مختلف اور پیہم بلاؤں کا نزول

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
فال نیک و بد”قمل“ سے کیا مراد ہے؟

ان آیات میں ان بیدار کنندہ درسوں کا ایک اور مرحلہ بیان کیا گیا ہے جو خدا نے قوم فرعون کو دئے، جب مرحلہٴ یعنی قحط، خشک سالی اور مالی نقصانات نے ان کو بیدار نہ کیا تو دوسرے مرحلہ کی نوبت پہنچی جو پہلے مرھلہ سے شدیدتر تھا، اس مرتبہ خدا نے ان کوپے در پے ایسی بلاؤں میں جکڑا جو ان کو اچھی طرح سے کچلنے والی تھیں، مگر افسوس ان کی اب بھی آنکھیں نہ کھلیں ۔
پہلی آیت میں ان بلاؤں کے نزول کے مقدمہ کے طور پر فرمایا گیا ہے: انھوں نے موسیٰ کی دعوت کے مقابلے میں اپنے عناد کو بدستور جاری رکھا اور ”کہا کہ تم ہر چند ہمارے لئے نشانیاں لاؤ اور ان کے ذریعے ہم پر اپنا جادو کرو ہم کسی طرح بھی تم پر ایمان نہیں لائیں گے“( وَقَالُوا مَھْمَا تَاٴْتِنَا بِہِ مِنْ آیَةٍ لِتَسْحَرَنَا بِھَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِینَ) ۔
’لفظ” آیت“ شاید انھوں نے از راہ تمسخر استعمال کیا تھا، کیوں کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) نے اپنے معجزات کو آیات الٰہی قرار دیا تھا لیکن انھوں نے سحر قرار دیا ۔
آیت کا لہجہ اور دیگر قرائن اس بات کے مظہر ہیں کہ فرعون کے پراپیگنڈا کا محکمہ جو اپنے زمانے کے لحاظ سے ہر طرح کے سازوسامان سے لیس تھا وہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے خلاف ہر طرف سے حرکت میں آگیا تھا اس کے نتیجے میں تمام لوگوں کا ایک ہی نعرہ تھا اور وہ یہ کہ اے موسیٰ! تم تو ایک زبردست جادوگر ہو! کیوں کی موسیٰ (علیه السلام) کی بات کو رد کرنے کا ان کے پاس اس سے بہتر کوئی جواب نہ تھا جس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وہ گھر کرنا چاہتے تھے ۔
لیکن چونکہ خدا کسی قوم پر اس وقت تک اپنا آخری عذاب نازل نہیں کرتا جب تک کے اس پر خوب اچھی طرح سے اتمام حجت نہ کرلے اس لئے بعد والی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ہم پہلے طرح طرح کی بلائیں ان پر نازل کیں کہ شاید ان کو ہوش آجائے ۔
پہلے ”ہم نے ان پر طوفان بھیجا(فَاٴَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ الطُّوفَانَ ) ۔
”طوفان“ مادہٴ ”طوف“ (بروزن خوف) سے ہے جس کے معنی گھومنے اور طواف کرنے والی شئی کے ہیں، بعد ازاں ہر اس حادثے کو طوفان کہا جانے لگا جو انسان کو چاروں طرف سے گھیر لے لیکن لغت عرب میں زیادہ تر ”طوفان“ ایسے تباہ کار سیلاب کہتے ہیں جو گھروں کو اجاڑ دے اور درختوں کو جڑ سے اکھاڑ دے (اگر چہ آج کل کی فارسی میں ”طوفان“ جھکڑدار ہواوؤںکو کہتے ہیں)(۱) ”اس کے بعد ہم نے ان کی زراعتوں اور درختوں پر ٹڈیوں کو مسلط کر دیا “

 

(وَالْجَرَادَ ) ۔
روایات میں وارد ہوا ہے کہ اللہ نے ان پر ٹڈیاں اس کثرت سے بھیجیں کہ انھوں نے درختوں کے شاخ وبرگ کا بالکل صفایا کردیا، حتی کہ ان کے بدنوں تک کو وہ اتنا آزار پہنچاتی تھیں کہ وہ تکلیف سے چیختے چلاتے تھے ۔
جب بھی ان پر بلا نازل ہوتی تھی تو وہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) سے فریاد کرتے تھے کہ وہ خدا سے کہہ کر اس بلا کو ہٹا دیں طوفان اور ٹڈیوں کے موقع پر بھی انھوں نے جناب موسیٰ (علیه السلام) سے یہی خواہش کی، جس کو موسیٰ (علیه السلام) نے قبول کرلیا اور یہ دونوں بلائیں برطرف ہوگئیں، لیکن اس کے بعد پھر وہ اپنی ضد پر اُتر آئے جس کے نتیجے میں تیسری بلا ”قمل“ کی ان پر نازل ہوئی (وَالْقُمَّل) ۔

 ۔


۱۔ جیسا کہ اردو میں بھی طوفان آج کل اسی مفہوم کے مروج ہے ،(مترجم)
فال نیک و بد”قمل“ سے کیا مراد ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma