دو اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
توحید اور شرک سے مقابلے مقام انسانی کی اہمیت

دوسروں کے گناہ اپنے کندھے لینا: ۱۔ممکن ہے کسی کو یہ خیال ہو کہ آیت مذکورہ بالا میںجو دو مسلم الثبوت اور منطقی قانو ن بیان کیے گئے ہیں، مذہبوں کے نزدیک بھی طے شدہ ہیں (یعنی کوئی شخص سوائے اپنے کسی کے لئے کار آخرت نہیں کرتا اور کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بار اپنے کاندھے پر نہیں اٹھاتا )یہ دونوں اصول قرآن کریم کی بعض دیگر آیات اور بعض روایات سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ مثلاً سورہ نحل کی آیت ۲۵ میں ہے ۔
” لِیَعْمِلُوْآ اَوْزَارَہُمْ کَامِلَةً یَّوْمَ الْقِیَامَةِ وَ مِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَہُمْ بِغَیْرِ عِلْیمٍ “
”وہ لوگ بروز قیامت اپنے گناہوں کے بھاری بوجھ کو اپنے کاندھے پر اٹھائیں گے، اسی طرح ان لوگوں کے کناہوں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے جنہیں انھوں نے اپنے جہل سے گمراہ کیا“۔
اگر یہ صحیح ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بار گناہ نہیں اٹھائے گا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ گمراہ کرنے والے ان لوگوں کا بار گناہ اٹھائیں گے جنہیں انھوں نے گمراہ کیا ہے ۔
اس کے علاوہ احادیث ”سنت حسنہ“ و ”سنت سیئہ“ بھی آیت زیر بحث سے مطابقت نہیں رکھتیں کیونکہ شیعہ سنی دونوں طریقوں سے بعض روایات وارد ہوئی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :
اگر کسی شخص نے اچھی سنت قائم کی اسے ان لوگوں کا اجر دیا جائے گا جو اس پر چلیں گے (بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے ثواب میں سے کچھ کم کیا جائے) اسی طرح اگر کسی شخص نے کوئی سنت جاری کی اس کے نام ان لوگوں کا گناہ لکھا جائے گا جو اس پر عمل کریں گے (بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے گناہوں میں سے کچھ کم کیا جائے گا) ۔
روایت کا متن یہ ہے:
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم: ”من سنّ سنة حسنة کان لہ اجر من عمل بھا من غیر ان ینقص من اجورھم شیء ومن سنّ سنة سیّئة کان علیہ وزر من عمل بھا من غیران ینقص من اوزارھم من شیء“
لیکن اس شبہ کا جواب واضح ہے، کیونکہ آیہٴ مورد بحث کہتی ہے کہ بغیر کسی وجہ کے اور بغیر اس کے کہ دو گناہوں میں آپس میں کوئی ربط ہو ایک شخص کا گناہ دوسرے شخص کے ذمہ نہیں لگایا جائے گا، لیکن وہ آیات وروایات جن کی طرف اشارہ کیا گیا ان کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان دوسرے دوسرے انسان کے عمل نیک یا عمل بد کی داغ بیل ڈالے گا، یا یوں کہنا چاہیے کہ دوسرے کے عمل میں ”سببی“ طور سے شریک ہوگا تو ظاہر ہے کہ اس عمل کے تنائج خوب وبد میں بھی شریک ہوگا کیونکہ وہ عمل اس کا عمل متصور ہوگا کیونکہ اس نے اس عمل کی بنیاد رکھی ہے ۔
۲۔ کیا دوسروں کے اعمال نیک ہمارے لئے مفید ہوسکتے ہیں؟:۔ دوسرا خیال آیہ مورد بحث سے یہ آسکتا ہے کہ یہ آیت کہتی ہے کہ ہر شخص کا عمل صرف اس کے لئے فائدہ بخش ہوگا ۔ اس بناپر وہ کارہائے خیر جو کسی کی نیابت میں کیے جاتے ہیں یا اموات کے لئے جو ثواب ہدیہ کیا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات زندہ شخص کے لئے بھی ثواب کا ہدیہ کرتے ہیں ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ دوسرے شخص کے لئے مفید ہو، حالانکہ کثیر روایات میں شیعہ اور سنی دونوں طریقوں سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم یا آئمہ طاہرین علیہم السلام سے وارد ہوا ہے کہ اس طرح کے اعمال مفید و سودمند ہوتے ہیں، نہ صرف اولادہ کا عمل والدین کیلئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی فائدہ بخش ہیں ۔
علاوہ بریں، ہمیں معلوم ہے کہ پاداش عمل کا تعلق ان اثرات سے ہے جو کسی کار خیر کے کرنے کی وجہ سے اس شخص کی روح و جان پر مرتب ہوتے ہیں، جو اس کی معنوی ترقی میں موٴثر ہوتے ہیں، اس کے برخلاف وہ شخص جس نے کوئی عمل خیر انجام نہیں دیا ۔ حتیٰ کہ اس کے ابتدائی امور میں شریک نہیں ہوا، کیسے ممکن ہے کہ وہ یہ روحانی و معنوی اثرات حاصل کرسکے؟
بعض لوگ یہ اعتراض بڑی آب وتاب سے بیان کرتے ہیں ۔ نہ صرف عام افراد بلکہ موٴلفین اور مفسرین بھی اس اعتراض سے متاثر نظر آتے ہیں جیسے تفسیر ”المنار“ لکھنے والے جس کے نتیجے میں بہت سی مسلم الثبوت احادیث انھوں نے نذر طاق نسیاں کردی ہیں، لیکن اگر دونکتوں کی طرف توجہ کی جائے تو ایسے اعتراضات کا جواب مل جاتا ہے، اور وہ یہ ہیں:
۱۔ یہ صحیح ہے کہ ہر شخص کا عمل نیک اس کی معنوی ترقی کا سبب بنتا ہے، اور اس کا فلسفہ، نتیجہ اور اثر واقعی ہوگا وہ اس کے کرنے والے کی طرف عائد ہوگا، جیسا کہ ورزشی حرکات، یا تعلیم و تربیت کا نتیجہ۔ قوت اور اخلاقی نشو و نما کی صورت میں اس کے جسم اور روح پر ہوتا ہے ۔
لیکن جس وقت کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے لئے کوئی نیک کام بجا لاتاہے ،وہ یقیناکسی اسی خصوصیّت یانیک صفت کی وجہ سے ہوتا ہے جو اس میںہوتی ہے ،یاتو دہ ایک اچھا مربّی تھا یاایک اچھا شاگردتھا یاوہ ایک باصفا دوست تھایا وہ ایک باوفا ایک دوست تھا یا وہ ایک باوفا ہمسایہ تھا یا وہ ایک خدمت کرنے والا عالم تھا اور یا ایک مومن حقیقی ہر صورت میں اس کی زندگی میں کوئی نہ کوئی روشنی کا پہلو ضرور پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے دوسروں کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوئی اور انھوں نے اس کے لئے اعمال خیر انجام دیئے ۔ اس بناپر اس شخص نے اپنی خصوصیت، نمایاں صفت اور اپنی زندگی کے اس درخشاں پہلو کا بدلہ پایا ہے اور اس طرح سے بالعموم دوسرے افراد کا عمل خیر اس کے لئے بھی کسی عمل خیر یا نیت نیک کے نتیجہ میں واقع ہوا ہے، جونی الحقیقت خود اس عمل کا ایک پرتو ہے ۔
۲۔ خداوند عالم اپنے بندوں کو جو پاداش دیتا ہے وہ دو طرح کی ہوتی ہے:
ایک وہ پاداش جو اُن کے روحانی ارتقاء اور اُن کی اخلاقی شائستگی کے مطابق ہوتی ہے ۔ یعنی ان کے اعمال نیک کی وجہ سے ان کی روح و جان اس بلندی پر پہنچ جاتی ہے کہ انھیں حق پہنچتا ہے کہ وہ بہتر و بالا جہانوں میں زندگی بسر کریں اور اپنے ان پروں کے ذریعے جو انھوں نے اپنے نیک عقیدے اور نیک اعمال کے ذریعے حاصل کیے ہیں، آسمان سعادت کی بلندیوں میں پرواز کریں ۔ یہ بات طے ہے کہ اس طرح کے آثار و نتائج اسی عمل کے بجالانے والے کے ساتھ مخصوص و معین ہیں اور یہ اس قابل نہیں ہیں کہ انھیں کسی دوسرے کو بخش دیا جائے ۔
لیکن چونکہ ہر عمل نیک فرمانِ خدا کی اطاعت کے نتیجے میں واقع ہوتا ہے اور اطاعت کرنے والا شخص اپنی اطاعت کے مقابلے میں جزا کا مستحق ہوتا ہے لہٰذا اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی اس جزا اور انعام کو اپنی رضا مندی سے کسی دوسرے کو بخش دے ۔
اس کی ایک مثال بالکل اس طرح سے متصور ہوسکتی ہے ۔ مثلاً ایک استاد کسی اہم اور تعمیری شعبہ تعلیم میں کسی یونیورسٹی میں درس دیتا ہے، بلاشبہ وہ اپنی اس تدریس کے نتیجے میں دو طرح کے فائدے حاصل کرتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ وہ روزانہ تدریس کرنے کی وجہ سے اپنے فن میں کامل سے کامل تر ہوتا جاتا ہے، دوسرے یہ کہ وہ اس یونیورسٹی سے تنخواہ بھی پاتا ہے ۔ پہلا فائدہ وہ یقینا کسی دوسرے کو نہیں دے سکتا کیونکہ وہ اسی کی ذات سے مخصوص ہے، لیکن دوسرا فائدہ وہ جسے چاہے بخش دے اسے یقینا اس بات کا اختیار ہے ۔
کسی عمل کا ثواب بھی کسی مردہ یا زندہ شخص کو ہدیہ کرنا اسی طرح سے ہے ۔ اس طرح ہر طرح کا شک و شبہ جو اس قسم کی احادیث کے بارے میں ہے دور ہوجاتا ہے ۔
تا ہم اس بات کی طرف بھی توجہ رکھنا چاہیے کہ اس طرح کے ثواب جو بعض افراد کو دیئے جاتے ہیں ان میں اتنی قوت نہیں ہوتی کہ یہ ان کی کامل سعادت کا سبب بن سکیں، ان کا اثر تھوڑا ہوتا ہے، کیونکہ نجات انسانی کا اصلی سبب خود اس کا ایمان و عمل ہے ۔

۱۶۵ وَھُوَ الَّذِی جَعَلَکُمْ خَلَائِفَ الْاٴَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَبْلُوَکُمْ فِی مَا آتَاکُمْ إِنَّ رَبَّکَ سَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ-
ترجمہ
۱۶۵۔ وہ (خدا) وہی ہے جس نے تمھیں زمین پر جانشین (اور اپنا نمائندہ) بنایا اور بعض افراد کو دوسرے افراد پر مرتبوں کی رو سے برتری عطا کی، تاکہ تمھیں ان چیزوں سے جو تمھارے اختیار میں دی ہیں، آزمائے ۔ یقینا تمہارا پروردگار بہت تیز حساب کرنے والا، بخشنے والا مہربان ہے (جو لوگ اپنے امتحان میں ناکامیاب ہوں گے ان کا حساب کتاب جلد کرے گا اور جن لوگوں نے راہ حق پر قدم اٹھایا ہے ان کے حق میں مہربان ہوگا) ۔

 

توحید اور شرک سے مقابلے مقام انسانی کی اہمیت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma