بہانہ سازوں کو ایک قطعی جواب

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
۱۰۔ ان چند آیتوں نے کِس طرح مدینہ کی حالت بدل دی : بے جا اور محال توقعات

اس سے قبل کی آیات میں اسلام کے دس بنیادی احکام سے بحث کی گئی تھی، جو در اصل بہت سے احکام اسلامی کی اصل اصول ہیں، اور اس طرح کی تعبیر جیسے: ”انَّ ہٰذَا صِرَاطِی مُستَقِیماً فَاتَّبِعُوہُ“ (یہ میرا سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرتے رہنا) سے برآمد ہوتا ہے کہ یہ احکام کسی خاص مذہب سے مخصوص ن تھے۔ خاص کر اس لیے کہ یہ سب کے سب اصولی احکام ہیں جن کی تائید عقل انیانی سے اچھی طرح ہوتی ہے۔ بنابریں آیاتِ گذشتہ کا مقصد ان احکام کو بیان کرنا ہے جو نہ صرف اسلام میں بلکہ ادیان ما یبق میں بھی رائج و شامل تھے۔
انہی کے ذیل میں ان آیتوں میں اللہ فرماتا ہے کہ”اس کے بعد ہم نے موسی کو آسمانی کتاب دی“ اور جو لوگ نیکو کار تھے ، ہمارے فرمان کو ماننے والے تھے، اور حق کے پیرو کار تھے ان کے لیے ہم نے اپنی نعمت کو کامل کردیا (ثُمَّ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ تَمَامًا عَلَی الَّذِی اٴَحْسَنَ)۔
جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے کلمہٴ ” ثمّ“ (جو نعت عرب میں عام طور سے ہطف یا تاخیر کے لیے آتا ہے) کے معنی واضح ہوگئے ہوں گے۔ اب آیت کے معنی یوں ہوں گے: پہلے ہم نے انبیائے ما سبق کو یہ ہمہ گیر احکام پہنچائے اس کے بعد ہم نے موسیٰ کو آسمانی کتاب عطا کی اور اس میں دستور العمل اور دیگر ضروری قوانین کی توضیح کردی۔
اس طرح ان مختلف اور ضعیف توجیہوں کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی جنھیں بعض مفسرین نے ”ثمّ“کے ضمن میں بیان کیا ہے۔
ضمناً یہ نکتہ بھی واضح ہوگیا کہ ”الذی احسن“ سے ان تمام افراد کی طرف اشارہ مقصود ہے جو نیکو کار ہیں اور کلمہٴ حق اور فرمانِ الٰہی کو قبول کرنے پر آمادہ ہیں۔
اور اس (توریت) میں ہر اس چیز کو بیان کردیا گیا تھا جس کی انھیں ضرورت تھی اور جو انسانی ترقی کی راہ میں کار آمد ہوسکتی تھی(وَتَفْصِیلًا لِکُلِّ شَیْءٍ)۔
نیز یہ کتاب جو موسیٰ پر نازل ہوئی تھی سرمایہ ہدایت و رحمت تھی( وَھُدًی وَرَحْمَةً ) ۔
یہ تمام امور اس لیے تھے کہ یہ لوگ روز قیامت اور ملاقات پروردگار کے دن پر ایمان لے آئیں اور روزِ معاد پر ایمان لانے کی وجہ سے ان کی گفتار و کردار پاک ہوجائے(لَعَلَّھُمْ بِلِقَاءِ رَبِّھِمْ یُؤْمِنُونَ)۔
ممکن ہے یہاں پر یہ سوال کیا جائےکہ اگر آئینِ حضرت موسیٰ ہر طرح سے کامل تھا( جیسا کہ کلمہٴ”تماماً“اس پر دلالت کرتا ہے ہے) تو پھر اس کے بعد آئینِ حضرت عیسیٰ اور پھر اس کے بعد آئینِ اسلام کی کیا ضرورت تھی؟
لیکن اس امر کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ ہر آئین اپنے زمانے کی حدود کے اندر جامع اور کامل ہوتا ہے اور یہ امر محال ہے کہ خداوندکریم کی جانب سے کوئی ناقص آئین نازل ہو لیکن یہی آئین جو اپنے زمانے کی رُو سے کامل تھا ممکن ہے کہ بعد میں آنے والے زمانوں کے لئے ناتمام وناقص ہو، جیسا کہ وہ نصاب جو پرائمری اسکول کے لئے تو ہر طرح سے مکمل ہوتا ہے لیکن سیکنڈری اسکول کے لئے ناقص ہوتا ہے، یہی راز ہے کہ مختلف زمانوں میں مختلف پیغمبروں کو ان کی کتابوں کے ساتھ تدریجاً بھیجا یہاں تک کہ یہ سلسلہ آخری پیغمبر اور آخری کتاب پر ختم ہوا، بیشک جب انسانوں میں آخری آئین قبول کرنے کی استعداد پیدا ہوجائے گئی اور وہ آئین خدا کی طرف سے نازل ہوگیا تو اب کسی دوسرے آئین کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، یہ بالکل ایسا ہے جیسے وہ افراد جو فارغ التحصیل ہوگئے ہوں اپنی معلومات کی بنیاد پر بذریعہ مطالعہ مزید علمی ترقیاں کرسکتے ہیں، لہٰذا ایسے مذہب کے پیروکاروں کو کسی نئے آئین کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ وہ حرکت درعمل اور آگے بڑھنے کے کافی راستے اسی آخری آئین کے ذریعے تلاش کرلیں گے۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے متعلق مسائل اصلی توریت میں کافی حد تک موجود تھے حالانکہ اب ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ توریت اور اس کی دوسری کتابوں کے اندر یہ مسائل نہ ہونے کے برابر ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں بھی ان دنیا پرست یہودیوں نے جواس امر کی طرف مائل تھے کہ قیامت کے بارے میں کم بولیں اور کم سنیں، کافی تحریف کرڈالی ہے۔
ہاں، موجودہ توریت کے نسخوں میں چند مختصر اشارے قیامت کی جانب موجود ہیں مگر یہ کہ اس حد تک کم ہیں کہ بعض افراد کو یہ کہنے کا موقع ملا ہے کہ یہودی اصولی طور پر روزِ قیامت کے معتقد نہیں ہیں لیکن واقفیت کے لحاظ سے یہ نسبت مبالغے سے زیادہ نزدیک ہے۔
آخر میں ہم ایک امر کی طرف اور توجہ دلانا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ سابقاً بھی جلد اول(۱) میں ہم نے اچھی طرح واضح کردیا ہے کہ قرآن کریم میں پروردگار کی جس ملاقات کا بار بار ذکر آیا ہے اس سے مراد ”حسّی ملاقات “ نہیں ہے اور نہ ہی آنکھوں سے دیکھا جانا مراد ہے بلکہ اس سے مراد ایک قسم کا ”شہود باطنی اور ملاقات روحانی“ ہے جو اس کے اعمال کے بدلے میں جہانِ آخرت میں اسے درپیش ہوںگے۔
اس کے بعد کی آیت میں نزولِ قرآن اور اس کی تعلیمات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور گذشتہ آیت کی بحث کو مکمل کیا گیا ہے اور فرمایا ہے: یہ وہ کتاب ہے جو ہم نے نازل کی ہے، ایسی کتاب جو بڑی باعظمت وپُربرکت ہے اور طرح طرح کی خوبیوں اور نیکیوں کا سرچشمہ ہے (وَھٰذَا کِتَابٌ اٴَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ)۔
اور جب یہ کتاب اس طرح کی ہے تو پھر اس کی پیروی کرو پرہیزگاری کو اپنا شعار بناؤ اور اس کی مخالفت سے پرہیز کرو، شاید(۲) خدا کی رحمت ہمارے شاملِ حال ہوجائے (فَاتَّبِعُوہُ وَاتَّقُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ)۔
اس کے بعد والی آیت میں مشرکوں پر بہانہ سازیوں اور فرار کرنے کے راستوں کو بند کردیا گیا ہے، پہلے ان سے یہ فرمایا: ہم نے یہ آسمانی کتاب ان خصوصیات کے ساتھ نازل کی ہے تاکہ تم یہ نہ کہو کہ کتاب آسمانی صرف دو قوموں (یہود ونصاریٰ) نازل ہوئی تھی اور ہم اس میں غور فکر کرنے سے غافل تھے لہٰذا اگر ہم نے تیرے حکم کی مخالفت کی تو وہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس کا مطالعہ نہ کرسکے کیونکہ تیرا فرمان دوسروں کے ہاتھ میں تھا اور وہ ہم تک نہ پہنچا (اٴَنْ تَقُولُوا إِنَّمَا اٴُنزِلَ الْکِتَابُ عَلیٰ طَائِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا وَإِنْ کُنَّا عَنْ دِرَاسَتِھِمْ لَغَافِلِینَ)(۳)
بعد کی آیت میں ان کافروں کی طرف سے وہی بہانہ نقل ہوا ہے مگر اس دفعہ اسے ذرا تفصیل کے ساتھ دہرایا گیا ہے جس میں خود نمائی اور زیادہ غرور کی آمیزش بھی ہے اور وہ یہ ہے : اگر ان پر قرآن نازل نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اس بات کا دعویٰ کرتے کہ ہم فرمانِ الٰہی کو بجالانے کے لئے اس قدر تیارتھے جتنا دوسری قومیں تیار نہیں ہوسکتی تھیں، ہم پر آسمانی کتاب نازل ہوئی تو ہم سب سے زیادہ قبول کرنے والے اور ہدایت پانے والے ہوتے (اٴَوْ تَقُولُوا لَوْ اٴَنَّا اٴُنزِلَ عَلَیْنَا الْکِتَابُ لَکُنَّا اٴَھْدیٰ مِنْھُمْ)۔
در اصل پھلی آیت ان کے بہانے کو بتانا چاہتی ہے کہ اگر ہم راہ راست پر نہیں آتے تو یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم کتب آسمانی سے بے خبر رہے اور یہ بے خبری اس وجہ سے ہے کہ کتابیں دوسروں پر نازل ہوئی تھیں لیکن یہ آیت ان( عربوں) کے احساس برتری اور اس بے بنیاد زعم کی حکایت کررہی ہے جو ان کے دماغوں میں سمایا ہوا تھا کہ نژادِ عرب کو دوسری قوموں پر امتیاز حاصل ہے۔
اسی مطلب کی ہم معنی سورہٴ فاطر کی آیت ۴۲بھی ہے جس میں ایک یقینی مسئلہ کے طور پر( نہ کہ قضیہ شرطیہ کے طور پر) اس مطلب کو بیان کیا گیا ہے، جہاں کہا گیا ہے :۔
”مشرکوں نے بڑی تاکیدی قسم کھائی ہے کہ اگر ان کی جانب کوئی پیغمبر آجائے تو وہ تمام قوموں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوجائیں گے“ ۔
بہر حال قرآن کریم ان تمام دعووں کے جواب میں کہتا ہے: خدا نے تمام بہانہ تراشیوں کی راہوں کو تمھارے لیے بند کردیا ہے، کیونکہ: متعدد دلیلیں اور روشن آیتیں تمھارے پروردگار کی جانب سے تمھارے پاس آچکی ہیں، جو الٰہی ہدایت اور رحمت پروردگارکو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں (فَقَدْ جَائَکُمْ بَیِّنَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَھُدًی وَرَحْمَةٌ)۔
یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ کتابِ آسمانی کے بدلے لفظ ”بیّنہ“ استعمال کیا گیا ہے جو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ یہ کتابِ آسمانی ہر حیثیت سے مدلّل اور اطمینان بخش ہے جو اپنے دامنمیں یقین آور دلیلیں لیے ہوئے ہیں۔
ان حالات میں بھی اگر یہ خدا کی آیتوں کی تکذیب کریں تو کیا ان سے زیادہ ظالم کوئی دوسرا ہوکستا ہے (فَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَّبَ بِآیَاتِ اللهِ وَصَدَفَ عَنْھَا)۔
”صَدَفَ“ مادہٴ ”صَدفٌ“ (بروزن ”حَذفٌ“)سے مشتق ہے ، جس کے معنی کسی چیز سے بغیر غور وفکر کے شدید روگردانی کرنا، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان (کافروں) نے نہ صرف آیاتِ الٰہی سے روگردانی کی بلکہ بغیر غوروفکر کیے بڑی شدّت سے ان سے دُوری اختیار کی، بعض اوقات (صدف) دوسروں کو کسی کام سے روکنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔
آخر میں خدا نے ایسے ضدی اور اپنی سمجھ سے کام نہ لینے والے افراد جو بغیر سوچے سمجھے سختی کے ساتھ حقائق کا انکار کردیتے ہیں اور اس سے بھاگتے ہیں یہاں تک کہ دوسروں کے لئے بھی سدّراہ ہوتے ہیں، کی سزا کو ایک مختصر لیکن نہایت بلیغ جملے میں بیان فرمایا ہے، ارشاد ہوتا ہے:۔ عنقریب ہم ان لوگوں کو جو ہماری آیتوں سے روگرانی کرتے ہیں، شدید سزاؤں میں مبتلا کریں گے اور ان کی بلاوجہ اور بغیر سوچے سمجھے روگردانی کی وجہ سے ہے(سَنَجْزِی الَّذِینَ یَصْدِفُونَ عَنْ آیَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوا یَصْدِفُونَ)۔
کلمہٴ ”سوء العذاب“ کے معنی اگرچہ ”بری سزا“ ہیں لیکن چونکہ بُری سزا ہوتی ہے جو نوعی حیثیت سے سخت اور معمول سے زیادہ اور دردناک ہو اس لئے بہت سے مفسّروں نے اس کا مفہوم ”شدیدسزا‘ ‘ بیان کیا ہے۔
ایسے لوگوں کی سزا بیان کرنے کے سلسلے میں کلمہٴ ”یصدفون“ کی تکرار اس مطلب کو واضح کرنے کی غرض سے ہے کہ ان کی تمام مصیبتیں اور بدبختیاں اس وجہ سے ہیں کہ انھوں نے بغیر غوروفکر کئے اور بغیر دیکھے بھالے حقائق سے روگرانی کی اور اگر وہ کم از کم ایک ایسے شخص کی طرح جو شک کی حالت میں تلاش حق کررہا ہو ان آیات کا مطالعہ کرتے تو اپنے دردناک انجام سے دوچار نہ ہوتے۔
۱۵۸ ھَلْ یَنظُرُونَ إِلاَّ اٴَنْ تَاٴْتِیَھُمَ الْمَلَائِکَةُ اٴَوْ یَاٴْتِیَ رَبُّکَ اٴَوْ یَاٴْتِیَ بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ یَوْمَ یَاٴْتِی بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لَایَنفَعُ نَفْسًا إِیمَانُھَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اٴَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِھَا خَیْرًا قُلْ انتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ ۔
ترجمہ
۱۵۸۔ کیا انھیں صرف اس بات کا انتظار ہے کہ (موت کے) فرشتے ان کے پاس آئیں یا خدا (خود) ان کے پاس آئے (یہ توقع کیسی محال ہے!) یا خدا کی آیتوں میں کچھ آیتیں (جو روزِ قیامت کی نشانی ہوں) ان کے پاس آیئیں، لیکن جس روز یہ آیتیں اور نشانیاں آجائیں گی اس روز ان لوگوں کا ایمان لانا، جو اس سے پہلے ایمان نہ لائے ہوں گے، یا انھوں نے کوئی نیک عمل نہ کیا ہوگا، انھیں کوئی فائدہ نہیںپہنچائےگا، (اے ہمارے رسول) ان سے کہہ دو کہ (اب جبکہ تم ایسا بے جا انتظار وتوقع کیے بیٹھے ہو تو پھر) انتظار کرو، ہم بھی (تمھاری سزا کے وقت کا) انتظار کرتے ہیں۔
تفسیر


۱۔ تفسیر نمونہ، ج۱، (اردوترجمہ) ص۱۸۳ ۔
۲۔ قرآن کریم میں جہاں بھی لفظ ”لعل“ جو عام طور سے شاید کے معنی میں ہے، الله نے اپنی نسبت سے فرمایا ہے وہ ” تاکہ “ یعنی غایت کے معنی میں ہے کیونکہ ”شاید“ ترجّی کے لئے آتا ہے اور ترجّی علام الغیوب کے لئے محال ہے(مترجم)
۳۔ جملہ ”اٴَنْ تَقُولُوا “ ”لَئَلَّا تَقُولُوا “ ”تاکہ یہ نہ کہو“کے معنی میں ہے اور اس کے نظیرقرآن یا دیگر عبارات عربی ادب میں بہت زیادہ ہے۔
 
۱۰۔ ان چند آیتوں نے کِس طرح مدینہ کی حالت بدل دی : بے جا اور محال توقعات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma