یہودیوں کا پراکندہ ہونا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
ایک عبرت انگیز سرگزشتتفسیر

یہودیوں کا پراکندہ ہونا

در حقیقت ان آیات میں قوم یہود کی ان دنیوی سزاؤں کا ایک حصّہ بیان کیا گیا ہے جو انھیں اس وجہ سے دی گئیں کہ انھوں نے فرمانِ الٰہی کا مقابلہ اپنی نافرمانی اور سرکشی سے کیا، اور حق وعدالت کو اپنے پَیروں تلے روند ڈالا ۔
سب سے پہلے ارشاد ہوتا ہے: وہ وقت یاد کرو جب تمھارے پروردگار نے یہ خبر دی تھی کہ اس گنہگار قوم پر کچھ ایسے لوگ مسلط کرے گا جو قیامت تک کے لئے انھیں عذاب دیتے رہیں (وَإِذْ تَاٴَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْھِمْ إِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَنْ یَسُومُھُمْ سُوءَ الْعَذَابِ) ۔
”تَاٴَذَّنَ“ اور ”اذن“دونوں کے معنی اطلاع اور خبر دینے کے ہیں ، نیز اس کے معنی قسم کھانے کے بھی ہیں، اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے خدا نے یہ قسم کھائی ہےں کہ وہ ان لوگوں پر ایسے لوگوں کو مسلط کرے گا جو قیامت تک کے لئے ان کو تکلیف وعذاب دیتے رہیں گے ۔
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سرکش گروہ قیامت راحت وآرام نہ پائے گا چاہے اپنے لئے ایک حکومت وسلطنت بنالے، اس کے باوجود ہمیشہ اغیار کے دباؤ اور رنج والم میں مبتلا رہے گا الّا یہ کہ قوم واقعاً اپنا طریقہٴ کار بدلے اور ظلم وفساد سے اپنا ہاتھ روک لے ۔
آیت کے آخر میں اضافہ فرمایاگیا ہے: تمھارا پروردگار ایسا ہے کہ مستحقینِ عذاب کے لئے اس کی سزا بھی جلدی ہے اور توبہ کرنے والوں کے لئے اس کی بخشش ومہربانی بھی (إِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ) ۔
اس جملہ سے پتہ چلتا ہے کہ خداوندکریم نے ان کے لئے واپسی کا راستہ کھلا رکھا ہے تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ قسمت کے لکھے کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوئی کہ وہ بدبخت ہوکر الٰہی سزا کے مستوجب بنے ۔
اس کے بعد کی آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہودی سارے جہاں میں کس طرح تتربتر ہوگئے: ہم نے انھیں زمین میں تبر بتر کردیا اور وہ مختلف گروہوں میں بٹ گئے ، ان میں سے بعض صالح ونیکوکار تھے اسی بناپر جب انھوںنے حضرت رسول الله صلی الله علیہ والہ وسلّم کے فرمانِ حق کو سنا تو وہ فوراً ایمان لے آئے اور بعض دیگر افراد ایسے (حق پرست) نہ تھے چنانچہ انھوں نے حق کی دعوت کو پسِ پشت ڈال دیا اور اپنی مادّی زندگی کو اچھا نبانے کے لئے کسی عمل سے دریغ نہیں کیا (وَقَطَّعْنَاھُمْ فِی الْاٴَرْضِ اٴُمَمًا مِنْھُمْ الصَّالِحُونَ وَمِنْھُمْ دُونَ ذٰلِکَ) ۔
اس آیت میں یہ حقیقت دوبارہ ظہور پذیر ہورہی ہے کہ اسلام کو نسلِ یہود سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی اسلام انھیں ایک خاص مذہب یا خاص مکتبِ فکر رکھنے کی وجہ سے بُرا سمجھتا ہے بلکہ ان کی قدر وقیمت ان کے اعمال کے لحاظ سے دیکھی جاتی ہے ۔
اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے: ہم نے مختلف ذریعوں سے نیکیوں او برائیوں کے ذریعے ان کا امتحان لیا کہ شاید وہ پلٹیں (وَبَلَوْنَاھُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُونَ) ۔
کبھی ہم نے انھیں شوق دلایا اور انھیں خوشحالی اور نعمت میں رکھا تاکہ ان میں شکرگزاری کا احساس بیدار ہو اور وہ حق کی طرف پلٹ کر آجائیں، اور کبھی اس کے برخلاف انھیں سختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ غرور وتکبّر کی سواری سے اتر آئیں اور اپنی کمزوری وناتوانی کا احساس کریں اور بیدار ہوں اور خدا کی طرف پلٹیں، ان دونوں طریقوں کے استعمال کرنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ ان کی اخلاقی تربیت ہو اور وہ حق کی جانب پلٹ کر آئیں ۔
لہٰذا لفظ ”حسنات“ ہر طرح کی نعمت، خوش حالی، آسائش اور آرام اپنے مفہوم میں لئے ہے جبکہ لفظ ”سیئات“ ہر طرح کی تکلیف اور سختی کا مفہوم لئے ہوئے ہے، لہٰذا ان دونوں لفظوں کے معنی کو اچھائیوں اور برائیوں میں محدود کرنے کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی ۔

۱۶۹ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِھِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْکِتَابَ یَاٴْخُذُونَ عَرَضَ ھٰذَا الْاٴَدْنَی وَیَقُولُونَ سَیُغْفَرُ لَنَا وَإِنْ یَاٴْتِھِمْ عَرَضٌ مِثْلُہُ یَاٴْخُذُوہُ اٴَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِیثَاقُ الْکِتَابِ اٴَنْ لَایَقُولُوا عَلَی اللهِ إِلاَّ الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِیہِ وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَیْرٌ لِلَّذِینَ یَتَّقُونَ اٴَفَلَاتَعْقِلُونَ.
۱۷۰ وَالَّذِینَ یُمَسِّکُونَ بِالْکِتَابِ وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ إِنَّا لَانُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُصْلِحِینَ.
ترجمہ
۱۶۹۔ ان کے بعد ان کے وہ فرزند ان کے جانشین ہوئے جو (آسمانی) کتاب (توریت) کے وارث بنے (لیکن ان کی یہ حالت ہے کہ) وہ اپنے دنیائے دنی کے مال ومتاع کو اختیار کرتے ہیں (اور اسے الٰہی احکام پر ترجیح دیتے ہیں) اور یہ کہتے ہیں کہ (اگر ہم گنہگار ہیں تو) خدا ہمیں جلد ہی بخش دے گا (ہم اپنے کیے پر پشیمان ہیں) لیکن اگر اس کے بعد پہلے متاع کی مثل ان کے پاس آتا ہے تو اسے پھر لے لیتے ہیں (اور دوبارہ حکمِ خدا کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں) کیا ان سے (خدا کی) کتاب کا یہ پیمان نہیں لیا گیا ہے کہ خدا کی طرف کسی بھی جھوٹ کو نسبت نہ دیں اور سوائے حق کے کوئی بات نہ کہیں اور انھوں نے بارہا پڑھا ہے اور ان لوگوں کے لئے جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔
۱۷۰۔ اور وہ لوگ جو کتاب (خدا) سے تمسک اختیار کریں اور نماز پڑھیں (انھیں بڑا انعام ملے گا کیونکہ) ہم اصلاح کرنے والوں کی جزا ضائع نہیں کرتے ۔

 

ایک عبرت انگیز سرگزشتتفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma