ڈاکٹر کا قصوروار ہونا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
استفتائات جدید 01
معاءنہ و معالجہ سے متعلق مسائلعلاج اور معائنہ کے اخراجات سے متعلق مسائل

سوال ۱۳۹۲۔ اگر ڈاکٹر مریض کے اصرار پر اسے ایسی دوا لکھ دے جو اس کے لیے نقصان دہ ہو اور ایسے کام انجام دے جو مضر ہوں تو کیا وہ قصوروار شمار ہوگا؟

جواب: اگر ڈاکٹر نے دوا کے نقصان دہ ہونے کو بیان کر دیا تھا تو نقصان ہونے کی صورت میں اس پر کوئی ذمہ داری نہیں بنتی، لیکن اگر اس نے بیان نہیں کیا تھا تو وہ ذمہ دار اور قصوروار ہے ۔ البتہ ہر صورت میں ڈاکٹر کو نقصان دہ دوا بتانے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔

سوال ۱۳۹۳۔ اس بات کہ پیش نظر کہ مریض فوری طور ہر خطرہ کی حالت میں ہو، اور کسی دوا کے بارے میں مریض کی حساسیت کا تعین نہ کیا جا سکے اور ڈاکٹر کے دوا تجویز کرنے سے مریض میں حساسیت پیدا ہو جائے اور اسے نقصان پہچا دے یا موت کا سبب بن جائے تو کیا اس میں ڈاکٹر قصوروار شمار ہوگا؟

جواب: بیمار یا اس کے ولی سے اس کام کی اجازت لینا ضروری ہے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو ہم انہیں حاکم شرع کی حیثیت سے اس کام کی اجازت دیتے ہیں لہذا وہ قصور وار شمار نہیں ہوں گے مگر شرط یہ ہے کہ وہ دقت سے اسے انجام دین۔

سوال ۱۳۹۴۔ موجودہ دور کے مطابق جس میں کسی ایک خاص دوا کی حساسیت کا تعین کرنا ممکن نہ ہو تو کیا نقصان کی صورت میں ڈاکٹر قصور وار شمار ہوگا؟

جواب: اگر وہ دوا اپنی نوعیت مں منحصر نہ ہو اور مریض کے لیے فوری معالجہ بھی ضروری نہ
ہو تو اس دوا کا انسان کے لیے استعمال کرنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر دوا اپنی نوعیت میں منفرد و منحصر ہو اور اس کا استعمال کرنا ضروری ہو اور فایدہ کا احتمال نقصان سے زیادہ ہو تو اسے استعمال کرنا چاہیے ۔

سوال ۱۳۹۵۔ کلی طور پر جدید علوم کے پیش نظر اگر ہمیں معلوم ہو یا احتمال ہو کہ مریض کی نجات کسی ایسی دوا کے علاج سے وابسطہ ہے جو اس کے لیے مضر ہو سکتی ہے اور یہ ضرر احتمال قوی کے مطابق سب کو ہو سکتا ہے اور ڈاکٹر اسے تجویز کر دے تو وہ قصور وار شمار ہوگا؟

جواب: اگر دوا اپنی نوعیت میں منحصر بفرد ہو اور اس کا فایدہ نقصان سے زیادہ ہو اور ڈاکٹر نے اس کے بارے میں مریض کو بتا دیا ہو تو ڈاکٹر کے لیے تجویز کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

سوال ۱۳۹۶۔ اگر کچھ دوائیں جان بچانے کی بجائے فقط مریض کو مرض جسیے بخار، خارش، درد، زخم سے نجات دلانے کے لیے کھائیں جائیں اور اس بات کا یقین یا احتمال ہو کہ وہ موثر واقع ہوں گی اور اس بات کے مد نظر کہ بہت سی موثر دوائیں کم یا زیادہ مدت کے بعد عارضہ لاحق کرتی ہیں، ڈاکٹر کی انہیں تجویز کرنے یا بیماری سے زیادہ مہلک عارضہ کا سبب بننے کی صورت میں کیا ڈاکٹر اس کا ذمہ دار ہوگا؟ (قابل ذکر بات یہ ہے کہ اکثر و بیشتر ایسا ہی ہوتا ہے لہذا اس بات کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، دوسری طرف اگر ہم یہ سوچیں کہ علاج سے کوئی نقصان یا عارضہ پیش نہ آئے تو ظاہر ہے کہ کسی کا علاج ممکن نہیں ہو سکے گا۔)

جواب: اگر علاج سے خطرناک ضرر نہ پہچ رہا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اس لیے کہ بہرحال دواوں کے کچھ سایڈ افیکٹس ہوتے ہیں لیکن اگر ان سے نہایت سنگین نقصان پہچ رہا ہو تو ان کا تجویز کرنا جایز نہیں ہے مگر یہ کہ ضرورت کے وقت وہ بھی مریض یا اس کے ولی کی اجازت کے بعد ۔

سوال ۱۳۹۷۔ اگر موثر دوائیں کسی وجہ سے میسر نہ ہوں تو کیا ڈاکٹر جس دوا کے موثر ہونے کا احتمال دیتا ہے اسے تجویز کر سکتا ہے؟ اس میں ناکام ہونے کی صورت میں کیا ڈاکتر ذمہ دار ہوگا اور خرچ ہونے والا پیسا اس کی گردن پر ہوگا؟

جواب: اگر علاج انہیں دواوں پر منحصر تھا تو انہیں تجویز کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ البتہ مریض کو ساری باتیں بتا دینی چاہیے اور اس کی رضایت حاصل کر لینی چاہیے ۔

سوال ۱۳۹۸۔ طباطت کے رشد و ارتقاء اور اس کی وسعت و ہمہ گیری کے پیش نظر بلا شبہ تمام امراض اور ان سے متعلق تمام موثر دواوں اور ان سے لاحق ہونے والے عارضوں کی جان کاری کو ذہن میں رکھنا ممکن نہیں ہے لہذا اگر کوئی ڈاکٹر فراموشی کی صورت میں اپنی یادداشت اور احتمال سے ایمرجنسی میں فوری طور پر مریض کی جان بچانے کی خاطر کوئی دوا تجویز کرے اور اس میں غلطی کر بیٹھے تو کیا بیمار کے جان سے ہاتھ دھونے یا پیسے خرچ ہونے کا ذمہ دار ہے؟ (جبکہ کسی دوسرے ماہر ڈاکٹر کے پاس بھیجنا بھی ممکن نہیں تھا۔)

جواب: اس کا جواب بھی وہی ہے جو اس سے پہلے والے مسئلہ کا تھا۔

سوال ۱۳۹۹۔ اگر پوری طرح سے چیک اپ کرنے کا امکان نہ ہو اور علاج ممکن نہ ہو سکے اور مریض کا مرض بڑھ جائے یا اس کی موت ہو جائے تو کیا علاج کرنے والا ڈاکٹر قصور وار شمار ہوگا؟

جواب: ڈاکتر ذمہ دار نہیں ہے البتہ اس کا فریضہ ہے کہ وہ مریض کو مشکوک یا مضر دوا نہ دے ۔

سوال ۱۴۰۰۔ بعض امراض کے علاج میں جیسے بلڈ پریشر ہائی ہونا وغیرہ ان کی علت کے معلوم نہ ہونے کی بناء پر ، موجودہ دور میں رایج روش کے مطابق، جن کا اجرا کرنا ضروری ہے ، جس میں ایک یا چند دوا دی جاتی ہے اور فایدہ نہ ہونے کی صورت میں ان کی جگہ دوسری دوا دی جاتی ہے ۔ اس بات کہ مد نظر کہ یہ دوائین تمام افراد کے لیے موثر نہیں ہوتیں اور ممکن ہے کہ بعض افراد میں معمولی علاج موثر واقع ہو اور بعض میں دوسرا علاج، اور ان سے لاحق ہونے والے عارضے بھی مخصوص ہیں تو کیا ایسا کرنے والا ڈاکٹر جو مختلف دوا کو مریض پر آزماتا ہے ، خرچ ہونے والے پیسوں اور ان سے لاحق ہونے والے عارضوں کا ذمہ دار ہے؟

جواب: اگر علاج اسی پر منحصر ہو تو ڈاکٹر ایسا کر سکتا ہے اور اس کے اوپر کوئی ذمہ داری عاءد نہیں ہوتی ۔

سوال ۱۴۰۱۔ اگر ڈاکٹر موضوع کی کثرت کے سبب نہ جانتا ہو یا بھول جائے کہ اس کی دوا یا علاج حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کے لیے مضر ہے تو ماں یا بچے میں بیماری لاحق ہونے کی صورت میں وہ کتنا قصور وار ہے؟

جواب: ڈاکٹر کا وظیفہ ہے کہ وہ حاملہ عورتوں سے سوال و جواب کرے اور اگر اس نے بغیر معلوم کیے مضر دوا دی ہے تو وہ ذمہ دار ہے ۔

سوال ۱۴۰۲۔ اگر مریضہ ڈاکٹر کے سوال کے جواب میں حمل سے عدم علم کا اظہار کرے یا کسی بھی وجہ سے بتانا نہ چاہتی ہو تو پیش آنے والے احتمالی عارضہ میں ڈاکٹر کس حد تک ذمہ دار ہے؟

جواب: اگر حمل کا معلوم کرنا حاملہ سے سوال پر منحصر ہے تو ڈاکٹر بری الذمہ ہے ۔

سوال ۱۴۰۳۔ اگر ڈاکٹر مریضہ سے حمل کے بارے میں سوال نہ کرے اور اسے بھی بتانا یاد نہ رہے تو نقصان کی صورت میں ذمہ دار کون ہوگا؟

جواب؛ اس بات کا جواب مسئلہ نمبر ۱۴۰۱ سے واضح ہو چکا ہے ۔

سوال ۱۴۰۴۔ کبھی کبھی ڈاکٹر صرف احتیاط کے طور پر یا ایک احتمالی بیماری پر اپنی تجویز سے مطمءن ہونے کی وجہ سے جیسے ہر مشکوک بیمار کے سیل کو غیر اختصاصی علامت کے باوجود ریڈیو گرافی کرانے کو کہتا ہے تا کہ ایک مخفی بیماری کو کشف کر سکے اس کے ثابت ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں (جس کے لیے ریڈیو گرافی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ) کیا داکٹر عارضہ لاحق ہونے یا پیسا خرچ ہونے کا ذمہ دار ہے؟

جواب: اگر بیماری کا احتمال بہت زیادہ اور واضح ہو تو ایسا کیا جا سکتا ہے اور ڈاکٹر ایسا کرنے میں قصور وار نہیں ہے ۔

سوال ۱۴۰۵۔ اس بات کہ پیش نظر کہ بہت سی بیماریوں کا تعین ٹیسٹ کرنے سے ہی ممکن ہوتا ہے جبکہ ٹیسٹ اور اس کی رہورٹ میں بھی غلطی کا احتمال پایا جاتا ہے ، ایسی صورت میں ہاسپیٹل اور ڈاکٹر دونوں میں سے کون ذمہ دار ہوگا؟

جواب: ایسی صورت میں ٹیسٹ کرنے والا ہاسپیٹل ذمہ دار ہے ۔

سوال ۱۴۰۶۔ اس بات کہ پیش نظر کہ حمل پہلے ہفتہ میں آسانی سے پتہ نہیں چل پاتا اور اسی زمانہ میں خطرہ کا سب سے زیادہ احتمال پایا جاتا ہے جو بچے میں شدید اختلالات کے سبب پیدا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ یا تو امکانات یا وقت کی کمی یا اخراجات کے زیادہ ہونے کے سبب مریضہ اس میں دلچسبی نہیں دکھاتی یا اسے اپنے حمل کی ہی خبر نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایسا کرتی ہے ، اسی وجہ سے وہ ڈاکٹر کے حمل کے بارے میں کیے گیے سوالوں کا جواب منفی دیتی ہے ، اور کبھی کبھی ٹیسٹ کی جھوٹی رہورٹ کی وجہ سے ڈاکٹر صحیح تجویز نہیں کر پاتا اور چونکہ اس کو نہیں معلوم ہوتا کہ مریضہ حاملہ ہے وہ مرض کا پتہ لگانے کے لیے مختلف دوائیں اسے دیتا ہے ، ایسی صورت میں ماں یا بچہ کو ضرر پہچنے پر ڈاکٹر ذمہ دار ہے یا نہیں؟

جواب: اگر حمل کو معلوم کرنے کا کویء اور راستہ نہ ہو اور وہ دوائیں اسی سے مخصوص ہوں اور مریضہ سے اجازت لی ہو تو ڈاکٹر ذمہ دار نہیں ہے ۔

سوال ۱۴۰۷۔ اگر ڈاکٹر کوئی روش یا دوا بتائے اور کہے کہ یہ دوا فلاں مرض کے لیے مفید ہے یا یہ کہے کہ اس مرض کا علاج اس دوا پر موقوف ہے ، جبکہ اس کا قصد مریض کے لیے ایسا کرنا نہیں تھا تو کیا اس حالت میں ڈاکٹر ذمہ دار اور قصور وار ہے؟

جواب: اگر ڈاکٹر نے علاج میں کوئی کوتاہی نہ برتی ہو تو وہ ذمہ دار نہیں ہے ۔

سوال ۱۴۰۸۔ جسم کی بہت سی بیماریوں اور اختلالات میں ڈاکٹر مریض کو ریڈیو گرافی، سی ٹی اسکن وغیرہ کرانے کا حکم دیتا ہے جو کہ یقینا بعض افراد کے لیے مضر ہے یا بہت سے موارد میں یہ ٹیسٹ بیماری کی تعیین مین مددگار ثابت ہوتے ہیں، ایسے میں ڈاکٹر کس حد تک ذمہ دار ہے ۔

جواب: اس کا جواب اس سے پہلے والے جواب سے واضح ہو چکا ہے ۔

سوال ۱۴۰۹۔ مندرجہ بالا مسئلہ کی صورت میں اگر بیمار پوری طرح سے بیہوش ہو تو کیا اس کے بالغ رشتہ داروں سے اجازت لی جا سکتی ہے اور ان کی اجازت سے ایسی شرطوں پر عمل کیا جا سکتا ہے؟

جواب: مریض کے ولی سے اجازت لی جا سکتی ہے ۔

سوال ۱۴۱۰۔ ایک نہایت اہم اور بنیادی سوال پیش آتا ہے وہ یہ کہ کلی طور پر اور علاج کی تمام تر روشوں میں ڈاکٹر کچھ بھی کرنے سے پہلے مریض یا اس کے ولی سے (اگر مریض بالغ و عاقل نہ ہو) کو بتاتا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ طریقہ علاج زیادہ کارگر واقع نہ ہو اور اس میں بیکار میں پیسا اور وقت ضایع ہو اور دوسری طرف ممکن ہے کہ اس کے کچھ سایڈ افیکٹس بھی پائے جاتے ہوں اس طرح ان مطالب کے ذکر کے ساتھ ڈاکٹر کسی بھی طرح کے معاینہ، طریقہ علاج اور دوا تجویز کرنے سے پہلے پیش آنے والے خسارہ اور لاحق پونے والے احتمالی امراض و عارضوں سے خود کو پوری طرح سے بری الذمہ کر لیتا ہے اور مریض مجبوری یا اپنے میل سے ان شرایط کو قبول کرتا ہے ، تو کیا اس صورت میں بھی ڈاکٹر ذمہ دار شمار ہوگا جبکہ اس نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے؟

جواب: اگر ڈاکٹر نے ان سے اجازت لے لی تھی اور خود کو ہر طرح سے بری الذمہ کر لیا تھا تو وہ کسی بھی طرح سے زمہ دار اور قصور وار نہیں ہے ۔

سوال ۱۴۱۱۔ مندرجہ بالا مسئلہ کے مطابق کیا ڈاکٹر کو ہر مریض کے ساتھ ایسی شرط رکھنی پڑے گی اور اس سے متعلق فارم بھروانا یا اطلاعیہ لگانا ہوگا جس کا مطلب یہ ہوگا کہ مراجعہ کرنے والے مریض، ان شرایط کو قبول کرتے ہیں، یا یہ کہ ایسی خبر کے شایع کرنے کے ساتھ اس بات کی اطلاع دی جائے کہ آپ کا فلاں ہاسپیٹل یا ڈاکٹر کو دکھانا یہ شرایط رکھتا ہے جس کے بعد وہ شرعی طور پر بری الذمہ ہو جائے گا؟ لیکن اگر آپریشن سے پہلے بیمار کو اس طرح کے شرایط کے ساتھ ساءن کرنا پرے جس کے مطابق آپریشن ناکام ہونے کی صورت میں ہاسپیٹل یا ڈاکٹر پر کوئی الزام نہ آئے تو کیا کسی بھی طرح کے اختلال میں ڈاکٹر یا آپریشن میں شامل گروہ ذمہ دار نہیں ہوگا؟

جواب: ڈاکٹروں کی اس مشکل کا سب سے مناسب اور معقول حل، شرعی اعتبار سے یہ ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعہ اس بات کا اعلان کر دیں کہ ہم علاج میں اپنی طرف سے پوری سعی و کوشش و دقت کرتے ہیں لیکن امکانات و وسائل کی کمی یا مریض کے جسمانی و روحانی اختلال یا احتمالی خطا جو انسانی طبیعت کا حصہ ہے جس کی وجہ سے وہ جایز الخطا ہے ، ممکن ہے کہ کوئی عارضہ لاحق ہو جائے جس کے لیے ڈاکٹر قصور وار نہیں ہوتا، اس کے پاس علاج کے لیے آنے کا مطلب ان باتوں سے بری الذمہ ہونا ہے ۔ البتہ اگر سہل انگاری کے سبب کچھ ہوتا ہے تو ڈاکٹر اس کے لیے ذمہ دار ہے ۔ اس طرح کے اعلان کو تمام ہاسپیل اور مطب میں لگا دینا چاہیے تاکہ سب کے لیے واضح رہے اور مہم اور بڑے آپریشن سے پہلے براءت والا فارم بھروا لینا چاہیے ۔

سوال ۱۴۱۲۔ مسئلہ ۱۴۱۰ کے فرضیہ کے مطابق اگر بیمار پوری طرح سے بیہوش ہو جائے اور اس کے رشتہ داروں میں سے بالغ و نابالغ کوئی بھی دسترس میں نہ ہو اور اس کی جان فوری طور پر خطرہ میں ہو تو اجازت کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟ کیا ڈاکٹری کے پیشہ کے فرض اور ذمہ داری کے تحت بغیر اجازت کے ہر طرح کے ممکن اقدام کیے جا سکتے ہیں؟ اور اگر سہوا غیر موثر اقدام کے سبب مریض موت کی طرف بڑھنے لگے تو کیا ڈاکٹر قصوروار ہوگا؟ اور اگر معالجہ کے موثر واقع نہ ہونے یا مریض کی مزید حالت خراب ہونے کے خوف یا گردن پر آ جانے کے ڈر سے کچھ نہ کرے تو کیا اس صورت میں ڈاکٹر قصوروار ہوگا؟ اس لیے کہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مریض کا وقت آ چکا تھا مگر اس کے مرنے پر تہمت اس کے ڈاکٹر پر لگائی جاتی ہے؟

جواب: اگر وہ حاکم شرع سے اجازت لے سکتے ہوں تو ایسا کرنا لازم ہے اور ہم ڈاکٹروں کو اس طرح کے موارد کے لیے اجازت دیتے ہیں کہ وہ دقت سے یہ عمل انجام دیں اور مریض کو اس کے حال ہر نہ چھوڑ دیں۔

سوال ۱۴۱۳۔ مذکورہ مسائل کی صورت میں اگر بیمار کا ولی شرط کو قبول نہ کرے تو کیا ڈاکٹر اسے اس کے حال پر چھوڑ سکتا ہے؟

جواب: اگر مریض خطرہ کی حالت میں نہ ہو تو اسے اس کے حال پر چھوڑا جا سکتا ہے۔

سوال ۱۴۱۴۔ میڈیکل کے جدید کشف و ایجاد کے بارے میں ایک اہم سوال اور نکتہ یہ ہے کہ ہر سال، ہر ماہ بلکہ ہر روزاس کے مختلف علوم و شعبوں سے متعلق نئے نتائج و تحقیقات کا اعلام کیا جاتا ہے جس کے مطابق نئی اور مختلف دوائیں اور غذائیات مریض کو بتائیں جاتی ہیں اور اس کے بر عکس کبھی بعض گزشتہ روش اور دواوں اور غذائیات کو پوری طرح سے غیر موثر، مضر اور بے فائدہ قرار دیا جاتا ہے۔ تو کیا ڈاکٹر نے جو اس گزشتہ روش اور طریقوں پر عمل کر کے نقصان یا پیسا تلف کیا ہے جبکہ اسے یا کسی کو بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ مضر و بے فائدہ ہیں جو بعد کی تحقیقات کے بے فائدہ ثاہت ہوئے ہیں تو کیا ڈاکٹر قصوروار ہے؟

جواب: اس عرصہ میں مریضوں کا ڈاکٹر کے پاس جانا برائت ضمنی میں حساب کیا جائے گا، اس لیے ڈاکٹر ضامن نہیں ہے۔

سوال ۱۴۱۵۔ اگر جدید تحقیقات سامنے آنے کے بعد ڈاکٹروں تک کافی دیر سے پہچے تو ظاہر ہے کہ وہ طبیعی طور پر انہیں پرانی روش سے عمل کر رہے ہوں گے تو کیا اس بارے میں ڈاکٹر صحیح علاج نہ کرنے اور پیسے کے ضائع ہونے کا ذمہ دار ہے؟

جواب: اس کا جواب بھی وہی ہے جو ۱۴۱۱ کا ہے۔

سوال ۱۴۱۶۔ اس بات کے پیش نطر میڈیکل کی جدید تحقیقات روز بروز منظر عام پر آ رہی ہیں لہذا گزشتہ روشوں کے مطابق اسٹوڈینٹ کو تعلیم دینا ممکن نہیں ہے، تو ظاہر ہے کہ جدید روش سے تعلیم دینا کیسے ممکن ہو سکتا ہے، اس تمہید کے مد نظر کیا ڈاکٹر فقط پرانی روش اور طریقہ علاج پر اکتفا کر سکتا ہے یا محدود وقت میں وہ دونوں روشوں کو سیکھے کی کو شش کرے۔ اگر اس کے با وجود وہ جدید کشف ہونے والی مھم تحقیقات کی سے با خبر یا متوجہ نہ ہو سکے تو کیا وہ قصوروار ہے؟

جواب: میڈیکل کے اسٹوڈینٹ کو چاہیے کہ وہ تحصیل کے ایام میں شدید محنت کریں اور اگر وہ مسئلہ نمبر ۱۴۱۱ کے مطابق عمل کریں تو ضامن نہیں ہیں۔

سوال ۱۴۱۷۔ اگر اطلاع و انفارمیشن حاصل کرنے کے وسائل کے موجود نہ ہونے یا اس کی کمی کی وجہ سے جدید تحقیقات و کشف کا علم نہ ہو سکے تو گزشتہ روش کے بے فائدہ ہونے کی ذمہ کس پر عائد ہوتی ہے؟

جواب: اس کا جواب مسئلہ نمبر ۱۴۱۱ میں گذر چکا ہے۔

۱۴۱۸۔ اس بات کے مد نظر کہ دنیا میں بہت سے گروہ میڈیکل کی جدید تحقیقات میں مشغول ہیں اور برابر اپنی تقحیقات کے نتائج کا اعلان کرتے رہتے ہیں، ممکن ہے کہ ان میں بعض لوگ علمی و اخلاقی و صداقت کے اعتبار سے قابل تائید نہ ہوں، دوسرے الفاظ میں کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ان کے ذریعہ اعلان شدہ تحقیق پوری طرح سے صحیح ہو، اور ایک بات قابل ذکر یہ ہے کہ ان تحقیقات کو چیک اور ان کی تائید و تردید کرنے کے لیے ایسا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے جس کی بات کا یقین کیا جا سکے اور اگر موجود بھی ہوں تو انہیں کافی وقت لگتا ہے کہ صحیح نتیجہ کو پیش کر سکیں، ایسے حالات میں اگر کسی تحقیق کا نتیجہ جو معتبر خبروں یا اخباروں میں اعلان کیا جاتا ہے جو پرانی روش کے موازنہ میں جس پر فائدہ کے کامل اور قطعی ہونے کا یقین نہیں تھا، سے مختلف یا اس کی تکمیل کرنے والا ہو تو کیا ایسی صورت میں ہمارا فریضہ کیا ہے؟ پرانی روش پر عمل کریں یا جدید؟

جواب: ڈاکٹر کا فرض ہے کہ وہ ضروری تحقیق کرے اور امکان کی صورت میں دوسرے ڈاکٹروں سے مشورہ کرے اور جو روش بہتر معلوم ہو اس کا انتخاب کرے۔

سوال ۱۴۱۹۔ اگر کسی ڈاکٹر کے علم اور طریقہ علاج کو مذکورہ مشکلات کے باوجود، اگر وہ اس طرح کے مسائل سے رو برو ہو تو صرف اس صورت میں اس کو اجازت دی جائے کہ وہ اس زمینہ میں کافی ماہر اور تجربہ کار ہو تو عملا معالجہ کے مسائل میں اختلال پیدا ہو جائے گا، مثلا:
اول: یہ کہ ہر ڈاکٹر کو مہارت اور تجربہ تک پہچنے کے لیے نا تجربہ کاری کی راہ گذرنا پڑتا ہے۔
دوم: یہ آبادی کی کثرت، وسائل کی کمی، وقت کی کمل اور دوسری بہت سی وجوہ کے تحت، خاص طور پر ایران میں یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ ڈاکتر ابتداء سے ہی پوری مہارت سے علاج و معالجہ کر سکتا ہے۔
ان باتوں اور اس تمہید کے بعد درج ذیل سوال و مسائل پیش آتے ہیں:
الف: ایسے موارد میں جب ڈاکٹر ایک بیماری کے لیے موثر دوا تجویز کرنا یا اس سے ہونے والے ضمنی نقصان کو بھول جائے، مزید اس کے پاس اطلاعات حاصل کرنے کا امکان نہ ہو یا کوئی دوسرا ماہر ڈاکٹر موجود نہ ہو۔
ب: ڈاکٹر مطمئن ہے کہ فلان دوا مریض کے لیے مفید ہے اور اسی طرح سے مطمئن ہو یا احتمال دے کہ اس دوا کے ساتھ خفیف یا شدید سائڈ افیکٹ بھی ہو سکتا ہے، ممکن ہے کہ وہ اس کی موت کا سبب بھی بھی بن جائے، البتہ یہ الف اور ب تجویز کے مسائل میں بھی پیش آ سکتے ہیں۔ کیا ڈاکٹر ان حالات میں مریض کو اس کے حال پر چھوڑ سکتا ہے اور یہ فرض کر سکتا ہے کہ گویا ڈاکٹر کی عدم موجودگی میں جو اللہ کی مرضی ہوگی وہی ہوگا اور خود کو مواخذہ و ضمانت کے خطرہ میں نہ ڈالتے ہوئے، مریض کو اللہ کے حوالے کر دے تا کہ وہ خود ٹھیک ہو جائے اور اسے تحقیقات کے لیے وقت مل جائے یا مریض کا مرض دھیرے دھیرے بڑھتا رہے اور وہ موت کی نیند ہو جائے۔ اصولا اس طرح کے موارد میں جہاں واقعی ڈاکٹر کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ مریض کی جان بچانے یا اسے درد سے نجات دلانے کے لیے کیا کرے اور ایسی میں اس کا فریضہ کیا ہے؟ تو کیا ایسے میں اس کا فریضہ ہے کہ وہ بغیر اطمینان اور یقین کے علاج کرے، ممکن ہے یہ علاج مریض کے مرض کے بڑھنے یا اس کی موت کا سبب بن جائے؟ یا پھر وہ کچھ بھی نہ کرے اور مریض کو اس کے حال پر چھور دے؟ اگر ڈاکٹر بغیر اطمینان و یقین کے علاج کرے اور مریض کو نقصان پہچ جائے یا مر جائے تو وہ قصور وار ہوگا؟ اگر وہ علاج کے لیے کوئی قدم نہ اٹھائے تو کیا ضامن ہوگا؟ اس نکتہ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ کبھی کبھی کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرنے یا مریض کو کسی ماہر ڈاکٹر کے پاس بھیجنے کا وقت نہیں ہوتا، آخر میں بات کو واضح کرنے کے لیے ایک مثال دینا چاہتا ہوں وہ یہ کبھی ایسا ڈاکٹر جو تجربہ کار نہیں ہوتا یا مریض بیہوش ہو جاتا ہے اور اسے پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیوں بیہوش ہوا ہے، آیا وہ شوگر کے لو یا ہائی ہونے کے سبب بیہوش ہوا ہے یا ایسا ہونا طبیعی ہے، جبکہ ان حالات کا علاج پوری طرح سے ایک دوسرے کے الٹ ہے اور ڈاکٹر کے لیے غلطی کا سبب بن سکتا ہے۔

جواب: اس مسئلہ کی چند حالتیں ہو سکتی ہیں:
الف: اگر مریض کو قطعی یا ظنی خطرہ پیش نہ ہو اور معالجہ بھی غیر مطمئن ہو تو اس صورت میں وہ علاج نہ کرے۔
ب۔ اگر معالجہ میڈیکل کے عرف کے مطابق قابل قبول ہو اگرچہ خطرہ کا احتمال پایا جاتا ہو، اس طرح کے مورد میں ڈاکٹر علاج کر سکتا ہے، خاص طور سے اس وقت جب مریض کے لیے خطرہ موجود ہو۔
ج۔ اگر خطرہ یقینی ہو اور علاج غیر مطمئن ہو مگر نجات کی امید ہو اور کسی دوسرے ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹر موجود یا دسترس میں نہ ہو تو یہاں پر بھی وہ علاج کر سکتا ہے، اس رعایت کے ساتھ جو مسئلہ نمبر ۱۴۱۱ میں گذر چکی ہے۔

۱۴۲۰۔ اگر ڈاکٹر کسی مریض کے علاج میں اپنی پوری کوشش کر لے لیکن اسے کوئی فائدہ نہ پہچے تو کیا ڈاکٹر اس پیسے کا ضامن ہے جو اسے دیا گیا ہے؟

جواب: اگر ڈاکٹر نے ضابطہ کے مطابق اپنا فریضہ انجام دیا ہے تو وہ ذمہ دار اور ضامن نہیں ہے۔

۱۴۲۱۔ ایک ماہر اور حاذق ڈاکٹر نے ایک مریض کا آپریشن کیا بغیر کسی سستی و سہل انگاری کا ثبوت دیئے، مگر آپریشن کے بعد مریض کو نقصان پہچ گیا، مہربانی کرکے درج زیل سوالوں کے جواب عنایت کریں:
الف: مریض یا اس کے رشتہ داروں کی اجازت کے بغیر ایسا کرنے کی صورت میں حکم کیا ہوگا؟
ب: اجازت لینے میں غفلت سے کام لینے کی صورت میں حکم کیا ہوگا؟
ج: مریض بیہوشی کی حالت میں تھا اور کوئی قریبی وہاں پر موجود نہہں تھا، تاخیر مریض کے لیے خطرہ کا سبب بن سکتی تھی؟
د: مذکورہ تاخیر اگر نقص یا خرابی عضو کا سبب بنتی تو حکم کیا ہوگا؟
ھ: اگر ان صورتوں میں دیت مریض کو دی جائے گی تو دیت کس کے ذمہ ہوگی؟

جواب: الف اور ب کی صورت میں ڈاکٹر ضامن اور قصوروار ہے۔ ج کی صورت میں اگر حاکم شرع دسترس میں ہو تو اس سے اجازت لے سکتا ہے اور اگر دسترسی میں نہ ہوں تو ہم انہیں اجازت دیتے ہیں اور وہ ضامن نہیں ہیں۔ اور د کی صورت میں اگر اس نے کوتاہی یا سہل انگاری کی ہے تو گناہ کا مرتکب ہوا ہے مگر اس پر دیت واجب نہیں ہے۔ ھ کا جواب ان سب سے واضح ہو گیا ہے۔

سوال ۱۴۲۲۔ ان موارد کے بارے میں بیان فرمائیں جہاں ڈاکٹر کے لیے اجازت لینا ضروری ہے تا کہ وہ ضامن نہ ہو:
الف: طفل ممیز کے ولی سے اجازت لینا کافی ہے یا خود اس سے بھی اجازت لینی چاہیے؟
ب: ایسا مریض جو بیہوش ہو اس کے آپریشن کے لیے کس سے اجازت لینا ضروری ہے آیا ترتیب یا اولویت کا لحاظ کرنا چاہیے؟
ج: ایسا مریض جو بیہوشی کی حالت میں ہو یا ایسا بچہ جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اس کا کوئی ولی ہے یا نہیں اور حاکم شرع تک بھی رسائی نہ ہو کہ اس سے اجازت لی جا سکے اور عادل مومنین بھی موجود نہ ہوں اور علاج فورا کرنا ضروری ہو تو اس وقت ڈاکٹر کا فریضہ کیا ہے؟
د: کیا ڈاکٹر حاکم شرع سے اس طرح کے تمام موارد کے لیے پہلے سے اجازت لے سکتا ہے۔

جواب: الف: ولی سے اجازت لینا کافی ہے۔
ب۔: اس کے شرعی ولی سے اجازت لی جائے گی اور اگر شرعی والی نہ ہو تو حاکم شرع سے۔
ج: اس طرح کے موارد میں ہم ڈاکٹروں کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ دقت اور احتیاظ کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کریں۔
د: ایسے موارد میں جہاں ولی تک رسائی نہ ہو یا اصلا ولی نہ ہو ایسا کیا جا سکتا ہے۔

سوال ۱۴۲۳۔ اگر کسی ماہر اور حاذق ڈاکٹر کے مرض کے صحیح تجویز نہ کر پانے کے سبب مریض کو نقصان پہچ جائے تو کیا اس مریض کو دیت دی جائے گی؟ اگر ہاں تو دیت کس کے ذمہ ہوگی؟
ب: اگر اس نے مرض کی تشخیص میں کوتاہی کی ہو تو حکم کیا ہوگا؟

جواب: پہلی صورت میں وہ ضامن ہے مگر یہ کہ اس نے پہلے ہی خاص یا عام طور پر برائت حاصل کر لی ہو اور دوسری صورت میں بہرحال ڈاکٹر ضامن ہے کیونکہ اس نے کوتاہی کی ہے۔

سوال ۱۴۲۴۔ آپریشن مین ڈاکٹر کی لا پرواہی سے مریض کی حالت بگڑ گئی ہے:
الف: کیا وہ ضامن ہے اور اس پر دیت ادا کرنا واجب ہے؟
ب: اگر دل کے آپریشن میں لاپرواہی کے سبب دوسرے آپریشن اور مزید علاج کی نوبت آ جائے تو کیا ڈاکٹر کو اس کا خرچہ بھرنا پڑے گا یا صرف دیت دینا کافی ہے؟
ج: اگر ڈاکٹر کی لاپرواہی سے مریض مر جائے تو وہ قتل کون سا قتل شمار ہوگا؟

جواب: الف: ہاں وہ ضامن ہے۔
ب: اگر علاج کا خرچ دیت سے زیادہ ہو تو اسے وہ بھرنا پڑے گا۔
ج: عام طور ایسا قتل، قتل شبہ عمد کے زمرہ میں آتا ہے۔

سوال ۱۴۲۵۔ اگر ماہر ڈاکٹر غلطی سے غلط نسخہ لکھ کر نرس کو دے دے اور وہ بھی بغیر توجہ کئے دوا مریض کو دے دے، جس سے بیمار کی حالت خراب ہو جائے تو کیا مریض کو دیت دینی چاہیے اگر ہاں تو دیت کس کے ذمہ ہے؟

جواب: دیت ڈاکٹر کے ذمہ واجب الادا ہوگی۔

سوال ۱۴۲۶۔ اگر حاذق ڈاکٹر نسخہ غلط لکھ دے۔ (جیسا کہ طریقہ یہ ہے کہ ڈاکٹر نسخہ لکھ کر مریض کو دے دیتا ہے اور وہ خود جا کر دوا خریدتا اور استعمال کرتا ہے۔) اور اس کے نتیجہ میں اس کی حالت بگڑ جائے تو حکم کیا ہے:
الف: کیا اسے دیت ادا کی جائے گی؟
ب: دیت کس کے ذمہ ہے؟
ج: اگر ڈاکٹر ماہر نہ ہو تو حکم کیا ہوگا؟
د: اگر ڈاکٹر نے لاپرواہی کی ہو تو اس کی کیا سزا ہے؟

جواب: الف سے د تک سب کچھ ڈاکٹر کے ذمہ ہے۔

سوال ۱۴۲۷۔ مریض کو انجیکشن لگایا گیا، جس کے سبب اس کی موت واقع ہو گئی، ضمان و عدم ضمان اور وہ شخص جس پر دیت واجب ہے سب کا حکم درج زیل سوالوں کی شکل میں بیان فرمائیں:
الف: انجیکشن لگانے والا، انجیکشن اور اس کے لگانے کے طریقے سے واقف تھا مگر اس نے لگانے میں غلطی کی؟
ب: انجیکشن لگانے والا ان سے واقف نہیں تھا؟
ج: ماہر ڈاکٹر نے انجیکشن لگایا تھا مگر اس سے کوتاہی ہوئی؟

جواب: الف سے ج تک کا جواب، انجیکشن لگانے والے کا کام بھی ڈاکٹر کی طرح ہے اگر وہ ماہر ہے اور اس نے خاص یا عام صورت میں برائت لے لی ہے تو وہ ضامن نہیں ہے لیکن اگر برائت اخذ نہیں کی ہے تو ضامن ہے اور کوتاہی اور ماہر نہ ہونے کی صورت میں وہ قصوروار اور ضامن ہے۔

سوال ۱۴۲۸۔ ایسے کام جو ڈاکٹر سے مربوط نہیں ہیں جیسے کسی مشین کا خراب ہو جانا یا بجلی کا کٹ جانا وغیرہ۔ ۔ ۔ اگر اس سے مریض کو نقصان پہچ جائے تو ضامن کون ہوگا؟

جواب: اگر ڈاکٹر نے غلطی یا کوتاہی نہ کی ہو تو وہ ضامن نہیں ہے، یہی حکم ہاسپیٹل کے مالک اور الیکٹریشن کے بارے میں بھی ہے۔

سوال ۱۴۲۹۔ ایسے میڈیکل کالج اور انسٹی ٹیوشن جہاں ڈاکٹروں کی تربیت ہوتی ہے، اگر وہاں کے استادوں یا اسٹوڈینٹ کی مہارت کی کمی کی وجہ سے کسی کی جان چلی جائے یا کسی عضو کو نقصان پہچ جائے تو قصوروار کون ہوگا؟

جواب: طلباء کا معاون استاد اگر اپنے کام میں مستقل اور اس کے خطرات سے آگاہ ہے وہ اس کا ذمہ دار ہے، لیکن اگر وہ خود مستقل نہ ہو اور کسی استاد کے تحت کام کرتا ہے تو ضامن نہیں ہے۔

معاءنہ و معالجہ سے متعلق مسائلعلاج اور معائنہ کے اخراجات سے متعلق مسائل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma