قوم فرعون کا دردناک انجام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
بار بار کی عہد شکنیاںحضرت موسیٰ (علیه السلام) سے بت سازی کی فرمائش

قوم فرعون کی نابودی کے بعد وہ بنی اسرائیل جو سالہائے دراز سے ان کے ظلم وستم کے پنجے میں دبے ہوئے تھے آزاد ہوگئے اور فرعونیوں کی وسیع وعریض سرزمین کے مالک بن گئے، آیت مذکورہ بالا میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، فرمایا گیا ہے” ہم نے مشرق ومغرب کا وارث ان لوگوں کو بنادیا جو مستضعف اور استعمار زدہ تھے“ ( وَاٴَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِینَ کَانُوا یُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْاٴَرْضِ وَمَغَارِبَھَا الَّتِی بَارَکْنَا فِیھَا) ۔
جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بھی اشارہ کیا ہے لفظ”ارث“ کے معنی لغت میں اس مال کے ہیں جو کسی سے کسی کو بغیر تجارت یا دوسری طرح کے معاملے کے مل جائے چاہے وہ مردہ سے ملے یا زندہ سے ملے ۔
”یستضعفون“ جس کا مادہ ”استضعاف“ ہے کلمہ ”استعمار“ کا الٹ ہے، لفظ ”استعمار“ کا استعمال تو ہمارے زمانے میں عام ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ظالم قوم کسی دوسری قوم کی تضعیف کرے تاکہ اس کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرے ، الّا یہ کہ استضعاف واستعمار میں یہ فرق ہے کہ استعمار کے ظاہری معنی آباد کرنے کے ہیں اور باطنی معنی ویران کرنے کے ، لیکن استضعاف کے ظاہری وباطنی دونوں معنی ایک ہیں ۔
”کانوا یستضعفون“ سے اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ فرعون والے ان کو ہمیشہ ضعف وناتوانی میں جکڑا رکھتے تھے ، انھوں نے فکری ، اخلاقی ،اقتصادی ہر لحاظ سے انھیں ناتوان کردیا تھا ۔
”مشارق الارض ومغاربھا“ سے مراد وہ وسیع وعریض زمینیں ہیں جو فرعون اور اس کے ماننے والوں کے قبضے میں تھیں کیوں کہ چھوٹی زمینیں متعدد مشرق ومغرب یا متعدد افق اپنے اندر نہیں رکھتیں، لیکن اگر وہ وسیع سرزمین ہوتو وہ زمین کے کردی ہونے کی وجہ سے ایسی ہوگی کہ اس میں مختلف مغرب ومشرق ہوں ، یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس تعبیر وسیع سرزمین کے معنی میں کنایہ سمجھا اس جملے”بارکنا فیھا“ اس سرزمین کی غیر معمولی آبادی کی طرف اشارہ مقصود ہے یعنی مصر وشام کا علاقہ جو اس زمانے میں اور اس زمانے میں بھی دنیا کے پربرکت علاقوں میں شمار ہوتا ہے خصوصاً بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں مملکت مصر کی اتنی وسعت تھی کہ شامات (شام فسطین اور لبنان وغیرہ)کے علاقے بھی اس میں داخل تھے ۔
بنابریں پورے کرہٴ زمین کی حکومت مراد نہ تھی کیوں کہ یہ امر تاریخی مسلمات کے قطعا خلاف ہے، بلکہ حکومت بنی اسرائیل سے مراد فرعونیوں کی سرزمین تھی ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: بنی اسرائیل کی فتحیابی کے متعلق تیرے پروردگار کا نیک وعدہ ان کے صبر واستقلال کی وجہ سے پورا ہوا

 

( وَتَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ الْحُسْنَی عَلیٰ بَنِی إِسْرَائِیلَ بِمَا صَبَرُ) ۔
یہ وہی وعدہ ہے جس کا ذکر گذشتہ آیات (اسی سورہ کی آیت ۱۲۸۔۱۲۹) میں گزر چکا ہے ۔
اگرچہ ان آیات میں صرف بنی اسرائیل اور فرعونیوں کے مقابلے میں ان کے صبر واستقلال کا تذکرہ ہوا ہے، بلکہ یہ بات کسی ملت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ جو مستضعف قوم بھی قیام کرے گی اسیری اور کے پنجہ سے آزاد ہونے کے لئے کوشش کرے گی اور اس راہ میں پامردی اور استقامت دکھائے گی وہ آخر میں فتحیاب ہوگی(۱) او ر ان کی جو زمینیں ظالموں کے قبضہ میں چلی گئی ہیں وہ آزاد ہوجائیں گی ۔
آیت کے آخر میں اضافہ فرمایاگیا ہے؛ ہم فرعون اور فرعونیوں کے خوبصورت قصروں، پر شکوہ عمارتوں، ہرے بھرے باغات کو نابود کردیا

 

(وا وَدَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہُ وَمَا کَانُوا یَعْرِشُون) ۔
راغب نے مفردات میں لکھا ہے کہ ”صنع“ زیادہ تر خوبصورت صنعتوں کے لئے آتا ہے، لہٰذا آیہ مذکورہ بالا میں عصر فرعونی کی خوبصورت ودیدہ زیب تعمیروں کے لئے استعمال ہوا ہے ۔
”وما یعرشون“ در اصل ان باغوں کے لئے ہے جو مچان اور پہاڑوں کے ذریعے پھلتے پھولتے ہیں جیسے انگور، کدو و عیضا اور ان کی وجہ سے مناظر بہت خوبصورت ہوجاتے ہیں ۔
”دمرنا“ کی اصل ”تدمیر“ ہے جس کے معنی فنااور نابود کرنے کے ہیں ۔
یہاں پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ان عمارتوں اور باغات کو کس طرح نابود کیا گیا، پھر یہ ان کی نابودی کی کیا ضرورت پیش آئی؟!
جواب یہ ہے کہ یہ بات بعید نہیں کہ زلزلوں اور نت نئے سیلابوں کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوگئی ہو ، یہ تباہی اس وجہ سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ فرعون کے ساتھ تمام فرعون والے دریا میں غرق نہیں ہوئے تھے بلکہ خود فرعون اور اس کے کچھ خاص آدمی جو اس کے ساتھ موسیٰ کا پیچھا کرتے ہوئے گئے تھے، غرق ہوئے تھے، لہٰذا یہ بات مسلم ہے کہ اگر باقی ماندہ افراد جن کی تعداد بہت زیادہ تھی اور وہ مصر کے ہر حصے میں پھیلے ہوئے تھے، ان کی اقتصادی حالت پہلے جیسی ہوتی تو دوبارہ بنی اسرائیل کا ناطقہ بند کردیتے اور جگہ جگہ ان کے لئے زحمت کا باعث بنتے لہٰذا مصلحت الٰہی اس بات کی مقتضی ہوئی مال دنیا سے ان کا ہاتھ خالی ہوجائے تاکہ ان کی سرکشی اور طغیان کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوجائے ۔

 

۱۳۸ وَجَاوَزْنَا بِبَنِی إِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فَاٴَتَوْا عَلیٰ قَوْمٍ یَعْکُفُونَ عَلیٰ اٴَصْنَامٍ لَھُمْ قَالُوا یَامُوسیٰ اجْعَل لَنَا إِلَھًا کَمَا لَھُمْ آلِھَةٌ قَالَ إِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُونَ ۔
۱۳۹ إِنَّ ہَؤُلَاءِ مُتَبَّرٌ مَا ھُمْ فِیہِ وَبَاطِلٌ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ۔
۱۴۰ قَالَ اٴَغَیْرَ اللهِ اٴَبْغِیکُمْ إِلَھًا وَھُوَ فَضَّلَکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ ۔
۱۴۱ وَإِذْ اٴَنجَیْنَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ یُقَتِّلُونَ اٴَبْنَائَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَائَکُمْ وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ ۔
ترجمہ
۱۳۸۔اور بنی اسرائیل کو ہم نے دریا سے (صحیح وسالم) پار لگا دیا، پس وہ ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرے جواپنے بتوں کے چاروں طرف تعظیم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، تو انھوں (بنی اسرائیل) نے کہا کہ اے موسیٰ ! ہمارے لئے بھی ایک ایسا معبود بنادو جیسے معبود ان لوگوں نے بنا رکھے ہیں، (موسیٰ نے) کہا: تم جاہل اور نادان لوگ ہو ۔
۱۳۹۔ان لوگوں ( کو جنھیں تم دیکھ رہو ہو ان ) کا انجام نابودی ہے اور یہ جو کچھ کررہے ہیں وہ سب باطل اور لغو بات ہے ،۔
۱۴۰۔(اس کے بعد) اس نے کہا: کیا میں خدائے برحق کے علاوہ کوئی دوسرا معبود تمھارے لئے چاہوں، ایسا خدا جس نے تمھیں تمھارے عصر کے لوگوں پر برتری عطا کی ہے ۔
۱۴۱۔تم یاد کرو اس زمانہ کو جب ہم نے تمھیں فرعون والوں (کے پنجہٴ ظلم) سے نجات دی، وہ تم پر مسلسل ظلم کررہے تھے، تمھارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور عورتوں کو زندہ چھور دیتے تھے، اس میں تمھارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش ہے ۔


۱۔ بشرطیکہ اس قوم کو جائز قیادت بھی حاصل ہو، فرعون کے مقابلے میں بنی اسرائیل کو اس وقت تک کامیابی حاصل نہ ہوئی جب تک کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) اور حضرت ہارون (علیه السلام) نے ان کہ رہنمائی نہ کی ۔ (مترجم)
بار بار کی عہد شکنیاںحضرت موسیٰ (علیه السلام) سے بت سازی کی فرمائش
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma