سرگزشت آدم اور لباس کی مناسبت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
دو اہم نکات:اسلام کی نظر میں زیب و زینت کی حیثیت

ان آیات میں سرگزشت آدم اور لباس کی مناسبت سے دوبارہ مسئلہ پوشاک اور دیگر نعمات زندگی اور ان کے طریقِ استفادہ سے متعلق گفتگو کی گئی ہے ۔
سب سے پہلے تمام فرزندان آدم کو ایک ایسا حکم دیا گیا ہے جو ایک لازوال قانون کے طور پر تمام زمانوں پر محیط ہے: اپنی زینت کو مسجد میں جاتے وقت ہمراہ رکھنا (یَابَنِی آدَمَ خُذُوا زِینَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ) ۔
اس جملہ سے جسمانی زینتوں کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے جیسے صاف ستھرا لباس پہننا، کنگھی کرنا، عطر لگانا اور اسی طرح کی دوسری زینتیں کرنا، اور اس سے روحانی زینتوں کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے جس سے مراد صفات انسانی ، ملکات نفسانی، نیت کی پاکیزگی اور اخلاص ہے ۔
بعض روایات اسلامی میں یہ جو ہے کہ اس سے مراد اچھے کپڑے پہننا یا کنگھی کرنا ہے یا یہ کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مراسم نماز عید و جمعہ ہیں تو یہ اس کی دلیل نہیں ہے کہ تفسیر صرف انھیں چیزوں میں منحصر ہے بلکہ اس سے ان کے واضح مصداق بیان کرنا مقصود ہے ۔(۱)
اسی طرح اگر ہم دیکھیں کہ بعض دوسری روایات میں ہے کہ لفظ ”زینت“ سے مراد لائق رہبر و پیشوا ہیں تو یہ وسعت مفہوم(۳) کی ایک دلیل ہوگی ۔ مطلب یہ ہے کہ آیت کا مفہوم ہر قسم کی ظاہری و باطنی زینت کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے ۔
اگر چہ مذکورہ بالا حکم (زینت) ہر زمانے کے فرزندانِ آدم کے لئے ہے ۔ لیکن ضمنی طور سے یہ سرزنش ہے عربوں کی ایک جماعت کو جن کا زمانہ جاہلیت میں طریقہ یہ تھا کہ جب خانہ کعبہ کے طواف کیلئے مسجد الحرام میں آتے تھے تو بالکل برہنہ ہوجاتے تھے نیز انھیں اس کی بھی نصیحت کرنا مقصود تھی کہ وہ جب نماز جماعت کے لئے مسجد میں آئیں تو ذرا صاف ستھرے کپڑے پہن کے آئیں کیونکہ ان کی عادت یہ تھی کہ جب وہ مسجد میں آتے تھے تو انہی میلے کچلے کپڑوں میں آجاتے تھے جو گھر میں پہنے ہوتے تھے ۔ افسوس یہ ہے کہ ہماے زمانہ میں بھی بعض نادان مسلمانوں کی عادت یہی ہے کہ وہ معمولی لباس میں ہی مسجد میں آجاتے ہیں اور خراب کپڑوں کے ساتھ شریکنماز جماعت ہوتے ہیں جبکہ اس آیت کی تفسیر میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں جن میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب مسجدوں میں آئیں تو اپنا بہترین لباس پہن کر اور آراستہ ہوکر آئیں ۔
اس کے بعد کی آیت میں خدا کی دیگر نعمتوں، جن کا تعلق کھانے پینے سے ہے، کی طرف اشارہ ہوا ہے، فرمایا گیا ہے: کھاؤ اور پیو (وَکُلُوا وَاشْرَبُوا) ۔
لیکن چونکہ انسان کی طبیعت میں ہوس ہے ا س لئے ہوسکتا تھا کہ وہ ان دو احکام سے ناجائز فائدہ حاصل کرلیتا اور صحیح پوشاک اور مناسب خوراک کی بجائے تجمل پرستی، فضول خرچی اور کھانے میں افراط کا راستہ اختیار کرلیتا لہٰذا اس کی طرف فوراً تنبیہ کردی ہے کہ: اسراف نہ کرنا کیونکہ خدا اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا (وَلَاتُسْرِفُوا إِنَّہُ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِینَ) ۔
”اسراف“کا کلمہ ایک بہت جامع ہے، جو ہر قسم کی زیادہ روی کا مفہوم دیتا ہے چاہے وہ کمیت کے لحاظ سے ہو یا کیفیت کے اعتبار سے ،اتلاف ہو یا فضول خرچی یہ سب کو اپنے دائرہ میں لئے ہوئے ہے ۔قرآن کریم کی ایک روش ہے کہ جب بھی وہ نعمات فطرت سے بہرہ اندازی کی طرف شوق دلاتا ہے تو فوراً راہِ اعتدلال سے بھٹکنے کی روک تھام بھی کردیتا ہے ۔
اس کے بعد کی آیت میں ذرا تند لہجہ میں ان لوگوں کو جواب دیا گیا ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ زہد کے معنی یہ ہیں کہ زینتوں کو اپنے اوپر حرام کردیا جائے، اور پاک و حلال رزق و روزی کو ترک کردیا جائے ۔ تو یہ زہد و پارسائی کی نشانی اور مقربِ بارگاہ الٰہی ہونے کی علامت ہے ۔ لہٰذا فرمایا گیا ہے: اے پیغمبر! ”کہو کس نے خدا کی ان زینتوں کو حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں اور کس نے اس کی نعمتوں اور پاک روزیوں کو حرام کیا ہے “ (قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِینَةَ اللهِ الَّتِی اٴَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ) ۔
اگر یہ چیزیں بری تھیں تو سے سے اللہ انھیں پیدا، ہی نہ کرتا، اور اب جبکہ اس نے ان چیزوں کو بندوں کے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے، کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ انھیں حرام کردے؟ کیا خلقت کی فطرت اور شریعت کے احکام میں تضاد ممکن ہے؟
اس کے بعد مزید تاکید کے لئے فرماتا ہے: ان سے یہ کہہ دو کہ یہ نعمتیں با ایمان لوگوں کے لئے اس دنیا میں خلق ہوئی ہیں، اگر چہ دوسرے افراد بھی لیاقت نہ ہونے کے باوجود ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن بروزِ آخرت اور اعلیٰ زندگی کے موقع پر جبکہ انسانوں کی صفوں کو چھانٹ کر کھوٹا کھرا الگ کیا جائے گا تب یہ سب نعمتیں اور لذّتیں صرف یا ایمان اور نجات یافتہ افراد کودی جائیں گی، دوسرے لوگ ان سے بالکل محروم ہوجائیں گے (قُلْ ھِیَ لِلَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ) ۔
بنابریں وہ نعمتیں اور لذّتیں جو دنیا میں بھی ان کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور آخرت میں تو صرف انہی کے لئے ہیں کیونکہ ممکن ہے کہ خدا انھیں حرام قرار دے دے، حرام وہ چیز ہوتی ہے جس میں کوئی ضرر ہو نہ کہ نعمت و مرحمت۔
اس آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی پیش کیا گیا ہے کہ قدرت کے یہ عطیے اور نعمتیں اگر چہ دار دنیا میں رنج و تکلیف کے ساتھ مخلوط ہیں لیکن آخرت میں یہ نعمتیں ہر قسم کے رنج و اذیت سے خالص ہوکر موٴمنین کو ملیں گی (لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے) ۔
آیت کے آخر میں تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے: ہم اپنی آیتوں اور احکام کی ان لوگوں کے لئے جو آگاہ ہیں اور سمجھتے ہیں تشریح کرتے ہیں (کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ) ۔

 


۱،2۔ ان روایات کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر برہان جلد دوم ص ۹۔۱۰ و تفسیر نورالثقلین جلد دوم ص ۱۸۔ ۱۹-
 
دو اہم نکات:اسلام کی نظر میں زیب و زینت کی حیثیت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma