طب سے مربوط متفرق مسائل

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
استفتائات جدید 01
جنسیت کا تغییر دیناسیتالیسویں فصل مختلف و متفرق مسائل

سوال ۱۵۴۶۔ بعض امراض میں جیسے گردہ کی تکلیف میں اطمینان کے ساتھ مریض سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے، لیکن بہت سی بیماریوں میں شک کی بنیاد پر جو اصل مرض یا روزہ کے سبب اس پر پڑنے والے اثر کے تحت وجود میں آتا ہے، یا اس بارے میں کہ ان بیماریوں کا روزہ پر کیا اثر مترتب ہوتا ہے، تحقیقات کے موجود نہ ہو نے کے سبب واقعا ڈاکٹر نہیں جانتا کہ وہ مریض کو روزہ رکھنے کو کہے یا نہیں، اس صورت میں ڈاکٹر کا شرعی فریضہ کیا ہے؟ کیا ڈاکٹر منع کرنے یا منع نہ کرنے کی صورت میں اس کے روزہ کا ذمہ دار ہے؟

جواب: اس مسئلہ کی دو حالت ہو سکتی ہے، کبھی ڈاکٹر ضرر کا احتمال دیتا ہے یعنی اس بات کا قابل قدر احتمال دیتا ہے کہ روزہ اس کے لیے نقصان دہ ہے، یہاں پر وہ مریض کو اس سے منع کر سکتا ہے، اسی طرح سے اگر مریض میں ڈاکٹر کی بات سے ضرر کا خوف پیدا ہو جاتا ہے اور وہ روزہ کو ترک کر دیتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ضرر کا احتمال کم ہے تو یہاں پر وہ مریض کو اس سے منع نہیں کر سکتا ہے۔

سوال ۱۵۴۷۔ ایسے انجیکشن، جو بے حسی، درد سے آرام یا وائرس کو ختم کرنے وغیرہ کے لیے لگائے جاتے ہیں، اگر ان سے بدن میں کوئی ویٹامین یا مواد غذایی نہ پہچ رہا ہو تو کیا پھر بھی اس کا لگانا روزے کو باطل کر دیتا ہے؟

جواب: اس بارے میں دوا اور غذا والے انجیکشن یا گلوکوز (کلی طور پر ایسے انجیکشن جو پورے بدن پر اثر ڈالتے ہیں) میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے، یہ سب کے سب احتیاط واجب کی بناء پر روزہ دار کے لیے اشکال رکھتے ہیں۔ البتہ وہ انجیکشن جو بے حسی وغیرہ کے لیے لگائے جاتے ہیں ان کے لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۵۴۸۔ ایسی دواوں کی خوراک کا لینا جس میں غذایی مواد شامل نہیں ہوتے اور جو صرف امراض میں بیمار کی تسکین کا سبب ہوتے ہیں، کیا روزہ کو باطل کر دیتا ہے؟

جواب: بلا شبہ ایسی دوا روزہ کو باطل کر دیتی ہے۔

سوال ۱۵۴۹۔ غیر خوراکی وسائل کا منھ میں لے جانا جیسے دانت کے معاینہ و معالجہ کے وسائل، کیا روزہ کو باطل کر دیتا ہے؟

جواب: ان سے روزہ باطل نہیں ہوتا مگر یہ کہ منھ کی رطوبت اس پر پڑے اور وہ دوبارہ منھ میں چلی جائے اور اس قدر زیادہ ہو کہ آب دھن میں مل کر ختم نہ ہو سکے اور حلق سے نیچے پہچ جائے۔

۱۵۵۰۔ کیا وہ الکہل جو انجیکشن وغیرہ کے بعد عفونت سے بچانے کے لیے لگایا جاتا ہے، جنس ہے؟

جواب: پاک ہے مگر یہ کہ خون سے مخلوط ہو جائے۔

۱۵۵۱۔ بعض اسپتالوں میں طب کے ان طلباء سے خدمت لی جاتی ہے جو عملی منزل میں ہوتے ہیں اور عملی طور پر علاج و معالجہ سیکھنا چاہتے ہیں ان سے کہا جاتا ہے کہ جو مریض مراجعہ کریں وہ ان کا معاینہ کریں، اس تمہید کے ساتھ درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت کریں:
الف۔ اگر مریض ان سے علاج کے لیے راضی نہ ہو تو کیا انہیں مجبور کیا جا سکتا ہے جیسے کہ ڈاکٹر کہے کہ اب منع کرنے کی صورت میں یہاں تمہارا علاج نہیں ہوگا؟
ب۔ اگر ایسا کرنا تعیلم کی ضرورت کی غرض سے اشکال نہیں رکھتا تو ضرورت کے موارد کی توضیح بیان فرمائیں؟

جواب: الف۔ کسی کو معاینہ کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر اس کا علاج فوری اور واجب نہ ہو اور ڈاکٹر معالجہ کو اجازت پر مشروط کرے اور مریض راضی ہو جائے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس راہ سے بھی وارد ہوا جا سکتا ہے۔
ب۔ ضرورت سے مراد یہ ہے کہ اگر یہ معاینہ نہیں ہوں گے تو طب کے طلباء اپنی اطلاعات اور علم کو کامل نہیں کر پائیں گے، جس سے کہ وہ کسی مسلمان کی جان کو نجات دلا سکیں۔

سوال ۱۵۵۲۔ کیا ڈاکٹر علاج سے پہلے ہونے والے معاملہ میں مریض سے ہر طرح کی برائت شرعی لے سکتا ہے کہ اگر خدا نخواستہ اسے کوئی نقصان پہچا تو وہ یا اس کے گھر والے ضامن اور ذمہ دار نہیں ہونگے؟

جواب: ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر یہ مشروط ہے اس بات پر کہ ڈاکٹر نے اپنی طرف سے سعی و کوشش میں کوئی کمی نہ کی ہو۔

سوال ۱۵۵۳۔ اگر جج یا قاضی کی طرف سے کیس عورت کو معاینہ کے لیے پیش کیا جائے کہ اس کے رحم میں جو نطفہ ہے وہ اس کے شوہر کا ہے یا کسی اجنبی کا، اور اسے اس کام کے قانونی پیروی کرنے والے سرکاری ڈاکٹر کے پاس بھیجا جائے، اس صورت میں ڈاکٹر قطعی طور پر یہ معین کر سکتا ہے کہ یہ نطفہ اس کے شوہر کا نہیں بلکہ کسی اجنبی کا ہے لیکن اس کے ایسا کرنے سے معلوم ہو کہ اس کے رشتہ دار اسے جان سے مار دیں گے اور اگر اس کے بر خلاف گزارش دے تو بچہ اس کے شوہر سے ملحق ہو جائے گا اور قانونی و میراث و محرمیت وغیرہ کے دوسرے مسائل اور مشکلات پیش آئیں گی، ایسی صورت میں اس ڈاکٹر کا شرعی فریضہ کیا ہے؟

جواب: مہم یہ ہے کہ ڈاکٹر کا قول اور اس کا یقین جج اور قاضی کے لیے اس طرح کے موارد میں حجت نہیں رکھتا اور حتی کے اگر خود قاضی کا یقین جو اس روش سے حاصل ہوتا ہے وہ بھی حجت نہیں رکھتا بلکہ محل اشکال ہے، لہذا ضروری نہیں ہے کہ ڈاکٹر اپنے یقین کو اس طرح کے موارد میں پیش کرے اور نتیجہ کے طور پر بچہ حکم ظاہری کے مطابق اس کے شوہر سے ملحق ہو جائے گا اور اس طرح کے احکام ظاہری سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی۔

سوال ۱۵۵۴۔ ایسا شخص جس نے بھوک ہڑتال کر دی ہو اور اپنی جان کو یا کم سے کم اپنی سلامتی خطرہ میں ڈال دیا ہو، اس حالت میں صرف ڈاکٹر کے ذریعہ اس کو زبردستی غذا دیا جانا ہی اس کی جان کو بچا سکتا ہے، اس ضمن میں درج ذیل سوالوں کے جوابات عنایت فرمائیں:
الف۔ کیا ڈاکٹر کے لیے ایسا کرنا واجب ہے یا وہ اس سے کوئی مطلب نہ رکھے؟
ب۔ اگر اسے کھانا کھلانا واجب نہ ہو اور اس کام کے لیے انہیں زبردستی مارا پیٹا جائے تو اس کی جان بچانے کے لیے کس حد تک اسے مارا پیٹا جا سکتا ہے؟
ج۔ اگر اس کی پٹائی اس کے بدن یا پوشت کی رنگت بدل جائے تو کیا اس کی دیت واجب ہے اور دیت کس کے ذمہ ہوگی؟
د۔ مذکورہ بھوک ہڑتال میں اگر کسی کو یقین ہو کہ وہ اس میں اپنی جان دے دیگا جبکہ کسی دوسرے اپنے انجام کی کوئی خبر نہ ہو، کیا ان دونوں کی حالت میں فرق ہے؟ اگر فرق ہے تو اس میں ڈاکٹر کا اس دوسرے کے بارے میں کیا فریضہ ہے؟
ھ۔ اگر ڈاکٹر کو زبردستی انہیں کھانا کھلانے کے لیے مجبور کیا جائے، اس غرض سے نہیں کہ ان کی جان بچ جائے بلکہ اس غرض سے وہ کسی بات کو ثابت کر سکیں اور اس کے لیے اس سے اقرار لے سکیں، اس صورت میں ڈاکٹر کا شرعی فریضہ کیا ہے؟

جواب: الف۔ ایسا کرنا ڈاکٹر اور تمام مسلمانوں کے لیے جہاں پر یہ واجب ہو جائے، واجب ہے۔
ب۔ بھوک ہڑتال کرنے والوں کے لیے خطرہ کے احساس کی صورت حد اقل ضرورت کے وقت جائز ہے۔
ج۔ جہاں پر واجب ہو جائے وہاں دیت نہیں ہے۔
د۔ ڈاکٹر کے لیے دونوں صورت حال میں کوئی فرق نہیں ہے۔
ھ۔ اگر مریض کی جان کو خطرہ نہ ہو تو ڈاکٹر اسے کھانا کھانے پر مجبور نہیں کر سکتا مگر یہ کہ ان موارد میں جہاں ملک اور اسلامی معاشرہ کی مصلحت کا تقاضا ہو۔

سوال ۱۵۵۵۔ اگر دو زخمیوں کو ڈاکٹر کے پاس معالجہ کے لیے لایا جائے اور دونوں کی حالت نازک اور خطرناک ہو اور ان دونوں میں سے ایک کا وہ فیملی ڈاکٹر ہو اور ایک کا علاج دوسرے کو چھوڑ دینے کے مترادف ہو، جس کے نتیجہ میں وہ مر جائے گا، اس حالت میں ڈاکٹر کا کیا شرعی فریضہ ہے وہ ان دونوں میں سے کس کو مقدم کرے اور کس کا علاج کرے، اس بیان کے ضمن میں ذیل الذکر سوالوں کے جواب عنایت کریں:
الف۔ اس بات کے مد نظر کہ اس ڈاکٹر نے جن کا وہ فیملی ڈاکٹر ان سے اس نے ایسا کوئی ایگریمینٹ نہ کیا ہو جس کے تحت وہ علاج کے مجبور ہوگا۔
ب۔ اگر ان دونوں میں سے ایک کے گھرانے کے ساتھ اس کا ایگریمینٹ ہو تو اس صورت میں حکم مسئلہ کیا ہوگا؟
ج۔ وہ زخمی ڈاکٹر جن کا فیملی ڈاکٹر ہے، اس کی حالت نہایت نازک ہو مگر اس کی موت کا امکان دوسرے سے کمتر ہو تو اس صورت میں اس کا شرعی فریضہ کیا ہے؟

جواب: پہلی اور دوسری صورت میں، اس بات کے پیش نظر کہ دونوں کی حالت ایک جیسی ہے ڈاکٹر کو اختیار ہے جس کا چاہے علاج کرے لیکن اگر اس کا کسی گھرانے سے شرعی معاہدہ ہو تو اسے مقدم کرے گا اور تیسری صورت میں جس کی جان کو زیادہ خطرہ ہو اس کا پہلے علاج کرے گا۔

سوال ۱۵۵۶۔ اگر کوئی مریض ڈاکٹر کی طرف رجوع کرے اور ڈاکٹر معاینہ کے دوران اس کی بیماری کے اسرار اور راز سے مطلع اور با خبر ہو جائے، جسے چھپانے کی صورت میں، مریض اور اس کے رشتہ داروں کا تو فایدہ ہو، لیکن اگر ڈاکٹر اسے ملک اور حکومت کے ذمہ داروں تک پہچائے تو ایسا کرنا ملک اور معاشرہ کے لیے فایدہ مند ہو تو اس حالت میں ڈاکٹر کا شرعی فریضہ کیا ہے؟

جواب: صرف اس صورت میں اس راز کو فاش کر سکتا ہے جس میں معاشرہ کی مصلحت خطرے میں پڑتی ہو اور حکومت کے نمایندوں تک بات پہچا سکتا ہے۔

سوال ۱۵۵۷۔ ایک شخص کینسر کا مریض ہے اور ڈاکٹر کو معلوم ہے کہ اس کے علاج کا کوئی فایدہ ہونے والا نہیں ہے لیکن اگر مریض اور اس کے رشتہ داروں کو بتائے گا تو اگر چہ انہیں روحی تکلیف اور صدمہ پہچے گا لیکن ان کا ڈھیروں خرچ ہونے والا پیسا نچ جائے گا اور ڈاکٹر بھی اس الزام سے بچ جائے گا کہ اس نے جانتے ہوئے بھی یہ بات چھپائی۔ لیکن اگر انہیں اطلاع نہ دے تو ان کا خرچ ہونے والا پیسا فضول جائے گا اور ڈاکٹر پر بھی بعد میں اعتراض ہوگا تو ایسی صورت میں بیان فرمائیں کہ اگر مریض یا اس کے قریبی اس سے معلوم کرنے کے لیے اصرار کریں تو ڈاکٹر کا شرعی فریضہ کیا ہے؟

جواب: اس بات کو نطر میں رکھتے ہوئے کہ ایک طرف سے روحی تکلیف اور صدمہ ہے اور دوسری طرف اس کے علاج کا خرچ، یہ دونوں ایک دوسرے کافی جدا ہیں تو ڈاکٹر کو یہ دیکھنا چاہیے کہ ان دونوں میں سے انہیں کس بات کا صدمہ کم ہوگا۔

سوال ۱۵۵۸۔ ایک جوان شادی کے لیے ٹیسٹ اور چیک اپ کی غرض سے ایک ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتا ہے، ڈاکٹر اس میں ایک ایسی بیماری کو پاتا ہے جو سرایت کرنے والی ہے یا اسے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ جوان نشہ کا عادی ہے، یہاں پر اگر ڈاکٹر اس کی رپورٹ کے بارے میں سب کو بتا دے تو اس کے راز کا پردہ فاش ہو جائے گا اور ڈاکٹر کو معلوم ہے کہ اس کا اس کی زندگی پر نہایت برا اثر پڑے گا اور اگر وہ نہ بتائے تو اس کی بیوی ایک اس سرایت کرنے والی بیماری کا شکار ہو جائے گی اور ممکن ہے کہ ڈاکٹر کا ضمیر بھی اس کی ملامت کرے تو بیان فرمائیں کہ اس مورد میں ڈاکٹر کا شرعی فریضہ کیا ہے؟

جواب: اس بات کو ذھن میں رکھتے ہوئے کہ اس طرح کے ٹیسٹ اور چیک اپ ایک طرح سے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ہوتا ہے لہذا واقعیت کو چھپانا، مشورت میں خیانت شمار ہوگا، اس لیے واقعیت اور حقیقت کو بیان کرنا چاہیے۔

سوال ۱۵۵۹۔ کچھ پیسا اختیار میں ہے جس سے یا تو ایک دل کے مریض کا علاج ہو سکتا ہے یا دوسرے دس عام مریضوں کا، جو دوسرے امراض میں مبتلا ہیں، اگر دل کے مریض کا علاج نہیں کیا گیا تو وہ مر جائے گا اور اگر دوسرے مریضوں کا علاج نہیں کیا گیا تو ان کا رنج و درد اور مرض بڑھ جائے گا، اس پیسے کو ان پر خرچ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے، اس صورت میں ڈاکٹر کی شرعی ذمہ داری کیا ہے وہ ان میں سے کس کا انتخاب کرے گا؟

جواب: اگر اس دل کے مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہو اور ان دس مریضوں کی جان کو خطرہ لاحق نہ ہو تو جس کی جان کو خطرہ ہے وہ مقدم کیا جائے گا۔

۱۵۶۰۔ اگر ڈاکٹر مریض کے مرض کو خطرناک اور اس کی جان سے نا امید ہونے کو، اسے یا اس کے رشتہ داروں کو بتا دے تو ان سب کو شدید روحی صدمہ کا سامنا ہوگا لیکن دوسری طرف اسے آپریشن کے لیے ان سے اجازت لیتے وقت یہ بات بتانی پڑے گی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مریض کو وصیت کا موقع مل جائے، وہ لوگوں کی امانات کو ان کے حوالہ کر دے اور سب معافی مانگ کر حلیت طلب کرے اور اسی طرح سے ڈاکٹر بھی بعد میں لگنے والے الزامات اور اعتراضات سے بری الذمہ ہو جائے گا اور اس پر پہلے سے نہ بتانے کا الزام بھی نہیں لگے گا لیکن اگر وہ بیماری کے خطرناک ہونے کی اطلاع نہ دے تو مریض اور اس کے گھر والوں کو روحی اور فکری صدمے سے بچا لے گا، اگر چہ ایسا کرنے سے مریض کی حالت میں کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے، جبکہ دوسری طرف ممکن ہے کہ اس کے وصیت نہ کرنے سے بعض لوگوں کا حق ضایع ہو جائے اور ڈاکٹر پر بھی نہ بتانے کا الزام لگے، ڈاکٹر کا شرعی فریضہ کیا ہے؟ کیا وہ صراحت کے ساتھ سب کچھ صاف صاف بتا دے یا اسے چھپا لے؟

جواب: عام طور پر اس طرح کے موارد میں ایک تیسرا راستہ بھی ہوتا ہے وہ یہ کہ مناسب الفاظ اور انداز سے مریض اور اس کے گھر والوں سے اجازت حاصل کی جاتی ہے اور ان میں سے بعض کو جو مضبوط اعصاب کے مالک ہوں، یہ باتیں بتا دی جاتی ہیں لہذا تمام باتوں کو صراحت سے بیان کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

سوال ۱۵۶۱۔ چند مریض جو ایمرجنسی اور اضطراری حالت میں لائے گئے ہیں، ان میں سے علاج کے لیے کسے اور کس بنیاد پر مقدم کیا جائے گا؟ کیا معیار یہ ہے کہ جس کی حالت سب سے بری ہو اسے پہلے دیکھا جائے گا یا انسان کی شخصیت اور قد کا بڑا ہونا بھی اس کا سبب ہو سکتا ہے مثلا ان میں ایک ڈاکٹر ایک انجینیئر ہو جو معاشرہ کے لیے زیادہ مفید ہیں یا ایک عام انسان ہو؟ یا مثلا ایک ایسا فرد جو نشہ کا عادی ہو، جس کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہو یا ایک ایسا انسان جو ہمارے معاشرہ کی ایک موثر فرد ہو؟ کیا دونوں کا حکم ایک ہے؟

جواب: جس کی حالت سب سے زیادہ نازک ہو وہ اولویت میں ہے اور اگر ڈاکٹروں کے مطابق سب کی حالت ایک جیسی ہو تو وہاں پر معاشرہ اور اخلاقی اعتبار سے بہتر لوگ اولویت میں ہیں۔

سوال ۱۵۶۲۔ انسان پر آزمایش اور تحقیق کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیا انسانوں کو دوا آزمانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ مثال کے طور پر جیسا کہ معمول ہے کہ دوا کا تجربہ کرنے کے لیے گروہ شاہد (سالم گروہ) سے استفادہ کیا جاتا ہے اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر زیر مطالعہ دوا کا اثر معین نہ ہو تو اس کے لیے شاہد گروہ کا انتخاب کیا جا سکتا ہے لیکن ان موارد میں جہاں مورد مطالعہ دوا کا طبی اثر حتمی ہو یا اس کا تجویز نہ کرنا خطرہ کا سبب بن سکتا ہو وہاں پر شاہد گروہ سے استفادہ کرنا صحیح نہیں ہے، جناب عالی کی اس بارے میں کیا نظر ہے؟ دوسری مثال: کیا اخلاقی اعتبار سے تحقیق والی دوا کو کسی پر استعمال کرنے میں اشکال نہیں ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کامل طور پر بے اثر دوا کا استعمال بھی اشکال رکھتا ہے اور کسی دوا کے مقایسہ میں اس کا تقابل قدیم دوا سے کرنا چاہیے لیکن اگر قدیمی دوا موجود نہ ہو تو آزمایش والی دوا سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ مکمل طور پر بے اثر (مثلا رگ میں دوا کے بجای نمک کا پانی ڈالنا ) آزمایشی دوا کا استعمال مریض کی اجازت سے ہونا چاہیے؟ کیا مریض ایسی بات کو قبول کریں گے؟ مریض جو کسی اسپتال میں بھرتی ہوتا ہے وہ علاج کے لیے ہوتا، تحقیق اور آزمایش کے لیے نہیں، جبکہ ایسی افراد کا ملنا بھی مشکل ہے جو اس بات کی اجازت دیں کہ ان کے اوپر دوا کی آزمایش کی جا سکے لہذا اس کا راہ حل کیا ہے؟ کیا مریض کو اس کی اطلاع کے بغیر اس طرح کی دوا دی جا سکتی ہے؟ کیا دوا کے تجربہ کے لیے کفار، اسرا اور موت کی سزا پا چکے افراد سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟ اس روش کو ہٹلر نے یہودیوں اور امریکیوں نے سیاہ پوستوں پر انجام دیا تھا؟

جواب: ایسی دوا کا استعمال کرنا جس سے موت یا مختلف امراض کا خطرہ ہو جائز نہیں ہے۔ مخصوصا مریض کی اجازت اور اطلاع کے بغیر انہیں بے اثر دوا کا دینا اگر چہ وہ علاج کے لیے نہ کر تلقین کے لیے ہو، واقعی دوا موجود نہ ہونے کی صورت میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۵۶۳۔ خوبصورتی کے لیے پلاسٹک سرجری کرانے کا، جیسا کہ آج کل لوگوں میں اس کا کافی رجحان ہے، کیا حکم ہے؟ قابل توجہ بات یہ ہے کہ کبھی یہ پلاسٹک سرجری پیدایشی بد صورت کو ختم کرنے کے ہوتی ہے اور کبھی زخموں کے آثار کو مٹانے کے لیے ہوتی ہے اور کبھی کبھی صرف خوب صورت دکھنے کے لیے،؟

جواب: اگر کسی دوسرے حرام سے مخلوط نہ ہو تو ایسا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر حرام کام کا باعث ہو (جیسے حرام لمس و نظر) تو صرف ضرورت کے وقت جائز ہے۔

سوال ۱۵۶۴۔ ایک شخص کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہے، ڈاکٹر نا امید ہو چکے ہیں، اب اگر کوئی ڈاکٹر اس پر ترس کھا کر ہمدردی دکھاتے ہوئے اس کا علاج نہ کرے تا کہ وہ جلدی مر جائے اور مرض کی صعوبت سے نجات پا جائے اور مریض قبل از وقت مر جائے تو وہ ڈاکٹر شرعی لحاظ سے مجرم ہے؟ مہربانی کر کے اجمالی طور پر دلیل بھی بیان فرمائیں؟

جواب: انسان کا قتل کسی بھی بہانہ سے جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ ترس کھا کر اور ہمدردی میں بھی نہیں، اور اگر مریض خود بھی ایسا کرنے کو کہے تب بھی نہیں، اسی طرح سے اس کا معالجہ ترک کد دینا تا کہ وہ جلدی مر جائے، جایز نہیں ہے۔ اس مسئلہ کی دلیل آیات و روایات میں قتل کا حرام ہونا مطلقا بیان ہونا ہے اور اسی طرح ان دلائل سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے جن میں جان کا بچانا واجب قرار دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ اس کا فلسفہ یہ ہو کہ اس بات کی اجازت دینا بہت سے سوء استفادہ کا سبب بن جائے گا اور اس طرح کے بے تکے اور بے بنیاد بہانوں کے تحت ترس اور ہمدردی میں قتل ہونے لگیں گے یا بہت سے افراد اس قصد سے خودکشی کی راہ اختیار کرنے لگیں گے۔ ویسے بھی طبی مسائل غالبا یقین آور نہیں ہیں اور بہت سے افراد جن کی زندگی سے مایوسی ہو چکی ہے، عجیب و غریب طریقہ سے موت کا شکار ہونے لگ جائیں۔

سوال ۱۵۶۵۔ کیا کوئی کسی دوسرے کو اپنی موت اور قتل کی اجازت دے سکتا ہے؟ کیا اس صورت میں قاتل ضامن ہوگا؟ چاہے وہ کوئی ایسا مریض ہی کیوں نہ ہو جو اپنی زندگی سے مایوس ہو کر درد و رنج سے رہائی کے لیے ڈاکٹر سے کہے کہ اسے زہر کا انجیکشن لگا دے یا کوئی اور انسان ہو؟

جواب: ایسی چیز کی اجازت دینا جائز نہیں ہے اور اگر پھر بھی وہ اجازت دے دے اور اس پر راضی ہو تب بھی قتل کو جواز کا سبب نہیں بنے گا۔

سوال ۱۵۶۶۔ علم طب کی اصطلاح میں برین ھیمریج کے مریض ایسے افراد کو کہے جاتے ہیں جن کے دماغ کی تمام حرکات و سکنات پوری طرح سے بند ہو چکی ہوں، صرف ان کے دل اور بعض دوسرے اعضاء بدن کام کر رہے ہوں، ان مریضوں کا سانس لینا مشین پر متوقف ہو، ان کے سانس لینے کا وہ واحد ذریعہ ہو اور اس طرح تمام مریض کچھ گھنٹے کے فاصلہ سے حرکت قلب بند ہو جانے کے سبب موت کا شکار ہوتے ہیں تو کیا درج ذیل سوالوں کی روشنی میں انہیں سانس لینے والی مشین سے الگ کیا جا سکتا ہے:
الف۔ اس مشین کا خرچ بہت زیادہ ہوتا ہے؟
ب۔ مشین کا زیادہ استعمال، اس سے زیادہ ضرورت کے وقت میں ممکن نہیں ہو پائے گا؟
ج۔ مریض کے اعزاء و اقارب کا طویل انتظار و اضطرار تحمل کرنا، جبکہ مریض کے بچنے کے امکانات نہیں ہیں۔
د۔ ایسے مریضوں کا موجود ہونا، جن کی جان بچنے کی امید باقی ہو جبکہ سانس والی مشین کی تعداد کم ہو۔

جواب: اس مسئلہ کے فرض میں اگر ان امور کا یقین حاصل ہو جائے تو مذکورہ تمام موارد میں علاج جاری رکھنا واجب نہیں ہے۔

سوال ۱۵۶۷۔ مرد مریض کا کسی خاتون ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے جانا، ضرورت کے وقت یا بغیر کسی ضرورت کے، کیا حکم رکھتا ہے؟

جواب: ضرورت کے وقت اور مرد ڈاکٹر کے موجود نہ ہونے کے علاوہ، جائز نہیں ہے۔

سوال ۱۵۶۸۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے ڈاکٹر حضرات اور طب کے طلباء، طب سے متعلق سرکاری اور بیت المال کے وسائل، اپنے ذاتی استفادہ کے لیے استعمال کرتے ہیں جیسے ہاسپیٹل کے فارم، لیٹر پیڈ وغیرہ جبکہ ان وسائل کا پیسا یا تو بیت المال کی طرف سے ہوتا ہے یا مریض کے اخراجات میں شامل کر کے ان سے وصول کیا جاتا ہے، کیا یہ کام جائز ہے؟

جواب: جائز نہیں ہے مگر یہ کہ ہاسپیٹل کے ذمہ داران، تمام اسٹاف اور کارکنان کو کسی مصلحت کے تحت ایسا کرنے کی اجازت دے دیں۔

سوال ۱۵۶۹۔ ایک خاتون کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ رحم میں مشین کا رکھوانا، حرام لمس و نظر کا باعث ہوتا ہے، لہذا اس نے ایسا کیا ہے لیکن اب وہ اس طرف متوجہ ہوئی ہے تو کیا اب اس کے لیے اس مشین کا باہر نکال لینا ضروری ہے؟ یہ بات قابل غور ہے کہ باہر نہ نکالنے کی صورت میں وہ مجبور ہوگی کہ ہر بار کچھ عرصہ کے بعد ڈاکٹر کے پاس جائے اور اس کا معاینہ کروائے جبکہ یہ بھی حرام لمس و نظر کا باعث ہوگا؟

جواب: جب تک اس کا باہر نکالنا ضروری نہ ہو وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ سکتی ہے اور بعد میں جب نکالنا ضروری ہو ضرورت کے عنوان کے تحت ایسا کر سکتی ہے۔

سوال ۱۵۷۰۔ کیا رحم میں بچہ کی حفاظت کرنا واجب ہے؟ یعنی ماں کے لیے بچہ کی حفاظت اور سلامتی کے تمام وسائل کا مہیا اور فراہم کرنا ضروری ہے؟

جواب: جہاں تک اس کے لیے ممکن ہو، اتنا کرنا واجب و ضروری ہے۔

سوال ۱۵۷۱۔ ڈاکٹر یا نرس کا یہ کہنا کہ مریض کے لیے روزہ رکھنا، اعضاء کا حرکت دینا، وضو اور نماز کے لیے پانی استعمال کرنا وغیرہ نقصان دہ ہو سکتا ہے تو کیا ان کی یہ بات شرعی جواز پیدا کرنے کے لیے کافی ہو سکتی ہے؟

جواب: اگر ان کے منع کرنے سے ضرر کا خوف پیدا ہو جائے تو ان کی بات شرعی جواز کی حیثیت پیدا کر سکتی ہے۔

سوال ۱۵۷۲۔ شہر میں مرد و عورت دونوں ڈاکٹر کی موجودگی کے با وجود کسی خاتون کا علاج کے لیے مرد ڈاکٹر کے پاس جانا، اس ضمن میں درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:
الف۔ مرد و عورت دونوں ڈاکٹر علم و مہارت میں ایک سے ہوں، اس صورت میں اس خاتون کا مرد ڈاکٹر کے پاس علاج کرانا، کیا حکم رکھتا ہے؟
ب۔ اگر مرد ڈاکٹر کے زیادہ ماہر اور عالم ہونے کا احتمال ہو تو حکم کیا ہوگا؟

جواب: الف۔ اگر بدن کا معاینہ کرنے کے لیے دیکھنے اور ہاتھ لگانے کی ضرورت کا پڑنا نا گزیر ہو تو اس خاتون کا لیڈی ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری ہے۔
ب۔ اگر دونوں ڈاکٹر کے فرق میں قوی احتمال پایا جاتا ہو اور یہ فرق اس کے علاج یا مرض کو بر طرف کرنے میں موثر ہو سکتا ہو تو وہ مرد ڈاکٹر کو مقدم کر سکتی ہے۔

سوال ۱۵۷۳۔ اسپتالوں اور طب کے تعلیمی اداروں میں، طب کے طلباء عملی تعلیم کی غرض سے جنس مخالف کے بدن کے مختلف اعضاء اور حصے جیسے پیٹ، سینہ، شرم گاہ کے اطراف کے حصے وغیرہ کا معاینہ و مشاہدہ کرتے ہیں، اس بات کے مد نظر کہ یہ چیزیں ایک تعلیمی و تربیتی موضوع کا حصہ ہیں، ان کا حکم کیا ہوگا؟ جناب عالی کی نظر اس کی محدودیت کے بارے میں کیا ہے؟

جواب: یہ صرف اس صورت میں جائز ہو سکتا ہے جب اس تعلیم کا حاصل کرنا، جنس مخالف کے لیے ضرورت رکھتا ہو اور اس میں مہارت حاصل کئے بغیر کسی مریض کی جان بچانا ممکن نہ ہو۔

سوال ۱۵۷۴۔ اسپتالوں اور طب کے تعلیمی اداروں میں طلباء لڑکے اور لڑکیاں عملی تعلیم اور سیکھنے کی غرض سے بچے کی پیدایش کے سلسلے سے آپریشن وغیرہ کرتے ہیں، جناب عالی بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

جواب: اس کا جواب بھی وہی ہے جو گزشتہ مسئلہ کے ضمن میں بیان ہو چکا ہے۔

سوال ۱۵۷۵۔ نرس یا کمپاوڈر کا ڈاکٹر کے حسب دستور، جنس مخالف مریض کی نبض دیکھنا، بلڈ پریشر چیک کرنا وغیرہ کیا حکم رکھتا ہے؟

جواب: : اس کا جواب بھی وہی ہے جو گزشتہ مسئلہ کے ضمن میں بیان ہو چکا ہے۔

سوال ۱۵۷۶۔ اسپتال کے ذمہ داران کے بقول، ان کے پاس اسٹاف کم ہونے کے سبب مرد کمپاوڈر یا خاتون نرس جنس مخالف مریض کی خدمت پر مجبوری میں مامور کی گئی ہیں، کیا ان کا صرف یہ کہنا ضرورت کی دلیل اور ان کی بات ماننے کے لیے کافی ہوگا؟

جواب: اگر مورد اعتماد ہوں تو ان کی بات پر ماننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۵۷۷۔ برین ھیمریج کے بارے میں بارہا متعدد سوال کر چکا ہوں اور آپ نے جواب عنایت کیا ہے، اگر اجازت دیں تو اسے مفصل آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، برین ھیمریج سے ہونے والی موت میں دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور صرف اس کے اعضاء رئیسہ کام کر رہے ہوتے ہیں جس سے وہ زندہ تو ہوتا ہے مگر ایسے انسان کا عام زندگی کی طرف لوٹ آنا ممکن نہیں ہوتا، اس کے ضمن میں اس مریض کی طرف سے پیش آنے والے مخلتف قانونی و مالی احکام و مسائل کے بارے مہربانی کرکے مختصر و مفید جواب عنایت فرمائیں؟

جواب: اس بات کے پیش نظر کہ ڈاکٹر حضرات اس بات کی وضاحت و صراحت کرتے ہیں کہ برین ھیمریج کے مریض ان افراد کی طرح ہیں جن کے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو، جن کے دماغ بکھر چکے ہوں یا جن کے سر تن سے جدا کر دئے گئے ہوں اور جو مشینوں اور طبی وسائل کے ذریعہ کچھ دن زندہ رکھے جا سکتے ہیں مگر ان کا شمار ایک زندہ انسان کی طرح سے نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ وہ مردوں کی طرح بھی نہیں ہیں۔ لہذا ان کے احکام ایسے ہیں جو زندہ اور مردہ دونوں کے ہوتے ہیں جیسے احکام مس میت، غسل و نماز میت و کفن و دفن ان پر جاری نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ ان کے قلب کی حرکت بند اور بدن ٹھنڈا ہو جائے، ان کے اموال کو ورثاء میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، ان کی عورتیں وفات کے عدہ میں نہیں بیٹھیں گی، یہاں تک کہ جان اور روح ان کی بدن سے جدا ہو جائے، لیکن ان وکیلوں کی وکالت ساقط ہو جائے گی اور ان کا اعتبار ختم ہو جائے گا اور انہیں ان کی طرف یا ان کی وکالت میں خرید و فروش، ان کی کسی سے شادی اور بیویوں سے طلاق کا حق نہیں ہوگا، ان کے علاج کا جاری رکھنا واجب نہیں ہے، ان کے بعض اعضاء بدن کا نکالنا، اس صورت میں کہ اس سے کسی مسلمان کی جان اس سے بچ سکتی ہو، کوئی حرج نہیں رکھتا ہے، البتہ قابل توجہ نکتہ ہے کہ یہ سب اس صورت میں ہے جب مغزی موت پوری طرح سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو چکی ہو اور زندہ بچ جانے کا بالکل بھی احتمال نہ پایا جاتا ہو۔

جنسیت کا تغییر دیناسیتالیسویں فصل مختلف و متفرق مسائل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma