5۔ چوری کی سزا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
استفتائات جدید 01
4۔ شراب کی پینے کی سزا6 . محارب کی سزا

سوال ۱۲۰۶۔ چور کے ہاتھ کاٹنے کے بعد، کیا چور، اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو طبّی مدد کے ذریعہ جڑوا سکتا ہے؟

جواب: فقہ کے ”قصاص کے باب“ میں یہ مسئلہ مشہور ہے کہ اگر کٹے ہوئے کان کو دوبارہ اس کی پہلی جگہ جوڑدیا جائے اور وہ جُڑ بھی جائے، تو مجنی علیہ (جس کا اس نے کان کاٹا یا نقصان پہنچایا تھا) دوبارہ کاٹ سکتا ہے تاکہ وہ بھی اس کے جیسا ہوجائے، اس سلسلہ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہوئی ہے جس کی سند، معتبر ہے یا کم از کم علماء شیعہ نے اس کے مطابق عمل کیا ہے اگرچہ اس کی خصوصیات سے صزف نظر کرتے ہوئے اور باب حدود میں بھی اس کو سرایت دیتے ہوئے (مذکورہ حکم) مشکل ہے لیکن چور کے ہاتھ کاٹنے والی دلیلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو دوبارہ جوڑنا جائز نہیں ہے، خصوصاً یہ کہ علل وعیون میں امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت میں آیا ہے: ”وعلّة قطع الیمین من السارق لانّہ تباشر الاشیاء (غالباً) بیمینہ وھی افضل اعضائہ واٴنفعُھا لَہُ فجعل قطعھا نکالاً وعبرة للخلقِ لئِلّا تبتغوا اٴخذ الاموال من غیر حلّھا ولِانّہ اکثر ما یباشر السرقة بیمینہ“ اور یہ مطلب دوبارہ ہاتھ جُڑوانے سے، مناسب اور سازگار نہیں ہے، دوسری حدیث میں آیا ہے: ”عن النّبی صلی الله علیہ وآلہ: اِنّہ اٴتیٰ بسارق فَاٴَمرَ بہ فقطعت یدہ ثمّ علقت فی رقبتہ“ ۱-

سوال ۱۲۰۷۔ چور کی کٹی ہوئی انگلیوں کو کسی دوسرے شخص کے ہاتھ میں پیوند لگانے کا کیا حکم ہے؟ فرض کریں، کارخانہ میں کسی کی انگلی کٹ گئی تھی، جائز ہونے کی صورت میں کیا اس کام کے لئے ان کے مالک (چور) کی اجازت لازم ہے؟

جواب: مالک کی اجازت سے جائز ہے

سوال ۱۲۰۸۔ چوری کی سزا دیتے وقت، بے حس کرنے والی دواوٴں کے استعمال کا کیا حکم ہے؟

جواب: کوئی اشکال نہیں ہے ۔

سوال ۱۲۰۹۔ اسلامی تعزیرات کے قانون اور بعض فقہی کتابوں میں چوری کی سزا دینے اور اس کی حد جاری کرنے کے شرائط میں سے ایک شرط جو مطلق طور پر بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ : ”چور نے چوری کے بعد، مسروقہ مال کو مالک کے اختیار میں نہ دیا ہو“ کیا عدالت کی تمام کارورائیوں کے مراحل میں یہاں تک کہ جرم کے ثابت ہونے اور فیصلہ سنانے کے بعد بھی، مذکورہ شرط باقی رہے گی؟ یا یہ شرط حاکم کے پاس شکایت کرنے سے پہلے مرحلہ سے مخصوص ہے؟

جواب: جرم کے ثابت ہونے اور فیصہ سنانے کے بعد، مالک کو اس کا مال واپس پلٹانے کا (اس سلسلہ میں) کوئی فائدہ نہیں ہے اورایسا کرنے سے اس سے حد (سزا) ساقط نہیں ہوگی ۔

سوال ۱۲۱۰۔ اگر پارکنگ کا دروازہ کھلا ہوا ہو، کیا تب بھی اس جگہ کو محفوظ (حرز) جگہ سمجھا جائے گا یا نہیں اور اگر دروازہ بند ہو تب کیسا ہے؟

جواب: پہلی صورت میں حرز (محفوظ جگہ) نہیں ہے اور دوسری صورت میں اگر پارکنگ کا دروازہ بند ہو تو حرز شمار ہوگا ۔

سوال ۱۲۱۱۔ کیا انسانی جسد (جسم مثلاً مردہ جسم) کا مال میں شمار ہوگا، نیز کیا جائز مقاصد کے لئے اس کی خرید وفروخت جائز ہے؟ آیا وہ چور کے جرم کے لئے عنوان اور موضوع بن سکتا ہے یا نہیں؟خصوصاً جب اسے مرے ہوئے کئی صدیاں گذر گئی ہوں اور تاریخ دانوں وغیرہ کے لئے موضوع، بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہو اس صورت میں کیا حکم ہے؟

جواب: مسلمان میّت کے جسم کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے، اس کا مردہ جسم، مال شمار نہیں ہوگا، اب رہا غیر مسلم کا مردہ جسم تو ان جائز مقاصد کے لئے بھی جیسے بعض موقعوں پر پوسٹ مارٹم کرنا جائز ہوتا ہے، اشکال سے خالی نہیں ہے اور ہرحال میں چوری کی حد کا اجرا کرنا مشکل ہے ۔
۱۔ جواہر، ج۴۱، ص۵۴۲؛ سنن بیہقی، ج۸، ص۲۷۵-

 

سوال ۱۲۱۲۔ چور پر چوری کی حد (سزا) جاری کرنے کے سلسلے میں، اس کے تمام شرائط کے علاوہ کیا اس کی طرف سے، جس کا مال چورایا گیا ہے، تقاضا ومطالبہ کرنا بھی لازم ہے، یا حاکم شرع کے پاس فقط شکایت کرنے سے حد کا اجرا کرنا واجب ہے البتہ جب دوسرے تمام شرائط موجود ہوں، ؟

جواب: اس کا شکایت کرنا کافی ہے اور تقاضا یا مطالبہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

سوال ۱۲۱۳۔ چنانچہ قاضی کے پاس، مسروقہ مال کے مالک کی شکایت کرنے سے پہلے، چوری کے مال کو پولیس چور سے، وصول اور ضبط کرکے، مال کے مالک کو واپس دینے کی غرض سے اپنے پاس محفوظ رکھے کہ جب بھی مالک تقاضا و مطالبہ کرے اس کا اس کے حوالہ کردیا جائے لیکن مالک اس بات کو جانتے ہوئے بھی، اپنا مال وصول کرنے سے پہلے، قاضی کے یہاں شکایت کردے، کیا اس صورت میں بھی چور کی حد کا جاری کرنا واجب ہے؟

جواب: چوری کی حد، اس صورت میں جاری نہیں ہوگی اور ایسا ہی اس صورت میں ہوگا جب جیسے مال اس کے مالک کے ہاتھ میں پہنچ گیا ہو ۔

سوال ۱۲۱۴۔ جو آدمی چار مرتبہ چوری کے جرم کا مرتکب ہوا ہے اور اس کیچاروں چوریاں ثابت ہوگئی ہیں، کیا ان سب چوریوں کے لئے ایک سزا کافی ہے یا ہر چوری کی علیحدہ علیحدہ سزا ہے؟

جواب: ان سب چوریوں کے لئے ایک حد (سزا) کافی ہے ۔

سوال ۱۲۱۵۔ یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ چوری کی حد (سزا) کا نصاب ایک چوتھائی شرعی دینار (کی مقدار )ہے اور اِس زمانے میں دینار ودرہم کا موضوع منتفی ہے یعنی درہم ودینار موجود ہی نہیں ہیں، اس صورت میں چوری کی حد کے نصاب کو کیسے حاصل کریں اور کیسے سمجھیں؟ کیا رائج الوقت سکّہ یا غیر سکّہ سونے کو معیار بنایا جاسکتا ہے؟

جواب: اہل علم وجانکار حضرات سے معلوم کرنا چاہیے کہ اگر دینار (سونے) کا سکّہ ہوتو اس کی کیا قیمت ہوگی جو بھی قیمت ہو اس کی ایک چوتھائی قیمت، حد سرقت کا نصاب ہوگی اور آخر کار جب بھی مقدار میں شک ہو تو قدر متیقن (جو یقینی مقدار ہو اس) کا حساب کرنا چاہیے ۔

سوال ۱۲۱۶۔ تقریباً تین سال پہلے (جہالت اور برے ساتھیوں کی صحبت کے نتیجہ میں) میں نے میونسپلٹی کی ملکیت چند کیبل (بجلی کے تار) چرا کر فروخت کردیئے اب اگر میں ان کی قیمت ادا کرنا چاہوں تو:
الف) کس شخص یا کس محکمہ کو ادا کروں جو کہ لازم ہو؟
ب) اس مورد میں کہ جب میرے سامنے، میونسپلٹی یا کسی شخص سے (ان چیزوں کو اپنے لئے) حلال کرانے یا کسی خاص آدمی کو راضی کرنا ضروری ہے؟
ج) اس زمانے میں، ایک کیلو کیبل (تار) کی قیمت چالیس تومان تھی جبکہ اس وقت اس کی قیمت ۱۲۰ تومان ہے، اس صورت میں اب میں کونسی قیمت ادا کروں؟
د) ہم تین آدمی تھے (البتہ رقم ہم دولوگوں کے درمیان تقسیم ہوئی) اب میں تمام تاروں کی قیمت ادا کروں یا یہ کہ ان سب کا وزن جوڑکر اس کے آدھے وزن کی قیمت ادا کروں؟
ھ) ان کیبلوں (تاروں) کا صحیح وزن مجھے یاد نہیں رہا ہے، اس صورت میں ان کی قیمت کیسے ادا کروں؟

جواب: تم اس رقم کو میونسپلٹی کی آمدنی سے متعلق بینک کے کھاتہ میں ڈال سکتے ہو، اور اس کی موجودہ قیمت دینا ضروری ہے اور اگر دوسرے اپنا حصہ ادا نہ کریں تو تمام رقم کے ضامن اور ذمہ دار تم ہو، ہاں یہ کام انجام دینے کے بعد پھر کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، تمھیں بارگاہ الٰہی میں توبہ کرنی چاہیے اور قیمت کی مقدار میں شک ہونے کی صورت میں، اسی مقدار کے لحاظ سے، احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔

سوال ۱۲۱۷۔ مذکورہ سوال کے فرض میں، اسی طرح اور اُسی پہلے والے ساتھی کے ساتھ ہم نے ایک ذاتی زمین کے کیبل (تار) چرائے (البتہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ اس برے کام کی ایک وجہ یہ جوانی تھی اور میں چاہتا تھا کہ خود کو ایک چالاک آدمی کے طور پر متعارف کراؤں) اوران کا بھی مجھے صحیح وزن یاد نہیں ہے، بلکہ ان کی صحیح اور دقیق تعداد بھی مجھے معلوم نہیں ہے، اس صورت میں، اس بندہٴ خدا کی رقم کیسے ادا کروں؟

جواب: گذشتہ جواب سے معلوم ہوگیا ہے اور اس کے مالک تک رقم پہنچانے کا طریقہ یہ ہے کہ یا تو اس کا کھاتہ نمبر پتہ چلاؤ یا بینک کے ذریعہ اس کی دکان پر یا اس کے گھر کے ایڈرس پر بھیج دو اور اس کے ساتھ ایک خط لکھ دو جس سے اسے معلوم ہوجائے کہ تم اس کے مذکورہ رقم کے مقروض تھے اور اس خط کو بغیر دستخط کئے ارسال کردو، یا پھر دوسرے مطمئن ذریعہ سے اس کے پاس پہنچادو ، البتہ رقم کی مقدار سے متعلق احتیاط سے کام لینا اور رقم بڑھاکر دینا تاکہ بریٴ الذمہ ہونے کا یقین ہوجائے ۔

 

4۔ شراب کی پینے کی سزا6 . محارب کی سزا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma