قوم ثمود کی عبرت انگیز سرگزشت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
قوم ہود کی سرگزشت کا ایک گوشہقوم ثمود کو کس طرح موت آئی؟

ان آیات میں خدا کے بزرگ پیغمبر حضرت صالح (علیه السلام)کے اس جہاد کا ذکر کیا گیا ہے جو انھوں نے اپنی قوم ثمود کے خلاف کیا، قوم ثمود شام اور حجاز کے درمیان ایک کوہستانی علاقے میں رہتی تھی، اس سلسلے میں قرآن میں جو عبرت انگیز واقعات نوح (علیه السلام) اور ہود (علیه السلام) کی قوموں کے متعلق بیان کئے ہیں ان آیات میں بھی انہی کا تذکرہ ہوا ہے اور حضرت صالح(علیه السلام) کا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔
اس کے علاوہ سورہ ہائے ”ہود“،”شعراء“،”قمر“ اور ”شمس“ میں بھی اس سرگزشت کاذکر ہے، لیکن سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ سورہٴ ہود مین اس واقعہ کا ذکر ہے، ان آیات میں حضرت صالح(علیه السلام) اور ان کی قوم کے درمیان جو گفتگو ہوئی ہے اس کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے اور ان کے انجام بد کا ذکر ہے ۔
پہلے فرمایا گیا ہے”ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا(وَإِلیٰ ثَمُودَ اٴَخَاھُمْ صَالِحًا ) ۔
ان پیغمبروں کو بھائی کیوں کہا گیا اس کی وجہ اسی سورہ کی آیت ۶۵ میں ہم حضرت ہود (علیه السلام) کے واقعے میں بیان کر آئے ہیں ۔
اس قوم کے پیغمبر حضرت صالح(علیه السلام) نے بھی دیگر پیغمبرون کی طرح اپنی قوم کے اصلاح کے لئے پہلا قدم مسئلہ توحید اور یکتا پرستی سے اٹھایا اور ان سے کہا: اے میری قوم ! خدائے یگانہ کی پرستش کرو کیوں کہ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے (قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرُہُ) ۔
اس کے بعد اس جملے کا اضافہ فرمایا کہ میں بغیر کسی دلیل کے کوئی بات نہیں کہتا، بینہ اور روشن دلیل تمھارے پروردگار کی جانب سے تمھارے لئے آچکی ہے اور یہ وہی اونٹنی ہے جس کو خدا نے تمھارے لئے معجزہ قرار دیا ہے (قَدْ جَائَتْکُمْ بَیِّنَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ ھٰذِہِ نَاقَةُ اللهِ لَکُمْ آیَةً) ۔
”ناقہ“ کے اصلی معنی لغت میں اونٹنی کے ہیں، قرآن میں سات جگہ ناقہ صالح کا زکر آیاہے،(۱)یہ اونٹنی کیسی تھی؟ اور کس طرح اللہ نے اسے قوم صالح (علیه السلام) کے لئے معجزہ اور دندان شکن دلیل قرار دیا ؟ ان تمام باتوں کی تفصیل انشاء اللہ ہم سورہٴ ہود کی تفسیر میں پیش کریں گے ۔
ضمنی طور سے یہ وضاحت بھی کردینا چاہئے کہ ناقہ کی اضافت اللہ کی طرف ”اضافت تشریعی “ ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ یہ اونٹنی کوئی معمولی اونٹنی نہ تھی بلکہ اس میں امتیاز پایا جاتا تھا ۔
بعد ازاںان سے فرمایا: اس ناقہ کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچانا، اس کو خدا کی زمین میں چرنے دینا اوراسے اذیت نہ دینا ورن دردناک عذاب میں گرفتار ہوجاؤ گے ( فَذَرُوھَا تَاٴْکُلْ فِی اٴَرْضِ اللهِ وَلَاتَمَسُّوھَا بِسُوءٍ فَیَاٴْخُذَکُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ) ۔
”ارض“ پر لفظ ”اللہ“ کا اضافہ اس وجہ سے ہے کہ یہ اونٹنی کسی کو نقصان نہیں پہنچاتی ہے کیوں کہ اس کی غذا جنگل کی گھاس پھوس ہے ، لہٰذا تم اسے کیوں نقصان پہنچاؤ۔
اس کے بعد والی آیت میں فرما یا گیا ہے: یہ دھیان میں رہے کہ خدا نے قوم ”عاد“ کے بعد تمھیں ان کا جانشین اور خلیفہ قرار دیا ہے اور زمین میں تمھیں جگہ دی ہے، یعنی ایک طرف تو تم کو اللہ کی نعمتوں کا خیال رہنا چاہئے،دوسرے یہ بھی یاد رہے کہ تم سے پہلے جو قوم تھی وہ اپنی سرکشی اور طغیان کے باعث عذاب الٰہی سے تباہ وبرباد ہوچکی ہے (وَاذْکُرُوا إِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّاٴَکُمْ فِی الْاٴَرْضِ) ۔
پھر اس کے بعد انھیں عطا کی گئی کچھ نعمتوں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے: تم ایک ایسی سرزمین میں زندگی بسر کرتے ہو جس میں ہموار میدان بھی ہیں جن کے اوپر تم عالیشان قصر اور آرام دہ مکانات بنا سکتے ہو، نیز اس میں پہاڑی علاقے بھی ہیں جن کے دامن میں تم مضبوط مکانات تراش سکتے ہو (جو سخت موسم میںسردیوں کے زمانے میں تمھارے کام آسکتے ہیں)( تَتَّخِذُونَ مِنْ سُھُولِھَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُیُوتًا )
اس تعبیر سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ (قوم عاد) سردی اور گرمی میں اپنی سکونت کی جگہ بدل دیتے تھے، فصل بہار اور گرمیوں میں وسیع اور بربرکت میدانوں زراعت کرتے تھے اور پرندے اور چوپائے پالنے مین مشغول رہا کرتے تھے اس وجہ سے وہاں خوبصورت اور آرام دہ مکانات بناتے تھے اور جب موسم سرما آجاتا تھا اور اناج کاٹ لیتے تھے، تو اپنے ان گھروں میں چلے جاتے تھے جو انھوں نے پہاڑوں پر تراش کر بنائے تھے اور یہ مکانات انھیں سیلابوں اور طوفانوں سے محفوظ رکھتے تھے، یہاں وہ اطمینان سے سردی کے دن گزاردیتے تھے ۔(2)
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: خدا وند کریم کی ان سب نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد نہ کرو اور کفران نعمت نہ کرو(فاذْکُرُوا آلَاءَ اللهِ وَلَاتَعْثَوْا فِی الْاٴَرْضِ مُفْسِدِینَ) ۔(4)
یہاں پر ہمیںپھر یہ ملتا ہے کہ سردار اور ثروت مند، خوش ظاہر اور بدباطن لوگ جنھیں لفظ”ملاء“ (آنکھوں میں سماجانے والے) سے تعبیر کیا گیا ہے، انھوں نے اس عظیم پیغمبر کی مخالفت شروع کردی، ان کے خلاف ایک اچھا خاصہ گروہ ان لوگوں کا تھا جو خوش فکر وپاک دل تھے اور ہمیشہ مذکورہ سرداروں کی اسیری میں تھے (یعنی ان کے مزدور تھے) اور انھوں نے حضرت ”صالح“ کی دعوت کو قبول کرلیا تھا اور وہ ان کے گرد جمع ہوگئے تھے، انھوں نے سرداروں کی مخالفت شروع کردی لہٰذا جیسا کہ قرآن کہتا ہے ان سرداروں اور متکبر افراد نے ان غریب لوگوں (مستضعفین) سے جو ایمان لاچکے تھے یہ کہا:آیا واقعاً تمھیں یہ علم ہے کہ صالح خدا کی جانب سے ہماری ہدایت کے لئے بھیجے گئے ہیں (قَالَ الْمَلَاٴُ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا مِنْ قَوْمِہِ لِلَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِمَنْ آمَنَ مِنْھُمْ اٴَتَعْلَمُونَ اٴَنَّ صَالِحًا مُرْسَلٌ مِنْ رَبِّہِ) ۔
اس سوال سے ان کا منشا کوئی حق کی جستجو نہ تھا بلکہ دراصل وہ اس طرح مومنین کے دلوں میں شک وشبہ ڈالنا چاہتے تھے اوران کی قوت ارادی کو کمزور کرنا چاہتے تھے اور چاہتے تھے کہ جس طرح وہ پہلے سرمایہ داروں کے مطیع اور فرمانبردار تھے اسی طرح رہیں اور حضرت صالح (علیه السلام) کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیں ۔
لیکن جلد ہی ایسا قطعی جواب ملا جو تابعین حضرت صالح (علیه السلام) کے قوی ارادہ کی حکایت کرتا ہے، انھوں نے کہا: صرف یہی نہیں کہ ہم کو اس بات کا یقین ہے کہ صالح خدا کے فرستادہ ہیں بلکہ ہم تو ان کی پیغمبری پر ایمان بھی لاچکے ہیں ( قَالُوا إِنَّا بِمَا اٴُرْسِلَ بِہِ مُؤْمِنُونَ) ۔
یہ جواب سن کر بھی متکبر اور مغرور افراد خاموش نہ ہوئے بلکہ مومنین کے ارادے کو متزلزل کرنے کے لئے انھوں نے دوبارہ کہا: ہم تو اس چیز کے منکر ہیں جس پر تم ایمان لائے ہو( قَالَ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا إِنَّا بِالَّذِی آمَنتُمْ بِہِ کَافِرُونَ) ۔
چونکہ وہ لوگ (متکبرین) اپنی ظاہری قوت وشوکت کی وجہ سے عام لوگوں میں قدر کی نگاہ دیکھے جاتے تھے اور لوگوں کے لئے نمونہ عمل تھے، لہٰذا انھوں نے خیال کیا کہ اس مرتبہ بھی لوگ ان کی پیروی کریں گے اور اظہار کفر وبے ایمانی میں ان کا ساتھ دے گے، مگر جلد ہی ان کو پتہ چل گیا کہ وہ کس خام خیالی میں مبتلا ہیں انھوں نے دیکھا کہ خدا پر ایمان لانے کی وجہ لوگوں کی شخصیت میں انقلاب آگیا ہے اور اب وہ استقلال فکری اور قوی ارادہ کے مالک بن گئے ہیں ۔
یہاں پر یہ بات قابل توجہ ہے مذکورہ آیات میں بے ایمان لوگوں کو ”متکبرین“ کے عنوان سے اور زحمت کش ،محنتی اور با ایمان طبقہ کو ”مستضعفین“ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے، اس سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ پہلی قسم کے لوگ اپنے کو سب سے بہتر خیال کرتے تھے اور اپنے زیر دست افراد کے انھوں نے حقوق غصب کرلئے تھے، ان کی صلاحتوں کا استحصال کرکے وہ اس مقام پر پہنچ گئے تھے کہ ان کو آج کی اصطلاح میں طبقہ ”استثمارگر“ (وسائل لوٹنے والا) کہاجاسکتا ہے، جب کہ دوسرے طبقہ کو ”استثمار شوندہ “(جس کے وسائل اور صلاحتوں کا استحصال کیا گیا ہو ) کہا جاسکتا ہے ۔
جب خود خواہ متکبر ثروتمند لوگ مومن افراد کے پائے استقلال کو نہ ڈگمگاسکے اور ان کو اس معاملہ میں مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا، دوسری طرف انھوں نے دیکھا کہ اس اونٹنی کی وجہ سے جو حضرت صالح (علیه السلام) کا معجزہ شمار ہوتی تھی، ان کی سم پاشیاں بے اثر ہوکر رہ گئی ہے ، تو انھوں نے اس ناقہ کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرلیا اور اسی قتل کرنے سے پہلے ”انھوں نے اس کو پے کردیا اس کے بعد اسے جان سے مارڈالا اس طرح انھوں نے خدا کے فرمان سے سرکشی کی “(فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ اٴَمْرِ رَبِّھِمْ) ۔(3)
انھوں نے صرف اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ اس کے بعد وہ حضرت ”صالح(علیه السلام)“ کے پاس آئے اور اعلانیہ ان سے کہنے لگے :اگر تم واقعاً خدا کے فرستادہ ہو تو جتنی جلدی ہوسکے عذاب الٰہی لے آؤ( وَقَالُوا یَاصَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ کُنتَ مِنَ الْمُرْسَلِینَ) ۔
یعنی ہم کو ذرا بھی تمھارے ڈرانے سے خوف لاحق نہیں ہوا ہے کیوں کہ تمھاری یہ سب دھمکیاں بے بنیاد ہیں ان باتوں سے ان کا مقصد یہ تھا کہ حضرت صالح (علیه السلام) اور دیگر مومنین کی قوت ارادی کمزور پڑ جائے ۔
جب انھوں نے اپنی سرکشی اور نافرمانی کو آخری حد تک پہنچادیا اور ایمان قبول کرنے کی آخری کرن بھی ان کے وجود میں خاموش ہوگئی تو اللہ نے اس قانون کے مطابق وہ ہمیشہ انتخاب کرتا رہتا ہے اور فاسد ومفسد کو فنا کرکے ان کی جگہ بہتر افراد کودیتا ہے، اللہ کی سزا نے ان کو آلیا اور ” ایک ایسا زلزلہ رونما ہوا جس نے ان کے تمام قصروں اور پتھر کے بنے ہوئے مکانوں کو ہلا کر مسمار کردیا، چشم زدن میں ان کی زرق و برق زندگی کے چراغ بجھ گئے، صبح کے وقت ان کے بے جان جسم ان کے مکانوں میں باقی رہ گئے تھے (فَاٴَخَذَتْھُمْ الرَّجْفَةُ فَاٴَصْبَحُوا فِی دَارِھِمْ جَاثِمِینَ) ۔
”جاثم“ دراصل مادہ ”جثم“ (بروزن خشم) سے ہے، جس کے معنی دوزانو بیٹھنا اور ایک ہی جگہ کھڑے رہنے کے ہیں، بعید نہیں کہ اس سے اشارہ اس بات کی طرف ہو کہ وہ لوگ زلزلہ کے وقت خواب شیریں کے مزے لے رہے تھے، زلزلہ کا پہلا جھٹکا محسوس کرتے ہی اٹھ کر بیٹھ گئے پھر اس کے بعد حادثے نے انھیں اٹھنے کی بھی مہلت نہ دی اور خوف کی وجہ سے یادیواروں کے گرنے کی وجہ سے ، یا بجلی گرنے سے جیسے بیٹھے تھے ویسے ہی بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے ۔

 


۱۔ علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں فرما یا ہے :
ناقہ دراصل ہر اس چیز کو کہتے ہین جو خدمت کے لئے مطیع اور آمادہ ہو، اس کا اطلاق شتر مادہ پر شاید اسی وجہ سے ہوتا کہ یہ بہ نشبت نر اونٹ کے بہتر طور سے سواری کا کام دیتی ہے ۔
2۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پہاڑی علاقوں میں گرمیوں کے زمانہ میںجایا جاتا ہے، سیلاب بھی زیادہ تر گرمیوں میں ہی آتے ہیں، معلوم نہیں اس تقسیم بندی کی کیا ضرورت درپیش ہوئی کہ گرمیوں میں وہ میدانوں میں اور سردیوں میں وہ پہاڑوں پر رہیں جب کہ آیت میں اس کا کوئی اشارہ بھی نہیں ہے، آیت کا مفاد تو یہ ہے کہ وہ دونوں طرح کے مکانات رکھتے تھے جب چاہتے میدانی قصر وں میں رہتے تھے اور جب چاہتے تھے پہاڑوں میں چلے جاتے تھے، (مترجم)
3۔ اونٹ یا گھوڑے کو پے کرنے سے مطلب یہ ہے کہ اس کے پیر کے پیچھے جو پٹھا ہوتا ہے اس کو کاٹ دیا جائے جس کی وجہ سے وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں رہ سکتااور زمین پر گرجاتاہے، پھر کسی قسم کی حرکت نہیں کرسکتا ۔
قوم ہود کی سرگزشت کا ایک گوشہقوم ثمود کو کس طرح موت آئی؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma