قوم لوط کا دردناک انجام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
قوم ثمود کو کس طرح موت آئی؟مدین میں حضرت شعیب (علیه السلام) کی رسالت

ان آیات قرآنی میں ایک منظر ایک اور پیغمبر کی سرگزشت کا پیش کیا گیا ہے، جو گزشتہ آیات کا مقصد ہے اس کی مزید تکمیل کی گئی ہے ۔یہ حضرت۔ لوط علیہ السلام اور ان کی قوم کی سرگزشت ہے ۔
یہ ماجرا قرآن کی چند سورتوں میں بیان کیا گیا ہے، جیسے سورہ ہائے ہود، حجر، شعراء، انبیاء، نمل اور عنکبوت۔
اس جگہ پانچ آیتوں میں حضرت لوط (علیه السلام) اور ان کی قوم کی گفتگو کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سورہٴ ”اعراف“ میں ان داستانوں کو بیان کرنے کلا مقصد صرف یہ ہے کہ انبیاء اور ان کی قوموں کے مابین جو مخالفتیں رہیں اور جو ان میں گفتگو ہوئی اس کاخلاصہ پیش کیا جائے، لیکن ان قصوں کی تفصیل کو دوسری سورتوں کی تفصیل کے لئے اٹھا رکھا گیا ہے (ہم بھی انشاء اللہ ان لوگوں کا مفصل قصہ سورہٴ ہود اور سورہٴ حجر میں بیان کریں گے) ۔
اب زیر بحث آیات کی تفسیر کی جانب توجہ مبذول کرتے ہیں ۔
پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: یاد کرو پیغمبر لوط کو جب کہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسا ننگین اور شرمناک فعل انجام دیتے ہو کہ جہانوں میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا( وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ اٴَتَاٴْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَکُمْ بِھَا مِنْ اٴَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِینَ) ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ عمل بذات خود ایک انتہائی برا اور شرمناک فعل تو ہے ہی، اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ یہ وہ برا کام ہے جو تم سے پہلے کسی قوم وملت نے نہیں کیا، اس وجہ سے اس کی برائی کئی گنا بڑھ گئی ہے کیوں کہ کسی برے طریقے کی بنیاد رکھنا قریب کے زمانے میں اور دور کے زمانے میں آنے والے افراد کو اس برے طریقے پر چلنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے ۔
مذکورہ بالا آیت سے یہ بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل بد تاریخی حیثیت سے قوم لوط تک منتہی ہوتا ہے کیوں کہ وہ لوگ پیسے والے تھے جو اپنی زندگی ہوا پرستی اور شہوت رانی میں گزارتے تھے جس کی تفصیل انشاء اللہ مذکورہ بالا سورتوں کی تفسیر میں بیان کی جائے گی ۔
اس کے بعد والی آیت میں اس گناہ کی تشریح کی گئی ہے جس کو اب تک سربستہ طور سے بیان کیا گیا تھا، ارشاد ہوتا ہے: تم لوگ شہوت کے ساتھ مردوں کی طرف جاتے ہو اور عورتوں کو تم نے چھوڑ رکھا ہے (إِنَّکُمْ لَتَاٴْتُونَ الرِّجَالَ شَھْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ ) ۔
بھلا اس سے بد تر اور کونسا کام ہوسکتا ہے کہ توالد وتناسل کا واحد ذریعہ یعنی ”مرد عورت کا ملاپ“ اس کو انسان ترک کردے، اور ”جنس موافق“ کے پیچھے پڑ جائیں، یہ ایسا کام ہے جو اصولی طور پر نادرست خلاف عقل اور بدن انسانی کی ساخت کے منافی اور روح کے خلاف ہے، نیزانسان کی اس فطرت اولیٰ کے خلاف ہے جس میں ابھی کوئی تغیر واقع نہیں ہوا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جنسی ملاپ کی جو غرض وغایت ہے وہ فوت ہوکر رہ جائے گی دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہئے کہ اس فعل کا ماحصل یہ ہے کہ انسان اپنی جنسی خواہش کو جھوٹے طریقے سے پورا کرے اور نسل انسانی کو قطع کرنے کا سبب بن جائے، اس کے بعد آیت میں مزید تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے: تم لوگ اسراف کرنے والی قوم ہو(یعنی تم نے حدود الٰہی سے اپنے قدم آگے بڑھا لئے ہیں اور گمراہی وسرکشی کے میدان میں فطرت کے حد وحدود کو چھوڑ کر بھٹک گئے ہو(بَلْ اٴَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ) ۔
ممکن ہے لفظ”مسرفون“ سے اشارہ اس بات کی طرف ہو کہ وہ لوگ نہ صرف جنس کے بارے میں مسرف تھے بلکہ دیگر چیزوں میں بھی ان کی یہی حالت تھی ۔
یہاں پر قابل توجہ بات یہ ہے کہ پہلی آیت میں مطلب کو سربستہ بیان کیا تھا، اس کے بعد اس آیت میں اسے ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، یہ علم بلاغت کے فنون میں سے ایک فن ہے کہ جب بھی کسی اہم بات کو بیان کرنا ہوتا ہے اسے اسی طرح بیان کرتے ہیں تاکہ اس کی طرف ذہن انسانی اچھی طرح متوجہ ہوجائے مثلاً اگر کوئی شخص بہت برا کام انجام دے تو پہلے اس کا بیدار مغز اور آگاہ سرپرست معاملے کی اہمیت جتلانے کے لئے کہتا ہے ”تونے بہت بری بات کی“ پھر آخر میں جاکر اس پر سے پردہ اٹھائے گا اور اس کام کی تشریح کرے گا، اس طرح کا طرز بیاں دراصل طرف مقابل کے ذہن کو تدریجاً اس بات کے لئے آمادہ کرتا ہے کہ وہ معاملے کی اہمیت کی طرف متوجہ ہوجائے اور اس کی سمجھ میں یہ آجائے کہ جو برا کام اس نے کیا ہے وہ کتنا سنگین ہے ۔
اس کے بعد کی آیت میں قوم لوط کی غیر منطقی اور ضد آمیز گفتگو کا جواب دیا گیا ہے:ان لوگوں کے پاس اس ہمدرد، خیر خواہ اور مصلح پیغمبر کی بات کا کوئی جواب نہ تھا سوائے اس کے کہ انھوں نے بڑی بدتمیزی اور غصے سے کہا کہ لوط اور ان کے پیرووٴں کو اپنے شہر سے باہر نکال دو، ان کا گناہ کیا-؟ان کا گناہ صرف یہ ہے کہ یہ پاک لوگ ہیں اور گناہ نہیں کرتے ( وَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہِ إِلاَّ اٴَنْ قَالُوا اٴَخْرِجُوھُمْ مِنْ قَرْیَتِکُمْ إِنَّھُمْ اٴُنَاسٌ یَتَطَھَّرُونَ) ۔
اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ایک کثیف اور گنہگار گروہ نے پاکدامن افراد کو ان کی پاکدامنی کے جرم میں اپنی سوسائٹی سے نکال دینے کی کوشش کی، یہ لوگ ایسے پاک افراد کو اپنی ہوس رانی اور شہوت پرستی کے لئے سد راہ دیکھتے تھے اس بنا پر ان کی پاکدامنی اس گروہ کے لئے بجائے خوبی کے ان کی کمزوری شمار ہوتی تھی ۔
”ا ِنَّھُمْ اٴُنَاسٌ یَتَطَھَّرُونَ“ اس جملے میں ایک یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ قوم لوط کا منشا یہ تھا کہ حضرت لوط اور ان کے پیروکاروں کو تظاہر اور ریاکاری کے ساتھ متہم کریں، جیسا کہ ہم اکثر اشعار وغیرہ میں سنا ہے کہ بعض گنہگار اور شرابخوار افراد مقدس اور پاک بندوں کو دکھاوے اور ریاکاری کے ساتھ متہم کرتے ہیں اور بزعم خود اپنے ”شراب آلودہ چھیتھڑوں کو ”زاہد کے مصلیٰ“ سے بہتر خیال کرتے ہیں، اور یہ ایک جھوٹا برائت نامہ ہے جو وہ خود اپنے ہاتھ سے اپنے لئے لکھ لیتے ہیں ۔
اگر مذکورہ بالا تین آیات پر نظر ڈالی جائے تو ہر انصاف پرور شخص یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگا کہ قوم لوط کے افراد بہت گرے ہوئے لوگ تھے جنھوں نے ایک مصلح بزرگ کی تمام نصیحتوں اور منطقی دلیلوں اور جملہ خیر خواہیوں کو نی صرف ٹھکرادیا بلکہ ان کاجواب اپنی دھمکیوں اور زور نمائی اور تہمتوں سے دیا، لہٰذا خدانے بعد والی آیت میں فرمایا: جب با ت ہاں تک پہنچی تو ہم نے لوط (علیه السلام) ، ان کے پیرووٴں اور ان کے خاندان میں واقعی پاکدامن تھے ان کو نجات دے دی سوائے ان کی بیوی کے کہ اس کو تباہ ہونے والی قوم میں عذاب کا مزہ چکھنے کے لئے چھوڑ دیا کیوں کہ وہ عورت بھی عقیدہ اور مذہب کے لحاظ سے ان لوگوں کی ہم خیال تھی( فَاٴَنجَیْنَاہُ وَاٴَھْلَہُ إِلاَّ امْرَاٴَتَہُ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ) ۔(۱)
بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ لفظ”اھل“ اگرچہ زیادہ تر نزدیک کے عزیزوں پر بولا جاتا ہے مگر آیت مذکورہ میں حضرت لوط (علیه السلام) کے حقیقی پیرووٴں پر اس کا اطلاق ہے یعنی وہ بھی آپ کے خاندان اور اہل میں محسوب ہوتے تھے، لیکن سورہ ”ذاریات“ کی آیت ۳۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ سوائے آپ کے خاندان والوں اور نزدیک کے عزیزوں کے اور کوئی شخص آپ پر ایمان نہیں لایا تھا، بنابریں لفظ ”اہل“ اپنے اسی حقیقی معنی یعنی خاندان والوں پر ہی استعمال ہوا ہے
سورہ ”تحریم“ کی آیت ۱۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ”لوط(علیه السلام) “ کی یہ زوجہ ابتدامیں ایک اچھی عورت تھی لیکن بعد میں اس کی نیت بدل گئی اور اس نے حضرت لوط (علیه السلام) کے ساتھ خیانت کر کے قوم لوط کی جراٴت بڑھائی ۔
اس آیت کے آخر میں بہت مختصر لیکن ایک معنی خیز اشارہ اس قوم کے لئے وحشتناک عذاب کی طرف کیا گیا ہے، فرمایاگیا ہے:ہم نے ان کے اوپر بار ش برسائی (لیکن کیسی بارش؟! پتھروں کی بارش جس نے ان کو کچل کر تہس نہس کردیا( وَاٴَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ مَطَرًا) ۔
اگرچہ آیت مذکورہ میں اس بار ش کی نوعیت بیان نہیں کی گئی لیکن چونکہ اس کو لفظ” مطرا“ (ایک بارش) سے تعبیر کیا گیا ہے جو ایک سربستہ لفظ ہے لہٰذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی معمولی اور عام بارش نہ تھی بلکہ پتھروں کی بارش تھی جیسا کہ سورہٴ ہود کی آیت ۸۳ میں بیان ہوا ہے ۔
”اب دیکھو کہ مجرموں کا انجام کیا ہوا!“(فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِینَ) ۔
اگرچہ اس آیت میں روئے سخن پیغمبر( حضرت لوط (علیه السلام))کی طرف ہے، لیکن ظاہر ہے کہ مقصد یہ ہے کہ تمام انسان اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں ۔
اس قوم کا مفصل احوال، اسی طرح لواطہ اور ہم جنس پرستی کے گوناگوں مضرات اور شریعت کی رو سے اس عمل شنیع کی سزا انشاء اللہ سورہٴ ہود اور حجر میں بیان کی جائے گی ۔

 

 

 

۸۵ وَإِلیٰ مَدْیَنَ اٴَخَاھُمْ شُعَیْبًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرُہُ قَدْ جَائَتْکُمْ بَیِّنَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ فَاٴَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیزَانَ وَلَاتَبْخَسُوا النَّاسَ اٴَشْیَائَھُمْ وَلَاتُفْسِدُوا فِی الْاٴَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِھَا ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ-
۸۶ وَلَاتَقْعُدُوا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ مَنْ آمَنَ بِہِ وَتَبْغُونَھَا عِوَجًا وَاذْکُرُوا إِذْ کُنتُمْ قَلِیلًا فَکَثَّرَکُمْ وَانظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِینَ ۔
۸۷ وَإِنْ کَانَ طَائِفَةٌ مِنْکُمْ آمَنُوا بِالَّذِی اٴُرْسِلْتُ بِہِ وَطَائِفَةٌ لَمْ یُؤْمِنُوا فَاصْبِرُوا حَتَّی یَحْکُمَ اللهُ بَیْنَنَا وَھُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ۔
ترجمہ
۸۵۔اور (ہم نے بھیجا) مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو، انھوں نے کہا کہ اے میری قوم! خدا کی پرستش کرو کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تمھارے پروردگار کی جانب سے روشن دلیل آچکی ہے، بنابریں جو پیمانہ اور ترازو کا حق ہے اسے ادا کرو، اور لوگوں کے مالوں میں سے کچھ کم نہ کرو اور جب کہ (ایمان اور دعوت انبیاء کی وجہ سے) روئے زمین پر اصلاح ہوچکی ہے، اس میں فساد نہ کرو، یہ تمھارے واسطے بہتر ہے اگر تم با ایمان ہو ۔
۸۶۔ اور ہر راستے پر نہ بیٹھو تاکہ (با ایمان لوگوں کو) دھمکیاں دو اور مومنو کو راہ راست سے روکو اور (طرح طر ح کے شبہے ڈال کر ) اس راہ کو ٹیڑھا دکھلاؤ، اور یاد کرو اس وقت کو جب کہ تم بہت تھوڑے تھے اس نے تم کو کثرت عطا کی اور دیکھو کہ مفسدوں کا کیا انجام ہوا!۔
۸۷۔ اور جو کچھ ہم نے بھیجا ہے اس پر اگر ایک گروہ ایمان لایا ہے اور دوسرا گروہ ایمان نہیں لایا تو اس پر صبر کرو تاکہ خدا ہمارے درمیان فیصلہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔

 

 
۱۔ ”غابر“ اس شخص کو کہتے ہیں جس کے ساتھی چلے جائیں اور وہ پیچھے رہ جائے، جیسا کہ حضرت لوط (علیه السلام) کا خاندان ان کے ہمراہ چلا گیا اور ان کی بد بخت زوجہ عذاب کا مزہ چکھنے کے لئے شہر میں باقی رہ گئی ۔
 
قوم ثمود کو کس طرح موت آئی؟مدین میں حضرت شعیب (علیه السلام) کی رسالت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma