قبولیت دعا کی شرائط

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
”خلق“ و ”امر“ سے کیا مراد ہے؟مربی اور قابلیت دونوں چیزوں کی ضرورت ہے

گذشتہ آیات سے اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ عبودیّت اور بندگی کا تنہا سزاوار خدا ہے، اسی کے ذیل میں یہاں حکم دیتا ہے کہ ”دعا ومناجات“ جو روحِ عبادت ہے صرف خدا کے سامنے ہونا چاہیے ”اپنے پروردگار کو گڑگڑا کر اور تنہائی میں پکاروں“ (ادْعُوا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَةً) ۔
”تضرع“ اصل میں مادّہٴ ”ضرع“ (بروزن فرع) بہ معنی پستان سے لیا گیا ہے ، اس بناپر فعل ”تضرع“ کے معنی پستان سے دودھ دوہنے کے ہیں، چونکہ دودھ دوہتے وقت انگلیاں پستان کی مختلف جہتوں پر پڑتی رہتی ہیں، لہٰذا یہ لفظ اس کے لئے بولا جاتا ہے جو مختلف طریقوں سے کسی بڑے کے سامنے (اس کی خبر لینے کے لئے) خضوع وخشوع اور عجز وفروتنی کا اظہار کرے ۔
بنابریں اگر آیت مذکورہ بالا میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا کو تضرع سے (گڑگڑاکے) پکارو، اس ما مطلب یہ ہے کہ اسے بڑے خضوع وخشوع اور تواضع کے ساتھ پکاروں، کیونکہ دعا کی حقیقت یہ نہیں ہے کہ خدا کو صرف زبان سے پکارا جائے بلکہ دعا کے معنی یہ ہیں کہ دعا دل گہرائیوں میں اترکر اوپر جائے، بلکہ دعا کرنے والے کے روئیں روئیں میں دعا کا مفہوم اتر جائے اور زبان تمام اعضائے بدن کی نمائندگی میں دعا کے الفظ کو ادا کرے ۔
اس آیت میں یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ خدا کو ”خفیہ“ طورسے یعنی تنہائی میں پکاروں اور اکیلے میں اس سے دعا کرو اس لئے ہے کہ دعا کے وقت ریا نہ آنے پائے اور اخلاص پیدا ہوجائے، دل ودماغ خدا کے حضور میں پوری طرح سے متوجہ ہوجائیں ۔
ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کسی غزوہ میں تھے، سپاہیانِ اسلام ایک درّہ کے پاس پہنچے تو انھوں نے ”لاالٰہ الّا الله واللهُ اکبر“ کا نعرہ بلند کیا، اس وقت حضرت رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”یا اٴیھا الناس اربعوا علیٰ انفسکم اٴما اٴنکم لاتدعون اصم ولا غائباً اٴنکم تدعون سمیعاً قریباً اٴنّہ معکم“
اے لوگو! کچھ آہستہ سے خدا کو پکارو (آہستگی کے ساتھ دعا کرو) تم کسی بہرے اور غیر حاضر کو تو نہیں پکاررہے ہو تم اس ہستی کو پکار رہے ہو جو بڑا سننے والا اور تم سے قریب ہے اور تمھارے ساتھ ہے ۔(۱)
اس آیت میں یہ احتمال بھی پیش کیا گیا ہے ”تضرع“ سے مراد آشکارا طور پر دعا کرنا اور ”خفیہ“ سے تنہائی میں دعا کرنا مراد ہے، کیونکہ ہر مقام کا ایک تقاضا ہوتا ہے، کبھی کھل کر اور بلند دُعا کرنا ہوتی ہے اور کبھی چھپ کر اور چپکے چپکے دعا کی جاتی ہے، اس آیت کے ذیل میں جوروایت علی بن ابراہیم سے نقل ہوئی ہے وہ اس مطلب کی تائید کرتی ہے ۔
آخر آیت میں فرماتا ہے: خدا تجاوز کرنے والوں (حد سے گزرجانے والوں) کو دوست نہیں رکھتا (إِنَّہُ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ) ۔
یہ جملہ اپنے دامنمیں ایک وسیع معنی رکھتا ہے جو ہر قسم کے تجاوز پر محیط ہے، چاہے وہ دعا کے وقت چیخنے پکارنے کی بات ہو، یا تظاہر ار ریاکاری کا معاملہ ہو یا ہنگامِ دعا غیر خدا کی طرف توجہ کرنا ہو، لفظ ”معتدی“ ان سب کے بارے میں ہے ۔
اس کے بعد آیت میں ایک حکم کی طرف اشارہ ہوا ہے جو فی الحقیقت شرائطِ دعا میں سے ایک شرط ہے، فرمایا گیا ہے: روئے زمین پر فساد نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے (وَلَاتُفْسِدُوا فِی الْاٴَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِھَا) ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دعا اس وقت خدا کے حضور میں پہنچتی ہے جبکہ اس میں ضروری شرائط کا لحاظ کیا جائے، منجملہ ان شرائط کے ایک بات یہ ہے کہ دعا میں حتی المقدور تعمیری پہلو کا لحاظ کیا جائے، لوگوں کے حقوق کا پاس ہو اور ایسی دعا کا پرتو اپنے تعمیری پہلو کے ساتھ تمام انسانی وجود کے اوپر ضوفگن ہو، بنابریں کبھی بھی مفسد اور تباہ کار افراد کی دعا درجہٴ اجابت تک نہیں پہنچ سکتی ۔
”اصلاح کے بعد فساد“ سے ممکن ہے ظلم یا کفر یا دونوں مراد ہوں، امام محمد باقر علیہ السلام کی ایک روایت میں ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
”انّ الارض کانت فاسدة فاصلحھا الله بنبیہ“
زمین فاسد تھی خدا نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ والہ وسلم کے ذریعے اس کی اصلاح فرمائی(2)
بعد ازں دوبارہ مسئلہ دعا کی طرف رجوع کیا گیا ہے اور اس شرائط میں ایک اور شرط کا ذکر کیا گیا ، فرماتا ہے: خدا کو خوف ورجا کے ساتھ پکارو

 

 (وَادْعُوہُ خَوْفًا وَطَمَعًا) ۔
نہ تو اپنے اعمال پر ایسا گھمنڈ ہو کہ یہ گمان ہو کہ تمھاری زندگی میں کوئی تاریک گوشہ نہیں ہے، ایسا خیال کرنا خود سقوط وانحطاط کا ایک بڑا سبب ہے اور نہ اس طرح سے مایوس ہوجاؤ کہ اپنے اپ کو خدا کی رحمت اور کی قبولیت کا مستحق نہ جانو، احساس بھی انسان کو ہر قسم کی کوشش کرنے سے روک دیتا ہے، بلکہ ”خوف ورجاء“ کے دو پردوں کے ذریعہ مقامِ قربِ الٰہی کی طرح محوِ پرواز رہو، امید ہو تو اس کی رحمت کی امید ہو، اور خوف ہو تو اپنی ذمہ داریوں اور لغزشوں کا خوف ہو ۔
اس کے آخر آیت میں رحمتِ خدا کے اسباب کی طرف روشنی ڈالی گئی ہ، ارشاد ہوتا ہے: الله کی رحمت نیکوکاروں سے نزدیک ہے

 

 (إِنَّ رَحْمَةَ اللهِ قَرِیبٌ مِنَ الْمُحْسِنِینَ) ۔
ممکن ہے یہ جملہ دعا کی ایک اور شرط ہو یعنی ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمھاری دعا ایک لفظی دعا اور اندر سے خالی نہ ہو تو ایسا کرو کہ اسے اعمالِ نیک کے ساتھ ادا کرو، تاکہ ان اعمال کی مدد سے الله رحمت تمھارے شاملِ حال ہوجائے اور تمھاری دعا اجابت کی منزل تک پہنچ جائے ۔
اس طرح سے آیہٴ شریفہ میں قبولیت دعا کی پانچ شرطیں بیان کی گئی ہیں:
اول: یہ کہ تضرع کے ساتھ تنہائی میں دعا مانگو ۔
دوم: یہ کہ حدّ اعتدال سے تجاوز نہ کرو ۔
سوم: یہ کہ تمھاری دعا فساد اور تباہ کاری کے ساتھ نہ ہو ۔
چہارم: یہ کہ دعا میں خوف وامید کے پہلو برابر کے ہوں ۔
پنجم: یہ کہ دعا نیک اعمال کے ہمدوش ہو ۔

 

 

 

۵۷ وَھُوَ الَّذِی یُرْسِلُ الرِّیَاحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہِ حَتَّی إِذَا اٴَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاہُ لِبَلَدٍ مَیِّتٍ فَاٴَنزَلْنَا بِہِ الْمَاءَ فَاٴَخْرَجْنَا بِہِ مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ کَذٰلِکَ نُخْرِجُ الْمَوْتیٰ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ-
۵۸ وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِإِذْنِ رَبِّہِ وَالَّذِی خَبُثَ لَایَخْرُجُ إِلاَّ نَکِدًا کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَشْکُرُونَ-
ترجمہ
۵۷۔ وہ خدا وہ ہے جو ہَواؤں کواپنی رحمت (کی بارش) کے آگے آگے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ بھاری بادلوں کواپنے دوش پر اٹھالیتی ہیں، ہم انھیں مردہ زمین کی طرف ہنکادیتے ہیں، پھر ان سے پانی برساتے ہیں، پھر اس کے ذریعے ہر طرح کے پھل اُگاتے ہیں (تم جان لوگ کہ) اسی طرح ہم مُردوں کوبھی (قیامت کے روز زندہ کر کے زمین سے) نکالیں گے، (یہ مثال ہم نے اس لئے دی ہے) تاکہ تم (آخرت کو) یاد کرو ۔
۵۸۔ پاکیزہ سرزمین کی زراعت الله کے حکم سے (خوب) اُگتی ہے اور خبیث (اور شورزدہ) زمین میں سوائے معمولی گھاس پھونس کے اور کچھ نہیں اُگتا، ہم اسی طرح سے آیتوں کوادل بدل کے ان کے لئے بیان کرتے ہیں جو شکر ادا کرتے ہیں ۔
تفسیر

 

 


 
۱۔ مجمع البیان، ج۴، ص۴۲۹-
2۔ مجمع البیان، ج۴، ص۴۲۹-
 

 

”خلق“ و ”امر“ سے کیا مراد ہے؟مربی اور قابلیت دونوں چیزوں کی ضرورت ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma