یہ میری صراط مستقیم ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
چند مزید نکاتتوحید اور شرک سے مقابلے

یہ میری صراط مستقیم ہے

یہ چند آیات ، نیز دوسری آیتیں جن کا ہم اس کے بعد مطالعہ کریں گے اور جن پر سورہٴ ”انعام“ کا اختتام ہوتا ہے، ان میں فی الحقیقت ان تمام بحثوں کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے جو شرک اور بت پرستی کے بارے میں اس سورہ میں کی گئی ہیں ۔ در اصل یہ سورہ توحید کی دعوت اور شرک کے مقابلے سے شروع ہوئی ہے اور اسی بحث میں اس کا اختتام بھی کیا گیا ہے ۔
خدا پہلے مشرکوں اور بت پرستوں کے عقائد فاسد اور عقل و منطق سے دور دعووں کے مقابلے میں اپنے رسول کو یہ حکم دیتا ہے کہ: (اے رسول!) کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار نے مجھے راہ ”راست“ جو نزدیک ترین راہ ہے، کی ہدایت کی ہے(یہ راہ راست وہی راستہ ہے جس میں توحید و یگانہ پرستی کی دعوت اور آئین شرک و بت پرستی کے مٹانے کا حکم دیا گیا ہے) (قُلْ إِنَّنِی ھَدَانِی رَبِّی إِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ) ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ آیت اور اس سے قبل کی بہت سی آیتیں نیز بعد کی آیتیں لفظ ”قل“ (یعنی کہہ دیجئے) سے شروع ہوتی ہیں ۔ شاید قرآن کریم میں کوئی ایسی دوسری سورہ نہیں ہے جس میں اس لفظ کی اتنی زیادہ تکرار کی گئی ہو جتنی اس میں کی گئی ہے ۔ اس سے در اصل ان شدید نزاعوں کا اندازہوتا ہے جو پیغمبر اسلام اور مشرکوں کے درمیان و قوع پذیر ہوئے تھے ۔
نیز اس تکرار لفظ ”قل“ نے کافروں کے لئے ہر بہانہ تراشی کی راہ بھی بند کردی، کیونکہ اس لفظ (قل) کے بار بار دہرانے سے منشایہ ہے کہ تمام باتیں بحکم خداوندی ہیں، اس میں پیغمبر کی شخصی رائے کو کوئی دخل نہیں ہے ۔
یہ امر بھی واضح ہے کہ اس آیت میں اور اسی طرح کی دوسری آیتوں میں اس لفظ کا ذکر اس لئے ہے کہ اصالت قرآن محفوظ رہے اور وہ الفاظ بعینہ باقی رہیں جو پیغمبر پر وحی کی صورت میں نازل ہوئے تھے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہئے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم پر وحی نازل ہوتی تھی اس کے الفاظ میں آپ کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ لفظ ”قل“ جو آپ سے اللہ کے خطاب کو ظاہر کرتا ہے، اس تک کو باقی رکھتے تھے ۔
اس کے بعد اس ”صراط مستقیم“ کی اس آیت میں اور بعد کی دوآیتوں میں توضیح کی گئی ہے ۔ پہلے فرماتا ہے: یہ ایک سید ھا قانون ہے جو بہت سچا اور درست ہے، ابدی (ہمیشہ کے لئے) ہے، دین و دنیا، جسم و جان کے جملہ امور کا ذمہ دار ہے ( دِینًا قِیَمًا) ۔(۱)
چونکہ عرب حضرت ابراہیم سے اپنا خاص ربط ظاہر کرتے تھے، بلکہ یہاں تک کہ اپنے کہ اپنے قانون کو بھی حضرت ابراہیم کا قانون کہتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس بات کا اضافہ کیا کہ : حضرت ابراہیم کا حقیقی قانون یہی (اسلام) ہے جس کی طرف میں دعوت دے رہا ہوں ، نہ کہ وہ قانون جس سے تم وابستہ ہو (مِلَّةَ إِبْرَاھِیمَ) ۔
وہی ابراہیم جس نے اپنے زمانے اور ماحول کے خرافاتی آئین سے رُوگردانی کی اور جس نے حق یعنی آئین توحید پرستی کو قبول کیا (حَنِیفًا) ۔
”حنیف“ لغت میں اس شخص یا چیز کو کہتے ہیں جو کسی جانب میلان پیدا کرے لیکن اصطلاح قرآنی میں اسے کہتے ہیں جو باطل سے روگردانی کرکے آئین حق کی طرف متوجہ ہوجائے ۔
یہ تعبیر گویا ان مشرکوں کا جواب ہے جو پیغمبر اسلام کے اس وجہ سے مخالف تھے کہ پیغمبر نے عربوں کے آباؤ اجداد کے مذہب بت پرستی کی مخالفت کی تھی پیغمبر نے ان کے جواب میں فرمایا: میں نے جو تمھارے پرانے طریقے کو توڑا ہے اور تمھارے خرافاتی عقیدوں کو جو ٹھکرایا ہے یہ میرا ہی اقدام نہیں ہے بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو سب کے لئے قابل احترام ہستی ہیں، انھوں نے بھی ایسا کیا تھا ۔
اس کے بعد مزید تاکید کے لئے فرماتا ہے: وہ کسی وقت بھی مشرکوں اور بت پرستوں کے گروہ میں سے نہ تھے (وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ) ۔
بلکہ وہ تو ایک بت شکن انسان تھے اور آئین شرک کو توڑنے والے تھے ۔
جملہ ”حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ “کی آیات قرآن میں تکرار ، کبھی ”مسلما“ کے ساتھ اور کبھی اس کے بغیر اسی مسئلے کی تاکید کے لئے ہے کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی ذات مقدس، جس پر زمانہ جاہلیت کے عرب فخر کیا کرتے تھے، ان کے غلط عقائد و اعمال سے منزّہ تھے ۔(2)
بعد کی آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے: نہ صرف عقیدہ کی رُو سے مَیں موحدّ اور یکتا پرست ہوں، بلکہ میرا ہر عمل بھی اسی کے لئے ہے ۔ میری نماز، میری تمام عبادتیں، یہاں تک کہ میری موت و حیات سب پروردگار عالم کے لئے ہے ۔ اسی کے لئے زندہ ہوں اور اسی کے لئے جان دوں گا ۔ اسی کے راستے میں جو کچھ بھی میرے پاس ہے قربان کردوں گا ۔ میری امیدوں کی آماجگاہ ، میرے عشق کی منزل، میری ہستی کا مقصد سب کچھ وہی ہے (قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَای وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ) ۔
”نسک“ کے اصلی معنی عبادت کے ہیں ۔ اسی بناپر عبادت کرنے والے کو ”ناسک“ کہتے ہیں لیکن یہ لفظ عام طور سے اعمال حج کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ مناسک حج، اسی حوالے سے کہا جاتا ہے ۔ بعض نے یہ احتمال دیا ہے کہ ”نسک“ کے معنی یہاں پر شاید قربانی کے ہوں لیکن ظاہر یہ ہے کہ اس لفظ کے مفہوم میں ہر قسم کی عبادت شامل ہے کیونکہ پہلے نماز(صلاة) کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو تمام عبادتوں میں اہمیت رکھتی ہے اس کے بعد تمام عبادتوں کا بطور عموم ذکر ہوا ہے، مطلب یہ ہے کہ میری نماز بلکہ تمام عبادتیں، میری زندگی اور موت سب کچھ اس (اللہ) کے لئے ہے ۔
بعد والی آیت میں مزید تاکید کے لئے اور ہر طرح کے شرک اور بت پرستی کے ابطال کے لئے اضافہ فرماتا ہے ”وہ ایسا پروردگار ہے کہ اس کا نہ کوئی شبیہ (مثل) ہے اور نہ شریک ہے“(لَاشَرِیکَ) ۔
آخر میں فرماتا ہے: ”اس بات کا مجھ کو حکم دیا گیاہے، اور میں پہلا مسلمان ہوں“ (لَہُ وَبِذٰلِکَ اٴُمِرْتُ وَاٴَنَا اٴَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ) ۔
پیغمبر کے ”اوّلِ مسلمین“ ہونے کے کیا معنی ہیں؟
آیہ مذمورہ بالا میں پیغمبر کو ”اوّل المسلمین“ (پہلا مسلمان) کہا گیا ہے ۔ اس کے بارے میں مفّسرین کے درمیان اختلاف ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے اگر ”اسلام“ کا مطلب اس کے وسیع معنی میں ہو تو یہ معنی تمام آسمانی ادیان پر محیط ہے ۔ اسی وجہ سے لفظ ”مسلم“ انبیائے ما سبق پر بھی بولا گیا ہے ۔ حضرت نوح کے لئے ہم پڑھتے ہیں:
” وَاٴُمِرْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ “
”مجھے حکم دیا گیا کہ میں مسلمانوں میں سے ہو جاؤں“۔ (یونس/ ۷۲)
” رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ “
”خداوندا ہم کو اپنا مسلمان بنادے “۔ (بقرہ/ ۱۲۸)
” تَوَفَّنِی مُسْلِمًا “
”مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں موت دے“۔(یوسف/ ۱۰۱)
اس طرح دیگر انبیاء کے لئے بھی آیا ہے ۔
یقینا ”مسلم“ کے معنی اس شخص کے ہیں جو فرمان الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ یہ معنی تمام انبیاء الٰہی اور ان کی انتوں کے مومن افراد پر صادق آتے ہیں ۔ اس صورت میں پیغمبر کے اوّل مسلم ہونے کے معنی یا تو ان کے اسلام کی اہمیت و کیفیت کے لحاظ سے ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے اسلام و تسلیم کا درجہ سب سے بلند تھا، یا یہ معنی ہوں گے کہ آپ اس امت کے وہ پہلے فرد تھے جس نے آئین قرآن و اسلام کو قبول کیا ۔ (3)
”کنت نبیا و آدم بین المآء و الطین“۔
میں اس وقت نبی تھا جب آدم آب و گِل کے درمیان کروٹ لے رہے تھے ۔
یہ حدیث اس وطلب پر دلالت کرتی ہے، جو سنی شیعہ دونوں کی کتب میں محفوظ ہے اس کے علاوہ عالم ذر میں بھی آپ ہی نے سب سے پہلے و حدانیت کی تصدیق کی تھی جیسا کہ آگے آنے والی روایت سے ظاہر ہوتا ہے، لہٰذا اس معنی سے بھی آپ ”اول مسلم“ ہیں (مترجم) ۔
بعض روایات میں بھی وارد ہوا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ وہ پہلے شخص ہیں جس نے عالم ارواح میں، جبکہ پروردگار عالم نے اپنی طرف بلایا اور اپنی الوہیت کے متعلق سوال کیا تو مثبت جواب دیا ۔(4)
بہرحال آیت مذکورہ بالا روح اسلام اور حقیقتِ تعلیمات اسلامی کو واضح کررہی ہے ۔ یہ آیت دعوت ہے صراط مستقیم کی طرف، حضرت ابراہیم کے آئین بت شکنی کی جانب اور ہر قسم کے شرک اور دوگانہ و چند گانہ کی نفی کی طرف۔ یہ عقیدہ اور ایمان کی رُد سے تھا ۔
لیکن ازروئے عمل، تو یہ آیت دعوت ہے اخلاص و خلوص نیت کی طرف اور اس کی طرف کہ بندے کو چاہیے کہ اپنا ہر عمل خدائے وحدہ لاشریک کے لئے بجالائے، اس کا زندہ رہنا اور مرنا اس کے لئے ہو جس چیز کو چاہیے، اپنے دل کو اس کے غیر کی محبت سے الگ کردے، اس کے ساتھ عشق کرے اور اس کے فیر سے بیزاری اختیار کرے ۔
غور کرنا چاہیے کہ کتنا فرق ہے اسلام کی اس کھلی ہوئی تعلیم میں اور ان مسلمان نما انسانوں کے اعمال میں جو بجز تظاہر وخود نمائی کے اور کوئی بات سمجھتے ہیں نہ جانتے ہیں، ہر مرحلہ میں بس ظاہر کے متعلق سوچتے ہیں، باطن و جوہر کی جانب انھیں کوئی توجہ نہیں ہوتی ۔ اسی وجہ سے ان کی زندگی ، ان کی جماعت بندیان ان کا فخر ان کی آزادی کے دعوے بھی سوائے ایک خول کے اور کچھ نہیں ہے ۔

 

۱۶۴ قُلْ اٴَغَیْرَ اللهِ اٴَبْغِی رَبًّا وَھُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ وَلَاتَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَیْھَا وَلَاتَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ اٴُخْریٰ ثُمَّ إِلیٰ رَبِّکُمْ مَرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ فِیہِ تَخْتَلِفُونَ-
ترجمہ
۱۶۴ ۔ (اے ہمارے رسول !)کہددو کہ کیا میں للهکہ علاوہ کوئی اور پر ور دگار مان لوں جبکہ وہ تمام چیزوں کا پروردگار ہے اور کوئی شخص عمل بجا نہیں لاتا سوا ئے اس کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے لئے کرتا ہے، اور کوئی گنہگار دوسرے کے گناہ اپنے ذمہ نہیں لے گا ۔ اس کے بعد تمہاری واپسی تمھارے پروردگار کی جانب ہے، پس وہ تمھیں اس چیز کی خبر دے گا جس میں تم اختلاف کرتے تھے ۔

 


۱۔ ”قیما“ کے معنی سچائی اور استقامت کے ہیں ۔ اور ممکن ہے کہ مضبوط اور حقیقی کے معنی میں ہو، نیز یہ ممکن ہے کہ امور دین و دنیا کے محفل کے معنی میں ہو (اس لئے آیت کے ترجمہ میں تینوں معانی کی رحایت کی گئی ہے) ۔
2۔ سورہ بقرہ آیت ۱۳۵، سورہ آل عمران آیت ۶۷، ۹۵۔
3۔ نظر حقیر میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے ”اول مسلم“ ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں، کیء۔ونکہ یہ جب صحیح ہوگا جب صبح ہوگا جب آپ وقت ولادت یا اس کے بعد اسلام سے خالی ہوں بلکہ وہقعہ یہ ہے کہ جب آپ پیدا ہونے اس وقت نہ صرف مسلمان تھے بلکہ نبی بھی تھے کیونکہ ارشاد پیغمبر ہے ۔
4۔ تفسیر صافی آیہ مذکورہ کے ذیل میں ۔
 
چند مزید نکاتتوحید اور شرک سے مقابلے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma