پیوند اعضاء سے مربوط مسائل

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
استفتائات جدید 01
علاج اور معائنہ کے اخراجات سے متعلق مسائلپوسٹ مارٹم سے مربوط مسائل

سوال ۱۴۴۲۔ ایسی گمنام لاش جس کے اعضاء کسی مریض کے کام آ سکتے ہوں، اس کے اعضاء کسی ضرورت مند مریض کو دینے کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر ایسا کرنے سے کسی مسلمان کی جان بچ سکتی ہے یا اسے کسی خطرناک مرض سے نجات مل سکتی ہے تو جایز ہے۔

سوال ۱۴۴۳۔ مذکورہ مسئلہ کے ضمن میں اگر بعد میں اس میت کا ولی مل جائے اور اس کام سے راضی نہ ہو تو حکم کیا ہے؟

جواب: ایسے حالات میں اس کا راضی نہ ہونا کسی مشکل کا باعث نہیں ہے اور ایسے موارد میں لاش کے گمنام ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر احتیاط یہ ہے کہ میت کو ملنے والی دیت اس کے کے لیے کار خیر میں خرچ کی جائے۔

سوال ۱۴۴۴۔ اگر کوئی انسان یہ وصیت کرے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے اعضاء کسی ضرورت مند کو دے دیئے جائیں تو کیا وہ شرعا ایسا کر سکتا ہے؟

جواب: ایسا صرف ان شرائط میں ہو سکتا ہے جو مسئلہ نمبر ۱۴۴۲ میں بیان ہوئی ہیں۔

سوال ۱۴۴۵۔ اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ اس کے اعضاء مریضوں کے دے دیئے جائیں مگر اس کا ولی راضی نہ ہو تو کیا ایسا کرنا جایز ہے؟

جواب: ولی کی اجازت مسئلہ نمبر ۱۴۴۲ کی صورت میں شرط نہیں ہے۔

سوال ۱۴۴۶۔ اگر کوئی انسان اس بات پر راضی نہ ہو کہ اس کے اعضاء اس کے مرنے کے بعد کسی اور کو دیئے جائیں مگر مرنے کے بعد اس کا ولی اس کام کے لیے راضی ہو تو حکم کیا ہے؟

جواب: جو شرائط اوپر بیان ہوئیں ہیں اگر وہ موجود ہوں تو جایز ہے۔

سوال ۱۴۴۷۔ ایسا شخص جو زندگی میں اعضاء دینے یا نہ دینے کا مخالف و موافق نہیں تھا، مرنے کے بعد اس کے ولی کی اجازت سے اس کے اعضاء کسی مریض کو دیئے جا سکتے ہیں؟

جواب: اگر ضرورت اقتضاء کرے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۴۴۸۔ زندہ انسان کے بدن سے کسی عضو کا لینا کیا دیت کا سبب بنتا ہے؟

جواب: اگر اس کی اجازت سے ہو اور اس کے لیے خطرہ کی بات نہ ہو تو جایز ہے اور دیت واجب نہیں ہے۔

سوال ۱۴۴۹۔ اگر اس بات کا احتمال ہو کہ کسی زندہ انسان کے بدن سے ایک یا چند عضو لینے سے وہ آئندہ یا نزدیک کسی خفیف یا شدید مرض کا شکار ہو سکتا ہے جبکہ دوسری طرف ایک انسان کی جان اس کی مرہون منت ہو اور کوئی دوسرا مورد دسترس میں نہ ہو تو کیا اسے بتائے بغیر ایسا کیا جا سکتا ہے؟ یا اگر اس کی مرضی سے ایسا ہو تو کیا اس کی حالت خراب ہونے کی صورت میں ڈاکٹر قصوروار ہے؟

جواب: اگر یہ مرض مثلا کسی کو گردہ وغیرہ دینے کی صورت میں پیش آئے تو کسی کے لیے واجب نہیں ہے کہ وہ دوسرے کی جان بچانے کے لیے ایسا کرے ، لیکن اگر مرض خفیف اور قابل تحمل ہو تو کسی کی جان بچانا اس کی اجازت کے ساتھ بعید نہیں ہے اور اس صورت میں جب یہ کام کسی کی اجازت اور مرضی سے کیا جائے اور بعد میں بیماری کا خطرہ کم ہو مگر ہو جائے تو ڈاکٹر ذمہ دار نہیں ہے اور جیسا کہ کسی کو ایک گردہ دینا عام حالات میں خطرہ والا کام نہیں ہے مگر ممکن ہے کسی کو کوئی مشکل پیش آ جائے۔

سوال ۱۴۵۰۔ اگر مطمئن ہوں یا احتمال دیں کہ یہ پیوند مفید نہیں ہوگا تو کیا جایز ہے کہ کسی امید کے تحت، کسی زندہ یا مردہ کے بدن کا عضو جدا کیا جائے اور ضرورت مند کو دیا جائے؟

جواب: اگر اس کے مفید واقع نہ ہونے کا یقین ہو تو اسا کرنا جایز نہیں ہے، ہاں احتمال عقلائی کی صورت میں کسی مردہ کے بدن سے کسی عضو کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن زندہ انسان سے اس وقت لینا جایز ہے جب اسے ضرر اور خطرہ نہ ہو۔

سوال ۱۴۵۱۔ اس بات کے مد نظر کہ عضو کو پیوند کرنے کے بعد اس کا کیمیاتی علاج ضروری تصور کیا جاتا ہے جبکہ یہی عمل مریض میں خفیف یا شدید بیماری کا باعث ہوتا ہے، ڈاکٹر جو ایسا کرنے کے لیے مجبور ہوتا ہے تا کہ پیوند اچھی طرح سے انجام پا سکے، بعد میں بیماری کی صورت میں ذمہ دار ہے؟

جواب: چنانچہ مریض کو پہلے سے بتا اور سمجھا دیا گیا ہو اور وہ ان سب کے لیے راضی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۴۵۲۔ کسی انسان کے لیے جایز ہے کہ وہ اجازت دے کہ اس کی زندگی میں یا مرنے کے بعد اس کے بعض اعضاء جو انسانی زندگی کے نجات کے لیے بہت ضروری نہیں ہیں جیسے انگلیاں، ہاتھ، آنکھ کے ڈیلے کا بیرونی پردہ وغیرہ پیسے لے کر یا بغیر پیسے کے کسی کو دے دیئے جائیں؟

جواب: زندگی میں ایسا کرنا شرعا مشکل ہے لیکن مرنے کے بعد ان موارد میں جہاں ضروری ہے ایسا کیا جا سکتا ہے۔

سوال ۱۴۵۳۔ کیا سور کے اعضاء انسان کو لگائے جا سکتے ہیں؟

جواب: ضرورت کے وقت ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۴۵۴۔ چور کی انگلیاں کاٹنے کے بعد اسے فورا جوڑ دینا جایز ہے یا اس کا اسی طرح رہنا ضروری ہے تا کہ دوسروں کے لیے عبرت ہو؟

جواب: جایز نہیں ہے۔

سوال ۱۴۵۵۔ اگر انسان بعض اعضاء کی شبیہ (کلون) بنانے میں کامیاب ہو جائے تو اسے ضرورت مند کو لگانے کا کیا حکم ہے؟

جواب: کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۴۵۶۔ اس بات کے پیش نظر کہ ہزاروں ہزار مریض ایسے ہیں جن کا قطعی علاج گردہ کا پیوند ہے، اس سے مربوط ذیل الذکر سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:
الف: جناب عالی کی نظر میں برین ہیمریج سے مرنے والے انسان کا عضو کسی ضرورت مند کو دینے کا کیا حکم ہے؟ (اس بات کے مد نظر کہ ماہرین کے مطابق مغز کے بیکار ہونے کے کچھ ہی دیر کے بعد انسان کے دوسرے سارے اعضاء بھی بیکار ہونے لگتے ہیں۔)
ب: اگر کسی نے وضیت کی ہو تو ایسا کرنا جایز ہے؟
ج: اگر جناب عالی کی نظر میں یہ پیوند کاری جایز ہے تو مہربانی کرکے یہ بھی بیان کریں کہ اس بات سے متعلق لوگوں کے ذہن صاف کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

جواب: اگر سکتہ مغزی (برین ہیمریج) کامل اور مسلم ہو اور انسان کے بچنے کا کوئی احتمال نہ ہو تو اس کے بعض اعضاء (جیسے دل و گردہ وغیرہ) کا کسی مسلمان کی جان بچانے کے لیے لینا جایز ہے۔ اب چاہے اس نے اس کام کی وصیت کی ہو یا وصیت نہ کی ہو، البتہ ولی کی اجازت لینا بہتر ہے۔

سوال ۱۴۵۷۔ انسان کے اعضاء بدن جیسے دل و گردے و آنکھیں، مرنے کے بعد اس کے ورثاء کی اجازت سے دوسرے کو لگانے کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: ضرورت کے وقت ایسا میں کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۴۵۸۔ ایسے عضو کا لگانا جو قصاص کے طور پر کاٹا گیا ہے، کیا حکم رکھتا ہے؟

جواب: کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۴۵۹۔ حد و قصاص کے طور پر کاٹے گئے اعضاء کا بیچنا یا کسی دوسرے مسلمان کو دینا جایز ہے؟

جواب: اگر کسی مریض کو لگانے کے لیے دینا ہو تو (جیسا کہ گردہ دینے میں مرسوم ہے) اس کے مالک سے اجازت لینا ضروری ہے۔

سوال ۱۴۶۰۔ پیوند لگانے کے لیے اعضاء کو خریدنے اور بیچنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: جایز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ جو پیسا لیا جا رہا ہے وہ اجازت کے بدلہ میں لیا جائے۔

سوال ۱۴۶۱۔ ایک شخص جسے سکتہ مغزی (برین ہیمریج) ہو چکا ہے مگر اسے سانس لینے والے حفاظتی مشین میں رکھا گیا ہے جہاں اس کی سانسیں چل رہی ہیں حالانکہ کہ ڈاکٹروں کے مطابق اس کے بچنے کا امکان نہیں ہے اور وہ مردہ کی طرح ہی ہے تو کیا اس کے کسی عضو جیسے آنکھیں یا گردے وغیرہ نکالے جا سکتے ہیں؟ الف۔ مسلمان کے لیے بطور کلی، ب۔ مسلمان کے لیے جس نے اس کے لیے وصیت کی ہو یا اس کے ورثاء کی اجازت سے۔ ج۔ غیر مسلم کے لیے۔

جواب: خود مرنے والے کی اجازت اور رضایت سے اس کا ایک گردہ وغیرہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور غیر مسلمان کے ساتھ ایسا کرنا مطلقا جائز ہے اور اعضاء اصلی کے بارے میں حکم وہی ہے جو مسئلہ نمبر ۱۴۵۶ میں بیان ہوا ہے۔

سوال ۱۴۶۲۔ بھانسی کی سزا پانے والے مجرم کی سزا میں اس شرط کے ساتھ کمی کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنا کوئی عضو کسی مسلمان کی جان بچانے کے لیے دے دے؟

جواب: صرف صاحب حق قصاص اور دیات کے مورد میں اپنے تمام یا بعض حق کو کسی ایسے عضو کے بدلے مشروط کرکے چھوڑ سکتا ہے جس کا ہدیہ کرنا جائز ہو، حالانکہ طرف مقابل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اسے قبول کرے یا قبول نہ کرے۔

سوال ۱۴۶۳۔ کسی مسلمان کے بدن سے ہڈی کا کوئی ٹکڑا یا عضلہ نکالنا (اس کی مرضی سے یا اس کی مرضی کے بغیر) کسی غیر مسلمان کو لگانے نے لیے جو مسلمانوں کا دشمن نہیں ہے، کیا حکم رکھتا ہے؟

جواب: اگر مالک کی اجازت سے ہو اور اس کی جان کو خطرہ یا نقص عضو کا شکار نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۴۶۴۔ بچے کی پیدائش کے بعد بچ جانے والی چیزیں جیسے خون، لوتھڑے، جھلی وغیرہ، کو کسی کے آپریشن میں استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۴۶۵۔ کیا بالغ انسان وصیت کر سکتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے اعضاء بدن (جیسے دل، گردہ وغیرہ) کسی ضرورت مند کو دے دیئے جائیں، اس کے بعد اسے دفن کیا جائے؟ یا انہیں بیچ دیا جائے؟ اور جس بارے میں اس نے وصیت کی ہو اس مورد میں اسے خرچ یا ہدیہ کر دیا جائے؟

جواب: یہ وصیت صرف اس وقت نافذ اور جاری ہو سکتی ہے جب ضرورت کا تقاضا ہو کہ اس کے اعضاء بدن کو نکالا جائے اور بہتر یہ ہے کہ اسے مفت میں کسی ضرورت مند کو دیا جائے، اگر چہ اوپر جس شرط کا ذکر ہوا وہ پائی جاتی ہو تو پیسے لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۴۶۶۔ اگر کوئی مریض اپنے اہم اعضاء کی کمزوری یا نا توانی کی وجہ سے مر رہا ہو جیسے دل وغیرہ، اور ہسپتال کے پاس کوئی لاش موجود ہو جس کے اعضاء کو اس مرنے والے کو دیا جا سکتا ہو تو ایسا کیا جا سکتا ہے؟

جواب: اگر اس مریض کی زندگی اسی پر منحصر ہو تو ایسا کرنا واجب ہے۔

سوال ۱۴۶۷۔ کس عمر میں کسی کو گردہ دینا جائز ہے؟ نا بالغ لڑکے کے لیے ولی کی اجازت کے ساتھ ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب: نابالغ کے لیے کسی کو اپنا گردہ دینا جائز نہیں ہے اور ولی کو ان موارد میں ولایت حاصل نہیں ہے۔

سوال ۱۴۶۸۔ کیا کسی انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ یہ وصیت کرے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے بدن کے اہم اعضاء کسی ضرورت مند مسلمان مریض کو دے دیئے جائیں، جس کی جان خطرہ میں ہو؟ اسی طرح سے کسی غیر مسلم کے لیے وصیت کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: فرضیہ کے مطابق مسلمان مریض کو اعضاء دیئے جا سکتے ہیں، جبکہ غیر مسلم کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ مگر یہ کہ اس کو دینے میں کوئی نہایت اہم غرض پوشیدہ ہو یا یہ کہ وصیت کرنے والا کافر ہو۔

سوال ۱۴۶۹۔ ڈاکٹر کے لیے جائز ہے کہ وہ ایک انسان سے گردہ کو نکال کر دوسرے کو لگانے کی ذمہ داری لے؟ جبکہ اسے معلوم ہو کہ گردہ دینے والے نے اس کے بدلہ میں پیسا لیا ہے؟

جواب: اگر کسی مسلمان کی جان بچنے کا سبب ہو تو جائز ہے۔

سوال ۱۴۷۰۔ بعض مریض مغز میں چوٹ کے سبب اس کے کسی حصہ کے ضائع ہونے کی وجہ سے نا قابل علاج ہو جاتے ہیں، ان کا مغز کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور وہ کوما میں چلے جاتے ہیں جہاں وہ کسی داخلی یا خارجی طور پر کسی احساس کا اظہار نہیں کرتے، نہ سانس لیتے ہیں اور نہ ہی روشنی پڑنے یا اس کے مختلف ہونے پر رد عمل ظاہر کرتے ہیں، اس حالت میں اس کا پہلی حالت میں لوٹ آنے ممکن نہیں ہوتا، ایسا مریض مشین کے ذریعہ سانس لیتا ہے جس کی مدت چند گھنٹے یا روز ہو سکتی ہے، اس حالت کو طب اور میڈیکل کی اصطلاح میں سکتہ مغزی (برین ہیمریج) کہتے ہیں، جبکہ بعض لوگوں کی جان ان کے اعضاء سے استفادہ پر منحصر اور موقوف ہوتی ہے ، اس مقدمہ کے ضمن میں مہربانی کرکے درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:
الف: یہ واضح ہو جانے کے بعد کے ان کا پہلی حالت پر لوٹ آنا ممکن نہیں، ان کے اعضاء ضرورت مند کو دینے کا کیا حکم ہے؟
ب: کیا صرف کسی مسلمان کی جان بچانے کے عنوان سے اس کے عضو کے کاٹ لینے کا جواز بن سکتا ہے یا اس سے اجازت لینا اور اس کی وصیت کا ہونا ضروری ہے؟
ج: کیا اس کے ورثاء اس بات کی اجازت دے سکتے ہیں؟
د: کیا انسان اپنی زندگی میں سکتہ مغزی (برین ھیمریج) کی صورت میں اس کام کی اجازت دے سکتا ہے کہ اس کے اعضاء کسی ضرورت مند مریض کو دے دیئے جائیں؟
ھ: عضو کاٹنے کی صورت میں دیت واجب ہو گی یا نہیں؟
و۔ ثابت ہونے کی صورت میں دیت کس پر واجب ہوگی ڈاکٹر پر یا مریض پر؟
ز: اس دیت کو کس مصرف میں خرچ کیا جا سکتا ہے؟

جواب: الف: اس مسئلہ کا جواب پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے، مگر اس کی اہمیت کے پیش نظر مزید وضاحت کی جا رہی ہے، سکتہ مغزی (برین ہیمریج ) کے موارد میں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ اگر موضوع قطعی و یقینی ہو کہ اس طرح کے احکام میں وہ انسان میت کی مانند ہے۔(اگر چہ میت کے بعض احکام جیسے غسل و نماز و دفن و غسل مس میت اس پر جاری نہیں ہونگے۔) لہذا کسی مسلمان کی جان بچانے کے لیے اس کے اعضاء لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ب: ان موارد میں جہاں پوری طرح سے مرنے کے بعد اعضاء نکالتے ہیں اور جن پر بعض جانیں منحصر و متوقف ہوتی ہیں، پہلے سے اجازت لینا یا ورثاء سے رضایت لینا لازم نہیں ہے مگر بہتر ضرور ہے۔
ج: اوپر کے واجب سے واضح ہو گیا۔
د: اوپر کے جواب سے واضح ہو گیا۔
ھ: قطع اعضاء کے جواز کی صورت میں احتیاط دیت دینے میں ہے۔
و: دیت اس کے ذمہ ہے جس نے عضو کو قطع کیا ہے۔
ز: میت کے لیے کار خیر میں خرچ کیا جائے گا۔

علاج اور معائنہ کے اخراجات سے متعلق مسائلپوسٹ مارٹم سے مربوط مسائل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma