چند قابلِ غورنکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
دیدارِ پروردگار کی خواہشالواح توریت

۱۔ حضرت موسیٰ(علیه السلام) نے رویت کی خواہش کیوں کی؟ یہاں پر سوال جو ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) جیسے اولوالعزم نبی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ذاتِ خداوندی قابلِ دید نہیں ہے کیونکہ نہ تو وہ جسم ہے، نہ اس کے لئے کوئی مکان وجہت ہے اس کے باوجود انھوں نے ایسی خواہش کیسے کردی جو فی الحقیقت ایک عام انسان کی شان کے لئے بھی مناسب نہیں ہے؟
اس سوال کے جواب میں اگرچہ مفسّرین نے مختلف جواب دیئے ہیں لیکن سب سے واضح جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) نے یہ خواہش دراصل اپنی قوم کی طرف سے کی تھی کیونکہ بنی اسرائیل کے جہلاء میں سے ایک گروہ کا یہ اصرار تھا کہ وہ خدا کو کھلم کھلا دیکھیں گے تب جاکے ایمان لائیں گے (سورہٴ نساء کی آیت ۱۵۳ اس مطلب کی گواہ ہے) حضرت موسیٰ(علیه السلام) کو الله کی جانب سے یہ حکم ملا کہ وہ اس درخواست کو خدا کی بارگاہ میں پیش کریں تاکہ سب اس کا جواب سن لیں،کتاب عیون اخبار الرضا(علیه السلام) میں امام رضا علیہ السلام سے جو حدیث مروی ہے وہ بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہے (1)
اس تفسیر کے روشن قرائن میں سے ایک یہ ہے کہ اسی سورہ کی آیت ۱۵۵ میں وارد ہوا ہے کہ اس ماجرا کے بعد حضرت موسیٰ(علیه السلام) نے خدا کی بارگاہ میں عرض کی: <اٴتھلکنا بما فعل السفاھاء منّا ”کیا تُو اس عمل کی وجہ سے جو ہمارے نادانوں نے کیا ہے ہلاک کردے گا ؟“ اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) نے یہ خواہش نہیں کی تھی بلکہ جو ستّر آدمی ان کے ساتھ میعادگاہ میں گئے تھے ان کی بھی یہ خواہش نہ تھی، وہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے منتخب شدہ علماء بنی اسرائیل تھے، ان کے لانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ واپس جاکر اپنے مشاہدات ان سے بیان کریں ۔
۲۔ کیا خدا کو دیکھا جانا ممکن ہے؟: آیہٴ مذکور بالا میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا نے حضرت موسیٰ(علیه السلام) سے فرمایا: ”پہاڑ کی طرف دیکھو اگر وہ اپنی جگہ پر باقی رہا تو مجھے دیکھ سکو گے“ آیااس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ خدا کو دیکھا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس تعبیر کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات ناممکن ہے، جیسے ایک دوسری جگہ قرآن میں آیا ہے:
<حتّیٰ یلج الجمل فی سم الخیاط
”کافر جنّت میں نہیں جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ سے گزر جائے“
چونکہ خدا کے جلوہ کے مقابلہ میں پہاڑ کا اپنی جگہ پر باقی رہنا محال تھا اس لئے یہ تعبیر استعمال کی گئی ہے ۔
۳۔خدا کے جلوہ سے کیا مراد ہے؟: اس جگہ مفسّرین کے درمیان بہت بحث ہوتی ہے لیکن جو بات آیات کے موضوع سے واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خداوندکریم نے اپنی مخلوقات میںسے کسی ایک کا پرتو پہاڑ پر ڈال دیا تھا (اور اس کے آثار کا آشکار ہونا خود اس کے آشکار ہونے کی طرح ہے) سوال یہ ہے کہ آیا یہ مخلوق خدا کی عظیم آیات میں سے کوئی ایسی آیت تھی جو ہمارے لئے ناشناختہ ہے؟ یا آٹامک انرجی کا کوئی عظیم نمونہ تھا یا مرموز لہروں میں سے کوئی زلزلہ افگن لہر تھی یا کوئی عظیم صاقہ(2) تھی جو اس پہاڑ پر گری اور اس سے دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور مہیب آواز نکلی اور عظیم طاقت پیدا ہوئی جس کی وجہ سے پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ۔
گویا خداوندکریم اس عمل سے دو چیزیں حضرت موسیٰ(علیه السلام) اور بنی اسرائیل کو دکھنا چاہتا تھا:
اول: یہ کہ بندہ جب خدا کی ایک مخلوق کو نہیں دیکھ سکتا تو وہ خالق کو کیسے دیکھ سکتا ہے ۔
دوم: یہ کہ یہ مخلوق جوکوئی بھی تھی الله کی ایک عظیم آیت تھی اور خود قابلِ رویت نہ تھی بلکہ اس کے آثار دیکھے گئے تھے، جیسے زلزلہ عظیم، مہیب آواز، روشنی لیکن ان چیزوں کی اصل جو ان آثار کا مرکز تھا چاہے وہ مرموز امواج ہوں یا کوئی ایٹمی طاقت ہو؛ قالِ رویت نہ تھی نہ اسے حواس سے محسوس کیا جاسکتا ہے، اس کے باوجود کیا کوئی طاقت کے وجود سے انکار کرسکتا ہے یا اس کے وجود میں شک کرسکتا ہے اور یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ یہ طاقت دکھائی نہیں دیتی صرف اس کے آثار دکھائی دیتے ہیں اس لئے ہم اس پر ایمان نہیں لاتے، جب ایک مخلوق کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا تو خدائے بزرگ کے بارے میں ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ وہ قابلِ مشاہدہ نہیں ہے اس لئے ہم اس پر ایمان نہیں لاتے جبکہ اس کے آثار سے جہان بھرا ہُوا ہے ۔
اس آیت کے بارے میں ایک احتمال اور بھی ذکر کیا گیا ہے، وہ یہ کہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) نے واقعاً اپنے واسطے تمنّائے دید کی تھی لیکن ان کا مقصد ان آنکھوں سے دیکھنا نہ تھا جس کا لازمہ جسمیت ہے اور یہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے مقام کے مناسب نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد خدا کا مشاہدہٴ باطنی تھا ایک روحانی اور کامل فکری دیدار تھا کیونکہ اس معنی میں کلمہٴ رویت بہت استعمال ہوتا ہے، مثلاً ہم کہتے ہیں: مَیں اپنے میں یہ قدرت دیکھتا ہوں کہ اس کام کو انجام دوں، حالانکہ ”قدرت“ قابلِ دید نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ میں اس حالت کو اپنے میں پاتا ہوں ۔
حضرت موسیٰ(علیه السلام) یہ چاہتے تھے کہ شہود ومعرفت کے اس مقام پر فائز ہوں جس کا دنیا میں حاصل کرنا محال ہے، یہ مرتبہ صرف آخرت کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ وہ عالمِ شہود وبروز ہے ۔
لیکن خدا نے حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے جواب میں فرمایا: اس طرح کی رویت تمھارے لئے دنیا میں ہرگز ممکن نہیں ہے، اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے الله نے پہاڑ پر جلوہ دکھایا جس کی وجہ سے پہاڑ چکناچُور ہوگیا، آخر میں حضرت موسیٰ(علیه السلام) نے اپنی خواہش سے پشیمانی اور توبہ کا اظہار کیا(3)
لیکن یہ تفسیر کئی جہت سے زیرِ بحث کے ظاہر کے خلاف ہے اور اس کا لازمہ چند جہت سے مجاز کا استعمال ہے (4) علاوہ ازیں یہ تفسیر ان کئی احادیث کے بھی خلاف ہے جو اس آیت کی شرح میں وارد ہوئی ہیں لہٰذا وہی پہلی تفسیر ہی درست ہے ۔
۴۔ حضرت موسیٰ(علیه السلام) نے کس چیز سے توبہ کی؟: اس بارے میں آخری سوال جو سامنے آتا ہے یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ(علیه السلام) ہوش میں آئے تو انھوں نے کیوں کہا: ”سبحانک تبت الیک“ حالانکہ انھوں نے کوئی خلاف ورزی نہیں کی تھی، کیونکہ اگر انھوں نے یہ درخواست اپنی امت کی طرف سے کی تھی تو اس میں ان کا کیا قصور تھا، الله کی اجازت سے انھوں نے یہ درخواست خدا کے سامنے پیش کی اور اگر اپنے لئے شہود باطنی کی تمنّا کی تھی تو یہ بھی خدا کے حکم کی مخالفت نہ تھی، لہٰذا توبہ کس بات کی تھی؟۔
دو طرح سے اس سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے:
اول: یہ کہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) نے بنی اسرائیل کی نمائندگی کے طور پر خدا سے یہ سوال کیا تھا، اس کے بعد جب خدا کی طرف سے سخت جواب ملا جس میں اس سوال کی غلطی کو بتلایا گیا تھا تو حضرت موسیٰ(علیه السلام) نے توبہ بھی انہی کی طرف سے کی تھی ۔
دوم: یہ کہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) کو اگرچہ یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کی درخواست کو پیش کریں لیکن جس وقت پروردگارکی تجلی کا واقعہ رونما ہوا اور حقیقت آشکار ہوگئی تو حضرت موسیٰ(علیه السلام) کی یہ ماموریت ختم ہوچکی تھی اب حضرت موسیٰ(علیه السلام) کو چاہیے کہ پہلی حالت (یعنی قبل از ماموریت) کی طرف پلٹ جائیں اور اپنے ایمان کا اظہار کریں تاکہ کسی کے لئے جائے شبہ باقی نہ رہے، لہٰذا اس حالت کا اظہار موسیٰ(علیه السلام) نے اپنی توبہ اور اس جملہ ”انی تبت الیک وانا اول المومنین“ سے کیا ۔
۵۔ خدائے متعال کسی صورت میں قابل رویت نہیں ہے: یہ آیت قرآن کی ان آیات میں سے ہے جو اس امر کی روشن دلیل ہیں کہ خدا کی رویت ممکن نہیں ہے کیونکہ لفظ ”لن“ بربنائے مشہور دائمی نفی کے لئے آتا ہے، بنابریں ”لن ترانی“ کا مفہوم یہ ہے کہ تم مجھ ہر گز نہیں دیکھ سکتے نہ اس جہان میں نہ اُس جہان میں ۔
اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ کوئی اس بات کو ماننے سے انکار کردئے کہ ”لن“ نفیٴ ابد کے لئے آتا ہے تب بھی آیت کا اطلاق نفیٴ رویت کے لئے ہے باقی رہتا ہے کیونکہ آیت میں رویت کی بغیر کسی قید وشرط کے نفی کی گئی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ذاتِ خداوندی کسی زمانے میں اور کسی حال میں قابلِ رویت نہیں ہے ۔
عقلی دلائل بھی ہماری رہنمائی اسی امر کی طرف کرتے ہیں کہ اس رویت محال ہے کیونکہ رویت اجسام کے ساتھ مخصوص ہے، لہٰذا اگر بعض آیات قرآنی یا روایاتِ اسلامی میں ”لقائے پروردگار“ کا ذکر ہوا ہے تو اس سے مراد وہی ”چشم باطنی“ اور دیدہٴ خِرد“ ہے کیونکہ قرینہٴ عقلی ونقلی اس مدعا کے بہترین شاہد ہیں (سورہٴ انعام کی آیت ۱۰۲ کے ذیل میں بھی ہم اس موضوع پر گفتگو کرآئے ہیں (تفسیر نمونہ،ج۵)

 

 

 

۱۴۴ قَالَ یَامُوسیٰ إِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسَالَاتِی وَبِکَلَامِی فَخُذْ مَا آتَیْتُکَ وَکُنْ مِنَ الشَّاکِرِینَ-
۱۴۵ وَکَتَبْنَا لَہُ فِی الْاٴَلْوَاحِ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَوْعِظَةً وَتَفْصِیلًا لِکُلِّ شَیْءٍ فَخُذْھَا بِقُوَّةٍ وَاٴْمُرْ قَوْمَکَ یَاٴْخُذُوا بِاٴَحْسَنِھَا سَاٴُرِیکُمْ دَارَ الْفَاسِقِینَ-
ترجمہ
۱۴۴۔ (خدا نے) کہا: اے موسیٰ میں نے تمھیں لوگوں پر اپنی رسالت کے ذریعے اور (تم سے) اپنے کلام کے ذریعے منتخب کیا، پس جو کچھ میں نے تمھیںدیا ہے اسے لے لو اور شگرگزاروں میں سے ہوجاؤ۔
۱۴۵۔ اور ہم نے ان کے لئے الواح میں ہر قسم کی نصیحت لکھی تھی اور ہر چیز کا بیان کیا تھا، پس (ہم نے ان سے کہا کہ) اسے مضبوطی سے تھام لو اور اپنی قوم کو حکم دو کہ وہ اچھی طرح اس پر عمل کریں (اور وہ لوگ جو مخالفت کریں ان کا انجام دوزخ ہے) جلد ہی افسقوں کی (یہ) جگہ ہم تمھیں دکھلادیں گے ۔


 
1۔ تفسیر نور الثقلین: ج۲، ص۶۵-
2۔ ”صاعقہ“ اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ بادل کے ٹکڑوں اور کرہٴ زمین کے درمیان بجلی (EIECTRICITY)کا تبادلہ ہوتا ہےں، وہ بادل جن کے اندر مثبت بجلی ہوتی ہے جب زمین جس میں بجلی مخفی ہے کے نزدیک پہنچتے ہیں تو ان کے درمیان یعنی سطح زمین کے نزدیک ایک شعلہ نکلتا ہے جو بہت خطرناک اور ہلاکت آفرین ہوتا ہے لیک ”برق“اور ”رعد“ بادل کے دو ٹکڑوں کے درمیان الیکٹریسی کے تبادلے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ایک بادل میں مثبت اور دوسرے میں منفی الیکٹریسی ہوتی اور چونکہیہ ٹکراؤ آسمان پر ہوتا ہے اس لئے اس سے سوائے ہَوائی جہازوں کے اور کسی کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہوتا ۔
3۔ خلاصہ از تفسیر میزان : ج۸، ص۲۴۹ تا ۲۵۴-
4۔ کیونکہ مذکورہ تفسیر مخالف ہے کلمہٴ ”رویت“ اور جملہ ”لن ترانی“ اور جملہٴ ”اتھلکنا بما فعل السفھاء منّا“ کی، اس کے علاوہ یہ کہ شہود باطنی کی درخواست کی تھی اور خدا نے اس کا مثبت جواب دیا تھا اور اگر شہود باطنی کے متعلق خدا کا جواب منفی بھی ہو تب بھی اس پر موٴاخذہ (عقاب) کرنے کی دلیل نہیں ہوگا ۔
 
دیدارِ پروردگار کی خواہشالواح توریت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma