جس دن انسان اپنے تمام اعمال دیکھے گا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
اس سورہ کی فضیلت۱: قیامت کے حساب و کتاب میں دقت اور سخت گیری

جس طرح سورہ کے مطالب کے بیان میں اشارہ ہوا ہے یہ سورہ اس جہان کے اختتام اور قیامت کے شروع کے بعض ہولناک اور وحشت ناک حوادث کے بیان کے ساتھ شروع ہوا ہے ۔ پہلے ارشاد ہوتا ہے :” جس وقت زمین شدت کے ساتھ ہلنے لگے گی“۔ ( اذا زلزلت الارض زلزالھا)۔ ۱
اور اس طرح زیر و زبر ہوگی کہ ” وہ سارے سنگین بوجھ“ جو اس کے اندر ہیں ، باہر نکال کررکھ دے گی “۔ ( واخرجت الارض اثقالھا
” زلزالھا“ ( اس زلزلہ) کی تعبیر یا تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس دن سارا کرہٴ زمین لرزنے لگے گا۔ (عام زلزلوں کے برخلاف جو سب کے سب کسی خاص موضع یا علاقہ میں ہوتے ہیں )۔ اور زلزلہٴ معہود یعنی زلزلہٴ قیامت کی طرف اشارہ ہے۔ ۲ / ۳
اس بارے میں کہ ” اثقال “ ( سنگین بوجھ) سے کیا مراد ہے ، مفسرین نے متعد د تفاسیر بیان کی ہیں ، بعض نے تو یہ کہا ہے کہ اس سے مراد انسان ہیں جو قیامت کے زلزلہ سے قبروں کے اندر سے باہر اچھل پڑیں گے ، جیسا کہ سورہٴ انشقاق کی آیہ۴ میں آیا ہے ۔ ”القت مافیھا وتخلّت“
اور بعض نے یہ کہا ہے کہ وہ اپنے اندرونی خزانوں کو باہر پھینک دے گی۔ اور بے خبر دنیا پرستوں کے لئے حسرت کا سبب بنے گی۔ ۴
یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد زمین کے اندر بہہنے والے بھاری مواد کو باہر پھینکنا ہے جن کی کچھ مقدار عام طور پر آتش فشانی اور زلزلوں کے وقت باہر نکلتی ہے 
عالم کے اختتام پر جو کچھ زمین کے اندر ہے وہ اس زلزلہ عظیم کے بعد باہر آجائے گا ۔
پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے ، اگر ان تفاسیر کے درمیان جمع بھی بعید نہیں ہے ۔
بہرحال اس دن انسان اس اَن دیکھے منظر کو دیکھ کر سخت متوحش ہو گا ، اور کہے گا : ” یہ کیا ہوگیا ہے کہ زمین اس طرح لرز رہی ہے ، اور جو کچھ اس کے اندر تھا اسے باہر پھینک دیا ہے “۔ ( و قال الانسان مالھا
اگر چہ بعض نے یہاں انسان کی کافر انسانوں کے ساتھ تفسیر کی ہے ، کیونکہ زمین کے اوضاع و احوال سے تعجب اس دن کفار کے ساتھ مخصوص نہیں ہوگا۔
کیا یہ تعجب ، اور اس سے پیدا ہونے والا سوال” نفخہٴ اولیٰ “ سے مربوط ہے یا ”نفخہٴ دوم “ سے ؟
ظاہر یہ ہے کہ یہ وہی پہلانفخہ ہے جو اس عالم کے اختتام کا نفخہ ہے ۔کیونکہ یہ زلزلہ عظیم اختتام ِ جہاں پر آئے گا۔
یہ احتمال بھی دیاگیاہے کہ اس سے مراد نفخہ قیامت اور مردوں کے زندہ ہونے اور ان کے زمین سے باہر پھینک دینے کا نفخہ ہے کیونکہ بعد والی آیات بھی سب کی سب نفخہ دوم کے ساتھ مربوط ہیں ۔ لیکن چونکہ قرآن کی آیات میں ان دونوں نفخوں کے حوادث بارھا اکھٹے ذکر ہوئے ہیں ، لہٰذا اختتام جہاں پر وحشت ناک زلزلہ کے بیان کی طرف توجہ کرتے ہوئے پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے ، اور اس صورت میں کے ” اثقال “ سے مراد معدنیات ، خزانے اور اس کے اندر موجود پگھلے ہوئے مواد ہیں ۔ اور اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ” زمین اس دن اپنی ساری خبریں بیان کرے گی“( یومئذتحدث اخبارھا
جو خوبیان اور برائیاں، اور خیر و شر کے اعمال روئے زمین پرواقع ہوئے ہیں ، وہ ان سب کو ظاہر کردے گی۔ اور اس دن انسان کے اعمال کے گواہوں میں سے اہم ترین گواہ یہی زمین ہو گی جس پر ہم اپنے اعمال انجام دیتے ہیں ۔ اور جو ہماری شاہد و ناظر ہے ۔ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا ہے کہ آپ نے فرمایا:” اتدرون ما اخبارھا“؟:”کیا تم جانتے ہو کہ زمین کے اخبار سے یہاں کیا مراد ہے “؟
قالوا: اللہ و رسولہ اعلم “: انہوں نے کہا: خدا اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں “۔
آپ نے فرمایا: اخبارھا ان تشھد علی کل عبد و امة بما عملوا علی ظھرھا، تقول عمل کذا و کذا، یوم کذا، فھٰذا اخبارھا“:
”زمین کے خبر دینے والے سے مراد یہ ہے کہ زمین ہر مرد اور عورت کے اعمال کی ، جو انہوں نے روئے زمین پر انجام دیے ہیں ، خبر دے گی، وہ کہے گی کہ فلاں شخص نے فلاں دن فلاں کام کیا ہے ، یہ ہے زمین کا خبر دینا“۔ 5
ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم سے آیا ہے :
حافظوا علی الوضوء و خیر اعمالکم الصلوٰة فتحفظوامن الارض فانّھاامّکم، ولیس فیھا احد یعمل خیراً او شراً الا و ھی مخبرة بہ “۔
” وضوء اور اپنے اعمال میں سے بہترین عمل ، نماز کی حفاظت کر، اور زمین کی طرف دیکھتے رہو، کیونکہ وہ تمہاری ماں ہے ، کوئی انسان بھی اچھا یا برا کام انجام نہیں دیتا مگر یہ کہ زمین اس کی خبر دیتی ہے “۔ 6
ابو سعید خدری سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے : جب کبھی تم بیا بان میں ہو، تو بلند آواز کے ساتھ اذان دو، کیونکہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ”لا یسمعہ جن ولا انس ولا حجر الایشھد“کوئی جن و انس، اور پتھرکو کوئی ٹکڑا اسے نہیں سنتا ، مگر یہ کہ( قیامت میں ) اس کے لیے گواہی دے گا“7
کیا واقعاً خدا کے حکم سے زمین کی زبان کھل جائے گی اور وہ بات کرے گی؟ یا اس سے مراد روئے زمین پر انسان کے اعمال کے آثار کا ظاہر ہونا ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انسان جو عمل بھی انجام دیتا ہے ، وہ خواہ مخواہ اس کے اطراف میں کچھ آثار چھوڑ تا ہے ۔ چاہے وہ آج ہمارے لیے محسوس نہ ہوں ۔ ٹھیک ایک دوست یا دشمن کی انگلیوں کے انہیں آثار کے مانند، جو دروازے کے قبضہ پر رہ جاتے ہیں ، اور اس دن یہ سب کے سب آثار ظاہر ہو جائیں گے ، اور زمین کا بات کرنا اس عظیم ظہور کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔ جیسا کہ ہم کسی خواب آلود شخص سے کہتے ہیں ، کہ تیری آنکھیں بتلارہی ہیں کہ تو کل رات سو یا نہیں ہے ۔ یعنی بے خوابی کے آثار اس میں نمایاں ہیں ۔
بہر حال یہ کوئی غیر مانوس بات نہیں ، کیونکہ موجود ہ زمانے میں انسان کے علم و دانش کی پیش رفت کی وجہ سے ایسے آلات ووسائل اختراع ہوچکے ہیں جو ہر جگہ اور ہر لمحہ انسان کی آواز کو گرفت میں لے سکتے ہیں ، یا انسان اور اس کے اعمال و افعال کی تصویریں کھینچ سکتے ہیں ، اور ایک مسلم سند کے عنوان سے اسے عدالت میں پیش کرسکتے ہیں ، اس طرح کہ انکار کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے ۔
اگر لوگ گزشتہ زمان میں زمین کی گواہی سے تعجب کرتے تھے ، تو موجود ہ زمانہ میں ایک پتلی سی ریل ( فیتہ ) یا ( ریکارڈ) ضبط کے کرنے کی مشین جو ایک بٹن کی صورت میں لباس سے ٹکی ہوئی ہوتی ہے ، بہت سے مسائل کو بیان کرسکتی ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایک حدیث میں علی علیہ السلام سے آیا ہے کہ آ پ  نے فرمایا: ” صلو ا المساجد فی بقاع مختلفة، فان کل بقعة تشھد للمصلی علیھا یوم القیامة“” مساجدکے مختلف حصوں میں نماز پڑ ھا کرو، کیونکہ زمین کا ہرٹکڑا ، اس شخص کے لیے جو اس پر نماز پڑھتا ہے ، گواہی دے گا۔ 8
ایک اور دوسری حدیث میں آیاہے ، کہ امیر المومنین علی علیہ السلام جب بیت المال تقسیم فرماتے تھے، اور وہ خالی ہو جاتا تھا تو ہاں دو رکعت نماز بجالاتے اور فرماتے:” اشہدی انی ملاٴتک بحق و فرغتک بحق“ ( قیامت کے دن )” گواہی دینا کہ میں نے تجھے حق کے ساتھ پر کیا تھا اور حق کے ساتھ ہی خالی کیاہے “۔ 9
بعد والی آیت میں مزید فرماتا ہے : یہ اس خبر(نباء) پر ہے کہ تیرے پروردگار نے زمین کی وحی کی ہے “۔ ( بان ربک اوحٰی لھا) 10
اور زمین اس فرمان کے اجزاء میں کوتا ہی کرے گی ،” اوحٰی“ کی تعبیر یہاں اس بناء پر ہے کہ اس قسم کی اسرار آمیز گفتگو کرنا زمین کی طبیعت کے خلاف ہے ۔اور یہ چیز ایک وحی الٰہی کے طریقے کے سوا ممکن نہیں ہے ۔
بعض نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ زمین کو وحی کرے گا کہ جو کچھ اس کے اندر ہے وہ باہر پھینک دے۔
لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح اور مناسب نظر آتی ہے ۔
اس کے بعد فرماتا ہے : ” اس دن لوگ مختلف گروہوں کی صورت میں قبروں سے نکل کر عرصہٴ محشر میں وارد ہوں گے، تاکہ ان کے اعمال انہیں دکھائے جائیں ۔ ( یومئذ یصدر الناس اشتاتاً لیروا اعمالھم
” اشتات“ ” شت“ ( بروزن شط) کی جمع ہے ، پراگندہ اور متفرق کے معنی میں ہے ، یہ اختلاف و پراگندگی ممکن ہے اس بناء پر ہو کہ ہر مذہب والے الگ عرصہٴ محشر میں وارد ہوں گے، یا زمین کے علاقوں میں سے ہر علاقے کے لوگ جدا جدا وارد ہوں گے، یا یہ ہے کہ ہر ایک گروہ تو ہشابشاش، شاد و خندان، حسین و خوبصورت چہروں کے ساتھ آئے گا اور ایک گروہ تیوری چڑھا ئے تیرہ و تاریک چہروں کے ساتھ محشر میں وارد ہوگا ۔
یاہر امت اپنے امام ، رہبر اور پیشوا کے ساتھ ہو گی جیسا کہ سورہ اسراء کی آیہ ۷۱ میں آیا ہے ، : یوم ندعوا کل انا ساس باماھم“: ” اس دن ہم ہر گروہ کو اس کے امام و پیشوا کے ساتھ بلائیں گے ۔ یایہ ہے کہ موٴ منین ، موٴمنین ساتھ، اور کفار، کفار کے ساتھ محشور ہوں گے۔ ان تما م تفاسیر کے درمیان جمع بھی پورے طور پر ممکن ہے کیونکہ آیت کا مفہوم وسیع ہے ۔ ” یصدر“ ” صدر“ ( بروزن صبر)کے مادہ سے اونٹوں کے پانی والی جگہ سے نکلنے کے معنی میں ہے ، انبوہ کی صورت میں ہیجان میں آئے ہوئے باہر آتے ہیں ” ورود“ کے بر عکس جو پانی کی جگہ میں داخل ہونے کے معنی میں ہے ۔ اور یہاں مختلف قوموں کے قبروں سے نکلنے اور حساب دینے کے لیے محشر میں آنے سے کنایہ ہے ۔
پہلا معنی گزشتہ آیات کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔
لیروا اعمالھم“ ( تاکہ ان کے اعمال انہیں دکھائے جائیں ) کے جملہ سے مراد اعمال کی جزا کا مشاہدہ ہے ۔
یا نامہٴ اعمال کا مشاہدہ مراد ہے جس میں ہر نیک و بد عمل ثبت ہے ۔
یا مشاہدہ باطنی مراد ہے جس کا معنی ان کے اعمال کی کیفیت کی معرفت و شناخت ہے ۔
یا ” تجسم اعمال “ کی صورت میں خود اعمال کا مشاہدہ مراد ہے ۔
آخری تفسیر ظاہر آیہ کے ساتھ سب سے زیادہ موافق ہے ، اور یہ آیت مسئلہ تجسم اعمال پر روشن ترین آیات میں سے شمار ہوتی ہے کہ ا س دن انسان کے اعمال مناسب صورتوں میں مجسم ہو کر اس کے سامنے حاضر ہو ں گے، اور ان کی ہم نشینی خوشی کا مو جب یا رنج و بلا کا باعث ہوگی۔
اس کے بعد ان دونوں گروہوں مومن و کافر، نیکو کار و بد کار کے انجام کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” پس جس شخص نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا“۔ ( فمن یعمل مثقال ذرة خیراً یرہ
اور جس شخص نے ذرہ برابر بر اکام کیا ہوگا وہ اسے دیکھے گا“۔ ( ومن یعمل مثقال ذرة شراً یرہ)
یہاں بھی مختلف تفسیریں ذکرہوئی ہیں کہ کیا اعمال کی جزا کو دیکھے گا، یا نامہٴ اعمال کا کا مشاہدہ کرے گا، یا عمل کو۔
ان آیات کا ظاہر بھی قیامت کے دن“ تجسم اعمال“ اور خود عمل کے مشاہدہ کے مسئلہ پر،نئے سرے سے ایک تاکید ہے ، چاہے وہ عمل نیک ہو یا برا، یہاں تک کہ اگر ایک سوئی کے برابر بھی نیک یابرا کام ہوگا تو وہ بھی اپنے کرنے والے کے سامنے مجسم ہوجائے گا، اور وہ اس کا مشاہدہ کرے گا۔
”مثقال “ لغت میں بوجھ اور سنگینی کے معنی میں بھی آیاہے ، اور اس ترازوکے معنی میں بھی جس سے چیزوں کو تولا جاتا ہے ، اور یہاں یہ پہلے معنی میں ہی ہے ۔
”ذرة“ کے لیے بھی لغت اور مفسرین کے کلمات میں مختلف تفسیرں ذکر ہوئی ہیں ، کبھی تو چھوٹی چیونٹی کے معنی میں، اور کبھی اس گرد و غبار کے معنی میں جو زمین پر ہاتھ رکھ کر اٹھانے کے بعد اس سے چپک جاتا ہے اور کبھی غبار کے ان چھوٹے چھوٹے ذرات کے معنی میں تفسیرہوئی ہے جو فضا میں معلق ہوتے ہیں اور جب سورج کی شعاعیں کسی سوراخ سے تاریک کمرے میں پڑےتیں ہیں تو وہ ظاہر ہو جاتے ہیں ۔
ہم جانتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں ” ذرہ“ کا ” ایٹم“ پر بھی اطلاق کرتے ہیں ۔ اور ایٹم بم کو ” القنبلة الذریة“ کہتے ہیں ۔
” ایٹم “ اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ نہ تو وہ عام آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی دقیق ترین خورد بینوں کے کے ذریعے قابل مشاہدہ ہے ، اور صرف اس کے آثار کا ہی مشاہدہ کرتے ہیں، اور اس کا حجم اور وزن علمی حساب و کتاب کے ذریعے ہی ناپاتولا جاتا ہے ، اور وہ اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ سوئی کی ایک نوک پر لاکھوں کی تعداد میں سما جاتے ہیں ۔
ذرّہ کا مفہوم چاہے جو بھی ہو یہاں مراد سب سے چھوٹا وزن ہے ۔
بہر حال یہ آیت ان آیات میں سے ایک ہے جو آدمی کی پشت میں لرزہ پیدا کردیتی ہےں، اور اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ اس دن حساب و کتاب حد سے زیادہ دقیق اور حساس ہو گا۔ اور قیامت میں ناپ تول کا ترازو اس قدر ظریف ہوگا، کہ وہ انسان کے چھوٹے سے چھوٹے اعمال کا وزن اور اس کا حساب کرلے گا۔


 

۱۔ ”اذا“ یہاں شرطیہ ہے ، اور اس کے بارے میں کہ جزائے شرط کیاہے کئی احتمال دئے گئے ہیں ، بعض اس کی جزا” یو مئذ تحدث اخبارھا“ کو سمجھتے ہیں ، بعض ” یومئذ یصدر الناس اشتاتا “کو، اور بعض نے جزا کو محذوف جانا ہے ۔ اس طرح کہ لوگ یہ سوال کرتے تھے کہ متی الساعة( قیامت کب واقع گی)تو جواب میں فرمایا : جب وہ عظیم زلزلہ آئے گا، یعنی اس وقت قیامت واقع ہوگی۔
۲۔ پہلی صورت میں اضافت عمومی معنی رکھتی ہے اور دوسری صورت میں عہد کے معنی دیتی ہے ۔
۳۔ ”زِلزال“ ”زا“ کی زیر کے ساتھ مصدری معنی دیتا ہے اور زَلزال( زا کی زبر کے ساتھ)اسم مصدرکے معنی دیتا ہے اور یہ وضع عام طور پر ان افعال میں آتی ہے جو مضاعف کی صورت میں استعمال ہوتے ہیں ، مثلاً ”صلصال “ اور” وسواس“۔
۴۔ ” اثقال“ جمع ہے ” ثقل “( بر وزن فکر ) کی جو” بار“ کے معنی میں ہے ، اور بعض نے اسے ”ثقل“ ( بروزن عمل) کی جمع سمجھا ہے جو وسائلِ خانہ یا وسائل مسافر کے معنی میں ہے ، لیکن پہلا معنی زیادہ مناسب ہے ۔
5۔ ” نور الثقلین“ جلد۵ ص ۶۴۹۔
6۔ ” مجمع البیان“ جلد ۱ ص ۵۲۶۔
7۔ وہی مدرک ۔
8۔” لئالی لاخبار“ جلد ۵ ص ۷۹ چاپ جدید۔
9۔” لئالی لاخبار“ جلد ۵ ص ۷۹ چاپ جدید۔
10۔ ”بان“ میں” باء“ سببیت کے لئے ہے اور لھا میں ” لام“ ” الیٰ “ کے معنی میں ہے کہ جیساکہ سورہ” نحل “ کی آیہ ۶۸ میں آیاہے ” و اوحٰی ربک الی النحل“
 

اس سورہ کی فضیلت۱: قیامت کے حساب و کتاب میں دقت اور سخت گیری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma