کیا جہاں چھ روز میں پیدا ہوا ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
قیامت کے روز مشرکوں کو پتہ چلے گا الله نے دنیا کو ایک لحظہ میں کیوں پیدا نہ کیا ؟

یہ بحث کہ جہان کو الله نے چھ روز میں خلق کیا، قرآن کریم میں سات جگہ پر آئی ہے(۱) لیکن ان میں سے تین مقامات پر ”آسمانوں اور زمین“ کے علاوہ ”مابینھما“ بھی ہے (جس کے معنی یہ ہیں: ”اور جو کچھ بھی ان دونوں کے درمیان ہے“یہ اضافہ فی الحقیقت مزید توضیح کے لئے ہے ورنہ فی الحقیقت زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ بھی ہے وہ اگر اوپر کی جہت میں ہے تو لفظ ”آسمان“ میں داخل ہے اور اگر نیچے کی جہت میں ہے تو ”زمین“ کے مفہوم میں داخل ہے ۔
یہاں پر سب سے پہلے جو سوال ذہن انسان میں آسکتا ہے وہ یہ ہے کہ زمین وآسمان کی خلقت سے پہلے دن اور رات کا تو کوئی وجود نہ تھا لہٰذا چھ روز کیسے بنے؟ کیونکہ دن رات تو اپنے محور پر زمین کی گردش کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ۔
علاوہ بریں تمام کائنات میں چھ روز میں یعنی ایک ہفتہ سے بھی کم عرصے میں پیدا ہونا بھی قرین قیاس نہیں معلوم ہوتا کیونکہ آج کا علم یہ کہتا ہے کہ: لاکھوں سال گزرے جب جاکے زمین وآسمان نے یہ موجودہ شکل اختیار کی ۔
ان دونوں سوالوں کا جواب اس وقت ظاہر ہوگا جب لفظ ”یوم“ اور اس کے ہم معنی الفاظ جو دوسری زبانوں میں رائج ہیں، پر توجہ کی جائے، کیونکہ بسا اوقات ”یوم“ ایک دوران اور زمانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، چاہے یہ دوران ایک سال کا ہو، ایک ملین سال کا، یا کئی کروڑ سال کا، اس امر کے کئی شواہد ہیں کہ ”یوم“ دوران کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ملاحظہ ہوں:
۱۔ قرآن میں لفظ ”یوم“ بارہا استعمال ہوا ہے، اس میں سے بہت سے مقامات پر عام شب وروز کے معنی میں نہیں آیا مثلاً عالمِ محشر کو ”یوم القیامة“ سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ روزِ قیامت ایک طولانی مدت ہوگی جو بنصِ قرآنی پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی (سورہٴ معارج، آیت۴)
۲۔ کتب لغت میں بھی اس کی تائید ملتی ہے کہ یوم کبھی تو آفتاب کے طلوع اور غروب کی درمیان مدت کو کہتے ہیں اور کبھی زمانے کے ایک حصّے کو کہتے ہیں، اس کی مقدار جتنی بھی ہو(2)
۳۔ روایات اور ہادیان دین کے ارشادات میں بھی لفظ ”یوم“ دوران کے معنی میں بہت آیا ہے، جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ”نہج البلاغہ“ میں ارشاد فرماتے ہیں:
”الدھر یومان یوم لک ویوم علیک“
تیری دنیا کے دور وز ہیں ایک روزہ وہ جو تیرے لئے فائدہ بخش ہے، دوسرا روز وہ جو تیرے لئے زیان بخش ہے ۔
تفسیر برہان میں بھی اسی آیت کے ذیل میں تفسیر علی بن ابراہیم قمی سے نقل کیا گیا ہے کہ امام(علیه السلام) نے فرمایا:
”فی ستة ایام یعنی فی ستة اوقات“
چھ روز یعنی چھ دوران

۴۔ روز مرّہ کی گفتگو اور شعراء کے اشعار میں بھی لفظ ”یوم“ دوران کے معنی میں بولا جاتا ہے مثلاً ہم کہتے ہیں کہ ایک روز وہ تھا جب کرہٴ زمین آگ کا ایک گولہ تھا پھر ایک روز وہ آیا جب وہ ٹھنڈا ہوگیا اور اس میں زندگی کے آثار پیدا ہوئے جبکہ زمین کی شعلہ ورحالت کئی کروڑ سالوں تک باقی رہی ۔
یا یہ کہ ہم کہتے ہیں کہ ایک روز بنی امیہ نے خلافتِ اسلام کو غصب کیا دوسرے روز بنی عباس نے بھی یہی عمل کیا، حالانکہ ان دونوں کا دورانِ حکومت بیسوں یا سیکڑوں سال کا تھا ۔
یہاں پر کلیم کاشانی کے دو پُر لطف اور پُر معنی شعر بھی ملاحظہ ہوں:
بدنامی حیات دو روزی نبود بیش آن ہم کلیم با تو یگویم چسان گذشت
یک روز صرف بستن دل شد بن این وآن روز گریہ کندن دل زین وآن گذشت
یعنی زندگی کی بدنامی صرف دو روز کےلئے تھی، وہ بھی اے کلیم تجھ سے کیا بیان ہو کہ کس طرح گذرے ایک دن تودنیا کی لذّتوں کے ساتھ باندھے میں گزر گیا اور دوسرا دن دنیا کی لذّتوں سے دل توڑنے میں گٹ گیا ۔
اس تمام بحث کا یہ نتیجہ نکلا کہ خداوندعالم نے زمین وآسمان کو چھ ادوار میں پیدا کیا، ہوسکتا ہے کہ ان ادوار میں سے ہر دور کئی ملین سال کا ہو اور اس طرح سے ہونا آج کے علم سے کسی طرح نہیں ٹکراتا ۔
یہ چھ ادوار ہوسکتا ہے کہ اس طرح پر ہوں:
۱۔ و ہ روز جس میں سارا جہان گیس کے ایک مجموعہ کی شکل میں تھا، سُرعت کے ساتھ گھومنے کے سبب سرگردان ہوگیا اور اس سے یہ الگ الگ کُرّے وجود میں آئے ۔
۲۔ یہ کُرّے تدریجی طور پر پگھلے ہوئے اور نورانی یا ٹھنڈے اور قابلِ سکونت کُرّوں کی شکل میں بن گئے ۔
۳۔ پھر ایک دن نظام شمسی بنا اور زمین سورج سے الگ ہوگئی ۔
۴۔ پھر ایک دن زمین ٹھنڈی ہوکر قابلِ سکونت بنی اور اس لائق ہوئی کہ اس میں جاندار رہ سکیں ۔
۵۔ پھر ایک دن سبزہ اور درخت اس میں نمودار ہوئے ۔
۶۔ پھر ایک دن وہ آیا کہ حیوان اور حضرت انسان بھی اس میں نمودار ہوئے ۔
یہاں پر جو کچھ اس جہان کے چھ ادوار کے متعلق بیان کیا گیا ہے وہ سورہٴ فصلت کی آیات ۸تا۱۱ سے قابلِ تطبیق ہے جس کی مفصّل شرح انشاء الله انہی آیات کے ذیل میں پیش کی جائے گی ۔

  


۱۔ ایک تو یہی آیت، اس کے علاوہ سورہٴ یونس/ ۳، ہود/۷، فرقان/۵۹، سجدہ/۴، ق/۳۸، اور حدید/۴ میں اس بات کا تذکرہ ہے ۔
2۔ راغب نے اپنی کتاب مفردات میں کہا ہے کہ لفظ ”یوم“ کا اطلاق کبھی تو طلوع آفتاب کی ردمیانی مدت پر ہوتا ہے اور کبھی زمانہ کی ایک مدت پر یہ لفظ بولا جاتا ہے، وہ مدت جتنی بھی ہو ۔
قیامت کے روز مشرکوں کو پتہ چلے گا الله نے دنیا کو ایک لحظہ میں کیوں پیدا نہ کیا ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma