دلفریب انداز میں شیطانی وسوسے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
نظریہ تکامل انواع و پیدائش آدم۱۔ شیطانی وسوسے اور انسانی آزادی

اردو

ان آیات میں سرگزشتِ آدم کا ایک اور حصّہ بیان کیا گیا ہے ۔ پہلے فرماتا ہے: خدا نے آدم اور ان کی زوجہ (حوّا) کو یہ حکم دیا کہ بہشت میں سکونت اختیار کریں ( وَیَاآدَمُ اسْکُنْ اٴَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ) ۔
اسی جملے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدم و حوّا اپنی پیدائش کے وقت بہشت میں نہ تھے، خلقت کے بعد انھیں بہشت کی طرف بھیجا گیا ۔ ہم نے سورہٴ بقرہ کی ان آیات میں بھی جو پیدائش آدم سے متعلق ہیں توجہ دلائی ہے، کہ قرائن بتلاتے ہیں کہ یہ بہشت وہ جنت نہ تھی جس کا قیامت میں وعدہ کیا گیا ہے بلکہ جیسا کہ احادیث اہل بیت طاہرین علیہم السلام میں بھی وارد ہوا ہے یہ اسی دنیا کا ایک سرسبز و شاداب باغ تھا، جس میں خدا کی طرح طرح کی نعمتیں مہیا کی گئی تھیں ۔(۱)
اس موقع پر پہلی ذمہ داری اور امر و نہی الٰہی اس شکل میں ظاہر ہوئی :
تم بہشت کے ہر درخت سے کھاسکتے ہو، لیکن خبردار امخصوص درخت کے پاس بھی نہ جانا ورنہ ستم کرنے والوں میں سے ہوجاؤ گے (فَکُلَامِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَلَاتَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنَ الظَّالِمِینَ) ۔
اس کے بعد شیطان، جو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے مردود بارگاہ الٰہی ہوگیا تھا اور اس نے یہ پکّا ارادہ کرلیا تھا کہ جس طرح بھی ہوگ آدم اور ان کی اولاد سے اس شکست کا انتقام لے گا اور انھیں راہ راست سے بہکانے کی کوشش کرے گا، نیز اس کو یہ بھی علم تھا کہ اگر آدم نے اس ممنوع درخت سے کھایا تو وہ بہشت سے نکال دیئے جائیں گے ۔ اس نے آدم کے دل میں وسوسہ ڈالنا چاہا اور اپنے اس ناپاک مقصد تک پہنچنے کے لئے اس نے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے ۔
اس نے سب سے پہلے جیسا کہ قرآن کہتا ہے: انھیں پھسلاناشروع کیا، تاکہ اطاعت و بندگی کی خلعت ان کے بدن سے اتار دے اور ان کی شرمگاہ کو جو پوشیدہ تھی ظاہر کردے (فَوَسْوَسَ لَھُمَا الشَّیْطَانُ لِیُبْدِیَ لَھُمَا مَا وُورِیَ عَنْھُمَا مِنْ سَوْآتِھِمَا) ۔
مقصد تک پہنچنے کے لئے اس نے بہترین طریقہ یہ پایا کہ انسان میں تکامل و ترقی کا جو جذبہ پوشیدہ ہے جس کی وجہ سے وہ زندگی جاودانی حاصل کرنا چاہتا ہے، اس سے استفادہ کرے، اور اسے مخالفت خدا کا ایک عذر و بہانہ بتلائے ۔ لہٰذا اس نے سب سے پہلے آدم و حوّا سے یہ کہا : خدانے تمھیں اس درخت سے صرف اس لئے روکا ہے کہ اگرتم اس سے کھالو گے تو یا فرشتے بن جاؤگے اور یا عمر جاودانی حاصل کرلو گے! (وَقَالَ مَا نَھَاکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَةِ إِلاَّ اٴَنْ تَکُونَا مَلَکَیْنِ اٴَوْ تَکُونَا مِنَ الْخَالِدِینَ) ۔
اس طرح اس نے فرمان خدا کو ان کی نظر میں ایک دوسرے رنگ میں پیش کیا اور انھیں یہ تصوّر دلانے کی کوشش کی کہا اس شجرئہ ممنوعہ سے کھالینا نہ صرف یہ کہ ضرر رسان نہیں بلکہ عمر جاودان یا ملائکہ کا مقام و مرتبہ پالینے کا موجب ہے ۔
اس بات کی تائید اس جملے میں بھی ہوتی ہے جو سورہٴ طٰہٰ کی آیت ۱۲۰ میں شیطان کی زبانی وارد ہوا ہے:
یَاآدَمُ ھَلْ اٴَدُلُّکَ عَلیٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَایَبْلَی
اے آدم! کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمیں زندگانی جاودانی اور ایسی سلطنت کی رہنمائی کروں جو کہنہ نہ ہوگی؟!
ایک روایت جو ”تفسیر قمی“ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور ”عیون اخبار الرضا“ میں امام علی بن موسیٰ ضا علیہ السلام سے مردی ہے میں وارد ہوا ہے:
شیطان نے آدم سے کہا کہ اگر تم نے اس شجرہٴ ممنوعہ سے کھالیا تو تم دونوں فرشتے بن جاؤ گے اور پھر ہمیشہ کے لئے بہشت میں رہو گے ، ورنہ تمھیں بہشت سے باہر نکال دیا جائے گا ۔(2)
آدم نے جب یہ سنا تو فکر میں ڈوب گئے، لیکن شیطان نے اپنا حربہ مزید کار گر کرنے کے لئے ”سخت قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا بہی خواہ ہوں“ ! (وَقَاسَمَھُمَا إِنِّی لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِینَ) ۔
آدم، جنہیں زندگی کا ابھی کافی تجربہ نہ تھا، نہ ہی وہ ابھی تک شیطان کے دھو کے، جھوٹ اور نیرنگ میں گرفتار ہوئے تھے، انھیں یہ یقین نہیں ہوسکتا تھا کہ کوئی اتنی بڑی جھوٹی قسم بھی کھاسکتا ہے اور اس طرح کے جال دوسرے کو گرفتار کرنے کے لئے پھیلا سکتا ہے،آخر کار وہ شیطان کے فریب میں آگئے اور آبِ حیات و سلطنت جاودانی حاصل کرنے کے شوق میں مکرِ ابلیسی کی بوسیدہ رسی کو پکڑکے اس کے وسوسہ کے کنویں میں اتر گئے، رسی ٹوٹ گئی اور انھیں نہ صرف آب حیات ہاتھ نہ آیا بلکہ خدا کی نافرمانی کے گرداب میں گرفتار ہوگئے ۔اس تمام مطلب کو قرآن کریم نے اپنے رسی سے انھیں کنویں میں اتار دیا (فَدَلاَّھُمَا بِغُرُورٍ) ۔(3)
شیطان کی سابقہ دشمنی اور خدا کی وسیع حکمت و رحمت اور اس کی محبت و مہربانی سے آگاہ ہوتے ہوئے آدم کو چاہیے تو یہ تھا کہ شیطان کے تمام فریب وسوسہ کے جال کو پارہ پارہ کردیتے اور اس کے کہنے میں نہ آتے لیکن جو کچھ نہ ہونا چاہیے تھا وہ ہوگیا ۔
بس جیسے ہی آدم و حوا نے اس ممنوعہ درخت سے چکھا، فوراً ہی ان کے کپڑے ان کے بدنوں سے نیچے گرگئے اور ان کے اندام ظاہر ہوگئے(فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَھُمَا سَوْآتُھُمَا) ۔
مذکورہ بالا جملے سے یہ بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ درخت ممنوع سے چکھنے کے ساتھ فوراً اس کا اثر بَد ظاہر ہوگیا اور وہ اپنے بہشتی لباس سے جوفی الحقیقت خدا کی کرامت و احترام کا لباس تھا، محروم ہو کر برہنہ ہوگئے ۔
اس آیت سے اچھی طرح ظاہر ہوتا ہے کہ آدم و حوا یہ مخالفت کرنے سے پہلے برہنہ نہ تھے بلکہ کپڑے پہنے ہوئے تھے، اگر چہ قرآن میں ان کپڑوں کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی لیکن جو کچھ بھی تھا وہ آدم و حوا کے و قار کے مطابق اور ان کے احترام کے لئے تھاجو اُن کی نافرمانی کے باعث ان سے واپس لے لیا گیا ۔
لیکن خود ساختہ توریت میں اس طرح سے ہے:
آدم و حوا اس موقع پر بالکل برہنہ تھے لیکن اس برہنگی کی زشتی کو نہیں سمجھے تھے، لیکن جس وقت انھوں نے اس درخت سے کھایا جو درحقیقت ”علم و دانش“ کا درخت تھا تو اُن کی عقل کی آنکھیں کھل گئیں اور اب وہ اپنے کو برہنہ محسوس کرنے لگے اور اس حالت کی زشتی سے آگاہ ہوگئے ۔
جس ”آدم“کا حال اس خود ساختہ توریت میں بیان کیا گیا، وہ فی الحقیقت آدم واقعی نہ تھا جو علم و دانش سے اس قدر دور تھا کہ اسے اپنے ننگا ہونے کا بھی احساس نہ تھا لیکن جس ”آدم“ کا قرآن تعارف کراتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ اپنی حالت سے یاخبر تھا بلکہ اسرار آفرینش (علم اسماء) سے بھی آگاہ تھا اور اس کا شمار معلم ملکوت میں ہوتا تھا، اگر شیطان اس کا شمار معلم ملکوت میں ہوتا تھا، اگر شیطان اس پر اثر انداز بھی ہوا تو یہ اس کی نادانی کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ اس نے ان کی پاکی اور صفائے نیت سے سوئے استفادہ کیا ۔
اس بات کی تائید اسی سورہٴ اعراف کی آیت ۲۷ سے بھی ہوتی ہے جہاں ارشاد ہوتا ہے:
” یَابَنِی آدَمَ لَایَفْتِنَنَّکُمْ الشَّیْطَانُ کَمَا اٴَخْرَجَ اٴَبَوَیْکُمْ مِنَ الْجَنَّةِ یَنزِعُ عَنْھُمَا لِبَاسَھُمَا“
اے اولاد آدم! کہیں شیطان تمھیں اس طرح فریب نہ دے جس طرح تمھارے والدین (آدم و حوا) کو دھوکا دے کر بہشت سے باہر نکال دیا اور ان کا لباس ان سے جدا کردیا ۔
اگر بعض مفسرین اسلام نے یہ لکھاہے کہ آغاز میں حضرت آدم برہنہ تھے تو واقعاً یہ ایک واضح اشتباہ ہے جو توریت کی تحریر کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔
بہرحال اس کے بعد قرآن کہتا ہے: جس وقت آدم و حوّا نے یہ دیکھا تو فوراً بہشت کے درختوں کے پتوں سے اپنی شرم گاہ چھپانے لگے(وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْھِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ) ۔(4)
اس موقع پر خدا کی طرف سے یہ نداآئی: ”کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا، کیا میں نے تم سے یہ نہیں کہ تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے، تم نے کس لئے میرے حکم کو بھلا دیا اور اس پست گرداب میں گھِر گئے؟!“(وَنَادَاھُمَا رَبُّھُمَا اٴَلَمْ اٴَنْھَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَةِ وَاٴَقُلْ لَکُمَا إِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُبِینٌ) ۔
یہ آیت اور وہ پہلی آیت جس میں آدم و حوا کو بہشت میں سکونت اختیار کرنے کی اجازت دی گئی تھی دونوں سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ وہ دونوں اس نافرمانی کے بعد مقام قرب الٰہی سے کس قدر دور ہوگئے تھے حتیٰ کہ بہشت کے درختوں سے بھی دور ہوگئے کیونکہ اس سے قبل کی آیت میں ”ہٰذہ الشجرة“(یہ درخت)کہا گیا ہے جو نزدیک کے لئے اشارہ ہے ۔ اس کے بعد اس آیت میں جملہ ”نادیٰ“ (ندا کی)آیا ہے جو دور کے لئے خطاب ہے، نیز کلمہ ”تلکما“ بھی دوری کے لئے ہے ۔

 


۱۔ تفسیر نمونہ جلد اول ص ۱۶۳۔ اردو ترجمہ کی طرف رجوع فرمائیں-
2۔ تفسیر ”نور الثقلین“ جلد دوم ص ۱۳۔
3۔ ”ولی”مادّہ“تدلیہ“ سے ہے جس کے معنی ہیں کنویں میں ڈول ڈالنا جسے رسی میں باندھ کر تدریجاً کنویں میں اتار جائے، یہ درحقیقت اس لطیف معنی سے کنایہ ہے کہ شیطان نے اپنے مکر و فریب کی رسی سے انھیں باندھ کر ان کے بلند مرتبے سے نیچے اتار دیا اور یوں مشکلات اور رحمتِ خداوندی سے دوری کے کنویں میں گرادیا ۔
4۔ ”یخصفان“”مادّہ“ ”خصف“ (بروزن خشم) سے ہے جس کے معنی ہیں ایک شے کو دوسری شے سے ملانا اور جمع کرنا، بعد میں یہ لفظ جوتا یا کپڑا سینے کے لئے بھی استعمال کیا جانے لگا، کیونکہ سینے میں مختلف ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے ملا دیا جاتا ہے ۔

 

نظریہ تکامل انواع و پیدائش آدم۱۔ شیطانی وسوسے اور انسانی آزادی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma