تلقیح (نطفہ کو بارور کرنا) کے مسائل

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
استفتائات جدید 01
حمل ٹھرنے سے روکنا (موانع حمل)جان کی حفاظت سے مربوط مسائل

سوال ۱۵۲۷۔ کسی شادی شدہ عورت کے رحم میں کسی اجنبی مرد کا نطفہ ڈالنا کیا حکم رکھتا ہے؟ اسی طرح سے اس کے رحم میں اس کے شوہر کا نطفہ تلقیح کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: عورت کے رحم میں کسی غیر مرد کا نطفہ ڈالنا جائز نہیں ہے اور شوہر کا نطفہ ڈالنا اگر حرام لمس و نطر کا باعث ہو تو صرف ضرورت کے وقت جائز ہے۔

سوال ۱۵۲۸۔ علمی اور طبی اعتبار سے انسان کے مرنے کے ۷۲ گھنٹے بعد تک اس کی منی میں مکمل حیات باقی رہتی ہے۔ اگر شوہر کے مرنے کے بعد بیوی اس کی منی اپنے رحم میں ڈالنا چاہے تو ڈاکٹروں کے لیے ایسا کرنا جائز ہے، اس بچہ کا کیا حکم ہوگا؟ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس طرح کے کام بعض بیرونی ممالک میں انجام پاتے ہیں اور ایسا عام طور پر اس صورت میں ہوتا ہے جب ان کے بچے نہ ہوں اور اوائل شادی میں ہی شوہر کا انتقال ہو گیا ہو؟

جواب: ایسا کرنے میں کوئج حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۵۲۹۔ کسی عورت کا رحم کسی سبب کی بناء پر حمل کے ٹھرنے کے قابل نہیں ہے، حمل اس میں ساقط ہو جاتا ہے۔ اس کے اور شوہر کے نطفہ کو مشین میں جمع کرکے کسی ایسی عورت، جس کا شوہر نہیں ہے، اور جسے جانشین ماں (سروگیٹ مادر) کہا جاتا ہے، اس کے رحم میں منتقل کرنے کا کیا حکم ہے؟ جس میں بچہ رشد کرتا ہے اور معین وقت پر پیدا ہوتا ہے، اس کے بدلہ میں وہ جانشین ماں پیسا لیتی ہے اور بچہ ان کے والدین کے حوالہ کرتی ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب: بذات خود اس کام میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اس کے ضمن میں بعض حرام مسائل موجود ہیں جیسے لمس و نظر حرام، لہذا اگر یہ کام کسی محرم کے ذریعہ سے انجام پائے جیسے سوہر خود اپنی اور دو بیویوں میں سے ایک کی منی کو ترکیب دے اور دوسری بیوی کے رحم میں ڈال دے۔ (اگر چہ وہ بیوی وقتی ہی کیوں نہ ہو) تو یہاں کوئی حرام فعل واقع نہیں ہوگا، اس کے علاوہ کو صورت میں اس کام کے جائز ہونے کے لیے اس کے ضمنی حرام گوشوں پر توجہ کرنا ضروری ہے کہ آیا ایسا کرنا واقعی ضرورت کے تحت ہے یا نہیں؟

سوال ۱۵۳۰۔ اس سے پہلے والے سوال کے فرض میں اگر یہ عمل جائز ہو یا جائز نہ ہو، انجام پا جانے کی صورت میں، اس بات کے مد نظر کہ وہ بچہ جانشین ماں (سروگیٹ مادر) کے رحم میں پلا بڑھا ہے لیکن نطفہ والی عورت کی میراث کا مستحق ہے، سورہ مجادلہ کی دوسری آیہ کریمہ کے پیش نظر وہ ان دونوں میں سے کس عورت سے متعلق ہے اور ان میں سے کس کا وارث ہے؟

جواب: یہ بچہ صاحب نطفہ والدین سے متعلق اور ان کے لیے محرم ہے اور ان ہی کی میراث کا مستحق ہے اور جانشین ماں (سروگیٹ مادر) کی نسبت اس کی رضاعی ماں جیسی ہے بلکہ بعض موارد میں اس سے بھی زیادہ، اس لیے کہ اس کا تمام گوشت، پوست، ہڈی اس ماں سے وجود میں آیا ہے، لہذا اس بچہ کے لیے بعد میں اس سے یا اس کے بچوں سے شادی کرنا حرام ہے لیکن اس کی میراث نہیں پائے گا۔

سوال ۱۵۳۱۔ شوہر صاحب نطفہ نہیں ہے لیکن بیوی سالم اور صاحب نطفہ ہے تو کیا اس صورت میں کسی اجنبی مرد کے نطفہ کو اس عورت کے نطگہ ساتھ مخلوط کر کے اس کے رحم میں ڈالا جا سکتا ہے؟

جواب: جائز نہیں ہے۔

سوال ۱۵۳۲۔ مرد صاحب نطفہ نہیں ہے اور بیوی سے الگ ہو چکا ہے، تو اگر وہ عورت کسی مرد سے وقتی شادی (متعہ) کر لے اور اس مرد اور اس عورت کا نطفہ مخلوط کیا جائے اور عورت مدت اور عدہ ختم ہونے کے بعد پہلے شوہر سے شادی کر لے اور اس مخلوط نطفہ کو اس کے رحم میں ڈال دیا جائے تو اس صورت میں ماں، باپ، میراث اور محرم و نا محرم کی کیا صورت ہوگی؟ اور اس مسئلہ کا حکم شرعی کیا ہے؟

جواب: اگر ضرورت کا تقاضا ہو تو ایسا کرنا جائز ہے لیکن بچہ کا تعلق صاحب نطفہ والدین سے ہوگا۔

سوال ۱۵۳۳۔ اگر کسی عورت کا رحم (گردے کے پیوند کی طرح) کسی دوسری عورت کو حاملہ ہونے کے لیے لگایا جائے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ الف۔ کیا اس کی دیت واجب ہے؟ ب۔ کیا رحم قابل فروخت ہے؟ ج۔ جس عورت کو دیا جا رہا ہے اس کی اولاد کا کیا حکم ہوگا؟ د۔ جس عورت کا رحم تھا اسے ماں کا حق ملے گا یا نہیں؟

جواب: اگر بہت اہم ضرورت کا تقاضا نہ ہو تو اس کام سے صرف نظر کرنا چاہیے لیکن اگر واقعا ضرورت ہو تو پیوند دینے اور اس کے بدن میں لگانے کے بعد وہ اس کے بدن کا حصہ ہوگا اور بچہ اس سے متعلق ہوگا اور اس فرض میں دیت بھی واجب نہیں ہے اور اس کی خرید و فروش جائز ہے، اگر چہ بہتر یہ ہے کہ پیسے کو اجازت کے عوض کے طور پر لیا جائے، عضو کے نہیں۔

سوال ۱۵۳۴۔ بعض مومنین و مومنات بچہ نہ ہونے اور منی میں نقص ہونے کی وجہ سے ایسے اسپتال کی طرف رجوع کرتے ہیں جہاں منی بینک ہوتا ہے، جہاں ہر طرح کی منی کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے، وہاں سے منی لے کر اسے اپنے نطفہ کے ساتھ مشین کے ذریعہ مخلوط کر کے بیوی کے رحم میں ڈالنے کا کیا حکم ہے؟ اگر مکمل طور پر ان کی منی میں اسپرم نہ پائے جاتے ہوں تو کیا وہ نا معلوم افراد کے اسپرم سے جو بینک میں موجود ہیں، استفادہ کر سکتے ہیں؟ اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچے کا کیا حکم ہوگا؟ وہ کس سے متعلق ہوگا؟

جواب: صاحب اولاد ہونے کے لیے کسی غیر مرد کا نطفہ حاصل اور استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ بچہ کی پیدائش مستند اور صحیح شرعی شادی کے ساتھ ہونی چاہیے لیکن اگر ایسا انجام پا جائے تو بچہ صاحب نطفہ افراد سے متعلق ہوگا اور جس عورت کے رحم میں اس نے پرورش پائی ہے وہ بھی اس بچہ کے لیے محرم ہے مگر اس سے میراث نہیں پائے گا۔

حمل ٹھرنے سے روکنا (موانع حمل)جان کی حفاظت سے مربوط مسائل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma