ایک سوال اور اس کاجواب

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
فرعون اور اس کے اطرافیوں بیدار کرنے والی سزائیں

یہاں پر ایک سوال یہ درپیش آتا ہے کہ فرعون نے موسیٰ (علیه السلام) کو کیوں نہ قتل کردیا اور صرف بنی اسرائیل کے قتل کا تہیّہ کیوں کیا ؟
اس کا جواب سورہٴ مومن کی آیات سے بخوبی مل جاتا ہے جن میں ہے کہ ابتدا میں فرعون نے ایسا ہی چاہا تھا کہ موسیٰ (علیه السلام) کو بھی موت کے گھاٹ اتار دے لیکن جب فرعون کو مومن آل فرعون نے یہ دھمکی آمیز نصیحت کی کہ موسیٰ (علیه السلام) کا قتل ہوسکتا ہے کہ خطرناک واقع ہو اور وہ واقعاً خدا کے نبی برحق ہوں اور جس عذاب سے وہ ڈراتے ہیں وہ تم آلے، تو اس کے دل پر اس کا گہرا اثر ہوا اور موسیٰ (علیه السلام) کے قتل کی ہمت نہ ہوئی ۔
علاوہ بر یں جب حضرت موسیٰ (علیه السلام) کو جادوگروں پر غلبہ حاصل ہوا تو اس کا قہری نتیجہ یہ ہوا کہ اہل مصر میں اختلاف پیدا ہوگیا اور وہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے بارے میں دوگروہوں میں تقسیم ہوگئے مخالف وموافق ایسے موقع پر فرعون نے خیال کیا کہ اگر اس نے موسیٰ (علیه السلام) کے متعلق کو ئی جارحانہ اقدام کیا تو ہوسکتا ہے کہ اس کا رد عمل اس کی حکومت کے لئے خطرناک ثابت ہو لہٰذا وہ ان کے قتل کے ارادے سے باز رہا ۔
اس کے بعد کی آیت میں اس پروگرام کا ذکر ہے جو حضرت موسیٰ (علیه السلام) نے بنی اسرائیل کے سامنے پیش کیا کہ وہ کس طرح سے فرعون کا مقابلہ کریں اور یہ کہ وہ کس طرح فتحیاب ہوسکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ اگر تین شرطوں پر عمل کرو گے تو تمھاری کامیابی یقینی ہے”پہلے یہ کہ تمھارا بھروسہ صرف خدا پر ہو اور اسی سے مدد مانگو“( قَالَ مُوسیٰ لِقَوْمِہِ اسْتَعِینُوا بِاللهِ) ۔
دوسری بات جو حضرت موسیٰ (علیه السلام) نے ان سے کہی وہ یہ تھی : پامردی اور ثابت قدمی کو کسی حال میں نہ چھوڑو ، اور دشمن کی دھمکیوں سے مرعوب ہوکر میدان نہ چھوڑو (وَاصْبِرُوا) ۔
اس مطلب کی مزید تاکید کے لئے اور اس کی دلیل بیان کرنے کے لئے موسیٰ (علیه السلام) ان سے کہتے تھے: ساری زمین صرف اللہ کی ہے، وہی اس کا مالک ومختار ہے، اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے ( إِنَّ الْاٴَرْضَ لِلّٰہِ یُورِثُھَا مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ ) ۔
اور آخری شرط یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرو کیوں کہ ”فتحیابی پرہیزگاروں کے لئے ہے“(وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِین) ۔
یہ تینوں شرطیں جن میں سے ایک عقیدہ سے تعلق رکھتی ہے (خدا سے طلب استقامت) اور دوسری اخلاق سے متعلق ہے (صبر واستقامت) اور تیسری کا تعلق عمل سے ہے (تقویٰ وپرہیزگاری) صرف بنی اسرائیل کی ان کے دشمن فتحیابی کی شرطیں نہ تھیں بلکہ ہر قوم وملت جو اپنے دشمن پر غالب آنا چاہتی ہے بغیر اس سہ نکاتی پروگرام کے کامیاب نہیں ہوسکتی کیوں کہ بے ایمان افراد اور سست اور ڈرپوک لوگ اور وہ قومیں جو گنہگار اور تباہ کار ہیں اگر فتحیاب ہو بھی جائیں تو ان کی یہ کامیابی وقتی اور چند روزہ ہوگی ۔
یہ بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ یہ تینوں نکات ایک دوسرے کی شاخ ہیں کیوں کہ پرہیزگاری بغیر شہوات و خواہشات کے مقابلے میں صبر واستقامت کے حاصل نہیں ہوسکتی، جیساکہ صبر واستقامت بغیر خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان کے باقی نہیں رہ سکتی ۔
آخر میں وہ شکوہ بیان کیاگیا ہے جو ان مشکلات سے پیدا ہوا جو بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے قیام کی وجہ سے پیش آئیں فرماتا ہے: انھوں نے موسیٰ سے کہا: تمھارے آنے سے پہلے بھی یہ لوگ ہمیں تکلیفیں پہنچاتے تھے، اب جب سے تم آگئے ہو تب بھی ان کی اذیت رسانی جاری ہے ۔ پس ہمارے لئے کب کشائش پیدا ہوگی (قَالُوا اٴُوذِینَا مِنْ قَبْلِ اٴَنْ تَاٴْتِیَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا) ۔
گویا بنی اسرائیل ہمارے بہت سے افراد کی طرح اس بات کے امید وار تھے کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے قیام کے ساتھ ہی ایک رات کے اندر ان کے تمام مصائب کا خاتمہ ہوجائے، فرعون ہلاک ہوجائے، فرعون والے بھی سب فنا ہوجائیں اور مصر کی لمبی چوڑی سلطنت اپنے تمام خزانوں اور ذخیروں کے ساتھ ان کے اختیار میں آجائے اور یہ سب باتیں معجزہ کے طورپر وقوع پذیر ہوں جس کی وجہ سے بنی اسرائیل کو کسی طرح کی کوئی زحمت نہ اٹھانا پڑے ۔
لیکن حضرت موسیٰ (علیه السلام) نے ان کو سمجھایا کہ وہ آخر کار فتحیات تو ہوں گے لیکن اس کے لئے ان کو ایک طولانی راستہ طے کرنا پڑے گا اور یہ فتحیابی جیسا کہ اللہ کی سنت اور طریقہ ہے صبر واستقامت کے جوہر دکھانے بعد حاصل ہوگی جیسا کہ زیر بحث آیت کہہ رہی ہے: موسیٰ نے کہا امید ہے کہ خدا تمھارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تم کو زمین میں ان کا جانشین قرار دے گا(قَالَ عَسیٰ رَبُّکُمْ اٴَنْ یُھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔
یہاں پر لفظ” عسیٰ“ (جس کے معنی شاید اور امید کے ہیں )لفظ ”لعل“ کی طرح جو بہت سی آیات میں آیا ہے، درحقیقت اس مطلب کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے کہ تمھاری اس فتحیابی وکامیابی کی کچھ شرطیں ہیں جن کے بغیر تم کامیاب نہیں ہوسکتے (اس کی مزید توضیح کے لئے سورہ ٴ نساء کی آیت ۸۴ کی تفسیر اسی کتاب کی جلد چہارم میں ملاحظہ ہو) ۔
آیت کے آخر میں فرماتے ہیں: خدا تمھیں یہ نعمتیں عطا کرے گا اور تمھاری کھوئی آزادی تمھیں دوبارہ لوٹا دے گا ”تاکہ یہ دیکھیں کہ اس کے مقابلے میں تمھارا عمل کیسا ہوتا ہے (فَیَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُون) ۔
یعنی کامیابی کے بعد تمھاری آزمائش کا دور شروع ہوجائے گا، ایک ایسی ملت کی آزمائش جو پہلے اپنے دامن میں کچھ نہ رکھتی تھی اس کے بعد خدا کے فضل سے اس کا دامن نعمت الٰہی سے مالا مال ہوگیا ۔
اس تعبیر میں ضمنی حیثیت سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آنے والے زمانے میں تم لوگ اس آزمائش پر پورا نہ اتر سکو گے بلکہ تمھارے ہاتھ میں بھی جب قدرت و حکومت آجائے گی تو دوسرے لوگوں کی طرح تم بھی ظلم وفساد پر اتر آؤ گے ۔
ایک روایت میں جو کافی میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے، میں ہے:
قال وجدنا فی کتاب علیٰ صلوات اللّٰہ علیہ ان الارض للّٰہ یورثھا من یشاء من عبادہ و العاقبة للمتقین انا واھل بیتی الّذین اٴورثنا اللّٰہ الارض ونحن المتقون۔(۱)
یعنی کتاب حضرت علی علیہ السلام میں ہم نے اس طرح لکھا ہوا دیکھا کہ آیت :ان الارض للہ الخ سے میں اور میرے اہل بیت مراد ہیں اور ہم ہی وہ افراد ہیں جن کو خدا آخر میں زمین منتقل کردے گا اور ہم حقیقی متقین ہیں ۔
اس حدیث سے اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ آیت کا مفہوم عام ہے اور اب بھی زمین پر وہ پرہیزگار موجود ہیں ۔


۱۳۰ وَلَقَدْ اٴَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِینَ وَنَقْصٍ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُونَ ۔
۱۳۱ فَإِذَا جَائَتْھُمَ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا ھٰذِہِ وَإِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَةٌ یَطَّیَّرُوا بِمُوسیٰ وَمَنْ مَعَہُ اٴَلَاإِنَّمَا طَائِرُھُمْ عِنْدَ اللهِ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَھُمْ لَایَعْلَمُونَ۔
ترجمہ
۱۳۰۔اور ہم نے قوم فرعون کو خشک سالی اور میووں کی کمی میں مبتلا کیا تاکہ وہ بیدار ہوجائیں ۔
۱۳۱۔لیکن انھوں (نہ صرف یہ کہ نصیحت قبول نہ کی بلکہ ) جب انھیں کوئی اچھائی (اور نعمت )ملی تو وہ کہتے تھے کہ یہ خود ہمارے وجہ سے ہے! پھر جب کوئی برائی (اور مصیبت ) آتی تھی تو کہتے تھے کہ یہ موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست سے ہے! کہو ان تمام بد فالیوں کا سرچشمہ خدا کے پاس ہے (وہ تمھاری بد اعمالیوں کی وجہ سے تم کو سزا دیتا ہے) لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے ۔

 

 
۱۔ تفسیر نورالثقلین، جلد۲ ،صفحہ ۵۶-
 

 

فرعون اور اس کے اطرافیوں بیدار کرنے والی سزائیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma