یہ ندا کرنے والا کون ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
جنتی لوگ دوزخ والوں کو مخاطب کرکے آواز دیں گے اعراف، جنت کی طرف ایک اہم گزرگاہ

یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے یہ موٴذّن“ (ندا کرنے والا) جو اس طرح سے ندا کرے گا کہ اس کی آواز سب اہل محشر سُن لیں گے اور اس طرح تمام اہلِ محشر پر اس کا تفوق وبرتری ظاہر ہوگی، کون ہے؟ آیت کی تفسیر میں زیادہ یہ وارد ہوا ہے کہ اس سے مراد حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ہیں ۔
چنانچہ ابوالقاسم حسکانی اہلِ سنت کے علماء میں سے ہیں اپنی سند کے ساتھ محمد حنفیہ سے اور وہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:”اٴنا ذالک الموٴذّن“(وہ ندا کرنے والا میں ہی ہوں)
نیز اسی طرح اپنی سند سے ابنِ عباس سے نقل کرتے ہیں
قرآن میں حضرت علی علیہ السلام کے کچھ نام ہیں جن کو لوگ نہیں جانتے، ان میں سے ایک نام آپ(علیه السلام) کا ”موذّن“ بھی ہے جو اس آیت <فَاٴَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَیْنَھُمْ میںآیا ہے ، علی ہیں جو یہ ندا کریں گے اور کہیں گے: ”اٴلا لعنة اللّٰہ علی الذین کذّبوا بولایتی واستخفوا بحقی“ الله کی لعنت ہو ان لوگوںپر جنھوں نے میری ولایت کو جھٹلایا اور میرے حق کو سبک سمجھا(۱)
شیعہ طریقوں سے بھی اس بارے میں متعدد حدیثیں وارد ہوئیں، جیسا کہ جناب صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے:
حضرت علی علیہ السلام کو جنگ نہروان سے واپسی کے موقع پر معلوم ہوا کہ معاویہ آپ کو کھلے بندوں گالیاں دیتا ہے اور آپ کے دوستوں کو قتل کررہا ہے اس وقت حضرت(علیه السلام) نے ایک خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا:
دنیا وآخرت میں ندا کرنے والا مَیں ہوں جس کا خدا نے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ہے کہ: <فَاٴَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَیْنَھُمْ اٴَنْ لَعْنَةُ اللهِ عَلَی الظَّالِمِینَمَیں وہ روزِ قیامت کا موٴذّن ہوں، نیز الله نے فرمایا ہے: <وَاٴَذَانٌ مِنْ اللهِ وَرَسُولِہِ (حج کے موقع پر یہ ندا الله اور اس کے رسول کی طرف سے ہر ایک کے کان میں پہنچ جائے) یہ ندا کرنے والا بھی میرے علاوہ کوئی دوسرا نہ تھا(۲)
ہم نے جہاں تک سوچا کہ بروزِ قیامت حضرت علی علیہ اسلام ندا کیوں بلند کریں گے تو سمجھ میں آیا کہ:
اوّلاً: یہ کہ دنیا بھی خدا اور اس کے رسول کی طرف سے یہ منصب آپ(علیه السلام) کو ملا ہوا تھا کیونکہ فتح مکہ کے بعد آپ(علیه السلام) کو یہ حکم ملا تھا کہ موسم حج میں سورہٴ برائت کو تمام حاجیوں کے سامنے پڑھ کر اس طرح سنادیں کہ اسے سب سُن لیں اور ان سے یہ کہہ دیں : <وَاٴَذَانٌ مِنْ اللهِ وَرَسُولِہِ إِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاٴَکْبَرِ اٴَنَّ اللهَ بَرِیءٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَرَسُولُہُ(یہ ندا ہے خدا اور سے کے رسول کی طرف سے تمام لوگوں کی طرف حج اکبر کے دن کہ خدا اور اس کا رسول مشرکوں سے بیزار ہیں)(۳)
دوسرے: یہ کہ اپنی تمام زندگی میں حضرت علی علیہ السلام کا موٴقف تھا وہ ظلم وستم سے مبارزہ اور جنگ کا موٴقف تھا، ایک ایسا موٴقف جس میں آپ ظالموں اور ستمگاروں کے برخلاف مصروف پیکار رہے، کیونکہ آپ(علیه السلام) کی پوری زندگی میں یہ پہلو بہت درخشان نظر آتا ہے کہ آپ(علیه السلام) کی زندگی ہمیشہ مظلوم کی حمایت اور ظالم سے عداوت میں صرف ہوئی ہے لیکن ان شرائط کے ساتھ جو ا س کا تقاضا تھا ۔
کیا ایسا نہیں ہے کہ آخرت کی زندگی ، اسی دنیا میں انسانوں کی جو زندگی ہے اس کا ایک ترقی یافتہ نمونہ ہوگی، اس لئے کہا جائے تعجب ہے کہ اس دن کا موٴذّن جو جنت اور دوزخ کے درمیان اور رسول کی طرف سے ظالموں پر لعنت کرے گا، وہ حضرت علی علیہ السلام ہوں گے!۔
ہماری بات سے موٴلف ”المنار“ کے اعتراض کا جواب معلوم ہوجائے گا جنھیں حضرت علی علیہ السلام کی اس فضیلت میں شک ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
اس بات کا حضرت علی علیہ السلام کے لئے فضیلت ہونا یقینی نہیں ہے ۔
اس کے جواب میں ہمیں یہ کہنا ہے کہ جس طرح حجِ اکبر کے موقع پر حضرت علی علیہ السلام کا رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی نیابت میں سورہٴ برائت کا تلاوت کرنا ان کے عظیم فضیلت اور بڑے فخر کا سبب ہے اور جس طرح ظالموں اور سرکشوں سے نبردآزوما ہونا آپ کی نمایاں منقبت ہے، بالکل اسی طرح قیامت کے روز آپ(علیه السلام) کا اس منصب جلیل پر فائز ہونا جو فی الحقیقت آپ(علیه السلام) کے دنیاوی عہدوں کا تتمہ ہوگا آپ(علیه السلام) کے لئے عظیم منقبت اور فضیلت کا باعث ہے ۔
نیز گذشتہ سطور سے آلوسی موٴلف تفسیر ”روح المعانی“ کی بات کا جواب بھی معلوم ہوجائے گا جنھوں نے کہا ہے کہ ان احادیث کا اہلِ سنّت کی سندوں سے روایت ہونا ثابت نہیں ہے، کیونکہ ہم نے تحریر کیا ہے کہ ان احادیث کو شیعہ اور سُنّی عالموں نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ۔

۴۶ وَبَیْنَھُمَا حِجَابٌ وَعَلَی الْاٴَعْرَافِ رِجَالٌ یَعْرِفُونَ کُلًّا بِسِیمَاھُمْ وَنَادَوْا اٴَصْحَابَ الْجَنَّةِ اٴَنْ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ لَمْ یَدْخُلُوھَا وَھُمْ یَطْمَعُونَ-
۴۷ وَإِذَا صُرِفَتْ اٴَبْصَارُھُمْ تِلْقَاءَ اٴَصْحَابِ النَّارِ قَالُوا رَبَّنَا لَاتَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ-
۴۸ وَنَادیٰ اٴَصْحَابُ الْاٴَعْرَافِ رِجَالًا یَعْرِفُونَھُمْ بِسِیمَاھُمْ قَالُوا مَا اٴَغْنَی عَنْکُمْ جَمْعُکُمْ وَمَا کُنتُمْ تَسْتَکْبِرُونَ-
۴۹ اٴَہَؤُلَاءِ الَّذِینَ اٴَقْسَمْتُمْ لَایَنَالُھُمْ اللهُ بِرَحْمَةٍ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لَاخَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَلَااٴَنْتُمْ تَحْزَنُونَ-
ترجمہ
۴۷۔ اور ان دونوں (جنت والوں اور دوزخ والوں) کے درمیان ایک پردہ ہوگا اور اعراف پر کچھ مرد ہوں گے جو ان دونوں کو ان علامتوں سے پہچانیں گے، وہ بہشت والوں کو آواز دیں کہ تم پر سلام ہو لیکن وہ بہشت کے اندر داخل نہ ہوسکے ہوں گے جبکہ اس کے امیدوار ہوں گے ۔
۴۸۔ اور جس وقت ان کی نظر دوزخیوں پر پڑے گی تو کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! ہمیں ستمگاروں کے ساتھ نہ رکھنا ۔
۴۸۔ اور اعراف والے (مرد) کچھ مردوں کو (دوزخیوں میں سے) جنھیں وہ ان کی علامتوں سے پہچانتے ہوںگے، پکاریں گے اورکہیں گے کہ (دیکھا) تم نے جن چیزوں کو اکھٹا کیا تھا (یعنی مال ودولت اوز وجہ واولاد) اور جو تم تکبّر کیا کرتے تھے (آج یہ سب کچھ تمھارے کچھ کام نہ آیا ۔
۴۹۔ کیا یہ (وہ پسماندہ افراد جو اعراف میں ہوں گے) وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسم کھایا کرتے تھے کہ خدا کی رحمت ہرگز ان کے شاملِ حال نہیں ہوگی (لیکن ان کے ایمان اور ان کے بعض اعمالِ خیر کی وجہ سے خدا انھیں اپنی رحمت کے دامن میں پناہ دے گا، اب ان سے کہا جائے گا) بہشت کے اندر داخل ہوجاؤ، نہ تو تم کو کوئی خوف ہوگا اور نہ تم غمگین ہوگے ۔
تفسیر


۱۔ تفسیر مجمع البیان، در ذیل آیت مذکورہ-
۲۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۱۷-
۳۔ سورہٴ توبہ، آیت ۳-
 
جنتی لوگ دوزخ والوں کو مخاطب کرکے آواز دیں گے اعراف، جنت کی طرف ایک اہم گزرگاہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma