دو اہم نکات:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
تفسیرسرگزشت آدم اور لباس کی مناسبت

۱۔ ”وَاٴَقِیمُوا وُجُوھَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ“کا مفہوم : مفسرین نے جملہ ”وَاٴَقِیمُوا وُجُوھَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ“ کے بارے میں مختلف تفسیریں کی ہیں:
کبھی تو یہ کہا ہے کہ اس سے مراد ہر نماز کے وقت قبلہ رو ہونا ہے ۔
کبھی کہا ہے کہ اس سے یہ مراد ہے کہ ہنگام نماز روزانہ مسجدوں میں حاضر ہونا ۔
کبھی یہ احتمال دیا ہے کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ نماز میں حضور قلب و خالص نیت ہونا چاہیےٴ۔
لیکن ہم نے جو تفسیر مذکورہ بالا سطور میں بیان کی ہے یعنی خدا کی طرف توجہ اور ہر طرح کے شرک اور غیر اللہ کی طرف التفات کرنے سے مبارزہ و اختلاف کرنا وہ آیت کے ماقبل و مابعد سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے، اگر چہ ان تمام معانی کا مراد لیا جانا بھی آیت کے مفہوم سے بعید نہیں ہے ۔
۲۔ معاد پر ایک مختصر ترین استدلال: اگر چہ معاد اور حیات بعد الموت کے متعلق بہت بحثیں کی گئی ہیں اور آیات قرآنی کے مطالعہ سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ ادوار میں بہت سے کوتاہ فکر افراد کے لئے یہ حقیقت قبول کرنا بہت دشوار تھا ۔ حدیہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے انبیائے الٰہی کو اس لئے (معاذ اللہ) جھوٹا بلکہ دیوانہ خیال کیا کہ وہ نہیں روز قیامت اور دوبارہ زندہ ہوکر اٹھنے کی خبر دیتے تھے ۔ وہ یہ کہ دیتے تھے:
<افْتَریٰ عَلَی اللهِ کَذِبًا اٴَمْ بِہِ جِنَّةٌ ۔
یہ جو پیغمبر نے خبردی ہے کہ مٹی ہوجانے کے بعد اور اجزا منتشر ہوجانے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے یہ خدا پر ایک بہتان ہے، یا یہ شخص دیوانہ ہے ۔(۱)
لیکن اس امر کی طرف توجہ کرنا چاہیٴے کہ جو بات سب سے زیادہ ان کے تعجب کا باعث بنتی تھی وہ معاد جسمانی کا مسئلہ تھا، کیونکہ کسی طرح سے یقین نہیں آتا تھا کہ بدن خاک ہونے کے بعد ، اور اس خاک کے ذرات ہوا میں منتشر ہوکر کرہ زمین کے مختلف گوشوں میں بٹ جانے کے بعد بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ پراگندہ اجزاء زمین کے مختلف گوشوں سے، دریاؤں کی موجوں کی آغوش سے، مختلف ہواؤں کے دامن سے دوبارہ اکٹھے کیے جاسکیں گے اور ان کے اکٹھا ہنے کے بعد وہی پہلا انسان دوبارہ زندہ ہوکر کھڑا ہوجائے گا ۔
قرآن نے اپنی متعدد آیات میں اس غلط استبعاد اور بے جا استعجاب کا جواب دیا ہے ۔ آیت مذکورہ بالا انہی جوابات میں سے ایک مختصر ترین لیکن جاذب ترین جواب ہے، جس میں فرمایا گیا ہے:ذرا اپنی ابتدائے آفرینش پر ایک نظر تو ڈالو اور دیکھو کہ یہی تمہارا جسم جس کا زیادہ حصہ با قی مختلف معدنیات پر مشتمل ہے، پہلے کہاں تھا؟ تمھارے جسم میں جو پانی دوڑرہا ہے اس کا ہر قطرہ شاید روئے زمین کے کسی اوقیاس میں سرگرداں تھا، جو عمل تبخیر کے ذریعہ اَبر بنا ، پھر قطرات باراں کی شکل میں زمین پر برسا، پھر تمہارا جز و بدن بنا، اسی طرح وہ ذرات جن سے تمھارے جسم کی عمارت بنی ہے، کسی روز یہ دانہ گندم یا کسی میوہ یا سبزی کی شکل میں تھے جو زمین کے مختلف حصوں سے سمٹ کر آئے اور تمہارا جز و بدن بنے ۔
بنابریں اس بات میں کونسا تعجب ہے کہ جب یہ ذرات دوبارہ پریشان ہوجائیں گے ۔(2) اس کے بعد دوبارہ وہ خالق کے حکم سے اکٹھا ہوجائیں گے اور اسی جسم کی تشکیل کریں گے ۔ اگر یہ امر محال تھا تو پہلی دفعہ کیسے ہوگیا ؟ لہٰذا: ”جس طرح آغاز میں خدانے تمھیں مختلف اجزاء سے بنایا روز محشر بھی وہ تمھیں پلٹائے گا ۔ یہی مفہوم اس مختصر آیت میں پنہان ہے“۔
اس کے بعد کی آیت میں بتایا گیا ہے کہ اس دعوت (یعنی نیکیوں، توحید اور معاد کی طرف دعوت)کا لوگوں پر کیا اثر ہوا اور انھوں نے اس کا کیا رد عمل پیش کیا، ارشاد ہوتا ہے: خدا کی توفیق ایک گروہ کے شامل حال ہوگئی اور اسے حق کے راستہ کی طرف ہدایت کی، جبکہ دوسرا گروہ وہ تھا کہ اس کی گمراہی مسلّم ہو گئی ( فَرِیقًا ھَدیٰ وَفَرِیقًا حَقَّ عَلَیْھِمْ الضَّلَالَةُ ) ۔(3)
اور چونکہ کسی کے ذہن میں یہ خیال ہوسکتا تھا کہ خدا بلا جہت کسی کو ہدایت کرتا ہے اور کسی کو گمراہ کرتا ہے، لہٰذا اس خیال کی تردید کے لئے بعد والے جملے میں فرمایا: گمراہ گروہ وہی لوگ ہیں کہ جنھوں نے شیطان کو اپنا ولی منتخب کرلیا ہے اور بجائے خدا کی ولایت کے شیطان کی ولایت اختیار کرلی ہے (إِنَّھُمْ اتَّخَذُوا الشَّیَاطِینَ اٴَوْلِیَاءَ مِنْ دُونِ) ۔
جائے تعجب یہ ہے کہ: ان تمام گمراہیوں کے بعد بھی وہ یہ تصور کرتے تھے کہ حقیقی ہدایت یافتگان وہی ہیں ( اللهِ وَیَحْسَبُونَ اٴَنَّھُمْ مُھْتَدُونَ) ۔
یہ حالت خاص کر ان لوگوں کی ہے جو طغیان اور گناہ میں ڈوب جائیں اور اس طرح فساد ”تباہی“ بت پرستی اور کج روی کے دلدل میں غرق ہوجائیں کہ ان کی حسِ تشخیص بالکل دگرگوں ہوجائے، برائی کو اچھائی اور گمراہی کو ہدایت سمجھنے لگیں ۔ یہی وہ حالت ہوتی ہے کہ درہائے ہدایت ان کے لئے بالکل بند ہو جاتے ہیں اور یہ حالت ان کی خود فراہم کردہ ہوتی ہے ۔


۳۱ یَابَنِی آدَمَ خُذُوا زِینَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَکُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَاتُسْرِفُوا إِنَّہُ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِینَ-
۳۲ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِینَةَ اللهِ الَّتِی اٴَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ ھِیَ لِلَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ-
ترجمہ
۳۱۔ اے اولاد آدم! مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اپنے ساتھ لے لو، کھاؤ، پیو اور اسراف نہ کرو کیونکہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
۳۲۔ کہو کس نے حرام کیا ہے ان زینتوں کو جو خدا نے اپنے بندے کے لئے پیدا کی ہیں اور پاک روزیوں کو؟ کہو کہ یہ زندگی دنیا میں ان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لائے (اگر چہ دوسرے لوگ بھی ان کے شریک ہیں لیکن) قیامت کے روز خالص ہوگی (صاحبان ایمان کے لئے) ایسی آیتوں کی تفصیل ہم ان لوگوں کے لئے پیش کرتے ہیں جو آگاہ ہیں ۔

 


۱۔ سورہ سبا آیت ۸۔
2۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے زندگی کیا ہے؟ عناصر میں ظہور ترکیب موت کیا ہے؟ انہی اجزاء کا پریشان ہونا (مترجم) ۔
3۔ جملہ ”فریقاً ھدی“ اس کی ادبی ترکیب اس طرح پر ہے ”فریقاً“ مفعول مقدم”ھدی“ فعل موّخر اور”فریقاً“”اضل“ کا مفہوم دوم ہے اور جملہ”حق علیہم الضلالة“ اس پر دلالت کرتا ہے ۔
 
تفسیرسرگزشت آدم اور لباس کی مناسبت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma