ایمان سے بے بہرہ قومیں کیوں خوش حال ہیں؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
چند اہم نکاتایک سوال اور اس کا جواب

جو کچھ ہم نے سطور بالا میں بیان کیا ہے اس سے ایک ایسے سوال کا جواب خودبخود مل جائے گا جو عام طور پر لوگوں کی زبان پر آتا رہتا ہے، وہ سوال یہ ہے کہ اگر واقعاً ایمان اور تقویٰ نزول برکات الٰہی کا سبب ہے اور بے ایمانی اور گناہ سے برکتیں سلب ہوجاتی ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے کہ اکثر ہم اس کے برعکس مشاہدہ کرتے ہیں، یعنی بے ایمان قومیں ناز ونعمت سے غرق ہوتی ہےں جب کہ اہل ایمان پریشان حال نظرآتے ہیں؟! ۔
اس سوال کا جواب دو نکتوں پر غور کرنے سے مل جائے گا:
۱۔ یہ تصور کرنا کہ بے ایمان قومیں اور گنہگار لوگ نعمت میں غرق ہیں ایک بڑا اشتباہ ہے اس اشتباہ کا سبب یہ ہے کہ ثروت اور مال ودولت کو خوش قسمتی کا سرچشمہ سمجھ لیا گیا ہے ، عام طور سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو قوم صنعت وثروت کے لحاظ سے ترقی یافتہ ہو وہ ایک خوش قسمت قوم ہے حالانکہ اسی قوم کے اندرونی حالات کے اندر جھانک کر دیکھا جائے تو اس میں ایسے دردہائے جانکاہ ملیں گے جو اس قوم کو روحانی طورپر درہم برہم کئے ہوئے ہوںگے، ان دردوں اور دکھوں کو دیکھنے کے بعد ہم کو ماننا پڑے گا کہ اسی قوم کے اندر ایسے بھی لاکھوں افراد ہیں جو روئے زمین کے تمام انسانوں سے زیادہ بدبخت ہیں، ساتھ ہی یہ بھی ملحوظ رہے کہ یہ جتنی بھی اضافی ترقی نصیب ہوتی وہ بھی کوشش ، جستجو، نظم اور استقلال جیسے اصولوں کو اپنانے کی وجہ سے ہے جو انبیاء ے الٰہی کی تعلیمات میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ۔
انھیں ایام جب کہ یہ تفسیر لکھی جارہی ہے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ شہر ” نیویارک“ جو دنیا ئے مادی کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر ہے، یہ حادثہ رونما ہوا کہ ایک مرتبہ ناگہانی طور پر وہاں بجلی چلی گئی جیسا کہ عام طور سے بہت سے شہروں میں ہوتا رہتا ہے، لیکن نیویارک میں عجیب ہنگامہ برپا ہوگیا یعنی بہت سے لوگوں نے دکانوں پر یلغار کردی اور جو جس کے ہاتھ میں آیا لے کر چلا گیابہت سی دکانے غارت ہوگئیں یہاں تک کہ پولیس نے تین ہزار غارتگروں کو گرفتار کیا ۔
یہ بات مسلم ہے کہ ان غارتگروں کی تعداد اس سے بھی زیادہ تھی کیوں کہ تین ہزار تو وہ تھے کہ جو بھاگ نہ سکے اور موقع پر پکڑے گئے، نیز یہ بات مسلم ہے کہ یہ لوگ جو پکڑے گئے تھے کوئی پیشہ ور چور ،ڈاکو نہ تھے نہ وہ پہلے سے چوری کے لئے آمادہ تھے کیوں کہ یہ ایک ناگہانی حادثہ تھا ۔
بنا بر یں یہ نتیجہ نکلا کہ صرف ایک دفعہ بجلی کے چلے جانے سے ایک ثروتمند اور ترقی یاٖٖفتہ شہر کے ہزاروں انسان ذراسی دیر میں انسانی جامہ اتار کر ”ڈاکو اورغارتگر“ بن گئے، یہ نہ صرف ایک قوم وملت کے اخلاق کی پستی کی دلیل ہے بلکہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ان کی اجتماعی زندگی بے امنی کی زندگی ہے ۔
ایک دوسری خبر جواس روز کے اخبارات میں تھی وہ ایک مشہور ومعروف شخص جو اس روز ایک بلند وبالا آسمان خراش ہوٹل میں سکونت پذیر تھا، بیان کرتا ہے کہ بجلی جانے کے بعد میرے ہوٹل کی صورت حال بھی بہت خطرناک ہوگئی تھی ۔کوئی شخص اپنے کمرے سے باہر نکل کر راستے میں آنے کی جراٴت نہیں کرسکتا تھا کہ کہیں غارتگروں کے ہاتھ نہ لگ جائے ۔ہوٹل کے منتظمین نئے آنے والے مسافروں کو دس دس یا زیادہ کی تعداد میں مسلح پولیس کے افراد کے ساتھ ان کے کمروں میں بھیجتے تھے ۔ شخص مذکور اپنے بیان میں اس بات کا اضافہ کرتا ہے کہ جب تک مجھے بھوک نہیں ستاتی تھی میں اپنے کمرے سے باہر آنے کی جراٴت نہیں کرسکتا تھا ۔
اس کے برخلاف مشرق کے پسماندہ شہروں میں بجلی عام طور سے فیل ہوتے رہتی ہے لیکن وہاں اس قسم کی مشکلات رونما نہیں ہوتیں، اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان ملکوں نے ثروت کے لحاظ سے ترقی تو کرلی ہے مگر امن امان ذرہ برابر بھی وہاں موجود نہیں ہے، اس کے علاوہ چشم دید گواہوں کابیان ہے کہ آدمی کا جان سے ماردینا لوگوں کے لئے پانی پی لینے کی طرح آسان ہے ۔
ہمیں معلوم ہے کہ اگر کسی کو ساری دنیا دے دی جائے لیکن اس سے یہ کہا جائے کہ ان حالات میں تمھیں زندگی بسر کرنا ہوگی تو وہ تمام انسانوں میں بدبخت ترین فرد ہوگا، پھر یہ کہ بے امنی ان کی مشکلات میں سے ایک مشکل ہے، اس کے علاوہ اور بھی ایسی ہی نہ معلوم کتنی مشکلات ہیں جن میں وہ گرتار ہیں، لہٰذا ان حقائق کو دیکھتے ہوئے صرف ثروت کی زیادتی کو خوش قسمتی کا نشان نہیں سمجھنا چاہئے ۔
۲۔اب یہ جو کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو ایمان دار اور پرہیزگار ہیں وہ کیوں اقتصادی وعلمی طور پر عقب افتادہ اور پسماندہ ہیں؟ اس کے جواب میں ہم پوچھیں گے کہ ان کے ایمان وپرہیزگاری سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اگر مراد یہ ہے کہ وہ لوگ اسلام کے دعوےدار ہیں اور ان کو یہ دعویٰ ہے کہ وہ انبیائے الٰہی کی سیرت پر چلتے ہیں، تو اہم اس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں کہ اسے لوگ پسماندہ وعقب افتادہ ہیں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایمان اور پرہیزگاری کی اصل ماہیت اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ یہ دونوں چیزیں انسان کے اعمال اور اس کی زندگی کے ہر پہلو میں سرایت کرجائیں اور یہ ایک ایسی صفت ہے جو زبانی کلامی دعوے سے حاصل نہیں ہوتی ۔
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے اسلامی ملکوں اور آبادیوں میں اسلامی تعلیمات اور پیغمبرون کے ارشادات کلی طور سے متروک یا نیم متروک ہوکر رہ گئے ہین اور آج کا اسلامی معاشرے کا چہرہ اتنا مسخ ہوگیاہے کہ ایک اسلامی چہرہ نہیں کہا جاسکتا ۔
اسلام تو پاکدامنی، نیکی، امانتداری اور مسلسل کوشش کی طرف دعوت دیتا ہے لیکن وہ امانتداری اور جدوجہد کہاں ہے؟ اسلام علم ودانش، آگاہی اور بیداری کی طرف دعوت دیتا ہے لیکن وہ علم ودانش کہاں ہے؟ اسلام اتحاد، اتفاق، یک جہتی اور فداکاری کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے، کیا واقعی آج کے مسلمانوں میں یہ صفات پائی جاتی ہیں اور اس کے باوجود وہ پسماندہ ہیں؟ لہٰذا ہم کو یہ ماننا پڑے گا کہ حقیقی اسلام کوئی اور چیز ہے اور ہم کچھ اور ہیں ۔
بعد کی آیات میں اس حکم کی عمومیت پر مزید تاکید کے لئے اور یہ بیان کرنے کے لئے کہ مذکورہ بالاقانون گذشتہ اقوام کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ یہ آج اور کل کے انسانوں کے لئے بھی ہے قرآن فرماتا ہے: وہ مجرم افراد جو روئے زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہیں اپنے آپ کو خدا کی سزا سے محفوظ سمجھتے ہیں، ان کو اس کا ڈر نہیں ہے کہ عذاب الٰہی (بجلی، زلزلہ یا ایسی کوئی آفت)رات کے وقت انھیں اس وقت آلے جب کہ وہ خواب نوشین کے مزے لے رہے ہوں ( اٴَفَاٴَمِنَ اٴَھْلُ الْقُریٰ اٴَنْ یَاٴْتِیَھُمْ بَاٴْسُنَا بَیَاتًا وَھُمْ نَائِمُونَ ) ۔
”یا یہ کہ دن کے وقت اس وقت ان کا دامن پکڑ لے جب وہ کھیل تماشے میں مصروف ہوں“(اٴَوَاٴَمِنَ اٴَھْلُ الْقُریٰ اٴَنْ یَاٴْتِیَھُمْ بَاٴْسُنَا ضُحًی وَھُمْ یَلْعَبُونَ ) ۔
مقصد یہ ہے کہ وہ روز وشب، خواب وبیداری اور خوشی وناخوشی ہر حالت میں اللہ کے قبضہٴ قدر ت میں ہیں، جب بھی وہ چاہے اپنے ایک معمولی فرمان سے ان کے کاشانہٴ ہستی کو درہم برہم کرسکتا ہے، بغیر اس کے کہ وہ اس عذاب کے لئے کوئی مقدمہ فراہم کرے یا کسی مدت کے گزرنے کا انتظار کرے، ہاں بس ایک لحظہ کے اندر وہ جو چاہے اس انسان کے سر پر نازل کرسکتا ہے ۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ انسان اس ترقی یافتہ دور میں جب کہ سانئس اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کرلی ہے اور باجود یہ کہ اس سے دنیائے طبیعت کی بڑی بڑی قوتوں کو اپنا تابع فرمان بنا لیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ آج بھی اس حوادث کے مقابلے میں اتنا ہی ضعیف اور بے دست وپا ہے جتنا ہزار سال پہلے کا انسان تھا، یعنی خدائی آفتوں جیسے زلزلہ اور بجلی اور اسی طرح کی دوسری آفتوں ک سامنے اس حالت میں بھی فرق نہیں آیا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان اپنی قدرت وتوانائی کے باوجود بہت کمزور اور ناتواں ہے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہمیشہ ہر انسان کو مدنظر رکھنا چاہئے ۔
اس کے بعد کی آیت میں دوبارہ ایک دوسرے انداز میں اسی حقیقت کا اظہار مزید تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے: کیا یہ جرم افراد خدا کی (انتقامی) تدابیر سے مطمئن ہیں؟ حالانکہ سوائے زیاں کاروں کے کوئی بھی اس کی (انتقامی) تدبیر سے اپنے کو محفوظ نہیں سمجھتا-

 

(اٴَفَاٴَمِنُوا مَکْرَ اللهِ فَلَایَاٴْمَنُ مَکْرَ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ) ۔
جیسا کہ ہم سورہٴ آل عمران کی آیت ۵۴ کے ذیل میں بیان کر آئے ہیںکہ لفظ ”مکر“ کا جو مفہوم ہمارے آج کی روز مرہ کی زبان میں لیا جاتا ہے، عربی میں اس کا مفہوم اس سے بالکل مختلف ہے فارسی میں مکر کے یہ معنی ہیںکہ کوئی شخص کسی کے خلاف شیطانی اور زیاں بخش اسکیمیں تیار کرے لیکن عربی زبان مین ”مکر“ کے اصلی معنی یہ ہیں کہ کسی کو اس کے مقصد سے باز رکھنے کے لئے ہر قسم کی تدبیر سے کام لیا جائے چاہے وہ حق ہو یا باطل نیز اس لفظ ”مکر“میں ایک قسم کا تدریجی نفوذ بھی پوشیدہ ہے ۔
بنابر یں ”مکر الٰہی“ سے مراد یہ ہے کہ خدا گنہگار بندوں کو یقینی اور ناقابل شکست تدبیروں کے ذریعے خوش حالی اور عیش وآرام کی زندگی سے روک دے ، اس سے انہی سزاؤں اور ناگہانی بلاؤں کی طرف اشارہ مقصود ہے جو انسان کو ہر طرح سے بے چارہ کر دیتی ہیں ۔

چند اہم نکاتایک سوال اور اس کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma