دیت کے متفرق مسایل

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
استفتائات جدید 01
دیت معاف کر دیناپینتالیسویں فصل بینک کے مسایل

سوال ۱۳۵۶۔ کیا جنایت کرنے والا دیت کے علاوہ پہچنے والے دوسرے زخموں اور نقصانات کا بھی زمہ دار ہے جیسے کیس کے سلسلے میں خرچ ہونے والا پیسا، کام نہ کر پانے کا ہرجانہ وغیرہ؟
جواب: مقررہ شرعی دیت کے علاوہ کا وہ ضامن نہیں ہے لیکن اگر علاج ک خرچ دیت کے مال سے زیادہ ہو تو احتیاط واجب کی بناء پر ہے وہ اسے بھی ادا کرے گا۔

سوال ۱۳۵۷۔ دیت کی قانونی ماہیت کیا ہے؟ کیا وہ سزا یا نقصان کے ہرجانہ کے طور پر ادا کی جاتی ہے اس صورت میں اگر پہچنے والے نقصان کا خرچ دیت کی رقم سے زیادہ ہو تو کیا وہ اسے لینے کا حق رکھتا ہے؟

جواب: دیت مادی نقصان کے ہرجانہ کے طور پر ہے لیکن اگر کہیں پر نقصان کی بھرپایی کے علاوہ علاج معالجہ میں پیسا دیت کی رقم سے زیادہ خرچ ہو گیا ہو تو جیسا کہ اس سے پہلے مسئلہ میں بیان ہوا، احتیاط واجب کی بناء پر اس ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ (البتہ ضرورت بھر ادا کرنا ضروری ہے اس سے زیادہ نہیں۔)

سوال ۱۳۵۸۔ ایک شخص ولیڈر ہے جس نے ایک عمارت کی ویلڈینگ کا کام اپنے ذمہ لیا ہے اور بلڈر سے معاہدہ کیا ہے، ویلڈر نے ویلڈینگ کے لیے پاس سے گزرنے والے بجلی کے کھمبے سے تار جوڑ لیا جو کہ غیر قانونی ہے، بجلی کا پاور زیادہ ہونے اور کرنٹ لگنے کی وجہ سے اسے جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اس صورت میں ذمہ دار کون ہے بلڈر یا خود وہ؟

جواب: یہاں پر ولیڈر زمہ دار ہے۔

سوال ۱۳۵۹۔ اگر کسی کی موت اس کے گھر والوں اور سماج کے لیے بہت بڑا مادی و معنوی نقصان اور خلاء ہو تو کیا ایسی صورت میں دیت کی مقدار جو صرف مادی نقصان کے ہرجانہ کے طور پر ہے، برھ سکتی ہے اس لیے اس موت سے بہت سے لوگوں کا نقصان ہوا ہے؟

جواب: اگر لوگ ایک دوسرے سے فرق رکھتے ہیں مگر شارع مقدس نے سب کے لیے ایک طرح کی دیت کو رکھا ہے (فرق صرف عورت اور مرد کی جدا دیت جیسے مورد میں ہے) اور ممکن ہے اس کا فلسفہ یہ ہو کہ دیت کے جدا ہونے کا کوئی واضح معیار نہیں ہے اور اس سماج میں کافی پریشانیاں پیدا ہو سکتی تھیں جن کا نقصان ان کے فایدے سے زیادہ ہوتا۔

سوال ۱۳۶۰۔ جنایت کرنے والے کو دیت ادا کرنے کی صورت میں نوع دیت کا اختیار کس کو ہوگا، دینے والے کو یا لینے والے کو؟

جواب: جن موارد میں حکم، قصاص پر مبنی ہوگا وہاں دیت کی نوع کا انتخاب طرفین کی رضایت اور ان کی مرضی سے ہوگا۔

سوال ۱۳۶۱۔ قتل عمد میں اگر باپ قصاص کے بدلے دیت پر راضی یو جائے لیکن دادا مخالفت کرے اور دیت کے بجائے قصاص کا طلبگار ہو تو کس کی بات مانی جائے گی پاب کی یا دادا کی؟

جواب: پاب کے ہوتے ہوئے نوبت دادا تک نہیں پہچے گی۔

سوال ۱۳۶۲۔ ہمارے علاقہ میں رسم ہے کہ فرصت اور مختلف مناسبت کے ایام میں ہر محلہ میں تمام لوگ جمع ہوتے ہیں اور تفریح اور فن و ہنر کے طور پر نشانہ بازی کا مقابلہ ہوتا ہے، ایک بار ایک مقابلہ میں ایک شخص نے ایک ۱۲،۱۳ سال کے بچے کو کلاشنکوف دے دیا حالانکہ لوگوں نے سمجھایا کہ خیال رکھنا اس نے کہا ٹھیک ہے اور اسے بتانے لگا کہ ایسے کرو ویسے کرو اس دوران بچہ اس کے باتوں پر عمل کرتا رہا لیکن چونکہ اسلحہ چلنے کے لیے تیار تھا اور بچہ کے اختیار سے خارج ہو گیا اور سکھانے والا اس کا شکار ہوگیا اس مقدمہ میں ضمن میں درج زیل سوالوں کے جواب عنایت کریں:
الف۔ کیا سکھانے والے کو یہ حق پہچتا ہے کہ وہ والدین کی مرضی کے بغیر ان کے نابالغ بچے کو اسلحہ سکھائے؟
ب۔ مقتول اپنے قتل میں شریک ہے یا خود اس کا ذمہ دار ہے؟ مقتول کی دیت کس کے ذمہ ہے؟
ج۔ اس صورت میں کہ دیت کا تعلق عاقلہ (دیت دینے والے کے قریبی رشتہ دار) سے ہوتا ہے تو کیا اس میں پاب کے ہوتے ہوئے دوسرے رشتہ دار بھی شامل ہونگے؟ اور عاقلہ پر دیت کس حساب سے تقسیم ہوگی؟

جواب: الف۔ اس کو ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں پہچتا تھا۔
ب۔ اگر ایسا کرنا اور بچہ کے ہاتھ میں اسلحہ دینا عرفا خطرناک حساب شمار ہوتا ہو تو سکھانے والا اس کا ذمہ دار ہے اور اگر وہ اس میں مارا جائے تو دیت کسی کے ذمہ نہیں ہے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو دیت عاقلہ پر واجب ہے۔
ج۔ احتیاط یہ ہے کہ پاب بھی ان میں شریک ہو جائے حالانکہ دوسروں کی شرکت اس مین قطعی اور یقینی ہے اور دیت کا حساب سب کے مالی حالات سے کیا جائے گا اب یا تو وہ سب مل کر خود حساب کر لیں گے یا حاکم شرع کی مدد سے ایسا کریں گے۔

سوال ۱۳۶۳۔ مقتول کے خون کے بدلے دیت لینا کیا حکم رکھتا ہے؟ راہنمایی کریں۔

جواب: دیت اللہ کے ذریعہ دیا ہوا ایک حق ہے۔ ان موارد میں جہاں شریعت نے اجازت دی ہے اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر چہ بعض موارد میں اس کا معاف کر دینا بہتر ہے۔

سوال ۱۳۶۴۔ ایک شخص نے ایکسیڈینٹ میں ایک انسان کی جان لے لی ہے، عدالت نے یہ فیصلہ سنایا ہے کہ قاتل دیت کرے، دیت ادا کرنے سے پہلے قاتل کی موت ہو جاتی ہے تو کیا ب اس کے ورثاء پر واجب ہے کہ اس کی دیت ادا کریں؟

جواب: دیت بھی میت کی دوسری تمام واجب الادا چیزوں کی طرح ہے لہذا واجب ہے کہ اس کے مال سے اسے ادا کیا جائے۔

سوال ۱۳۶۵۔ ولی کی ولایت کا دایرہ کہاں تک ہے مالی حقوق تک یا تمام موارد میں؟ دوسرے لفظوں میں کیا ولی جان یا عضو کے قصاص کے بدلے میں قاتل کو معاف کر سکتا ہے یا اس کے لیے لازم ہے کہ وہ دیت لینے کے بعد معاف کرے، ایسا کرنے کی صورت میں کیا وہ اپنے فایدہ کے لیے اس میں تصرف کر سکتا ہے؟

جواب: صغیر کے ولی کی ولایت دیت وغیرہ کو بھی شامل کرتی ہے، لیکن اسے حق نہیں ہے کہ وہ صغیر کے فایدہ کے خلاف دیت وغیرہ کو معاف کر دے یا اپنے فایدہ میں استعمال کرے۔

سوال ۱۳۶۶۔ خلیجی ممالک میں کمپنیاں کام کرنے والے اپنے کاریگروں کو اگر وہ کمپنی میں کام کے دوران عمارت سے گر کر مر جائیں تو ان کے ورثاء کو تیس ملین تومان دیت کے طور پر دیتی ہیں، اس پیسے کا لینا کیا حکم رکھتا ہے؟

جواب: اگر یہ دیت ان کے کام کے معاہدے کی شرطوں کے ضمن میں ہے تو اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ممکن ہے اس شرط کا ذکر اس کی نوکری کے وقت کیا گیا ہو یا یہ کہ قانونی طور پر وہاں کے مزدور قانون میں موجود ہو ۔

سوال ۱۳۶۷۔ مقتول کی دیت بھی کیا اس کے ترکہ کا حصہ ہے اور وہ بھی میراث کے قانون کے مطابق ورثاء میں تقسیم کی جائے گی؟

جواب: تمام نسبی و سسبی رشتہ دار دیت میں سے میراث پائیں گے سوائے ماں کی طرف سے رشتہ میں ہونے والے بھائی اور بہن کے۔

سوال ۱۳۶۸۔ اگر کسی نے کسی کی بیوی کا قتل کر دیا ہو اور اس کا شوہر کے علاوہ کوئی وارث نہ ہو تو کیا شوہر قاتل سے اس کی تدفین اور اس کے بعد مجلس وغیرہ کے سلسلے میں ہونے والے اخراجات کا مطالبہ کر سکتا ہے؟

جواب: وہ صرف اس کی دیت لے سکتا ہے کسی اور چیز کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

سوال ۱۳۶۹۔ گزشتہ سال مجھ سے ایک ایکسیڈینٹ ہو گیا تھا جس سے ایک شخص اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور مجھ پر دیت دینی لازم ہو گئی، اب ایک سال سے زیادہ ہو چکا مگر میں نے قرض اور بیمہ کی رقم کے باوجود صرف نصف کے قریب ہی ادا کر سکا ہوں، کیا میں بقیہ پیسوں کو قسطوں میں ادا کر سکتا ہوں؟

جواب: آپ اس دیت کو دو سال میں ادا کر سکتے ہیں، ہر سال میں نصف کے حساب سے، اور اگر مرنے والے کے رشتہ دار راضی ہوں تو مدت کو اور آگے بھی بڑھا سکتے ہیں۔

سوال ۱۳۷۰۔ اگر کسی ایکسیڈینٹ میں مقتول ڈرایور قصوروار نکلے تو کیا پھر بھی وہ قتل خطاء کا مرتکب حساب ہوگا اور مقتول کی دیت عاقلہ (قریبی رشتہ دار) پر واجب ہوگی؟

جواب: ایکسیڈینٹ کے حادثہ میں ہونے والے قتل پر قتل خطاء صدق نہیں کرتا۔ اگر ڈرائیور کی غلطی ہو تو شبہ عمد ہے اور اگر راہگیر کا قصور ہو تو ایسا ہے جیسے اس نے خود کو گاڑی کے نیچے ڈالا ہے لہذا کسی دیت کا معاملہ نہیں بنتا لیکن اگر قتل میں دونوں کی غلطی ہو تو ڈرائیور سے اس کے حصہ کی دیت لی جائے گی۔

سوال ۱۳۷۱۔ ایک قتل غیر عمدی انجام پایا ہے اور اس مدت میں دیت کی مقدار میں تبدیلی آ چکی ہے، اب دیت ادا کرنے والے کے ذمہ موجودہ دیت واجب الادا ہے یا سابقہ؟

جواب: موجودہ قیمت اس کے ذمہ واجب الادا ہے مگر یہ کہ پہلے کسی متعین مقدار پر گفتگو و مصالحت ہو چکی ہو۔

سوال ۱۳۷۲۔ ایک انسان کو کئی لوگوں نے ایک ساتھ گولی ماری ہے جس سے اس کی موت واقع ہوئی ہے اب ظاہر ہے کہ وہ ایک یا چند گولی سے مرا ہے مگر یہ نہیں معلوم کہ کس کی گولی سے مرا ہے مگر یہ مسلم ہے کہ انہیں چند افراد کی گولی سے مرا ہے، اس کا حکم بیان کریں؟

جواب: اگر ثابت ہو جائے کہ ان میں سے کسی کی گولی سے مرا ہے مگر قاتل کو ثابت کرنے کا کویء ذریعہ نہ ہو تو دیت ان سب میں تقسیم ہو جائے گی۔

سوال ۱۳۷۳۔ اگر تین لوگوں نے مل کر ایک شخص کو مارا ہو اور مقتول کا ولی تینوں سے قصاص کا طلبگار ہو تو نوع فاضل دیت جو ولی کے ذریعہ واجب الادا ہوتی ہے اسے کون متعین کرے گا؟ مقتول کا ولی یا قاتلوں کے ولی؟

جواب: مقتول کا ولی انتخاب کرے گا۔

سوال ۱۳۷۴۔ اس بات کے مد نظر کہ اسلامی شرع اور قانون میں دیت جنایت کرنے والے کو ادا کرنی ہوتی ہے اور نوع دیت کا اختیار بھی اسے ہوتا ہے اگر اسے نوع دیت کے انتخاب کے وقت قیمت کا صحیح اندازہ نہ ہو یا اسے صحیح طرح سے بتایا نہ گیا ہو اور وہ علم نہ ہونے کی بنیاد پر گائے یا بھیڑ کا انتخاب کرے اور انتخاب اور حکم صادر ہونے کے بعد اور مہلت ختم ہونے اور اجرای حکم سے پہلے وہ یہ اظہار کرے کہ میں بھیڑ کی نوع کی دیت ادا نہیں کر سکتا بلکہ اونٹ کی نوع کی ادا کر سکتا ہوں تو کیا وہ ایسا کر سکتا ہے؟ علم اور اطلاع ہونے کی صورت میں نوع دیت کو تغییر دینے کا کیا حکم ہے؟

جواب: کوئی حرج نہیں ہے، دونوں صورتوں میں نوع دیت کو تغییر دیا جا سکتا ہے۔

دیت معاف کر دیناپینتالیسویں فصل بینک کے مسایل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma