قوم ثمود کو کس طرح موت آئی؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
قوم ثمود کی عبرت انگیز سرگزشتقوم لوط کا دردناک انجام

یہاں پر ایک سوال یہ پیش ہوتا ہے کہ زیر نظر آیت میں ہے کہ ان کی فنا کا سبب زلزلہ تھا لیکن سورہٴ حم السجدہ کی آیت ۱۳ میں ہے کہ بجلی کی وجہ سے وہ نابود ہوئے، جب کہ سورہٴ حاقہ کی آیت ۵ میں ہم پڑھتے ہیں کہ:
<فَاٴَمَّا ثَمُودُ فَاٴُھْلِکُوا بِالطَّاغِیَةِ
یعنی قوم ثمود ایک تباہ کن آفت کی وجہ سے ہلاک ہوئی ۔
کیا ان تعبیروں میں کوئی تنافی یا تضاد پایا جاتا ہے؟
اس سوال کا جواب ایک جملہ میں دیا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ تینوں اسباب کی بازگشت ایک چیز کی طرف ہے،یا یہ کہا جائے کہ تینوں آپس میں لازم ملزوم ہیں، کیوں کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک خطہ میں زلزلہ بجلی گرنے کی وجہ سے آتا ہے، یعنی بجلی گرجاتی ہے اس کے بعد زلزلہ آجاتا ہے، لیکن ”طاغیة “ اس موجود کے معنی میں ہے جو اپنی حد سے تجاوز کرے، یہ زلزلہ کے لئے بھی صحیح ہے اور بجلی کے لئے بھی، بنابریں ان آیات کے درمیان کوئی تضاد نہیں پایا جاتا ۔
زیر بحث آیت کے آخر میں فرمایاگیا ہے:اس کے بعد صالح (علیه السلام) نے ان سے منہ پھیر لیااور ان سے کہا: میں نے اپنے پروردگار کی رسالت

 

(پیغام رسانی) کا حق ادا کردیا، اور جو کہنے چاہئے تھا وہ تم سے کہہ دیا، میں نے تمھاری نصیحت اور خیر خواہی میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی، لیکن  (بات یہ ہے کہ) تم نصیحت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے ( فَتَوَلَّی عَنْھُمْ وَقَالَ یَاقَوْمِ لَقَدْ اٴَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَةَ رَبِّی وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلَکِنْ لَاتُحِبُّونَ النَّاصِحِین) ۔
یہاں پھر ایک سوال پیش آتا ہے ، وہ یہ کہ حضرت صالح (علیه السلام) نے یہ گفتگو جو کی ہے وہ ان (قوم ثمود) کی نابودی کے بعد تھی یا یہ گفتگو ان کے انجام سے قبل اتمام حجت کے طور پر تھی، اگر چہ قرآن میں اس کا ذکر ان کے مرنے کو بیان کرنے کے بعد کیا گیا ؟
دوسرا احتمال اس خطاب کے ظاہر سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے، کیوں کہ ان کے ساتھ گفتگو کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اس وقت زندہ تھے لیکن پہلا احتمال بھی زیادہ بعید نہیں ہے، کیوں کہ ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے افرا د کی عبرت کے لئے اس قسم کی گفتگو مرنے والوں کی روح کو مخاطب کر کے کی جاتی ہے، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام کے واقعات میںہے کہ آپ (علیه السلام) نے جنگ جمل کے بعد طلحہ کے لاشہ کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا:
اے طلحہ! تم نے اسلام میں قابل قدر خدمات انجام دیں لیکن افسوس یہ کہ تم نے ان کو اپنے لئے محفوظ نہ کیا ۔
نیز نہج البلاغہ کے آخر میں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام جب جنگ صفین سے پلٹ رہے تھے تو آپ (علیه السلام) نے دروازہ کوفہ کی پشت پر قبرستان کی طرف منہ کرکے ارواح رفتہ گان پر سلام کیا بعد ازاں ان سے فرمایا:
تم اس قافلہ کے آگے آگے چلے گئے ہم بھی تمھارے پیچھے پیچھے آتے ہیں ۔

 

۸۰ وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ اٴَتَاٴْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَکُمْ بِھَا مِنْ اٴَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِینَ-
۸۱ إِنَّکُمْ لَتَاٴْتُونَ الرِّجَالَ شَھْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ اٴَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ-
۸۲ وَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہِ إِلاَّ اٴَنْ قَالُوا اٴَخْرِجُوھُمْ مِنْ قَرْیَتِکُمْ إِنَّھُمْ اٴُنَاسٌ یَتَطَھَّرُونَ-
۸۳ فَاٴَنجَیْنَاہُ وَاٴَھْلَہُ إِلاَّ امْرَاٴَتَہُ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ-
۸۴ وَاٴَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ مَطَرًا فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِینَ-
ترجمہ
۸۰۔اور (یاد کر و کہ) جب لوط نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسی بری بات کرتے ہو جس کو تمام جہانوں میں سے کسی نے نہیں کیا ۔
۸۱۔کیا تم تسکین شہوت کے لئے مردوں کی طرف جاتے ہو، نہ کہ عورتوں کی طرف ؟ تم تجاوز کرنے والے لوگ ہو ۔
۸۲۔لیکن ان کی قوم کا جواب سوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ انھوں نے کہا کہ ان(لوط اور ان کے ماننے والوں ) کو اپنی آبادی سے باہر نکال دو، یہ لوگ اپنے کو پاک ظاہر کرنے والے ہیں ۔
۸۳۔ (جب بات یہاں تک پہنچی تو) ہم نے ان(لوط) کو اور ان کے خاندان کو نجات دی سوائے ان کی زوجہ کہ کہ وہ باقی ماندہ افراد میں سے تھی ۔
۸۴۔ (پھر اس کے بعد) ہم نے ان پر خوب بارش کی (پتھروں کی بارش تاکہ وہ ان کو نیست ونابود کردے) اب دیکھو مجرموں کا انجام کیا ہوا ۔
 

 

 

قوم ثمود کی عبرت انگیز سرگزشتقوم لوط کا دردناک انجام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma