دیدارِ پروردگار کی خواہش

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
حدیثِ منزلت کے متعلق کچھ سوال اور ان کے جوابچند قابلِ غورنکات

ان آیات میں نیز اس کے بعد آیات میں بنی اسرائیل کی زندگی کے بعض دیگر مناظر پیش کئے گئے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے ضرت موسیٰ(علیه السلام) سے بڑے اصرار کے ساتھ یہ خواہش کی کہ وہ خدا کو دیکھیں گے، اگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی تو وہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے، چنانچہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) نے ان کے ستّر آدمیوں کا انتخاب کیا اور انھیں اپنے ہمراہ پروردگار کی میعادگاہ کی طرف لے گئے، وہاں پہنچ کر ان لوگوں کی درخواست کو خدا کی بارگاہ میں پیش کیا، خدا کی طرف سے اس کا ایسا جواب ملا جس سے بنی اسرائیل کے لئے یہ بات اچھی طرح سے واضح ہوگئی، اس واقعہ کا کچھ حصّہ سورہٴ بقرہ کی آیات ۵۵ اور ۵۶ میں اور کچھ حصّہ سورہٴ نساء کی آیت ۱۵۳ میں اور کچھ حصّہ زیرِ بحث آیات میں اور باقی حصّہ اسی سورہ کی آیت ۱۵۵ میں بیان کیا گیا ہے ۔
زیرِ بحث آیات میں پہلے ارشاد ہوتا ہے: جس وقت موسیٰ ہماری میعادگاہ میں آئے اور ان کے پروردگار نے ان سے باتیں کیں تو انھوں نے کہا: اے پروردگار خود کو مجھے دکھلادے تاکہ مَیں تجھے دیکھ لوں (وَلَمَّا جَاءَ مُوسیٰ لِمِیقَاتِنَا وَکَلَّمَہُ رَبُّہُ قَالَ رَبِّ اٴَرِنِی اٴَنظُرْ إِلَیْکَ)
لیکن موسیٰ نے فوراً خدا کی طرف سے یہ جواب سنا: تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکوگے (قَالَ لَنْ تَرَانِی)
”لیکن پہاڑ کی جانب نظر کرو اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تب مجھ دیکھ سکوگے“ (وَلَکِنْ انظُرْ إِلَی الْجَبَلِ فَإِنْ اسْتَقَرَّ مَکَانَہُ فَسَوْفَ تَرَانِی)
”جس وقت خدا نے پہاڑ پر جلوہ کیا تو اسے فنا کردیا اور اسے زمین کے برابر کردیا (فَلَمَّا تَجَلَّی رَبُّہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا)(۱)
موسیٰ(علیه السلام) نے جب یہ ہولناک منظر دیکھا تو ایسا اضطراب لاحق ہوا کہ بیہوش ہوکر زمین پر گر پڑے (وَخَرَّ مُوسیٰ صَعِقًا)
”اور جب ہوش میں آئے تو خدا کی بارگاہ میں عرض کی پروردگارا! تو منزّہ ہے، مَیں تیری طرف پلٹتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں اور مَیں پہلا ہوں مومنین میں سے“(فَلَمَّا اٴَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَکَ تُبْتُ إِلَیْکَ وَاٴَنَا اٴَوَّلُ الْمُؤْمِنِینَ)

 

 

 

 
۱۔ ”دک“ کے معنی در اصل صاف اور ہموار زمین کے ہیں بنابریں اس جملے ”جَعَلَہُ دَکًّا“) سے مراد یہ ہے کہ پہاڑ کو اس تجلی نے اس طرح صاف ونرم کردیا کہ ریزہ ریزہ ہوکر صاف وہمار زمین کی طرح ہوگیا، حتّیٰ کہ بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ وہ پہاڑ کئی حصوں میں تقسیم ہوکر مختلف جہات میں اڑ گیا، یا یہ کہ پورے کا پورا زمین کے اندر سما گیا ۔
 

 

حدیثِ منزلت کے متعلق کچھ سوال اور ان کے جوابچند قابلِ غورنکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma