حضرت موسیٰ (علیه السلام) کی زندگی کے پانچ ادوار

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
موسی اور فرعون کی لڑائی کا ایک منظرمقابلہ شروع ہوتا ہے

۱۔پیدائش سے لے کر آغوش فرعون میں آپ (علیه السلام) کی پرورش تک کا زمانہ ۔
۲۔مصر سے آپ (علیه السلام) کا نکلنا اور شہر مدین میں حضرت شعیب (علیه السلام) کے پاس کچھ وقت گزارنا ۔
۳۔آپ (علیه السلام) کی بعثت کا زمانہ اور فرعون اور اس کی حکومت والوں سے آپ (علیه السلام) کے متعدد تنازعے ۔
۴۔فرعونیوں کے چنگل سے حضرت موسیٰ (علیه السلام) اور بنی اسرائیل کی نجات اور وہ حوادث جو راستہ میں اور بیت المقدس پہنچنے پر رونما ہوئے ۔
۵۔حضرت موسیٰ (علیه السلام) اور بنی اسرائیل کے درمیان کشاکش کا زمانہ۔
توجہ رہے کہ قرآن مجید کی ان سورتوں میں جن کا پہلے ذکر کیا گیا ہے مذکورہ پانچ ادوار میں سے صرف ایک یا چند کا ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ زیر بحث آیات میں نیز اسی سورہ کی بہت دیگر آیات میں جو آئندہ آنے والی ہے ہیں صرف حضرت موسیٰ (علیه السلام) کی بعثت اور رسالت کا ذکر کیا گیا ہے، اس بنا پر ہم ان واقعات کو جو آپ (علیه السلام) کی بعثت سے قبل رونما ہوئے آئندہ آنے آیات کے ذیل میں بیان کریں گے جو ان واقعات کے ساتھ مربوط ہیں، خصوصاً سورہ ”ْقصص“ میں اس کا ذکر آئے گا ۔
زیر بحث پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: اقوام گذشتہ (جیسے حضرت نوح (علیه السلام) ،حضرت ہود (علیه السلام) اور حضرت صالح (علیه السلام) وغیرہ کی اقوام )کے بعد ہم نے حضرت موسی (علیه السلام) کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور فرعونیوں کے پاس بھیجا(ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِھِمْ مُوسیٰ بِآیَاتِنَا إِلیٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِہِ) ۔
اس بات کی طرف توجہ رکھنا چاہئے کہ ”فرعون“ اسم عام ہے جو تمام سلاطین مصر پر بولا جاتا ہے ،جیسے سلاطین روم کو ”قیصر“ اور شاہان ایرن کو ”کسریٰ “کہتے ہیں ۔
لفظ ”ملاٴ“ جیسا کہ سابقا بیان کیا گیا ہے ان افراد پر بولا جاتا ہے جو قوم کے سربرآوردہ ، اشراف، پُرزرق برق نظروں میں سماجانے والے اور معاشرہ کے اہم موقع پر چھا جانے والے افراد ہوں ۔
اور یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ درجہٴ اول میں حضرت موسیٰ (علیه السلام) فرعون اور اس کے گروہ کی طرف مبعوث ہوئے تو اس کی دو وجوہ معلوم ہوتی ہیں، ایک تو یہ کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) کا ایک اہم مقصد یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو فرعون کے چنگل سے اور مصر اور فرعونیوں کے استعمار سے نجات دلائیں اور یہ کام فرعون سے گفتگو کئے بغیر وقوع پذیر نہیں ہو سکتا تھا ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جیسے ایک مثال ہے کہ پانی ہمیشہ اس چشمہ سے صاف کرنا چاہئے جہاں سے وہ نکلتا ہے، کیوں کہ اجتماعی خرابیاں اور ماحول کے مفاسد کسی فرد یا کسی خاص مقام کی اصلاح سے دور نہیں ہوتے بلکہ چاہئے یہ کہ سب سے پہلے معاشرے کے سربرآوردہ افراد اوران اشخاص کی اصلاح کی جائے جن کے ہاتھ میں اس قوم کی سیاست، اقتصاداور ان کی باگ ڈور ہے، تاکہ باقی افراد کی اصلاح کے لئے بھی زمین ہموار ہو، اور یہ ایک درس ہے جو قرآن کریم تمام مسلمانان عالم کو اسلامی معاشروں کی اسلاح کے لئے دے رہا ہو ۔
اس کے بعد قرآن فرماتا ہے:ان لوگوں نے آیات الٰہی پر ظلم کیا ( فَظَلَمُوا بِھَا) ۔
”ظلم“ یہاں ایک وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے اور وہ ہیں” کسی شے کو بے محل استعمال کیا جانا“ اور اس میں شک نہیں کہ آیات الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ تمام لوگ ان کے سامنے سرتسلیم خم کردیں اور ان کو قبول کر کے اپنے اپنے معاشرے کی اصلاح کریں، مگر ہوا یہ کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے ان کا انکار کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ۔
آخر میں قرآن مزید فرماتا ہے: دیکھو مفسدوں کا انجام کیا ہوا( فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِینَ) ۔
اس جملے میں فرعون اوراس کے لشکر کے نابودی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔
درحقیقت گذشتہ آیت میں نہایت اجمالی طور پر حضرت موسیٰ (علیه السلام) کی رسالت اور فرعون سے آپ کے مقابلے اور اس کا انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن بعد والی آیات میں اسی بات کو زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، پہلے فرماتا ہے: حضرت موسیٰ (علیه السلام) نے کہا، اے فرعون! میں سارے جہانوں کے پروردگار کے طرف سے فرستادہ ہوں (وَقَالَ مُوسیٰ یَافِرْعَوْنُ إِنِّی رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ ) ۔
یہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) کا فرعون سے پہلا مقابلہ ہے اور حق وباطل کی نبر د کا ایک نقشہ ہے، جاذب توجہ یہ بات ہے کہ پہلی بار بار فرعون کے سامنے ایک ایسا شخص آیا جس نے فرعون کو فرعون کہہ کر خطاب کیا، یہ ایک ایسا خطاب تھا جو ہر قسم کے ادب ، تملیق، چاپلوسی اور عبودیت کے اظہار سے خالی تھا کیوں کہ اب تک تو لوگ اسے ہمارے سردار! ،اے مالک!، اے رب اور اسی طرح کے دوسرے باطل القابات کے ساتھ پکاتے آئے تھے ۔
حضرت موسیٰ (علیه السلام) کی یہ تعبیر گویافرعون کے لئے سب سے پہلے خطرہ کا الارم تھا، نیز حضرت موسیٰ (علیه السلام) کا یہ کہنا کہ ”میں جہانوں کے پروردگار کا فرستادہ ہوں“ فی الحقیقت فرعون کے لئے ایک طرح کا اعلان جنگ تھا، کیوں کہ اس بات کا اعلان ہے کہ فرعون اور اس کی طرح کے دوسرے مدعیان ربوبیت سب جھوٹے ہیں اور تمام جہانوں کا رب صرف خدائے وحدہ لاشریک ہے ۔
اس کے بعد کی آیت میں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) نے اپنی رسالت کے اعلان کے بعد ہی یہ کہا:
اب جب کہ میں خدا کا فرستادہ ہوں تو میرے لئے مناسب ہے کہ میں اس کے بارے میں سوائے حق کے دوسری بات نہ کہوں کیوں کہ خدا کا فرستادہ تمام عیبوں سے مبرہ ومنزہ ہوتا ہے ممکن نہیں کہ وہ کوئی غلط بات کہے ( حَقِیقٌ عَلیٰ اٴَنْ لَااٴَقُولَ عَلَی اللهِ إِلاَّ الْحَقَّ) ۔
بعد ازاں اپنے دعوائے نبوت کے اثبا کے لئے آپ نے اس جملہ کااضافہ کیا:ایسا نہیں کہ میں نے یہ دعویٰ بغیر کسی دلیل کے کیا ہو، میں تمھارے پروردگار کی جانب سے روشن وواضح دلیل لے کر آیاہوں ( قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ) ۔
لہٰذا بنی اسرائیل کو میرے ہمراہ بھیج دو( فَاٴَرْسِلْ مَعِی بَنِی إِسْرَائِیلَ) ۔
یہ در حقیقت حضرت موسیٰ (علیه السلام) کی رسالت کا ایک حصہ تھا کہ بنی اسرائیل کو فرعونیوں کے چنگل سے چھٹکارا دلائیں اور اسیری کی زنجیروں کو ان کے ہاتھوں اور پیروں سے کاٹ دیں کیوں کہ اس زمانے میں بنی اسرائیل ذلیل غلاموں کی حیثیت سے قبطیوں (اہل مصر) کے ہاتھوں میں گرفتار تھا اور قبطی ان سے ہر سخت وپست کام لیا کرتے تھے ۔
آئندہ کی آیات سے نیز قرآن کی دیگر آیات سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) کو یہ حکم ملا تھا کہ وہ فرعون اور دیگراہل مصر کو بھی اپنے آئین کی طرف دعوت دیں ،یعنی ان کی رسالت صرف بنی اسرائیل میں منحصر نہ تھی ۔
فرعون نے جونہی یہ دعویٰ سنا کہ ”میں اپنے ہمراہ روشن دلیل بھی رکھتا ہوں“ فوراً کہا ”اگر تم سچ کہتے ہو اور اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی رکھتے ہو تو اسے پیش کرو“(قَالَ إِنْ کُنتَ جِئْتَ بِآیَةٍ فَاٴْتِ بِھَا إِنْ کُنتَ مِنَ الصَّادِقِینَ ) ۔
اس تعبیر میں ایک تو حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے دعوے کے متعلق شک وشبہ مخفی تھا، اس کے علاوہ اس کے یہ بھی معنی تھے کہ دیکھو! میںجویائے حق ہوں کہ اگر موسیٰ نے کوئی قاطع دلیل پیش کردی تو فوراً اسے مان لوں گا ۔
اس پر حضرت موسیٰ (علیه السلام) نے بغیر کسی توقف کے اپنے دو بڑے معجزے پیش کردئے جن میں ایک ”خوف“ کا مظہر تھا تو دوسرا ”امید “کا جس کی وجہ سے آپ کے مقام ”انذار“ و ”بشارت“ کی تکمیل ہوتی ہے، پہلی ”آپ نے اپنا عصا نکال کر اس کے سامنے پھینک دیا جو ایک نمایا اژدھے کی شکل میں ہوگیا“( فَاٴَلْقَی عَصَاہُ فَإِذَا ھِیَ ثُعْبَانٌ مُبِینٌ ) ۔(2)
لفظ”مبین“ سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ عصا سچ مچ اژدھا بن گیا وہاں کسی قسم کے فریب نظر ، ہاتھ کی صفائی یا جادو جنتر وغیرہ نہ تھا، برخلاف ان امورکے جو جادوگروں نے بعد میں ظاہر کئے، کیوں کے ان کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ ان جادوگروںنے نظر فریب کا م لیااور ایک ایسا عمل کیا جس کی وجہ سے لوگوں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کچھ سانپ ہیں جن میں حرکت پیدا ہوگئی ہے ۔
یہاں پر ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ سورہٴ نمل کی آیت ۱۰ اور قصص کی آیت ۳۱ میں ہے کہ وہ عصا ” جان“ کی شکل میں حرکت کرنے لگا اور ”جان“ عربی میں باریک سانپ کو کہتے ہیں جو تیز بھاگے، یہ تعبیر لفظ ”ثعبان“ جس کے معنی ایک بڑے اژدھے کے ہیں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی
یہ اگر اس بات کی طرف توجہ کی جائے کہ مذکورہ بالا دونوں آیتیں حضرت موسیٰ (علیه السلام) کی بعثت کے آغاز سے تعلق رکھتی ہیں اور آیت زیر بحث کا تعلق حضرت موسیٰ (علیه السلام) اور فرعون کے مقابلے سے ہے، تو یہ مشکل حل ہوجاتی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا آپ کا عصا چھوٹا سانپ بنا بعد میں اس کی جسامت میں اضافہ ہوتا گیا تاکہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) اس معجزہ سے تدریجاً مانوس ہوجائیںگے پھر جب فرعون سے مقابلہ ہو ا تو اس نے ایک بہت بڑے اژدھے کی صورت اختیار کرلی تاکہ دشمن کے دل پر خاطر کواہ اثر ہو جب کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے دل میں اس کی ہیبت اس سے قبل دیکھنے کی وجہ سے کم ہوچکی تھی ۔
عصا اژدھے کی شکل میں اس میں کوئی شک نہیں کہ عصا کا اژدھا بن جانا ایک بین معجزہ ہے جس کی توجیہ مادی اصولوں سے نہیں کی جاسکتی، بلکہ ایک خدا پرست شخص کو اس سے کوئی تعجب بھی نہ ہوگا کیوں کہ وہ خدا کو قادر مطلق اور سارے عالم کے قوانین کو ارادہٴ الٰہی کے تابع سمجھتا ہے لہٰذا اس کے نزدیک یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ لڑکی کا ایک ٹکڑا حیوان کی صورت اختیار کرلے کیوں کہ ایک مافوق طبیعت قدرت کے زیر اثر ہونا عین ممکن ہے ۔
ساتھ ہی یہ بات بھی نا بھلانا چاہئے کہ اس جہان طبیعت میں تمام حیوانات کی خلقت خاک سے ہوئی ہے نیز لکڑی ونباتات کی خلقت بھی خاک سے ہوئی ہے، لیکن مٹی سے ایک بڑا سانپ بننے کے لئے عادتاً شاید کروڑوں سال کی مدت درکار ہے، لیکن اعجاز کے ذریعے یہ طولانی مدت اس قدر کوتاہ ہوگئی کہ وہ تمام انقلابات ایک لحظہ سے طے ہوگئے جن کی بنا پر مٹی سے سانپ بنتا ہے،جس کی وجہ سے لکڑی کا ایک ٹکڑا جو قوانین طبیعت کے زیر اثر ایک طولانی مدت میں سانپ بنتا ، چند لحظوں میں یہ شکل اختیار کرگیا ۔
اس مقام پر کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو تمام معجزات انبیاء کی طبیعی اور مادی توجیہات کرتے ہیں جس سے ان کے اعجازی پہلو کی نفی ہوتی ہے، اور ان کی یہ سعی ہوتی ہے کہ تمام معجزات کو معمول کے مسائل کی شکل میں ظاہر کریں، ہر چند وہ کتب آسمانی نص اور الفاظ صریح کے خلاف ہو، ایسے لوگوں سے ہمارا یہ سوال ہے کہ وہ اپنی پوزیشن اچھی طرح سے واضح کریں، کیا وہ واقعاً خدا کی عظیم قدرت پر ایمان رکھتے ہیں اور ایسے قوانین طبیعت پر حاکم مانتے ہیں کہ نہیں؟ اگر وہ خدا کو قادروتوانا نہیں سمجھتے تو ان سے انبیاء کے حالات اور ان کے معجزات کی بات کرنا بالکل بے کار ہے اور اگر وہ خدا کو قادر جانتے ہیں تو پھر ذرا تاٴمل کریں کہ ان تکلیف آمیز توجیہوں کی کیا ضرورت ہے جو سراسر آیات قرآنی کے خلاف ہیں (اگرچہ زیر بحث آیت میں میری نظر نہیں گزرا کہ کسی مفسر نے جس کا طریقہٴ تفسیر کیسا ہی مختلف کیوں ہو اس آیت کی مادی توجیہ کی ہو، تاہم جو کچھ ہم نے بیان کیا وہ ایک قائدہ کلی کے طور پر تھا ) ۔
اس کے بعد کی آیت نے حضرت موسیٰ (علیه السلام) کا دوسرا معجزہ بیان کیا ہے ، جو بشارت کا پہلو رکھتا ہے، ارشاد ہوتا ہے :موسیٰ نے اپنے ہاتھ گریبان سے باہر نکالا، تو وہ ناگہاں دیکھنے والوں کے لئے سفید اور درخشان ہوگیا( وَنَزَعَ یَدَہُ فَإِذَا ھِیَ بَیْضَاءُ لِلنَّاظِرِین) ۔
”نزع“ کے معنی ہیں ”کسی چیز کو اس جگہ سے باہر نکالا جائے جہاں وہ پہلے سے قرار پذیر ہو“ مثلاً کاندھے سے عبا الگ کرنا، تن سے لباس کا دور کرنا ایسے کاموں کو کلام عرب میں ”نزع“ تعبیر کرتے ہیں، اسی طرح سے بدن سے روح کے جدا ہونے کو بھی ”نزع روح “ کہتے ہیں، اسی مناسبت سے یہ لفظ ”خارج کرنے“ کے لئے بھی استعمال ہوتاہے جیسا کہ اس آیت میں استعمال ہوا ہے ۔
اگر چہ اس آیت میں ہاتھ نکالنے کا ذکر نہیں ہے لیکن سورہٴ قصص کی آیت ۳۲ میں ہے:
<اٴسْلُکْ یَدَکَ فِی جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَاءَ
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) ایسے موقع پر اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں داخل کرکے جب دوبارہ باہر نکالتے تھے تو وہ نمایاں طور پر سفید اور درخشاں ہوجایا کرتا تھا اس کے بعد آہستہ آہستہ اپنی پہلی حالت پر پلٹ آتا تھا ۔
کچھ تفاسیر اور روایات میں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) کا ہاتھ سفیدی کے علاوہ ایسی حالت میں بہت زیادہ چمکیلا بھی ہوجاتا تھا، لیکن آیات قرآنی اس معاملہ میں خاموش ہیں اگرچہ اس مفہوم کے خلاف بھی نہیں ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ یہ اور اس سے پہلے بیان کیا جانے والا معجزہ جو عصا کے بارے میں تھا میں مسلمہ طور کوئی عادی اور معمول کا پہلو نہیں ہے نہ طبیعت کو اس میں دخل ہے بلکہ یہ پیغمبروں کے خارق عادت معجزات میں داخل ہے جو ماورائے طبیعت اور قوت کی دخالت کے بغیر طہور پذیر نہیں ہوسکتا ۔
اور یہ بھی اشارہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) نے یہ دونوں معجزے جو دکھلائے تو اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ میں صرف ڈرانے کے لئے نہیں آیا ہوں بلکہ تہدید صرف دشمنوں اور مخالفین کے لئے ہے اور تشویق، تعمیراور نورانیت مومنین کے لئے ہے ۔

 

۱۰۹ قَالَ الْمَلَاٴُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ ھٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِیمٌ ۔
۱۱۰ یُرِیدُ اٴَنْ یُخْرِجَکُمْ مِنْ اٴَرْضِکُمْ فَمَاذَا تَاٴْمُرُونَ ۔
۱۱۱ قَالُوا اٴَرْجِہِ وَاٴَخَاہُ وَاٴَرْسِلْ فِی الْمَدَائِنِ حَاشِرِینَ ۔
۱۱۲یَاٴْتُوکَ بِکُلِّ سَاحِرٍ عَلِیمٍ ۔
ترجمہ
۱۰۹۔فرعون کے اصحاب نے کہا بے شک یہ ایک جاننے والا جادوگر ہے ۔
۱۱۰۔یہ چاہتا ہے کہ تمھیں تمھارے سرزمین سے باہر نکال دے، تمھارے رائے؟(اس کے مقابلے میں کیا کرنا چاہئے) ۔
۱۱۱۔(اس کے بعد) انھوں نے (فرعون سے یہ) کہا کہ اس کے اور اس کے بھائی کے معاملے کو تاخیر میں ڈال دو اور اکٹھا کرنے والوں کو تمام شہروں میں بھیج دو ۔
۱۱۲۔تاکہ وہ آزمودہ جادوگر کو تمھارے پاس لے آئیں ۔
 

 

 
۱۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہو ا ہے اور مکہ یہودیوں کی آماجگاہ نہ تھا لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مدینہ اور حجاز کے دیگر علاقوں میں مقیم یہودیوں کی آبادیوں نے نے محیط مکہ پر کافی اثر کیا تھا اس بنا پر مکی سورتوں میں بھی ان کا کافی ذکر ملتا ہے ۔
2۔ راغب نے ”مفردات “ میں یہ احتمال ذکر کیا ہے کہ کلمہ ”ثعبان“ مادہ ”ثعب“ سے لیا گیا ہے جس کے معنی پانی جاری ہونے کے ہیں کیوں کہ یہ حیوان کسی نہر کی طرح لہاکے چلتا ہے ۔
 
موسی اور فرعون کی لڑائی کا ایک منظرمقابلہ شروع ہوتا ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma