ہم نے تجھے فرا واں خیر و بر کت دی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت ۱۔ حضرت فاطمہ او ر ”کوثر“

اس تمام سورے میں روئے سخن پیغمبر اکرم کی طرف ہے ( جیسا کہ سورہ والضحیٰ اور سورہ الم نشر ح میں ہے) اور تینوں سوروں کے اہداف و مقا صد میں سے ایک آنحضرت کے دل کو درد ناک انبوہ حوادث میں تسلی دینا اور دشمنوں کے بار بار لگائے ہوئے زبان کے زخموں کے مقا بلہ میں تشفی بخشنا ہے۔
پہلے فرماتا ہے:” ہم نے تجھے کو ثر عطا کیا“( اِنّا اعطینا ک الکوثر)” کوثر“ وصف ہے جو کثرت سے لیا گیا ہے، اور فراواں خیر وبرکت کے معنی میں ہے اور” سخی“ افراد کو بھی” کوثر“ کہا جا تا ہے۔
اس بارے میں کہ یہاں کوثر سے کیا مراد ہے، ایک روایت میں آیا ہے کہ جس وقت یہ سورہ نازل ہوا، پیغمبر اکرم منبر پر تشریف لے گئےاور اس سورہ کی تلاوت فرمائی۔ اصحاب نے عرض کیا یہ کیا چیز ہے جو خدا نے آپ کو عطا فرمائی ہے؟ آپ نے فر مایا کہ یہ جنت میں ایک نہر ہے ،جو دودھ سے زیادہ سفید اور قدح( بلور) سے زیادہ صاف ہے، اس کے اطراف میں دُر و یا قو ت کے قبے ہیں
ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ ا لسلام سے آیا ہے کہ آپ نے فر مایا:
” کوثر جنت میں ایک نہر ہے جو خدا نے اپنے پیغمبر کو ان کے فرزند( عبد اللہ جو آپ کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے) کے بدلے میں عطا کی ہے۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد وہی” حوضِ کوثر“ ہے جو پیغمبر سے تعلق رکھتا ہے، اور جس سے مومنین جنت میں داخل ہونے کے وقت سیراب ہو گے۔
بعض نے اس کی نبوت سے تفسیر کی ہے، بعض دوسروں نے قرآن سے، بعض نے اصحاب و انصار کی کثرت سے اور بعض نے کثِر ت اولاد اور ذُریّت سے، جوسب آپ کی دُختر نیک اختر فا طمہ زہرا علیہا السّلام سے وجود میں آئی اور اس قدر بڑھ گئی ہے کہ حساب و شمار سے باہر ہو گئی ہے اور دامنِ قیا مت تک پیغمبر اسلام کے وجود کی یاد گار ہے۔ بعض نے اس کی ”شفا عت“ سے بھی تفسیر کی ہے اور اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث بھی نقل کی ہے
یہاں تک کہ فخر رازی نے ” کو ثر“ کی تفسیر میں ” پندرہ قول“ نقل کیے ہیں۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر اس وسیع معنی کے واضح مصادیق کا بیا ن ہے، کیو نکہ جیسا کہ ہم نے کہا ہے” کوثر“ ” خیر کثیر اور فراداں نعمت“ کے معنی میں ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ خدا وند تعا لیٰ نے پیغمبر اکرم کو بہت ہی زیادہ نعمتیں عطا فر مائی ہیں اور جو کچھ اوپر بیان کیا گیا ان میںسے ہر ایک اس کے مصاد یق میں سے ایک واضح مصداق ہے اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے مصداق ہیں، جنہیں آیت کی مصداقی تفسیر کے عنوان سے بیان کیا جا سکتا ہے- بہر حال تمام میدانوں میں پیغمبر اکرم کی ذات پر تمام نعمتیں۔ یہاں تک کہ دشمنوں کے ساتھ جنگوں میں آپ کی کامیابیوں میں،یہاں تک کہ آپ کی اُ مّت کے علماء جو ہر عصر اور ہر زمانہ میں قرآن واسلام کی مشعلِ فروزاں کی پا سداری کر تے ہیں، اوراسے دنیا کے ہر گوشہ میں لے جاتے ہیں۔ سب اس خیر کثیر میں شامل ہیں-
اس بات کو نہیں بھولنا چا ہئیے کہ خدا اپنے پیغمبر سے یہ بات اس وقت کہہ رہا ہے کہ ابھی تک اس خیر کثیر کے آثار ظاہر نہیں ہوئے تھے۔ یہ ایک ایسی خبر اور پیش گوئی تھی جو مستقبل بعید کے لئے کی جا رہی تھی۔ یہ ایک اعجاز آمیز اور رسو لِ اکرم کی دعوت کی حقا نیت کو بیان کرنے والی خبر ہے۔
اس عظیم نعمت اور خیر فر اداں کے لئے بہت ہی زیا دہ شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے، اگر چہ مخلوق کا شکر ادا کرنا خا لق کی نعمت کے حق کو ہر گز ادا نہیں کرتا، بلکہ شکر گزاری کی تو فیق اس کی طرف سے خُود ایک اور نعمت ہے، لہٰذا فرماتا ہے:” اب جب کہ ایسا ہے تو صرف اپنے پرور دگا ر کے لئے نماز پڑھ اور قر بانی دے “( فصل لربّک وانحر(
ہاں! نعمت کا بخشنے والا وہی ہے اسی بناء پر نماز، عبادت اور قر بانی جو ایک قسم کی عبادت ہے، اس کے علاوہ کسی اور کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی خصو صاََ” رب “کے مفہوم کی طرف توجہ کرتے ہوئے، جو نعمتوں کے دوام اور پروردگار کی تد بیر و ربو بیت کو بیان کرتا ہے خلا صہ یہ کہ” عبادت“ خواہ نماز کی صورت میں ، ہو یا قربانی کرنے کی صورت میںوہ رب اور ولی نعمت کے ساتھ ہی مخصوص ہے اور وہ خدا کی ذاتِ پاک سے وا بستہ ہے
یہ بات مشرکین کے اعمال کے مقابلہ میں جو اپنی نعمتوںکوتو خدا ہی کی طرف سے سمجھتے تھے لیکن سجدہ اور قربانی بتوں کے لئے کر تے تھے بہر حال’ لربّک‘ کی تعبیر عبادات میں قصدِ قر بت کے لازم ہو نے کے مسئلہ پر ایک واضح دلیل ہے بہت سے مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ نماز سے مرادعید قربان کے دن کی نماز ہے اور قربانی کرنا بھی اسی دن ہے لیکن ظاہراََ آ یت کا مفہوم عام اوروسیع اگر چہ عید کے دن کی نماز اور قر بانی بھی اس کا ایک وا ضح مصداق ہے۔ ”وانحر“” نحر“ کے مادّہ سے، اُو نٹ کو حلال کر نے کے ستاتھ مخصوص ہے۔ یہ بات شاید اس بناء پر ہے کہ قر با نیوں میں سے
اونٹ کی قر بانی سب سے زیاد ہ اہمیت رکھتی تھی۔ اورپہلے پہل مسلمان اس سے زیادہ لگاوٴ رکھتے تھے اور اُونٹ کی قربانی دینا ایثار و قربانی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
اوپر والی آیت کے لیے یہاں دو اور تفسیریں بھی بیان کی گئی ہیں ۔
۱۔” وانحر “کے جملہ سے مراد نماز کے وقت رُو بقلیہ کھڑا ہو نا ہے، چو نکہ ” نحر“ کا مادّہ گلے والی جگہ کے معنی میں ہے اس کے بعد عربو ںنے اسے ہر چیز کے آمنے سامنے ہونے کے معنی میں استعمال کیا ہے ، لہٰذا وہ کہتے ہیں:” منا زلناتتناحر“یعنی ہمارے گھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔
۲۔ اس سے مراد تکبیر کے وقت ہاتھوں کو بلند کرنا اور گلے اور چہرے کے سامنے لانا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے:” جس وقت یہ سورہ نازل ہوا، تو پیغمبر اکرم نے جبرئیل سے سوال کیا:یہ ” نُحیرہ“
جس کے لئے میرے پروردگار نے مجھے مامور کیا ہے، کیا ہے؟” جبرئیل“ نے عرض کیا:
” یہ نحیرہ نہیں ہے، بلکہ خدا نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ جس وقت نماز میں داخل ہو تو تکبیر کہتے وقت اپنے ہاتھو ں کو بلند کریں، اور اسی طرح جب رکوع کریں، یا رکوع سے سر اُٹھا ئیں، یا سجدہ کریں، اس وقت بھی، کیو نکہ ہماری اور سات آسما نو ں کے فر شتو ں کی نماز اسی طرح کی ہے۔ اور ہر چیز کی ایک زینت ہوتی ہے، اور نماز کی زینت ہر تکبیر کے وقت ہاتھوں کو بلند کر نا ہے۔
ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السّلام سے آیا ہے کہ آپ نے اس آیت کی تفسیر میں اپنے دستِ مبارک سے اشارہ کر تے ہوئے فرمایا:
اس سے مراد یہ ہے کہ نماز کے آغاز میں ہاتھو ںکو اس طرح بلند کرو کہ ان کی ہتھیلیاں رُو بقبلہ ہو“
لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ مناسب ہے، کیو نکہ اس سے مراد بُت پرستوں کے اعمال کی نفی ہے جو غیر خدا کے لئے عبادت و قربانی کرتے تھے۔ لیکن اس کے با وجود ان تمام روایات اور مطالب کے درمیان جمع کرنا، جو اس سلسلہ میں ہم تک پہنچی ہیں کوئی مانع نہیںہے۔ خا ص طور سے تکبیرات کے وقت ہاتھ بلند کرنے کے سلسلہ میں تو شیعہ اور اہلِ سنّت کی کتا بوں میں متعدد روایات نقل ہوئی ہے۔ اس طرح سے ایک آیت جا مع مفہو م رکھتی ہے جو ان کو بھی شامل ہے۔
اور اس سورہ کی آخری آیت میں، اس نسبت کی طرف تو جہ دیتے ہوئے، جو شرک کے سر غنے آنحضرت کی طرف دیتے تھے، فرماتا ہے :” اَ بتر اور بلا عقب و مقطوع النسل نہیں ہے۔ بلکہ تیرا دشمن اَبتر، بلا عقب اور مقطوع النسل رہے گا۔“( انّا شا نئک ھو الابتر)
” شا نی“ ”شنئان“ ( بر وزن ضربان) کے مادّہ سے عداوت و دشمنی، کِینہ ورزی اور بد خلقی کر نے کے معنی میںہے اور ” شا نی“ اس شخص کو کہتے ہیں جو اس صفت کا حامل ہو۔
قا بِل تو جہ بات یہ کہ ” ابتر “ اصل میں ” دُم کٹے جا نور“ کے معنی میں ہے، اور دُ شمنانِ اسلام کی طرف سے اس تعبیر کا انتخاب آنحضرت کی ہتک حرمت اور تو ہین کر نے کے لئے تھا۔ اور” شانی “ کی تعبیر اسی و اقعیت کو بیان کرتی ہے کہ وہ اپنی دشمنی میں کم سے کم آداب کی رعا یت تک بھی نہیں کرتے تھے۔ یعنی ان کی عداوت و دشمنی قساوت و ر ذالت سے آمیختہ تھی۔ حقیقت میں قرآن یہ کہتا ہے کہ یہ لقب خود تمہارا ہے نہ کہ پیغمبر اکرم کا۔ دوسری طرف۔ جیسا کہ سو رہ کی شانِ نزول میں بیان کیا گیا ہے۔ قر یش پیغمبر اکرم ، اور اسلام کی بسا ط کے اُلٹ جانے کے انتظار میں تھے، کیو نکہ وہ یہ کہتے تھے کہ آپ کے پیچھے کوئی او لاد نہیں ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تو بلا عقب اور بے اولاد نہیں ہے بلکہ تیرے دشمن ہی بلا عقب اور بے اولاد ہیں۔
 

 

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت ۱۔ حضرت فاطمہ او ر ”کوثر“
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma