تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
یہودیوں کا پراکندہ ہونا

گذشتہ آیات میں ان کے بزرگوں کا تذکرہ کیا گیا تھا لیکن مذکورہ بالا آیت میں ان کے فرزندوں اور ذریّت کے بارے میں بحث کی گئی ہے ۔
پہلے اس بات کی یاد دہانی کروائی گئی ہے کہ ”ان کے بعد ان کی اولاد ان کی جانشین ہوئی جنھوں نے اپنے اجداد سے کتاب توریت کی میراث پائی لیکن اس کے باوجود وہ اس دنیائے فرومایہ کے زیب وزین پر فریفتہ ہوگئے اور انھوں نے اپنے مادّی فائدوں کے بدلے حق وہدایت کو فروخت کرڈالا“ (فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِھِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْکِتَابَ یَاٴْخُذُونَ عَرَضَ ھٰذَا الْاٴَدْنَی) ۔
”حلف“ (بروزنِ ”حرف“) بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ لفظ غیر صالح اولاد کے لئے استعمال ہوتا ہے، جبکہ ”خلف“ (بروزنِ ”شرف“) کے معنی صالح ونیک اولاد کے ہیں(۱)
اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے کہ وہ لوگ جس وقت اس کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ایک طرف انھیں وجدان منع کرتا ہے اور دوسری طرف ان کے مادّی منافع برائی کی طرف دعوت دیتے ہیں تو اس وقت وہ جھوٹی امیدوں کا سہارا لیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں: اس وقت تو ہم اس منفعت کو جائز یا ناجائز جس طرح بھی ہو حاصل کرلیں، خدائے رحیم ومہربان ہمیں بخش دے گا (وَیَقُولُونَ سَیُغْفَرُ لَنَا) ۔
اس جملے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ اس قسم کے کام کرنے کے بعد زودگزر پشیمانی اور جھوٹی توبہ کی حالت میں مبتلا ہوتے تھے لیکن جیسا کہ قرآن کہتا ہے: ان کی یہ ندامت وپشیمانی ناپائیدار ہوتی تھی، اسی بناپر اگر اسی طرح کا فائدہ انھیں دوبارہ ملتا تھا تو اسے دو حاصل کرلیتے (وَإِنْ یَاٴْتِھِمْ عَرَضٌ مِثْلُہُ یَاٴْخُذُوہُ) ۔
”عرض“ (بروزنِ ”غرض“) کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو عارضی، کم دوام اور ناپائیدار ہو(2) اسی وجہ سے یہ لفظ دنیائے مادی کی چیزوں پر بولا جاتا ہے کیونکہ یہ چیزیں ناپائیدار ہوتی ہیں حالانکہ ایک روز ایسا آنے والا ہے کہ ان کا حساب ہاتھ سے نکل جائے گا اور وہ انسان کے اختیار سے اس طرح دور ہوجائے گا کہ اس کے ذرا سے حصّہ کے انتظار میں وہ ٹھنڈی آہ بھرے گا، اس کے علاوہ اس دنیا میں تمام نعمتیں ناپائیدار او زوال پذیر ہیں ۔
بہرحال اس جملے میں یہودیوں کی جماعت کی رشوت ستانی اور اس کی خاطر تحریفِ آیات آسمانی اور جو احکام ان کے مفادات سے مطابقت نہ رکھتے ان کی فراموشی کی طرف اشارہ ہے ۔ اس بناپر اس کے بعد ہی فرمایا گیا ہے: کیا ان لوگوں نے اپنی آسمانی کتاب توریت کے ذریعے یہ عہد نہیں کیا تھا کہ خدا کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دیں گے اور حق کے سوا کوئی بات نہیں کہیں گے (اٴَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِیثَاقُ الْکِتَابِ اٴَنْ لَایَقُولُوا عَلَی اللهِ إِلاَّ الْحَقَّ) ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: اگر انھیں آیاتِ الٰہی کا علم نہ ہوتا اور لا علمی کی حالت میں حکمِ الٰہی کے خلاف یہ کام بجالاتے تو ممکن تھا کہ ان کے لئے عذر تراشی کی مجال ہوتی لیکن قابلِ اشکال بات یہ ہے کہ ”ان لوگوں نے بارہا توریت کے مطالب کو دیکھا اور سمجھا تھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے انھیں ضائع کردیا اور اس کے احکام کو پسِ پشت ڈال دیا (وَدَرَسُوا مَا فِیہِ) ۔
”درس“ کے لغوی معنی کسی چیز کی تکرار کرنے کے ہیں، اسی لئے جو مطالب کسی استاد کے ذریعے حاصل کیے جائیں اور باربار ان کی تکرار کرنے کی جائے انھیں ”درس“ کہا جاتا ہے، مکانات وغیرہ کی گہنگی اور فرسودگی کو بھی جو ”درس یا اندراس“ کہتے ہیں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہواؤں اور بارشوں اور دیگر حوادث کے بار بار آنے کی وجہ سے عمارتیں کہنہ اور فرسودہ ہوجاتی ہیں ۔
آخرکار فرمایا گیا ہے: یہ لوگ غلطی پر ہیں، یہ اعمال اور مال ومتاع انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے بلکہ ”آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے لئے بہتر ہے“ (وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَیْرٌ لِلَّذِینَ یَتَّقُونَ اٴَفَلَاتَعْقِلُونَ) ۔
اس کے بعد قرآن مذکورہ بالاگروہ کے برخلاف ایک دوسرے گروہ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ لوگ نہ صرف ہر قسم کی تحریف اور کتمانِ آیات سے پرہیز کرتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ تمسک کرتے ہیں اور ان پر حرف بحرف عمل بھی کرتے ہیں، قرآن نے اس گروہ کا نام ”مصلحانَ جہان“ رکھا ہے اور ان کے لئے اہم اجزا کا وعدہ کیا ہے ان کے متعلق اس طرح فرماتا ہے: جولوگ کتابِ پروردگار سے تمسک اختیار کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، ان کے لئے بڑی جزا ہے، کیونکہ ہم اصلاح کرنے والوں کا بدلہ ضائع نہیں کریں گے (وَالَّذِینَ یُمَسِّکُونَ بِالْکِتَابِ وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ إِنَّا لَانُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُصْلِحِینَ) ۔
اس کتاب سے توریت مراد ہے یا قرآنِ کریم؟ مفسرین نے دونوں طرح کی تفسیریں کی ہیں لیکن اگر گذشتہ آیات کی جانب توجہ کی جائے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے اس گروہ کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے جنھوںنے اپنا حساب گمراہ لوگوں سے گمراہ کرلیا تھا، اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ توریت وانجیل سے تمسک کرنا، ان بشارتوں کودیکھتے ہوئے جو ان دونوں کتابوں میں پیغمبر اسلام کے متعلق موجود ہیں، اس پیغمبر پر ایمان سے جدا نہ ہوگا ۔
کلمہٴ ”یمسکون“ جس کے معنی تمسک کرنے کے ہیں اپنے دامن میں ایک جاذب نظر نکتہ لئے ہوئے ہے، کیونکہ تمسک کے معنی کسی چیز کو لینے اور اس کی حفاظت کی خاطر اس کے ساتھ چمٹ جانے کے ہیں،یہ اس کی حسی صورت ہے اور اس کی معنوی صورت یہ ہے کہ انسان اپنی پوری کوشش کے ساتھ کسی عقیدے یا نظام کا پابند ہوجائے اور اس کی بقا وحفاظت کے لئے اپنی پوری پوری کوشش صرف کردے، اس بناپر کتاب الٰہی سے تمسک کے یہ معنی نہیں کہ انسان قرآن یا توریت یا کسی دوسری کتاب کو اپنے ہاتھ میں مضبوطی کے ساتھ تھام لے اور اس کے صفحات یا اس کی جلد کی حفاظت میں اپنی پوری کوشش صرف کردے، بلکہ حقیقی تمسک یہ ہے کہ اپنے نفس کو اس بات کی قطعی اجازت نہ دے کہ کسی پہلو سے اس کتاب کے فرامین کی مخالفت کی جائے بلکہ اس کے مفاہیم واحکام کے تحقق پانے اور عملی صورت اختیار کرنے میں اپنی جان ودل کے ساتھ کوشش کرے ۔
مذکورہ بالا آیات سے ب۔یھ بھی پتہ چلتا ہے کہ روئے زمین پر اصلاح واقعی کتاب آسمانی سے تمسک کے بغیر ناممکن ہے، یہ تعبیر ایک مرتبہ اور اس حقیقت کو بیان کررہی ہے کہ دین ومذہب ایک ایسا نظام العمل نہیں ہے جس کا تعلق محض یا عالمِ ماوراء الطبیعت سے ہو، بلکہ یہ ایک ایسا آئین ہے جس کا تعلق تمام نوعِ بشر کی زندگیوں سے ہے کیونکہ یہ مذہب ہی ہے جس کی تمام افرادِ انسانی میں عدالت، صلح، رفاہیت، آسائش اور آرام کے اصول رائج ہوتے ہیں بلکہ ”اصلاح“ سے تام مفہوم میں جتنی چیزیں آسکتی ہیں وہ سب اس میں داخل ہیں ۔
ہاں، یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کے تمام فرمانوں میں سے یہاں نماز ہی کا ذکر کیا گیا ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ ایک حقیقی نماز انسان کا اس کے رب سے رشتہ اس قدر مضبوط کردیتی ہے کہ بندہ اپنے ہر کام کے وقت اپنے خدا کو ہمیشہ حاضر وناظر اور اپنے اعمال کا نگران پاتا ہے، یہ نماز ہی سفت ہے کہ جس کا ذکر دیگر آیات میں آیا ہے کہ نماز نہی عن المنکر کرتی ہے اس موضوع کا انسانی سوسائٹی اور اس کی اصلاح کے ساتھ ربطِ خاص ہے وہ محتاجِ بیان ہے ۔
جو کچھ پہلے بیان کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوہ کہ یہ نظام العمل صرف قومِ یہود کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ایک قانون ہے جو تمام امتوں اور ملتّوں میں کارفرما ہے، اس بناپر یہ کہنا درست ہے کہ جو لوگ حقائق کو چھپاتے ہیں اور ان میں تحریف اور تبدیلی کرکے اپنے لئے متاع ناپائیدار اور زود گزر منافع فراہم کرتے ہیں اور جب اس عمل کے بُرے نتائج سامنے آتے ہیں تو وہ اپنے میں ایک جھوٹی توبہ کی حالت پیدا کرتے ہیں اور ایسی توبہ جو ذرا سی مادّی منفعت کی چمک دمک سے یوں بہہ جاتی ہے جس طرح گرمی کے سورج کے سامنے تھوڑی سی برف بہہ جاتی ہے، ایسے لوگ در حقیقت معاشرے کی اصلاح کے مخالف ہیں، یہ اپنے ذاتی منافع پر اجتماعی منافع کو قربان کردیتے ہیں، یہ عمل چاہے کسی یہودی سے سرزد ہوا ہو یا کسی مسیحی سے یا کسی مسلمان سے!

 

۱۷۱ وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَھُمْ کَاٴَنَّہُ ظُلَّةٌ وَظَنُّوا اٴَنَّہُ وَاقِعٌ بِھِمْ خُذُوا مَا آتَیْنَاکُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْکُرُوا مَا فِیہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ.
ترجمہ
۱۷۱۔ اور (اس بات کو بھی یاد کرو)جب ہم نے پہاڑ کو ایک سائبان کی طرح ان کے اوپر اس طرح سایہ فگن کیا کہ انھوں نے یہ گمان کیا کہ وہ عنقریب ان کے اوپر آپڑے گا (اور حال میں ہم نے ان سے عہد لیا اور کہا) جو کچھ تمھیں (احکام وفرامین) کی صورت میں دیا گیا ہے اسے مضبوطی سے تھام اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو (اور ا س پر عمل کرو) تاکہ پرہیزگار بن جاؤ۔

 

 


۱۔ مجمع البیان وتفسیر ابوالفتوح رازی زیرِ بحث آیت کے ذیل میں.
2۔ اس امر کی طرف توجہ رکھنا چاہیے کہ ”عرض“ (بروزنِ ”غرض“) دو مختلف الفاظ ہیں جن کے معنی بھی مختلف ہیں کیونکہ پہلے لفظ کے معنی مادّی دنیا کے ہر طرح کے سرمائے کے ہیں، جبکہ دوسرے لفظ کے معنی نقد پیشہ کے ہیں ۔
یہودیوں کا پراکندہ ہونا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma