گروه اول کی میراث

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
استفتائات جدید 01
اڑتیسویں فصل وصیّت کے احکاممیراث کادوسرا طبقہ

سوال ١١٠٢۔ جناب احمد نے ایک خاتون، فاطمہ سے شادی کی، مہر دس لاکھ تومان معیّن ہوا، جس میں دو لاکھ تومان، نقد ادا کردیا گیا اور باقی آٹھ لاکھ تومان کا چیک، احمد نے فاطمہ کے نام لکھ دیا اور چند شرائط کے تحت، میرے پاس امانت کے طور پر رکھ دیا، جو میرے پاس موجود ہے، وہ خاتون یعنی فاطمہ کچھ عرصہ بعد، دنیا سے گذر جاتی ہے، اس مرحومہ کی پہلے شوہر سے (جو ابھی زندہ ہے) ایک بیٹی ہے جو اپنے نانا کے ساتھ رہتی ہے، مرحومہ کے والد نے تجویز پیش کی ہے جناب احمد کا چیک جو مرحومہ کے نام ہے، وہ انہی کو واپس کردیا جائے، یہ یاددہانی بھی ضرور ی ہے کہ مرحومہ فاطمہ کے والدین باحیات ہیں نیز مرحومہ کے کچھ بہن بھائی بھی موجود ہیں، یہ تمہید مدنظر رکھتے ہوئے درج ذیل سوالات کے جواب عنایت فرمائیں:
الف) اس مرحومہ کے وارث کون ہیں؟
ب) مذکورہ چیک کی رقم میں سے، مرحومہ کی بیٹی کا حصّہ کس قدر ہے، جو اپنے نانا کے پاس رہتی ہے؟
ج) کیا میں شرعی طور پر مذکورہ چیک کو مرحومہ کے والد کے حوالہ کرسکتا ہوں تاکہ وہ مرحومہ کے شوہر (احمد) کو بخش دیں یا نہیں؟
د) شریعت کی رو سے، میرے اختیار میں چیک ہونے اور اس میں ان کے تحریر کردہ شرائط نیز اس سلسلہ میں میرے قاضی ہونے کے متعلق، میرا کیا وظیفہ ہے؟

جواب: الف) اس کے وارث، شوہر، باپ، ماں اور ایک بیٹی ہے (البتہ اگر دوسری کوئی اولاد نہ ہو) اس کے شوہر (احمد) کا حصّہ ایک چوتھائی، والدین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصّہ اور باقی یعنی چھ حصوں سے، ڈھائی حصّے، بیٹی کے ہیں جو اسے ملیں گے ۔
جواب: ب وج) مذکورہ چیک کی رقم تمام وارثوں سے متعلق ہے اور ان کے والد فقط اپنا حصہ بخش سکتے ہیں اور جبکہ آپ کسی خاص شخص (وارث) کے حوالہ، چیک نہیں کرسکتے ہیں لہٰذا سب کے اختیار میں دیدیں ۔
جواب: د) آپ کے لئے تمام وارثوں کو اطلاع دینا ضروری ہے تاکہ وہ خود جمع ہوکر چیک کی وضعیت کو روشن کریں ۔

سوال ١١٠٣۔ میرے بھائی، ١٢سال پہلے جنگ میں لاپتہ ہوگئے تھے، اس زمانے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ وہ شہید ہوگئے یا اسیر ہوئے ہیں، لیکن اب بارہ سال کے بعد ان کی شہادت مسلّم طور پر ثابت ہوگئی ہے اس شہید کی ایک بیوہ ہے لیکن بچہ کوئی نہیں ہے، آپ سے التماس ہے کہ مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:
الف) اس شہید کی تنخواہ، بارہ سال کے عرصہ میں بطور کامل اور یکبارگی، ان کی بیوی کے ذریعہ وصول اور خرچ ہوئی ہے، کیا مذکورہ تنخواہ کی مکمل رقم، شہید کی زوجہ کا حق ہے، یا اس میں سے میراث کے عنوان سے، شہید کے والدین اور بہن بھائیوں کا بھی کچھ حصّہ ہے؟

جواب: اس کی تنخواہ اس کی بیوی سے متعلق تھی، یعنی اس کی زوجہ کا حق ہے ۔

ب) اب جبکہ اُن کی شہادت یقینی طور پر ثابت ہوگئی ہے، ادارے کی جانب سے جس میں وہ کام کرتے تھے، کچھ رقم دی جارہی ہے، یہ رقم کس سے متعلق ہے یعنی یہ رقم کس شخص کی ہوگی؟

جواب: تمام وارثوں سے مربوط ہے مگر یہ کہ وہ ادارہ مذکورہ رقم کے لئے کوئی خاص مصرف معین کرے ۔

ج) یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ وہ سن ١٣٦١ شمسی میں شہید ہوئے ہیں اور شہادت کی اطلاع سن ١٣٧٢شمسی میں ملی ہے جبکہ اُن کے والدین ٦٦ میں مرحوم ہوگئے ہیں، کیا شہید اپنے والد کی میراث لیں گے یا والد کو شہید کی میراث ملے گی؟

جواب: والد کو ان کے مال سے میراث ملے گی، لیکن حکومت سے جو رقم دی گئی ہے اس میں سے انھیں (والد کو) میراث نہیں ملے گی ۔

د) شہادت کے ثابت ہونے سے دوسال پہلے ان کی زوجہ نے 'بنیاد شہید'' نامی ادارے سے، طلاق کا تقاضا کیا تھا اور ادارے کے مدیر نے قوانین کے مطابق اس کو شرعی طلاق دے دی تھی، کیا اس صورت میں یہ زوجہ، اس شہید کی میراث لے گی؟ کیا اس رقم میں سے جو ادارے نے، دیت وغیرہ کے عنوان سے دی ہے، زوجہ کو میراث ملے گی یا نہیں؟ اور کیا اس دو سال کی مدّت میں، شہید کی تنخواہ لے کر خرچ کرنے کا حق رکھتی تھی یا نہیں؟

جواب: چنانچہ حکومت یہ جان کر کہ طلاق ہوگئی ہے، اُسے تنخواہ دیتی تھی تب تو لینا جائز ہے لیکن اگر اس شرط پر تنخواہ دیتی کہ طلاق نہیں ہوئی ہے، تب مذکورہ رقم وصول کرنا اس کے لئے جائز نہیں تھا لیکن بہرحال شہید کے مال سے میراث وصول کرے گی اور اسی طرح اس کی دیت کی رقم سے میراث لے گی ۔

سوال ١١٠٤۔ میں ایک سولہ سال لڑکی ہوں، میری پیدائش کے شروع میں ہی، ماں کا انتقال ہوگیا تھا اور میری شادی کے ایک سال بعد میرے والد کا بھی انتقال ہوگیا ہے، میرے والد مرحوم کی میراث میں ایک رہائشی گھر جو چار منزلہ ہے اور تہران میں واقع ہے، جس کی ایک منزل میں ان مرحوم کی ایک زوجہ یعنی میری سوتیلی ماں رہتی ہیں اور باقی مکان کو کرایہ پر دیا ہوا ہے، جس کا کرایہ وصول کیا جاتا ہے اسی طرح حکومت کی طرف سے پینشن ملتی ہے، والد مرحوم کے تمام وارث یہ ہیں: میری دادی، ان کی دوبیویاں یعنی میری دو سوتیلی مائیں ہیں ان میں سے ایک کی تین بیٹیاں اور دوسری کی ایک بیٹی ہے، برائے مہربانی عمارت کے کرایہ کی رقم میں سے میرا حصہ تحریر فرمائیں، یہ بتادینا ضروری ہے کہ میرے والد کے انتقال کے اس تین سال کے عرصہ میں ابھی تک مجھے کوئی رقم نہیں ملی ہے؟

جواب: مذکورہ فرض میں آپ کے والد کی میراث چو بیس(٢٤) حصوں میں تقسیم ہوگی، ان میں سے تین حصہ، دو بیویوں کا حق ہیں، جو برابر اُن کے درمیان تقسیم ہوگا اور چار حصہ تمہاری دادی کے ہیں جبکہ باقی ١٧ حصوں کو سات جگہ تقسیم کیا جائے گا جن میں سے دو حصہ بیٹے کے ہوں گے اور پانچ حصہ برابر طور پر بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہوجائیں گے، لیکن توجہ رہے کہ گھر، دکان کی زمین اور زراعتی زمین میں سے، بیویوں کو میراث نہیں ملے گی، فقط عمارت کی قیمت اور اسی طرح منقولہ مال سے انھیں میراث ملے گی اور کرایہ کی رقم میں بھی ایسا ہی ہے ۔

سوال ١١٠٥۔ مرنے والے شخص کے وارثوں میں، والدین اور ایک زوجہ ہے جس سے زفاف نہیں ہوا تھا یعنی فقط نکاح ہوا تھا رخصتی نہیں، آپ سے گذارش ہے کہ وارثوں کے درمیان مرحوم کی میراث کی تقسیم کا طریقہ بیان فرمائیں؟

جواب: زمین کے علاوہ مرحوم کے مال کا چوتھائی حصہ زوجہ کو ملے گا اور سارے مال کا ایک تہائی حصہ والدہ کو اور باقی سب کچھ باپ کو ملے گا، ہاں البتہ اگر مرنے والے کے دو بھائی یا چار بہنیں یا ایک بھائی اور دو بہنیں ہوں (اور ان سب کے والدین ایک ہوں) تو اس صورت میں چھ حصوں میں سے ایک حصہ ماں کا ہوجائے گا اور باقی جو چھ میں سے ساڑھے تین حصہ ہوتے ہیں، والد کو ملیں گے ۔

سوال ١١٠٦۔ کشمیر کے ایک علاقہ میں مسلمانوں کے یہاں یہ دستور ہے کہ بیٹے اپنے والدین کے ساتھ ایک گھر میں رہتے ہیں اور جب والد کا انتقال ہوجاتا ہے تو ن کی تمام میراث بیٹوں کے اختیار میں آجاتی ہے، لیکن بیٹیاں جو اپنے شوہروں کے گھر میں رہتی ہیں،اپنے بھائیوں سے، باپ کی میراث کا مطالبہ نہیں کرتی ہیں بلکہ اکثر اوقات اپنا حصہ بھائیوں کو بخش دیتی ہیں، بعض بہنیں جب تک زندہ رہتی ہیں اپنا حصہ اپنی خوشی سے بھائیوں کے اختیار میں دیتی ہیں لیکن بھائی بہنوں کے انتقال کے بعد، بہنوں کی اولاد بھائیوں کی اولاد سے یہ کہتے ہوئے اپنی الدہ کے حصہ کا مطالبہ کرتی ہیں کہ ہماری ماں نے اپنے والد کی میراث میں اپنا حصہ آپ کے والد کو نہیں بخشا تھا بلکہ ان کے لئے مباح کردیا تھا، جبکہ بھائیوں کی اولاد کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی پھوپھیوں نے ان کے والد کو اپنا حصہ بخشدیا تھا یا ان کے لئے مباح قرار دیا تھا، اس صورت میں بھائیوں کی اولاد کا کیا وظیفہ ہے؟

جواب: اگر اس مال ودولت کا بھائیوں کے لئے، بخش دینا، ثابت نہ ہوسکے تو بہنوں کا حصہ اُن کے وارثوں کوضرور دینا چاہیے ۔

 

اڑتیسویں فصل وصیّت کے احکاممیراث کادوسرا طبقہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma