ہے کہ مقربون خاصان خدا اور بر گزیدہ مومنین کایک گروہ ہے جس کا مقام بہت اونچا ہے اور دوسرے نیک افراد کے اعمال پر شاہد ہے جیساکہ سورہٴ واقعہ کی آیت۱۰۔ ۱۱ میں اصحاب المینہ اور اصحاب المشئمہ کے ذکر کے بعد فرماتا ہے :
( و السابقون السابقون اولٰئک المقربون) اور سبقت کرنے والوں میں سبقت کرنے والے ہی مقربین ہیں ۔ اور سورہ نحل کی آیت ۸۹ میں ہم پڑھتے ہیں ( و یوم نبعث فی کل امة شہیداً علیہم من انفسھم و جئنا بک شہیداً علیٰ ھٰوٴلاء)اور یاد کرو اس دن کو جب ہر امت میں سے ایک گوا ہ اس پر مقر ر کریں گے “اور تجھے اس پر گواہ قرار دیں گے “۔ اس کے بعد نیک لوگوں کے عظیم ثواب کے ایک حصہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتا ہے :
” یقینا ابرار انواع و اقسام کی نعمتوں سے بہر یاب ہیں “ ( ان الابرار لفی نعیم
” نعیم “ کا اصلی مفہوم جو راغب کے بقول بہت زیادہ نعمت کے معنی میںہے اور نکرہ کی شکل میں اپنے ذکر کے ساتھ یہاں عظمت و اہمیت کی دلیل ہے ، یہ بتا تا ہے کہ ابرار اس قسم کی بر کتوں اور نعمتوں کے حامل ہیں جو حدود توصیف و تعریف سے باہر ہیں اور یہ جنت کی تمام مادی و معنوی نعمتوں اور بر کتوں کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ایک جامع تعبیر ہے ۔ اس کے بعد ان میں سے بعض کی تشریح کرتے ہوئے فرماتاہے :
” وہ جنت کے خوبصورت پلنگو اور تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے ان تمام نعمتوں اور مناظر کو دیکھ رہے ہوں گے او رلذت اٹھا رہے ہوں گے “ ( علی الارائک ینظرون2
” ارائک“ ۔”اریکہ“کی جمع ہے اور خوبصورت تخت کے معنی میں ہے ، یاپر زینت پلنگ جو حجلہ عروسی میں رکھتے ہیں ، یہاں جنت کے بہت ہی خوبصورت تختوں اور پلنگوں کی طرف اشارہ ہے جن پرنیک اورصالح افراد متمکن ہوں گے ۔
بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ اس لفظ کی اصل فارسی ہے اور یہ ” ارگ “ سے لیاگیا ہے جس کے معنی قصر سلطنت کے ہیں ۔ ( یہ لفظ اس قلعہ کے معنی میںبھی آیا ہے جو شہر کے اندر ہو ، اور چونکہ شہر کے اندر والا قلعہ عام طور پر باد شاہوں کے لئے مخصوص ہوتا ہے ،لہٰذا اس پر اطلاق ہوتاہے )۔
بعض دوسرے مفسرین ارائک کو مفرد اور فارسی لفظ” اراک“ یا ” ارایک“ سے ماخوذ جانتے ہیں جس کے معنی شاہی تخت کے ہیں اور پایہٴ تخت اوراس صوبہ کے معنی میں ہیںجس میں پایہٴ تخت ہو اور عراق کو اراک کی معرب سمجھتے ہیں جو اس قسم کے صوبہ کے معنی میں ہے اور کہتے ہیں کہ لفظ ارائک اوستا ( زرتشت کی مقدس کتاب ) میں بھی بار گاہ اور تختِ سلطنت کے معنی میں آیا ہے ۔
لغت عرب کے بعض علماء اس کی اصل عربی کو سمجھتے ہیں ، ان نظر یہ ہے کہ یہ لفظ اراک سے لیاگیا ہے جو مشہور درخت کا نام ہے جس سے تخت اور سائبان بنائے جاتے ہیں ۔ 3
لیکن قرآن مجید میں ا س کے موارد استعمال سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اس زیبا اورخوبصورت اور مزین تخت کے معنوں میں ہے جس سے صاحبان قدرت و نعمت استفادہ کرتے ہیں ۔
( ینظرون ) دیکھیں گے ، کی تعبیر جو سر بستہ شکل میں استعمال ہوئی ہے اس میں یہ نہیں فرماتا کہ کس چیز کی طرف دیکھیں گے تاکہ اس کے مفہوم میں وسعت رہے ۔ وہ لطفِ خدا کی طرف دیکھیں گے۔ ا سکے بے مثال جمال کی طرف، جنت کی انواع و اقسام کی نعمتوںکی طرف اور نگاہوں کی خیرہ کرنے والی خوبصورتیوں کی طرف دیکھیں گے ، بہشت بریں میں ہوںگے ، اس لئے کہ انسانی لذتوں میں سے اہم ترین لذت دیکھنے کی لذت ہے۔ اس کے بعد مزید فرماتا ہے :
” جب تو ان کے چہروں کی طرف دیکھے تو نعمت کے طراوت خوشی اور نشاط ان میں دیکھے گا“ ( تعرف فی وجوھھم نضرة النعیم)۔ جو اس طرف اشارہ ہے کہ نشاط ، سروراور خوشی ان کے چہروں پر جھلک رہی ہوگی اور ان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس اگر دوزخیوں کے چہرے پر نظر رہے تو ان سے غم و رنج اور اندوہ و بد بختی اور بے چار گی نمایاں ہو گی ۔
” نضرة“ جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں ، تراتاز گی او رنشاط کے معنی میںہے جو اچھی زندگی گذارنے والوں کے چہرے سے عیاں ہوتی ہے ، تحت ، نظارہ، آرام و سکون و نشاط کی نعمتوں کے بعد ایک اور نعمت یعنی بہشتیوں کی شراب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے :
” انہیں ایسی پاک و پاکیزہ شراب پلائیں گے جس میں کسی کاہاتھ نہیں لگا ہوگا “ ( یسقون من رحیق مختوم)۔ وہ شراب طہور جو دنیا کی اشرابوں کی طر ح گناہ پر آمادہ کرنے والی ، جنون پیداکرنے والی شیطانی شراب کی طرح نہیں ہے بلکہ وہ ہوش و عقل اور نشاط و عشق صفا پیدا کرتی ہے ۔
زیادہ مفسرین نے رحیق کو خالص شراب کے معنی میں لیا ہے ، ایسی شراب جس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہو گی ۔
” مختوم“ کے معنی مہر لگی ہوئی ۔ اس سے بھی اس کے خالص اور پاک و صاف ہونے کا اظہار ہے ۔ ا سکے علاوہ وہ اس قسم کے برتنوں کا استعمال مہمان کے خاص احترام کی علامت ہے ، ایسا ظرف جس کا منھ بندہے ، اس پر مہر لگی ہوئی ہے اور اس کی مہر صرف مہمان کی خاطر تھوڑی جاتی ہے ۔4
اس کے بعد فرماتا ہے :”اس کی مہر مشک اور کستوری سے لگائی گئی ہے “ ( ختامہ مسک) ۔ دنیا کے منھ بند بر تنوں کی طرح نہیں جن کی مہر مٹی سے لگائی جاتی ہے تو مشک اور عطر کی خوشبو فضامیں پھیل جاتی ہے ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہاہے کہ مراد یہ ہے کہ آخر میں یعنی اس شراب طہور پینے کے اختتام پر انسان کے منھ سے مشک و عنبر کی خوشبو آئے گی ، دنیا کی نجس شرابوں کے بر خلاف جن کے پینے کے بعد منھ تلخ اور بد بو دار ہوجاتا ہے ، لیکن اس تعبیر کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو گزشتہ آیت میں آئی ہے یہ تفسیر بعید نظر آتی ہے ۔ آیت کے آخر میں جنت کی شراب طہور کی طرف رغبت کرنے کے بعد فرماتاہے :” ان بہشتی نعمتوں میں اور خصوصیت کے ساتھ اس شراب طہور کی طرف رغبت کرنے والوں کو ایک دوسرے پر سبقت لے نی چاہےئے “۔ ( و فی ذٰلک فلیتنافس المتنافسون )۔ مفسر عظیم ” طبرسی “ ” مجمع البیان “میں کہتے ہیں :
” تنافس “کے معنی دو انسانوں کے ایک چیز کے لئے کو شش کرنے کے ہیں جن میں سے دونوں یہ چاہیں کے یہ نفیس چیز میرے پاس ہو
مجمع البحرین میں ہے کہ تنافس کے معنی عظمت و عزت کے ساتھ ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ہے ۔ راغب مفردات میں کہتا ہے ”منافسہ “ کہ معنی یہ ہیں کہ معزز افراد سے مشابہت پید اکرنے کے لئے ان سے ملحق ہوجانے کی اس طرح کوشش کرنا کہ دوسرے کو نقصان نہ پہنچے ۔
حقیقت میں اس آیت کا مفہو م اُ س آیت کے مشابہ ہے جو سورہ حدیدکی آیت ۲۱ میں آئی ہے ( سابقوا الیٰ مغفرة من ربکم و جنةعرضھا کعرض السماء و الارض ) ” اپنے پروردگا رکی مغفرت تک پہنچنے کے لئے اوراس کی جنت تک پہنچنے کے لئے جس کی وسعت آسمان و زمین جتنی ہے، ایک دوسرے پر سبقت لے جاوٴ“۔
یا جو کچھ سورہ آل عمران کی آیت ۳۳ ۱ میں آیاہے :( و سارعوا الیٰ مغفرة من ربکم و جنة عرضھا السما وات و الارض )۔ بہر حال اس آیت میں جو تعبیر آئی ہے وہ بہت ہی خوبصورت ہے اور جو ایمان و عمل صالح کے ذریعہ ان بے نظیر نعمتوں تک پہنچنے کے سلسلہ میں انسانوں کو شوق دلانے کا سبب سمجھی جاتی ہے اور قرآن کی فصاحت و بلاغت کو عمدہ انداز میں ظاہر کرتی ہے ۔ ۱ ۲
۱۔ جو کچھ آیت کی تفسیر میں کہاگیاہے اس سے واضح ہوجاتاہے کہ ذالک کا اشارہ جنت کی سات نعتموں کی طرف ہے خصوصاً مخصوص شراب طہور جس پر کشش اوصاف آیت میں آئے ہیں ۔
۲۔ چونکہ ” واو“ اور ”فاء“ ( و فی ذالک فلیتنا فس المتنافسون) کے جملہ میں دونوں عطف کے لئے ہیں تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو حروف یکے بعد دیگرے کیوں آئے ہیں ۔ زیادہ مناسب جواب یہ ہے کہ یہاحرف ِ شرط محذوف ہے اور تقدیرِ عبارت اس طرح ہے (و ان ارید تنافس فی شیء فلتنافس فی ذالک المتنافسون )۔اگر کسی چیز میں رغبت ہے تو رغبت کرنے والے اس میں رغبت محسوس کریں ۔ اس طرح حرفِ شرط اور جملہ شرطیہ دونوں محذوف ہیںاور ذالک بھی مقدم رکھا گیاہے ۔ ( غور فرمائیے)۔
اس کے بعد آخری نعمت جو اس سلسلہٴ آیات میں آئی ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :
” یہ شراب ِ طہور تسنیم میں ملی ہوئی ہے “ ( مزاجہ من تسنیم )۔ ” وہی چشمہ جس سے مقربین پیتے ہیں ( عیناً یشرب بھا المقربون5
ان آیا ت سے معلوم ہوتا ہے کہ تسنیم جنت کی افضل ترین شراب طہور ہے جسے خاص طور پر مقربین پیتے ہیں لیکن عام نیک لوگ اس میں سے ایک مقدار رحیق ِمختوم ملاکر پیتے ہیں ، جو جنت کی شراب ِ طہور کی ایک اور قسم ہے ۔
یہ کہ شراب یایہ چشمہٴ تسنیم کے نام سے کیوں موسوم ہے ( اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ تسنیم لغت کے اعتبار سے چشموں کے معنوں میں ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف گر رہاہو) بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ وہ شراب ہے جو بہشت کے آسمانوں سے گرر ہی ہے ۔ حقیقت میں جنت کی شراب کی کئی قسم ہے ، بعض تو نہروں کی صورت میں بہہ رہی ہیں جن کی طرف قرآن کی متعدد آیات میں اشارہ ہواہے ۔ 6
ان میں سے بعض منھ بند برتنوں میں مہر زدہ صورت میں ہیں جیساکہ مندرجہ بالاآیت میں آیاہے ۔
سب سے زیادہ اہم وہ شراب ہے جو بہشت کے آسمان یا اور اوپر والے طبقوں سے گرتی ہے اور یہ وہی شراب ہے ِ تسنیم ہے کہ جنت کا کوئی مشروب اس کا ہم پلہ نہیں ہے اور جنتیوں کے جسم و جان میں جوتاثیر فطری طور پر وہ کرتی ہے وہ سب سے بہتر پر کشش اور عمیق ہے ۔ اس کے پینے سے جو نشہ حاصل ہوتاہے وہ تعریف و توصیف سے بالا ہے ۔
البتہ اس حقیقت کو ہمیں دوبارہ بیان کرنا چاہئیے کہ یہ سب دھند لے نقوش ہیں جو دور سے نظر آتے ہیں ورنہ جنت کی گراں قدر اور بے نظیر نعمتوں کی تعریف و تو صیف زبان و قلم کے ذریعہ ممکن نہیں ہے ۔ حتی کہ خود قرآن کے بقول اس کی طرف کسی شخص کی فکر اوراس کے ذہن میں نہیں آسکتی ۔ ( فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرة اعین ) ( الم سجدہ ۔ ۱۷) کوئی نفس نہیں جانتا کہ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی کونسی چیزیں ان کے لئے رکھی گئی ہیں ۔


 

۱۔ تفسیر قرطبی، جلد ۱۰ ص۷۰۵۳ ومجمع البحرین مادہ ” علو“
2۔اس جملہ میں مبتداء محذوف ہے اور تقدیر میں ( ھم علی الارائک ینظرون ) ہے اس جملہ ینظرون حال ہے ، یا یہ کہ علی الارائک گزشتہ آیت کے لفظ ” ان “ کی خبر کے بعد خبر ہے ۔
3۔ ” لغت نامہ “۔ ” وھخدا“ ، کتاب“ دیوان دین“، مفردات راغب “ اور بر ہان قاطع کی طرف رجوع کیاجائے ۔  
4۔ گزشتہ زمانے میں معمول تھااو رموجودہ زمانے میں بھی معمول ہے کہ یہ اطمینان کرنے والے کے لئے کہ اس چیز کو کسی کا ہاتھ نہیں لگا ا سکو کسی برتن میں رکھتے اور اس کامنھ بند کرنے کے بعد کسی رسی یا بٹے ہوئے تار سے اس پر گرہ لگادیتے تھے اور اس گرہ پر سخت مٹی یا لاکھ کو پگھلاکر رکھ دیتے اور ا س طرح سے مہر لگادیتے کہ برتن برتن کے اندر مہر توڑے بغیر رسائی ممکن نہ ہوتی ۔ عرب اس کو مختوم کہتے ہیں ۔
5۔یہ کہ عیناً کیوں منصوب ہے اس کے لئے بہت سی وجوہ بیان ہوئی ہیں ۔ منجملہ ان کے یہ کہ تسنیم کے لئے حال یا اس کی تمیز ہے ، یا مدح و اختصاص کے عنوان کے ماتحت ہے اور تقدیر اعنی( میری مراد ہے ) اور ” بھا“ کی ”باء“ یاتو زائدہ ہے یا ” من “ کے معنی میںہے اور دوسرے معنی زیادہ مناسب ہیں ۔
6۔ سورہٴ محمد ، آیت ۱۵۔

چند نکات
 

 

۲۔ روح و جان کے چہرہ پر عذاب ابرار اور مقربین کون لوگ ہیں ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma