وہ چیزیں جو یہودیوں پر حرام ہوئیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
ایک سوال کا جواب”جبرا“ کا بہانہ کرکے ذمہ داری سے فرار

قبل کی آیات میں حرام حیوانات کی چار قسمی ہی بیان کی گئیں تھیں لیکن ان آیتوں میں یہودیوں پر جو چیزیں حرام تھیں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ بُت پرستوں کے مہمل وخرافاتی احکام نہ تو آئین اسلام سے ہم آہنگ ہی، نہ آئین یہود سے (اور نہ آئینِ مسیح سے جس میں عموماً آئین یہود کی پیروی کی گئی ہے)۔
اس پر مستزاد یہ کہ ان آیات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ اس قسم کے محرمات بھی یہودیوں کے لئے سزا وعذاب کا پہلو لئے ہوئے تھے، اگر انھوں نے احکام الٰہی کی خلاف ورزی نہ کی ہوتیں تو یہ چیزیں بھی ان پر حرام نہ کی جاتیں، بنابریں اس بات کا حق پہنچتا ہے ہے بُت پرستوں سے سوال کیا جائے کہ اس طرح کے احکام تم کہاں سے لے آئے؟
لہٰذا پہلے ارشاد ہوتا ہے: یہودیوںپر ہم نے ناخن دار ہر جانور کو حرام کیا (وَعَلَی الَّذِینَ ھَادُوا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِی ظُفُرٍ)۔
”ظُفُر“ (بروزن ”شتر“) در اصل ناخن کے معنی میں ہے لیکن اس لفظ کا استعمال سُمدار حیوانات (یعنی وہ حیوانات جن کا سُم گھوڑے کی طرح پھٹا ہوا نہیں ہے، نہ کہ بھیڑ گائے وغیرہ کی طرح جن کا کھُر بیچ سے پھٹا ہوا ہوتا ہے) کے سُم پر بھی ہوا ہے کیونکہ ان کے سُم ناخن کی طرح کے ہوتے ہیں، اسی طرح اونٹ کا پاؤں جس کی نوک یایکپارچہ ہوتی ہے اور اس میں شگاف نہیں ہوتا اس لئے یہ لفظ ”ظُفُر“ بولا جاتا ہے۔
اس بناپر آیہٴ فوق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام حیوانات جن کے سُم بیچ سے شگافتہ نہیں ہیں یا وہ ناخن والے ہیں چاہے وہ چوپائے ہوں یا پرندے، یہودیوں پر حرام کردیئے گئے تھے۔
موجودہ توریت کے ”سفر لاویان“ فصل ۱۱ سے بھی اجمالاً یہی مفہوم حاصل ہوتا ہے جیسا کہ اس میں تحریر ہے۔
بہائم میں سے شگافتہ کھُر رکھنے والا جس میں پورا شگاف ہو اور جگالی کرتا ہو کھاؤں، لیکن وہ جگالی کرنے والا جس کا کھُر پھٹا ہوا نہیں ہے،مت کھاؤں، اونٹ با وجودیکہ وہ جگالی کرتا ہے چونکہ اس کا پورا کھُر چاک نہیں اس لئے وہ تمھارے لئے ناپاک ہے۔
آیہٴ مذکورہ میں بعد کے جملے سے (جس میں صرف گائے بھیڑ کا ذکر کیا گیا ہے) بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ اونٹ یہودیوں پر باکل حرام تھا، (ذرا غور کیجئے)
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: گائے بھیڑ کے جسم پر موجود چربی کو ہم نے ان پر حرام کردیا تھا (وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ شُحُومَھُمَا)۔
اسی کے ذیل میں تین چیزوں کا استثناء فرماتا ہے: پہلے وہ چربی جو اُن کی پشت پر ہوتی ہے (إِلاَّ مَا حَمَلَتْ ظُھُورُھُمَا)
دوسرے وہ چربی جوپہلووٴں میں اور آنتوں کی تہوں میںپائی جاتی ہے(اٴَوْ الْحَوَایَا)۔(۱)
تیسرے وہ چربی جو ہڈیوں میں لتھڑی ہوتی ہے (اٴَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ)۔
لیکن آیت کے آخر میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ چیزیں یہودیوں پر در حقیقت حرام نہ تھیں لیکن چونکہ وہ ظلم وستم کرتے تھے اس لئے بحکمِ خدا وہ اس طرح کے گوشت اور چربی سے محروم کردیئے گئے جسے وہ پسند کرتے تھے (ذٰلِکَ جَزَیْنَاھُمْ بِبَغْیِھِمْ)۔
تاکید کے لئے اضافہ فرماتا ہے: یہ ایک حقیقت ہے اور ہم سچ کہتے ہیں (وَإِنَّا لَصَادِقُونَ)۔

 

چند اہم نکات

 

۱۔ بنی اسرائیل نے وہ ظلم وستم کئے تھے جس کی سزا میں الله نے اپنی بعض نعمتیں جو انھیں پسندنہیں تھیں ان پر حرام کردی تھیں، مفسّرین کے درمیان اس بارے میں ایک بحث ہے لیکن سورہٴ نساء کی آیت ۱۶۰ اور ۱۶۱ سے جو ظاہر ہوتا ہے یہ ہے کہ اس تحریم کا باعث چند امور تھے۔
کمزور طبقہ پر ظلم وستم اور انھیں انبیائے الٰہی کی ہدایت سے روکنا، سُود خوری اور لوگوں کے اموال کو ناحق کھانا، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
<فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِینَ ھَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ طَیِّبَاتٍ اٴُحِلَّتْ لَھُمْ وَبِصَدِّھِمْ عَنْ سَبِیلِ اللهِ کَثِیرًا وَاٴَخْذِھِمْ الرِّبَا وَقَدْ نُھُوا عَنْہُ وَاٴَکْلِھِمْ اٴَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ(نساء/۱۶۰)
۲۔ جملہٴ ”وَإِنَّا لَصَادِقُونَ“ جو آیت کے آخر می آیا ہے، ممکن ہے اس امر کی طرف اشارہ ہو کہ ان غذاؤں کی تحریم کے بارے میں جو کچھ ہم نے کہا ہے وہی حقیقت ہے نہ وہ کہ جو یہودی کہتے ہیں اور اپنے ان کمانوں کو حضرت یعقوب کی طرف منسوب کرتے ہیں، اس بات کا تذکرہ سورہٴ آل عمران کی آیت ۹۳ میں گزرچکا ہے کہ یعقوب نے انھیں ان چیزوں کے حرام ہونے کا حکم ہرگز نہیں دیا تھا بلکہ یہ ایک تہمت ہے جو یہودی ان پر لگاتے ہیں(2)
چونکہ یہودیوں اور مشرکوں کو ہٹ دھرمی نمایاں تھی اور اس بات کا امکان تھا کہ وہ اپنی پر اڑے رہیں گے اور پیغمبر کی تکذیب کریں گے لہٰذا بعد کی آیت میں الله تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے: اگر تم کو جھٹلائیں تو ان سے کہہ دو کہ تمھارا پروردگار وسیع رحمت رکھتا ہے اور تم کو جلد سزا نہیں دیتا ہے بلکہ مہلت دیتا ہے کہ شاید تم اپنی غلطیوں سے پلٹ جاؤ اور کیے پر پشیمان ہوجاؤ اور خدا کی طرف پلٹ آؤ (فَإِنْ کَذَّبُوکَ فَقُلْ رَبُّکُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ)
لیکن اگر خدا کی دی گئی مہلت سے پھر بھی ناجائز فائدہ اٹھاؤ اور اپنی ناروا تہمتوں پر باقی رہو تو جان لو کہ خدا تمھیں کیفر کردار تک ضرور پہنچائے گا کیونکہ اس کی سزائیں اور مجازات مجرموں کے گروہ سے دور ہونے والی نہیں (وَلَایُرَدُّ بَاٴْسُہُ عَنْ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِینَ)۔
یہ آیت بخوبی تعلیمات قرآنی کی عظمت کو واضح کرتی ہے کہ یہودیوں اور مشرکوں کی اتنی نافرمانیوں کی وضاحت کرنے کے بعد بھی خدائے تعالیٰ انھیں فوراً اپنے عذاب کی تحدید نہیں کرتا بلکہ اپنی پُر محبت تعبیروں سے، جیسے ”ربّکم“ (تمھارا پروردگار) ”ذو رحمة واسعة“ (وسیع رحمت والا) ان کے لئے لوٹ آنے والے راستے کھولتا ہے تاکہ ذرا بھی ان میں پشیمان ہونے کی گنجائش ہے تو ان کی تشویق ہوجائے اور وہ حق کی طرف پلٹ آئیں، ساتھ ہی انھیں اپنے قطعی عذاب سے ڈرتا بھی ہے الله کی ناپیدا کنار رحمت ان کی جسارت وسرکشی کا باعث نہ بن جائے۔
 

 

۱۴۸ سَیَقُولُ الَّذِینَ اٴَشْرَکُوا لَوْ شَاءَ اللهُ مَا اٴَشْرَکْنَا وَلَاآبَاؤُنَا وَلَاحَرَّمْنَا مِنْ شَیْءٍ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ حَتَّی ذَاقُوا بَاٴْسَنَا قُلْ ھَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوہُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ اٴَنْتُمْ إِلاَّ تَخْرُصُونَ ۔
۱۴۹ قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَھَدَاکُمْ اٴَجْمَعِینَ ۔
۱۵۰قُلْ ھَلُمَّ شُھَدَائَکُمْ الَّذِینَ یَشْھَدُونَ اٴَنَّ اللهَ حَرَّمَ ھٰذَا فَإِنْ شَھِدُوا فَلَاتَشْھَدْ مَعَھُمْ وَلَاتَتَّبِعْ اٴَھْوَاءَ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَالَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَھُمْ بِرَبِّھِمْ یَعْدِلُونَ ۔

ترجمہ
۱۴۸۔ عنقریب مشرک لوگ (اپنی برائت کے لئے) کہیں گے کہ اگر خدا چاہتا تو ہم مشرک ہوتے نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہی ہم کسی چیز کو حرام کرتے، ان سے قبل جو لوگ تھے وہ بھی اسی طرح کے جھوٹ بولتے تھے اور بالآخر انھوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا، ان سے کہیے اس بارے میں تم کوئی یقینی دلیل رکھتے ہو، اگر ہو تو ہمیں بھی دکھلاؤ، تم فقط بے بنیاد خیالات کی پیروی کرتے ہو اور بے جا اندازے قائم کرتے ہو۔
۱۴۹۔ کہیے کہ خدا کے لئے (دعوے کو) ثابت کرنے والی (یقینی) دلیل ہے (ایسی کہ جس کے بعد کسی کو بہانہ تراشی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی) اگر وہ چاہے تم سب کو (اجباری طور پر) ہدایت کردے (لیکن جبراً ہدایت کا کوئی نتیجہ نہیں اس لئے وہ یہ کام نہیںکرتا)
۱۵۰۔ کہہ دو کہ تم اپنے گواہوں کو جو اس بات کی گواہی دے سکیں الله نے ان چیزوں کوحرام کیا ہے، لے آؤ، اگر وہ (جھوٹی) گواہی دے بھی دیں تو تم ان کے ساتھ (ہم آواز نہ ہونا) گواہی نہ دینا، اور ان لوگوں کی ہوا وہوس کی پیروی نہ کرنا جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اور خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں۔

 

 
۱۔ ”حوایا“ جمع ہے ”حاویہ“ (بروزن ”زاویہ“) کی یہ ایس چیز کو کہتے ہیں جس میں شکم کی تمام چیزیں شامل ہیں یہ کُرہ کی شکل میں ہوتی ہے اور آنتیں بھی اس کے اندر ہوتی ہیں ۔
2۔ مزید توضیح کے لئے تفسیر نمونہ ،ج۳، سورہٴ ال عمران آیت ۹۳ کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیے۔
 
ایک سوال کا جواب”جبرا“ کا بہانہ کرکے ذمہ داری سے فرار
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma