قیامت کے روز اچھے بُرے اعمال کی پرکھ کیلئے ترازو سے کیا مراد ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
وہ آیات جن میں سوال کیا گیا ہےجہانِ ہستی میں انسان کا عظیم الشان مقام

اردو

بروز محشر اعمال کے تولے جانے کی کیفیت کے بارے میں مفسرین و متکلمین کے درمیان بڑی بحث ہے چونکہ بعض افراد نے یہ خیال کیا ہے کہ وزن و ترازو اُس جہان میں بالکل اِس جہاں کے وزن و ترازو کی طرح ہے، دوسری طرف یہ بھی ہے کہ انسانوں کے اعمال کا کوئی وزن نہیں ہوتا، اس طرح ناچار ہوکر انھوں نے تجسّم اعمال کے ذریعے یا یہ اس روز خود انسانوں کا وزن کیا جائے گا اس مشکل کا حل ڈھونڈا ہے ۔ یہاں تک کہ انھوں نے عبید بن عمیر سے ایک عبارت نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں:
”یوٴتی بالرجل الطویل العظیم فلا یزن جناح بعوضة “
یعنی بروز قیامت طویل القامت عظیم الجثہّ افراد لائے جائیں گے جو ترازو میں مچھر کے پر جتنا وزن بھی نہ رکھتے ہوں گے ۔ (1)
اس سے اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ وہ لوگ اگر چہ بظاہر بڑے لوگ ہوں گے لیکن فی الحقیقت ان کی کوئی قیمت نہ ہوگی ۔
اگر ہم اُس جہاں کی زندگی کا اِس دنیا کی زندگی سے موازنہ کریں اور یہ دیکھیں کہ وہاں کی ہر چیز اِس دنیا سے بالکل الگ ہے جیسے ایک جنین کی شکم مادر کے اندر کی زندگی دنیاوی زندگی سے مختلف ہے، نیز اس بات کی طرف بھی توجہ رکھیں کہ کسی لفظ کے معنی سمجھنے کے لئے ہمیشہ مصداق موجود کے پیچھے نہیں جانا چاہیے بلکہ نتیجہ کی رد سے مفہوم کو پرکھنا چاہیے ، تو قیامت کے روز جو میزان نصب کی جائے گی اس کے معنی بالکل سمجھ میں آجائیں گے ۔
اس کی توضیح اس طرح پر ہے کہ سابقہ زمانے میں جبکہ کبھی ”چراغ“ کا نام لیا جاتا تھا، تو ایک برتن سمجھ میں آتا تھا جس میں تھوڑا تیل پڑا ہو اور ایک فتیلہ (بتّی) اس میں موجود ہو، نیز اس بات کا بھی احتمال ہوتا تھا کہ شاید اس پر ایک چمنی بھی موجود ہو جو چراغ کی ہوا سے حفاظت کرے گی جبکہ فی زمانہ اس لفظ ”چراغ“ سے دوسری چیز سمجھ میں آتی ہے، ایک ایسی شے جس میں نہ تو تیل کا کوئی برتن ہے نہ فتیلہ ہے، نہ ہوا کو روکنے کے لئے پہلے کی طرح کا فانوس ہے، لیکن اس کے باوجود جو چیز آج کے چراغ کو قدیمی چراغ سے ملاتی ہے وہ اس کا نتیجہ ہے یعنی ایک ایسی شے جو تاریکی کو دور کردے ۔
مسئلہ ”میزان“ بھی بالکل اسی طرح ہے، اسی جہاں میں ہم دیکھتے ہیں کہ جتنا زمانہ آگے بڑھتا جاتا ہے ترازو کی شکلیں کس طرح بدلتی جاتی ہیں، یہاں تک کہ لفظ ”میزان“ دوسری چیزوں کے جانچنے کے آلات کے لئے بھی استعمال ہونے لگا ہے، جیسے ”میزان الحرارة“ (گرمی جانچنے کا آلہ)، ”میزان الھوا“ (ہوا جانچنے کا آلہ) وغیرہ وغیرہ۔
اس بناپر جو چیز مسلّم ہے وہ یہ ہے کہ بروز قیامت لوگوں کے اعمال ایک خاص وسیلے سے جانچے جائیں گے، یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ وسیلہ دنیا کے ترازو کی طرح ہو ممکن ہے کہ وہ وسیلہ انبیاء، آئمہ اور افراد صالح کا وجود ہو، اس مطلب کی تائید ان روایات سے بھی ہوتی ہے جو اہل بیت طاہرین علیہم السلام سے ہم تک پہنچی ہیں ۔
چنانچہ ”بحارالانوار“ میں ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے جب آیت ”ونضع الموازین القسط“ (2) کے متعلق پوچھا گیا تو آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
”والموازین الانبیاء والاوصیاء ومن الخلق من یدخل الجنة بغیر حساب“
”بروز قیامت میزان سے مراد پیغمبران کرام اور ان کے اوصیائے عظام ہیں اور لوگوں میں سے وہ افراد ہیں جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے (یعنی وہ لوگ جن کے نامہٴ اعمال میں تاریکی کا کوئی گوشہ نہ ہوگا“(3)
اور دوسری حدیث میں اس طرح وارد ہوا ہے:
”انّ امیر المومنین والاٴئمة من ذریتہ ہم الموازین“
”یعنی امیرالمومنین علیہ السلام اور ان کے فرزند آئمہ طاہرین علیہم السلام میزانِ عمل ہیں“(4)
نیز حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زیارتِ مطلقہ میں وارد ہوا ہے:
”السلام علی میزان الاعمال“
”سلام ہو اس پر جو اعمال کی میزان ہے“
واقعہ یہ ہے کہ اس جہاں میں جو مرد اور عورت کی رُو سے دوسروں کے لئے نمونہ ہیں وہ فی الحقیقت دوسروں کے اعمال ایک ترازو ہیں اور جو شخص جس قدر بھی ان سے مشابہت رکھتا ہے وہ اتنا ہی وزن رکھتا ہے اور وہ افراد جو ان سے کم مشابہت رکھتے ہیں یا بالکل مشابہ نہیں ہیں وہ ”کم وزن“ یا بالکل ”بے وزن“ اور ہلکے افراد ہیں ۔
یہاں تک کہ اس جہاں میں بھی دوستانِ خدا دوسروں کے اعمال کی مقیاس ہیں، لیکن چونکہ اس دنیا میں بہت سے حقائق پردہٴ خفاء میں رہ جاتے ہیں اور بروز قیامت بمقتضائے آیہٴ شریفہ ”وبرزوا للّٰہ الواحد القہار“ (ابراہیم/۴۸) روزِ انکشاف وظہور ہے اس لئے کہ اُس دن یہ واقعیت ظاہر وآشکار ہوجائے گی ۔
اور یہیں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ”موازین“ جمع کا صیغہ کیوں آیا ہے، کیونکہ اولیائے حق جو ترازوٴے اعمال ہیں وہ متعددد ہیں ۔
نیز یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ ان میںسے ہر ایک کسی نہ کسی صفت میں ممتاز تھا، بنابریں ان میں سے ہر ایک انسانوں کی کسی ایک صفت کی مقیاس ہے اور انسانوں کے اعمال وصفات مختلف ہیں لہٰذا کسوٹی اور ترازو مختلف ہونا چاہئے ۔
اسی سے یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ بعض روایات میں اس کا مفہوم ”عدل“ کیوں بیان کیا گیا ہے، جیسے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ کسی نے حضرت(علیه السلام) سے پوچھا:
”ما معنی المیزان؟ قال: العدل“
میزان کے کیا معنی ہیں؟ حضرت(علیه السلام) نے فرمایا: عدل(5)
جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس کا مفہوم ا س کے منافی نہیں ہے، کیونکہ دوستانِ خدا اور وہ مرد اور عورتیں جو نمونہٴ عمل ہیں وہ عدل کا مظہر ہیں، یعنی عدل از روئے فکر، عدل اور روئے عقیدہ، عدل از روئے صفات واعمال (ذرا غور کیجئے)
اس کے بعد کے جملے میں ارشاد ہوتا ہے: وہ لوگ جن کا پلہ میزان عمل سے بھاری ہے نجات یافتہ ہیں اور وہ لوگ جن کا پلہ ہلکا ہے وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس ظلم و ستم کی وجہ سے جو انہوں نے ہماری آیات کے بارے میں کیا ہے ۔ اپنے سرمایہ وجود کو کھودیا ہے ( فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ فَاٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْمُفْلِحُونَ، وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ فَاٴُوْلٰئِکَ الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَھُمْ بِمَا کَانُوا بِآیَاتِنَا یَظْلِمُونَ) ۔
یہ بات بھی بدیہی ہے کہ میزان کے بھاری اور ہلکے پلّے سے خود ترازو کے پلّہ کا بھاری اور ہلکا ہونا مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ اعمال ہیں جو ان ترازؤوں میں تولے جائیں گے ۔
اسی ضمن میں ” خَسِرُوا اٴَنفُسَھُمْ“ (انھوںنے اپنے سرمایہ وجود کو کھودیا) سے اس حقیقت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہوتا ہے کہ اس طرح کے افراد بہت بڑے خسارے اور گھاٹے میں مبتلا ہوں گے، کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان یوں گھاٹا اٹھاتا ہے کہ اس کا مال یا مقام ہاتھ سے چلا جاتا ہے، لیکن کبھی ایسا گھاٹا اٹھاتا ہے کہ وہ اپنے سرمایہٴ ہستی کو کھو بیٹھتا ہے اس طرح کہ اس کے بدلے میں اسے کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا ۔ یقینا یہ سب سے بڑا خسارہ ہے ۔
آخر آیت میں جو یہ آیا ہے کہ ” کَانُوا بِآیَاتِنَا یَظْلِمُونَ“ ہماری آیتوں کے بارے میں ظلم کرتے تھے، اس تعبیر سے اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اس طرح کے لوگ صرف اپنی ہی جانوں پر ظلم نہیں کرتے بلکہ خدانے ہدایت خلق کے لئے جو نظام قائم کیے ہیں ان پر بھی ستم کرتے ہیں کیونکہ چاہیے تو یہ تھا کہ اللہ کے بنائے ہوئے یہ نظام خلق کی ہدایت و نجات کا وسیلہ بنیں، لیکن جب ان سے بے اعتنائی برتی جائے گی تو ان سے خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکے گا اور اس طرح ان پر ظلم ہوگا ۔
بعض روایات میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ اس مقام پر ”آیات“ سے مراددین کے عظیم رہبر اور آئمہ ہدیٰ ہیں، لیکن جیسا کہ ہم نے کئی بار کہا ہے کہ اس طرح کی تفسیروں کا یہ منشا نہیں ہے کہ آیت صرف اسی تفسیر کے ساتھ مخصوص ہوکر رہ جائے بلکہ یہ معنی آیت کے ایک روشن مصداق کی حیثیت رکھتا ہے ۔
بعض مفسّرین نے اس آیت میں آیت پر ظلم کے معنی یہ لئے ہیں کہ آیت کا انکار کیا جائے یا اس کے ساتھ کفر کیا جائے، یقینا یہ معنی بھی ظلم کے مفہوم سے بعید نہیں، قرآن کی بعض دیگر آیات میں بھی ”ظلم“اس معنی میں آیا ہے ۔

 

۱۰ وَلَقَدْ مَکَّنَّاکُمْ فِی الْاٴَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیھَا مَعَایِشَ قَلِیلًا مَا تَشْکُرُونَ-
ترجمہ
۱۰۔ ہم نے زمین پر تسلّط، مالکیّت اور حکومت تمھارے لئے قراردی ہے اور زندگی کے لئے طرح طرح کے وسائل تمھارے لئے فراہم کیے ہیں لیکن تم بہت کم شُکر کرتے ہو (اور خدا کی ان تمام نعمتوں کو بر محل صرف نہیں کرتے) ۔
 


1۔اس روایت کو تفسیر ”مجمع البیان“ اور تفسیر ”طبری“ میں عبید بن عمیر سے نقل کیا گیا ہے ظاہر عبارت یہ ہے کہ یہ خود عبید کے الفاظ ہیں نہ کہ پیغمبر کے ۔
2۔ سورہٴ انبیاء، آیت۴۷-
3، 4۔ بحارالانوار، طبع جدید، ج۷، ص۲۵۱۔۲۵۲-
5۔ تفسیر ”نورالثقلین“ جلد۲۔ص۵۔
 
وہ آیات جن میں سوال کیا گیا ہےجہانِ ہستی میں انسان کا عظیم الشان مقام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma