میعادگاہ الٰہی میں بنی اسرائیل کے نمائندوں کا حضور

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
دوسوالوں کا جواباپنے پیغمبر کی پیروی کرو

میعادگاہ الٰہی میں بنی اسرائیل کے نمائندوں کا حضور

آیات مذکورہ بالا میں قرآن مجید نے دوبارہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) اور بنی اسرائیل کے کچھ منتخب افراد کے میعادگاہ الٰہی میں جانے کا ذکر کیا ہے ۔
حضرت موسیٰ(علیه السلام) ایک مرتبہ میعادگاہ میں گئے یا یہ واقعہ متعدد بار پیش آیا اس بارے میں مفسرین کے درمیان بحث ہے ۔
لیکن جیسا کہ ہم نے اسی سورہ کی آیت ۱۴۲ کے ذیل میں یاددہانی کروائی ہے کہ آیات قرآنی اور احادیث نبوی سے جو قرائن حاصل ہوئے ہیں ان سب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) ایک ہی مرتبہ پر گئے تھے وہ بھی بنی اسرائیل کے کچھ نمائندوں کو لے کر، اسی میقات میں خدا نے موسیٰ(علیه السلام) پر الواحِ توریت کو نازل کیا اور ان سے گفتگو کی، نیز اسی میقات کی بات ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ(علیه السلام) سے یہ پیشنہاد کی کہ وہ خدا سے اس بات کی درخواست کریں کہ وہ اپنے کو دکھلادے، یہی وہ جگہ تھی جہاں زلزلہ آیا یا صاعقہ آئی اور موسیٰ(علیه السلام) بیہوش ہوگئے اور بنی اسرائیل زمین پر گِرگئے، نیز علی بن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں جو حدیث نقل کی ہے اس میں بھی اس مطلب کی تصریح موجود ہے ۔
اگر ان آیات کے محلِ وقوع اور ترتیب کے لحاظ سے کسی کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو کہ ان آیات میں پہلے تو الله نے حضرت موسیٰ(علیه السلام) کی میعاد کا ذکر کیا ہے، اس کے بعد گوسالہ پرستی کا واقعہ بیان کیا ہے، اس کے بعد دوبارہ میعاد کا ذکر چھیڑ دیا ہے، آیا اس طرح کی طرزِ ادا اس فصاحت وبلاغت سے مطابقت رکھتی ہے جو قرآن کا طرہٴ امتیاز ہے؟ لیکن اگر اس بات کا زیرِ نظر رکھا جائے کہ قرآن کریم کوئی تاریخی کتاب تو نہیں ہے جس میں واقعات کے تسلسل کا لحاظ رکھا جائے بلکہ اس کتاب کا اصل موضوع ہدایت اور انسان سازی ہے لہٰذا اس قسم کی کتاب میں کبھی اس کے موضوع کی اہمیت کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ ایک واقعہ کے تسلسل کو وقتی طور پر چھوڑ دیا جائے اور اس کے بجائے کسی دوسری بات کو بیان کردیا جائے، جب وہ بات تمام ہوجائے تو دوبارہ پہلے واقعہ کی طرف پلٹا جائے ۔
اس بناپر ضروری نہیں ہے کہ ہم زیرِ بحث آیت کو قصّہ گوسالہ پرستی کا تتمّہ جانتے ہوئے یہ کہیں کہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) اس ماجرے کے بعد دوبارہ بنی اسرائیل کو معذرت خواہی اور توبہ کے لئے کوہِ طور پر لے گئے تھے جیسا کہ بعض مفسّرین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے، ایسا صحیح نہیں معلوم ہوتا کیونکہ اگر دیگر جہات سے بھی قطع نظر کرلی جائے تو اتنا ماننا پڑے گا کہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے ساتھ جو لوگ رہ گئے، وہ بجلی یا زلزلے کے بعد ہلاک ہوگئے، کیا یہ ممکن ہے کہ جو لوگ حضرت موسیٰ(علیه السلام) کی نمائندگی میں عذر خواہی کے لئے گئے تھے خدا انھیں معاف کرنے کی بجائے وہیں ہلاک کردے؟
بہرحال مذکورہ بالا آیات میں پہلے ارشاد ہوتا ہے: موسیٰ(علیه السلام) نے ستّر آدمیوں کو اپنی قوم میں سے ہماری میعاد کے لئے انتخاب کیا (وَاخْتَارَ مُوسیٰ قَوْمَہُ سَبْعِینَ رَجُلًا لِمِیقَاتِنَا) ۔
لیکن بنی اسرائیل نے جب خدا کا کلام سنا تو انھوں نے حضرت موسیٰ(علیه السلام) سے اس بات کی خواہش کی کہ وہ اپنے کودکھلادے ”اس وقت این عظیم زلزلہ رونما ہوا جس کی وجہ سے وہ لوگ ہلاک ہوگئے اور موسیٰ(علیه السلام) بیہوش ہوکر زمین پر گِر پڑے(۱) جب وہ ہوش میں آئے تو انھوں نے عرض کی: خدایا! اگر میں چاہتا تو انھیں اور مجھے اس سے بیشتر ہلاک کردیتا، مطلب یہ ہے کہ مَیں باقی لوگوں کو کیا جواب دوں جن کے نمائندوں پر یہ افتاد آپڑی

 (فَلَمَّا اٴَخَذَتْھُمْ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اٴَھْلَکْتَھُمْ مِنْ قَبْلُ وَإِیَّایَ) ۔
اس کے بعد موسیٰ نے کہا: پروردگارا! یہ بے جا درخواست میری قوم میں سے جو نادان تھے ان کی تھی، کیا ان کی وجہ سے ہمیں ہلاک کردے گا؟

 (اٴَتُھْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَھَاءُ مِنَّا) ۔
چونکہ اس آیت میں یہ ہے کہ میعادگاہ میں زلزلہ آیا تھا اور سورہٴ بقرہ کی آیت ۵۵ (جو رویت پروردگار کے بارے میں نازل ہوئی ہے) میں ”صاعقہ“ کا کلمہ آیا ہے اس لئے بعض مفسرین نے اس سے یہ مطلب نکالا ہے کہ میقات کا واقعہ دو مرتبہ رونما ہوا ، لیکن جیسا کہ ہ پہلے بھی بیان کر آئے ہیں کہ جب بجلی گرتی ہے تو اس کے ساتھ اکثر زلزلہ بھی آجایا کرتا ہے، کیونکہ جب مثبت اور منفی الیکٹریسٹی اپس میں تصادم ہوتی ہے (مثبت ابر میں اور منفی زمین پائی جاتی ہے) تو اس کی وجہ سے دھماکہ ہوتا ہے، شعلہ نکلتا ہے اور زمین ہل جاتی ہے، بعض اوقات وہ جگہ بھی پاش پاش ہوجاتی ہے جہاں یہ واقعہ رونما ہوتا ہے، حضرت صالح(علیه السلام) کے قصّہ میں بھی (سورہٴ فصّلت آیت ۱۷میں) جب ان کا گناہگار قوم پر عذاب نازل ہوا تھا تو اس میں بھی ”صاعقہ “ کا ذکر ہے اور کبھی ”رجفہ“ سے تعبیر کیا گیا ہے (جیسا کہ سورہٴ اعراف کی آیت ۷۸ میںہے) ۔
نیز بعض مفسرین اس جملہ ”بما فعل السفھاء منا“ (اس عمل کے بدلے میں جو ہمارے نادانوں نے کیا ہے) کو اس بات کی دلیل سمجھا ہے کہ یہ سزا ان لوگوں کو ان کے عمل کی وجہ سے ملی تھی جیسے گوسالہ پرستی نہ کہ اس وجہ سے کہ انھوں نے خدا کی رویت کی خواہش کی تھی کیونکہ اس خواہش کا اظہار انھوں نے اپنے قول سے کیا تھا اور قول کو عمل نہیں کہا جاتا ۔
اس بات کا جواب ظاہر ہے کیونکہ انسان کا بات کرنا بھی اس کے افعال میں داخل ہے، ”سختی“ پر”فعل“ کا اطلاق کوئی غیرمعمولی اور نئی بات نہیں ہے، مثلاً جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قیامت کے روز الله انسان کے تمام افعال کی پاداش دے گا تو یقیناً اس میں ہمارے اقوال بھی داخل ہیںکیونکہ ان پر بھی جزا و سزا دے گا ۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ(علیه السلام) خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: اے پروردگار! ہمیں معلوم ہے یہ تیری ایک آزمائش تھی جسے تو چاہے (اور اسے گمراہی کا مستحق سمجھے) گمراہ کردے اور جسے تو چاہے (اور اسے ہدایت کے لائق سمجھے) ہدایت کردے (إِنْ ھِیَ إِلاَّ فِتْنَتُکَ) ۔
یہاں پر بھی مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف ہے کہ لفظ ”فتنہ“ سے کیا مراد ہے ، لیکن اگر اس بات کو دیکھا جائے کہ لفظ ”فتنہ“قرآن مجید میں آزمائش اور امتحان کے معنی میں بہت آیا ہے جیسا کہ سورہٴ انفال کی آیت ۲۸ میں فرمایا گیا ہے:
<اٴَنَّمَا اٴَمْوَالُکُمْ وَاٴَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ
تمھارے سرمائے اور تمھاری اولاد آزمائش ہیں ۔
اسی طرح سورہٴ عنکبوت کی آیت ۲ اور سورہٴ توبہ کی آیت ۱۲۶ میں بھی ہے لہٰذا اس کا مفہوم بھی کچھ زیادہ پیچیدہ نہیں معلوم ہوتا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بنی اسرائیل کی اس واقعہ میں شدید آزمائش ہوئی تھی اور خدا نے ان پر یہ ثابت کردیا تھا کہ ان کی خواہش (تمنّائے رویت) ایک نامناسب اور محال خواہش تھی ۔
اس آیت کے آخر میں حضرت موسیٰ(علیه السلام) عرض کرتے ہیں: بارالٰہا! صرف تو ہی ہمار ولی وسرپرست ہے، ہمیں بخش دے اور اپنی رحمت ہمارے شاملِ حال کردے، تو بہترین بخشنے والا ہے (اٴَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاٴَنْتَ خَیْرُ الْغَافِرِینَ) ۔
ان تمام آیتوں اور دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام ہلاک ہونے والوں کو پھر نئے سرے سے زندگی مل گئی اور وہ لوگ حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے ہمراہ ہی بنی اسرائیل کی طرف پلٹ کر آگئے اور انھوں نے جو کچھ اپنی آنکھوںسے دیکھا تھا وہ ان سے بیان کیا اور ان بے خبر لوگوں کی ہدایت میں مشغول ہوگئے ۔
اس کے بعد کی آیت حضرت موسیٰ(علیه السلام) کی درخواست کے تتمّہ کے طور پر ہے جس میں مسئلہ توبہ جس کی طرف سابقہ آیت میں اشارہ ہوچکا ہے، کی تکمیل کی غرض سے حضرت موسیٰ(علیه السلام) عرض کرتے ہیں:
خداوندا! اس دنیا میں اور آخرت میں ہمارے لئے نیکی مقرر کردے (وَاکْتُبْ لَنَا فِی ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ) ۔
”حسنة“کے معنی ہر طرح کی نیکی، زیبائی اور خوبی کے ہیں، اس بناپر تمام نعمتیں، عملِ صالح کی توفیق، بخشناجانا، جنّت کا ملنا اور ہر طرح کی سعادت ”حسنة“میں داخل ہے لہٰذا اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ ”حسنة“کو کسی ایک فائدے کے ساتھ مخصوص کردیا جائے جیسا کہ بعض مفسرین کا خیال ہے ۔
اس کے بعد درخواست کی دلیل اس طرح بیان کرتے ہیں: ہم نے تیری بازگشت کی ہے اور جو کلام ہمارے نادانوں نے کیا تھا اور وہ تیرے مقام کے مناسب نہ تھا اس سے ہم معافی کے خواستگار ہیں (إِنَّا ھُدْنَا إِلَیْکَ ) ۔
”ھُدْنَا“ کا مادّہ ”ھود“ (بروزن ”صُوت“) ہے جس کے معنی نرمی اور آہستگی کے ساتھ واپس لوٹنے کے ہیں، اس طرح کہ بعض اہلِ لغت نے اس کے معنی میں کہا ہے کہ خیر سے شر کی طرف اور شر سے خیر کی طرف لوٹنے کا مفہوم بھی اس میں شامل ہے(2 لیکن بہت سے مواقع پر یہ لفظ ”توبہ“ اور خدا کی اطاعت کی طرف پلٹنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
راغب اپنی کتاب ”مفردات“ میں بعض علماء سے یہ قول نقل کرتے ہیں کہ: قومِ یہود کو یہود جو کہا جاتا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے ، اس نام سے ان کی تعریف ظاہر ہوتی ہے یعنی یہ وہ قوم ہے جس نے خدا کی طرف بازگشت کی تھی، کثرتِ استعمال سے اس کے اصلی معنی فراموش ہوگئے اور صرف ایک نام کی حیثیت سے یہ لفظ باقی رہ گیا ۔
لیکن اگر بعض علماء کے سابق قول کا لحاظ کیا جائے جس میں کہا گیا ہے کہ شر سے خیر کی طرف یا خیر سے شر کی طرف دونوں طرح بازگشت کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس معنی میں یہ لفظ یہودیوں کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ دراصل یہ لفظ ”یہوذا“ سے ہے جو حضرت یعقوب(علیه السلام) کے فرزندوں میں سے ایک کا نام ہے، بعدازاں ”ذال“ کو ”دال“ سے تبدیل کردیا گیا اور ”یہودا“ ہوگیا اسی کی طرف قوم ”یہودی“ منسوب ہے ۔ (3)
بہرحال آخرکار الله تعالےٰ نے حضرت موسیٰ(علیه السلام) کی دعا قبول فرمائی اور ان کی توبہ قبول ہوئی لیکن کسی قید وشرط کے بغیر نہیں بلکہ اس کے ساتھ بعض شرطیں تھی جن کا ذکر آیت کے دیل میں فرمایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
مَیں اپنے عذاب اور سزا جسے چاہوں گا (اور اسے اس سزا کا مستحق پاؤںگا) پہنچادوںگا (قَالَ عَذَابِی اٴُصِیبُ بِہِ مَنْ اٴَشَاءُ) ۔
جیساکہ ہم نے پہلے بارہا بیان کیا ہے کہ ان مواقع پر یہ جو لفظ ”مشیت“ استعمال کیا جاتا ہے، بلکہ دیگر مقامات پر جہاں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے وہاں اس کے معنی مطلقاً چاہنے کے نہیں ہیں یعنی بغیر قید وشرط کے چاہنا، بلکہ اس سے مراد ایسا چاہنا ہے جو حکمت اور اہلیت کے ساتھ مقیّد ہے اس طرح اس بارے میں جو اشکال بھی وارد ہو وہ ُور ہوجائے گا ۔
اس کے بعد مزید اضافہ فرمایا گیا ہے: لیکن میری رحمت ہر چیز کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے (وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ) ۔
خدا کی اس وسیع رحمت سے ممکن ہے دنیاوی نعمتوں کی طرف اشارہ مقصود ہو جو تمام مخلوقات کے شاملِ حال ہیں، نیک وبد مومن وکافر سب ہی ان سے بہرہ ور ہوتے ہیں ۔
نیز ممکن ہے اس سے مادی ومعنوی ہر طرح کی نعمتیں مراد ہوں کیونکہ خدا کی معنوی نعمتیں کسی ایک قوم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اگرچہ ان کے لئے کچھ شرطیں ہیں جن کے بغیر وہ کسی کو نہیں ملتیں، دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ الله کی رحمت کے دروازے ہر ایک پر کھلے ہیں، اب یہ لوگوں کا کام ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ ان دروازوں کے اندر داخل ہونا ہے کہ نہیں،اب اگر کوئی اپنے میں وہ شرطیں پیدا نہ کرے جن کی وجہ سے وہ ان دروازوں میں داخل ہوسکے تو یہ خود اس کی کوتاہی ہوگی اس سے الله کی رحمت پر کوئی حرف نہ آئے گا (دوسری تفسیر آیہ مذکورہ کے مفہوم سے زیادہ نسبت رکھتی ہے) ۔
لیکن اگر کسی کو یہ خیال گزرے کہ الله رحمت ہر ایک کے لئے اور ہر شخص بلا کسی قید وشرط کے اس کا مستحق قرار پاسکتا ہے تو اس توہّم کو دُور کرنے کے لئے اس آیت کے آخر میں اضافہ فرمایا گیا ہے: ”میں عنقریب اپنی رحمت کوان لوگوں کے لئے لکھوں گا جن میں تین صفتیں پائی جاتی ہیں، وہ تقویٰ کو اختیار کرتے ہوں، زکوٰة ادا کرتے ہوں اور ہماری آیتوں پر ایمان لائے ہوں“ (فَسَاٴَکْتُبُھَا لِلَّذِینَ یَتَّقُونَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَالَّذِینَ ھُمْ بِآیَاتِنَا یُؤْمِنُونَ) ۔
تقویٰ“ سے ہر قسم کی الائش اور گندگی سے بچنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
”زکوٰة“ سے اس کے تمام اور ہمہ گیر معنی مراد ہیں جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے ”ولکلِّ شیء زکوٰة“ ہر چیز کے لئے ایک زکوٰة ہوتی ہے، بنابریں اس کے معنی ہر عمل نیک کے ہوں گے، اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے، اس طرح یہ آیت ایک ایسے مقامِ عمل پر مشتمل ہے جو ہر حیثیت سے کامل وجامع ہے ۔
اور اگر ”زکوٰة“ سے اس کے خاص معنی یعنی ”زکوٰة مال“ مراد لئے جائیں تو تمام الٰہی فرائض میں سے صرف اس کا انتخاب کیا جانا اس اہمیت کی وجہ سے ہے جو اسے عدالتِ اجتماعی ہیں حاصل ہے ۔
ایک حدیث شریف میں اس طرح نقل ہوا ہے کہ آنحضرت ایک دفعہ مشغولِ نماز تھے کہ ایک اعرابی کو یہ کہتے سنا وہ یہ کہہ رہا تھا:
”اللّٰھمّ ارحمنی ومحمدا ولاترحم معنا احداً“
یعنی خدایا! صرف مجھے اور محمد (صلی الله علیہ وآلہ وسلّم) کو اپنی رحمت کے دامن میں لے لے اور ہم دونوں کے علاوہ کسی اور کو اپنی رحمت میں داخل نہ کرنا ۔
جب حضرت رسول الله نے نماز ختم کی اور سلام نماز پڑھا تو اس شخص کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا:
”لقد تحجرت واسعاً“
یعنی تُونے ایک لامحدود شے کو محدود کردیا اور اسے ایک اختصاصی پہلو دے دیا ہے ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خداوندکریم کی رحمت لا محدود وبے پایاں ہے اسے کسی عالم میں بھی میرے اور تیرے درمیان محدود نہیں کیا جاسکتا(4)

 

۱۵۷ الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْاٴُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِیلِ یَاٴْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْھَاھُمْ عَنْ الْمُنکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمْ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمْ الْخَبَائِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ إِصْرَھُمْ وَالْاٴَغْلَالَ الَّتِی کَانَتْ عَلَیْھِمْ فَالَّذِینَ آمَنُوا بِہِ وَعَزَّرُوہُ وَنَصَرُوہُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی اٴُنزِلَ مَعَہُ اٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْمُفْلِحُونَ.
ترجمہ
۱۵۷۔ جو لوگ (خدا کے اس) فرستادہ نبی اُمّی کی پیروی کرتے ہیں جس کی صفات وہ اپنے پاس توریت وانجیل میں پاتے ہیں اور یہ نبی انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے اور بدی سے روکتا ہے، پاکیزہ چیزیں ان کے لئے حلال قرار دیتا ہے، ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اور وہ ان کے کاندھوں سے بوجھ ہٹاتا ہے، پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اور انھوں نے اس کی حمایت کی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس پر نازل ہوا ہے، وہ کامیاب ہیں ۔
تفسیر


1۔ حضرت موسیٰ(علیه السلام) صرف اس زلزلہ کی وجہ سے بے ہوش نہیں ہوئے تھے بلکہ اس زلزلے سے پہلے ایک نور ظاہر ہوا جس کی تاب نہ لاکر حضرت موسیٰ(علیه السلام) بیہوش ہوگئے تھے جیسا کہ اس آیت سے ظاہرہے:
<فَلَمَّا تَجَلَّی رَبُّہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا وَخَرَّ مُوسیٰ صَعِقًا(اعراف/۱۴۳)
ججب اس کے رب نے پہاڑ کے سامنے اپنی بجلی دکھلائی تو اس پہاڑ کو منہدم کردیا اور موسیٰ چیخ مارکر بیہوش ہوگئے ۔ (مترجم)
2۔ تفسیر المنار، ج۹، ص۲۲۱، اس کے موٴلف نے اس بات کو ابن الاعرابی سے نقل کیا ہے.
3۔ تفسیر ابوالفتوح رازی، ج۵، ص۳۰۰، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں.
4۔ تفسیر مجمع البیان زیرِ بحث آیت کے ذیل میں.

 
دوسوالوں کا جواباپنے پیغمبر کی پیروی کرو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma