حضرت نوح (علیه السلام) پہلے اولوالعزم پیغمبر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
مربی اور قابلیت دونوں چیزوں کی ضرورت ہےقوم ہود کی سرگزشت کا ایک گوشہ

جیسا کہ ہم نے اس سورہ کے آغاز میں بیان کیا کہ خداوندعالم نے شروع میں بعض بنیادی مسائل جیسے خدا شناسی، معاد، ہدایت بشری اور احساسِ مسئولیت کرنے کے بعد کچھ بڑے پیغمبروں جیسے نوح(علیه السلام)، ہود(علیه السلام)، صالح(علیه السلام)، لوط(علیه السلام)، شعیب(علیه السلام) اور آخر میں موسیٰ بن عمران(علیه السلام) کا تذکرہ ہے، تاکہ ان بحثوں کے زندہ اور عملی نمونوں کوان کی ولولہ اور سبق آموز سیرتوں کے ساتھ پیش کیا جائے ۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلے حضرت نوح(علیه السلام) کی سرگذشت بیان کی گئی ہے، جو گفتگو ان کے اور ان کی سرکش، بُت پرست اور شریر قوم کے درمیان ہوئی تھی اسے نقل کیا گیا ہے ۔
حضرت نوح(علیه السلام) کا قصّہ قرآن کریم میں کئی جگہ آیا ہے جیسے سورہٴ ہود، سورہٴ انبیاء، سورہٴ مومنون، سورہٴ شعراء، نیز قران میں ایک چھوٹا سورہ بنام ”نوح“ بھی ہے جو قران کا ۷۱واں سورہ ہے ۔
اس جلیل القدر پیغمبرِ خدا کے مفصل حالات کشتی کا بنانا، وحشتناک طوفان کی سرگذشت اور خود خواہ، فاسد اور بُت پرست لوگوں کا اس طوفان میں غرق ہونا مذکورہ سورتوں میں انشاء الله سپرد قلم کیا جائے گا ان چھ آیتوں میں ان تمام واقعات کو صرف فہرست وار بیان کرنا مقصود ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا (لَقَدْ اٴَرْسَلْنَا نُوحًا إِلیٰ قَوْمِہِ) ۔
سب سے پہلی چیز جوحضرت نوح(علیه السلام) نے اپنی قوم کو یاد دلائی وہی توحید اور ہر قسم کی بت پرستی سے نہی تھی، انھوں نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! خدا کی پرستش کرو کہ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے (فَقَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرُہُ) ۔
توحید کا نعرہ نہ صرف حضرت نوح(علیه السلام) کا پہلا نعرہ تھا بلکہ جتنے بھی انبیاء آئے سب نے سب سے پہلے لوگوں کو اسی بات کی دعوت دی، بنابریں اس سورہ کی متعدد آیات نیز دیگر قرآنی سورتوں میں بہت سے پیغمبروں کی دعوت کے آغاز میں یہی جملہ ملتا ہے: <یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرُہُ(اس سورہ کی آیات ۶۵، ۷۳، ۸۵ ملاحظہ فرمائیں)
اس جملے سے اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ ہوتا ہے بُت پرستی انسان کی سعادت کے راستے میں ایک زبردست خار کی حیثیت رکھتی ہے، اس لئے گلزارِ توحید کے تمام باغبان (انبیاء) استعداد بشری کی سرزمین پر طرح طرح کے پھول اور درخت لگانے سے پہلے اپنی کمر ہمت کو اس اہم کام کے لئے باندھتے تھے کہ ان شرک وبت پرستی کے خاروں کو صاف کردیں ۔
خاص طور سے سورہٴ نوح کی آیت ۲۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح(علیه السلام) کے زمانے میں لوگ متعدد بتوں کی پرستش کرتے تھے جن کا نام ”ودد“، ”صواع“، ”یغوث“ اور ”نسر“ تھا ، ان سب کی تفصی انشاء آئندہ پیش کی جائے گی ۔
حضرت نوح(علیه السلام) نے ان کی فطرتِ خوابیدہ کو بیدار کرنے کے بعد انھیں بُت پرستی کے انجام بد سے خبردار کیا اور فرمایا: میں تمھارے اوپر روزِ عظیم کے عذاب سے درتا ہوں (إِنِّی اٴَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ) ۔
عظیم دن کے عذاب سے ممکن ہے کہ وہی طوفانِ نوح مراد ہو جس سے کمتر عذاب وسزا نہیں دیکھی گئی، نیز ممکن ہے کہ اس سے مراد عذاب روزِ قیامت ہوکیونکہ قرآن کریم میں یہ تعبیریں دونوں معنوں میں استعمال ہوئی ہے، سورہٴ شعراء کی آیت ۱۸۹ میں ہے:
<فَاٴَخَذَھُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّةِ إِنَّہُ کَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ
یہ آیت اس عذاب کے تذکرہ میں ہے جو قوم شعیب پر ان کی تباہ کاریوںکے نتیجہ میں اسی دنیا میں نازل ہوا تھا، پھر سورہٴ مطففین کی آیت۴،۵ میں ہے:
<اٴَلَایَظُنُّ اٴُولَئِکَ اٴَنَّھُمْ مَبْعُوثُونَ لِیَوْمٍ عَظِیمٍ
آیا ان کو اس بات کا گمان نہیں ہے کہ وہ روزِ عظیم میں اٹھائے جائیں گے (۱)
مسئلہ شرک کے بعد لفظ ”اخاف“ (مجھے ڈر ہے کہ اس سزا میںگرفتار نہ ہوجاؤ) کے ساتھ تعبیر کرنا شاید اس وجہ سے ہو کہ حضرت نوح علیہ السلام ان سے یہ کہتے ہیں کہ اگر تمھیں شرک کرنے کی پاداش میں ایسی سزا کا یقین نہ بھی ہو تو کم از کم اس کا خوف تو کرو کیونکہ عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ جس راستے میں ایسے زبردست خطرےکا احتمال بھی ہو وہ راستہ اختیار کیا جائے ۔
لیکن قومِ نوح بجائے اس کے کہ اس عظیم پیغمبر کی اصلاحی دعوت کوقبول کرتی جو ہر طرح سے ان کی خیرخواہی پر مشتمل تھی اور آئینِ توحید کوجان ودل سے مان لیتی، ظلم وستم سے اپنا ہاتھ اٹھالیتی، اس کے برعکس ان کی قوم کے سرداروں اور ثروت مندوں نے جب لوگوں کی بیداری کی وجہ سے اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھا اور نوح(علیه السلام) کے مذہب کو اپنی عیاشیوں اور ہوس رانیوںکے سدِراہ پایا تو ان کے جواب میں صاف صاف یہ کہہ دیا: کہ ہم تو تجھے گمراہی میں دیکھتے ہیں (قَالَ الْمَلَاٴُ مِنْ قَوْمِہِ إِنَّا لَنَرَاکَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ) ۔
”ملاء“ عام طور سے اس گروہ کو کہتے ہیں جو اپنے لئے ایک مخصوص خیال اور عقیدہ اختیار کرتا ہے اور اس کی جھة بندی اور شکوہ ظاہری آنکھوں کو پُر کردیتی ہے، کیونکہ اس کا لفظ مصدر ”ملاءٌ“ ہے اور اس کے معنی پُر کرنے کے ہیں، قرآن میں یہ لفظ غالباً انسانوں کے اس گروہ کے لئے استعمال ہوا ہے جو خود پرست ہو، ظاہری طور سے مہذب ہو لیکن اندر سے گندہ ہو اور محیط کے مختلف زاویوں کو اپنے وجود سے پُر کرنے والا ہو ۔
حضرت نوح(علیه السلام) نے اپنی قوم کے سخت اور توہین آمیز رویّہ کے جواب میں نہایت متانت اور حبّت کے ساتھ کہا: میں نہ صرف یہ کہ گمراہ نہیں ہوں بلکہ گمراہی کی کوئی نشانی بھی مجھ میں نہیں پائی جاتی، بلکہ میں پروردگارعالم کا بھیجا ہوا رسول ہوں (قَالَ یَاقَوْمِ لَیْسَ بِی ضَلَالَةٌ وَلَکِنِّی رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ) ۔
یہ بات اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ یہ مختلف خدا جو تم مانتے ہو اور ان کی الگ الگ حکومتیں تم نے بنارکھی ہیں جیسے سمندروں کا خدا، آسمانوں کا خدا، صلح اور جنگ کا خدا وغیرہ وغیرہ یہ سب بے بنیاد باتیں اور خرافات ہیں، حقیقی پروردگار اور سارے جہانوں کا رب صرف وہ خدائے یگانہ وتوانا ہے جو ان سب کا خالق وصانع ہے ۔
(حضرت نوح(علیه السلام) نے کہا:) میری غرض تو صرف یہ ہے کہ میں اپنے پروردگار کے پیغام اور اس کے فرامین تم تک پہنچادوں (اٴُبَلِّغُکُمْ رِسَالَاتِ رَبِّی) ۔
”اور اس راہ میں، میں کسی قسم کی خیرخوںاہی کو تم سے نہ روکوں“ (وَاٴَنصَحُ لَکُمْ) ۔
”انصح“ مادّہٴ ”نصح“ (بروزن قفل) سے ہے جس کے معنی خلوص کے ہیں، اسی بناپر ”ناصح العسل“ کے معنی خالص شہد کے ہیں، بعد میں یہ لفظ اس گفتگو کے لئے استعمال ہونے لگا جس میں خلوص ہی خلوص ہو، کسی قسم کی غرض اور فریب کاری نہ ہو ۔
آخر میں ارشاد ہوتا ہے: میں خدا کی جانب سے ان چیزوں کو جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے (وَاٴَعْلَمُ مِنْ اللهِ مَا لَاتَعْلَمُونَ) ۔
ممکن ہے یہ جملہ ان لوگوں کی مخالفتوں اور روگردانیوں کے مقابلے میں تہدید کا پہلو لئے ہوئے ہو، یعنی مجھے الله کی طرف سے ایسی دردناک سزاؤں اور خوفناک عذابوں کا علم ہے جن کا علم تم کو نہیں ہے، یا ہوسکتا ہے اس سے خداوندکریم کے لطف وکرم کی طرف اشارہ مقصود ہو یعنی اگر تم توبہ کرلو اور الله کی طرف پلٹ آؤ تو مجھے اس کے لئے انعاموں اور ثوابوں کا علم ہے جس کی تم کو خبر نہیں ہے، یا پھر ممکن ہے مراد یہ ہو کہ میں الله کی طرف سے تمھاری ہدایت کا منصب لےکر آیا ہوں تو میں خدا کے بارے میں اور ا س کے فرامین وقوانین کے بارے میں ایسی چیزیں جانتا ہوں جنھیں تم نہیں جانتے، اس بناپر میری پیروی تم پر لازم ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب باتیں اس جملے میں مضمر ہوں ۔
اس کے بعد والی آیت میں حضرت نوح(علیه السلام) کی ایک گفتگو ملتی ہے جو اُن کی قوم کے اس تعجب کے جواب میں ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان حاملِ رسالت الٰہی بن جائے، اس پر حضرت نوح(علیه السلام) نے کہا: آیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ کوئی انسان رسالتِ پروردگار کے پہنچانے پر مامور ہو اور الله کی طرف سے بیدار کرنے والے فرامین اس پر نازل ہوں تاکہ وہ تمھیں تمھارے بُرے انجام سے ڈرائے اور پرہیزگاری کے طور طریقے کی طرف دعوت دے تاکہ تم رحمتِ الٰہی کے مستحق بن جاؤ (اٴَوَعَجِبْتُمْ اٴَنْ جَائَکُمْ ذِکْرٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَلیٰ رَجُلٍ مِنْکُمْ لِیُنذِرَکُمْ وَلِتَتَّقُوا وَلَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ) ۔
یعنی اس بات میں کونسا تعجب ہے؟ کیونکہ ایک لائق وسائشتہ انسان میں ہر موجود سے زیادہ اس بات کی صلاحیت موجود ہے کہ وہ الله کی رسالت کا حامل بن جائے، علاوہ بریں یہ کہ انسان ہی انسانوں کا رہبر بن سکتا ہے نہ کہ جن اور فرشتے ۔
لیکن بجائے اس کے کہ وہ لوگ ایسے ہمدرد اور خیرخواہ رہبر کی بات دل سے پسند کرتے الٹا انھوں نے اس کی بات کی تکذیب کی اور اس کی دعوت کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا، بلکہ ہوا یہ کہ جتنا بھی حضرت نوح(علیه السلام) زیادہ تبلیغ کرتے جاتے تھے، ان کی ضد اور ہٹ دھرمی بڑھتی جاتی تھی، یہی وجہ ہہوئی کہ خدا نے صرف حضرت نوح(علیه السلام) اور ان کے ساتھیوں کو جو کشتی میں سوار تھے نجات دے دی اور جو بھی اس کی آیتوں کو جھٹلائے والے تھے انھیں ڈبوکر غرق کردیا (فَکَذَّبُوہُ فَاٴَنجَیْنَاہُ وَالَّذِینَ مَعَہُ فِی الْفُلْکِ وَاٴَغْرَقْنَا الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا) ۔
اس آیت کے آخرمیں اس سخت سزا کی دلیل اس طرح بیان فرمائی گئی ہے: وہ لوگ ایک اندھا گروہ تھے، یعنی ایسے لوگ تھے جو کور دل اور کور باطن تھے اور حقیقت کا چہرہ دیکھنے سے محروم ہوگئے تھے (إِنَّھُمْ کَانُوا قَوْمًا عَمِینَ)(2)
ان کی یہ کور دلی اور ان کے اعمالِ شوم اور پیہم ہٹ دھرمی کی وجہ سے تھی، کیونکہ تجربہ یہ کہتا ہے کہ اگر انسان ایک طویل مدت تاریکی میں رہے یا کسی وجہ سے اپنی آنکھیں بند رکھے اور روشنی کی جانب نگاہ کرنے سے اجتناب کرے تو وہ تدریجاً اپنی بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا، یہی حال دیگر اعضائے بدن کا ہے اگر وہ ایک بڑی مدت تک کام نہ کریں تو وہ خشک ہوکر ہمیشہ کے لئے بیکار ہوجائیں گے ۔
انسان کی باطنی نگاہ بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ہے، حقائق سے مسلسل چشم پوشی کرتے رہنا اور عقل وخرد سے کام نہ لینا اور واقعات وحقائق سے عقل کو الگ رکھنا تدریجی طور سے عقل کی تیز بین نگاہ کو ضعیف سے ضعیف تر کردیتا ہے یہاں تک کہ آخر میں یہ نگاہِ عقل بھی بالکل اندھی ہوجاتی ہے ۔
حضرت نوح(علیه السلام) اور ان کی قوم کی باقی سرگزشت ان سورتوں میں جن کا پچھلے صفحات میں ذکر ہو ہے انشاء الله آئندہ تفصیل کے ساتھ بیان کی جائے گی ۔

 

 

 

۶۵و إِلیٰ عَادٍ اٴَخَاھُمْ ھُودًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرُہُ اٴَفَلَاتَتَّقُونَ-
۶۶ قَالَ الْمَلَاٴُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِہِ إِنَّا لَنَرَاکَ فِی سَفَاھَةٍ وَإِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الْکَاذِبِینَ-
۶۷ قَالَ یَاقَوْمِ لَیْسَ بِی سَفَاھَةٌ وَلَکِنِّی رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ-
۶۸ اٴُبَلِّغُکُمْ رِسَالَاتِ رَبِّی وَاٴَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اٴَمِینٌ-
۶۹ اٴَوَعَجِبْتُمْ اٴَنْ جَائَکُمْ ذِکْرٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَلیٰ رَجُلٍ مِنْکُمْ لِیُنذِرَکُمْ وَاذْکُرُوا إِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَسْطَةً فَاذْکُرُوا آلَاءَ اللهِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ-
۷۰ قَالُوا اٴَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللهَ وَحْدَہُ وَنَذَرَ مَا کَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَاٴْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ کُنتَ مِنَ الصَّادِقِینَ-
۷۱ قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ اٴَتُجَادِلُونَنِی فِی اٴَسْمَاءٍ سَمَّیْتُمُوھَا اٴَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا نَزَّلَ اللهُ بِھَا مِنْ سُلْطَانٍ فَانتَظِرُوا إِنِّی مَعَکُمْ مِنَ الْمُنتَظِرِینَ-
۷۲ فَاٴَنجَیْنَاہُ وَالَّذِینَ مَعَہُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَمَا کَانُوا مُؤْمِنِینَ-
ترجمہ
۶۵۔اور قوم عاد کی طرف ہم نے ان ک بھائی ہود کو بھیجا، انھوں نے کہا کہ اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ تمھارا کوئی خدا نہیں، تم کیوں نہیں ڈرتے ہو ۔
۶۶۔ ان کی قوم کے ایک گروہ نے جو کافر تھے یہ کہا کہ (اے ہود) ہم تم کو نادانی میں دیکھتے ہیں اور ہم تم یقینا جھوٹوں میں سے گمان کرتے ہیں ۔
۶۷۔ انھوں نے کہا کہ اے میری قوم! مجھ میں کسی قسم کی نادانی نہیں ہے، لیکن میں تمام جہانوں کے پروردگار کا فرستادہ ہوں ۔
۶۸۔ میں اپنے رب کے پیغاموں کو تم تک پہنچاتاہوں، اور میں تمھارے لئے ایک امانت دار نصیحت کرنے والا ہوں ۔
۶۹۔ کیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ تمھارے پاس تمھارے رب کی جانب سے یاددہانی آئے ایک ایسے مرد کے ذریعہ جو تم میں سے ہے،تاکہ وہ تم کو ڈرائے اور تم یاد کرو اس وقت کا جب کہ تم قوم نوح کا جانشین بنایااور تم کو ازروئے خلقت کشادگی دی(بدنی حیثیت سے قوی بنایا) پس اللہ کی نعمتوں کو دھیان میں لاؤ تاکہ تم فلاح پاجاؤ( کامیاب ہوجاؤ) ۔
۷۰۔انھوں نے کہا کہ کیا تم اس واسطہ آئے ہو کہ ہم صرف ایک خدا کی پرستش کریں اور ان (کئی خداؤں ) کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے اباوٴاجداد عبادت کرتے چلے آرہے ہیں؟ (ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا)لہٰذا تم جس(عذاب)سے ہم کو ڈرارہے ہو اس کو لے آؤ اگر تم واقعاً سچوں میں سے ہو ۔
۷۱۔(حضرت ہود (علیه السلام) نے) کہا کہ پلیدگی اور غضب تمھارے رب کی طرف سے تم کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے، کیا تم مجھ سے کچھ ناموں کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو جو تم نے اور تمھارے اباوٴاجداد نے (بطور معبود کے) گھڑ رکھے ہیں، اللہ نے ان کی حقانیت کی کوئی دلیل بھی نہیں اتاری ہے،اچھا تو انتظار کرو اور میں تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوتا ہو ۔
۷۲۔پس ہم نے ان (ہود(علیه السلام)) کو اور جو ان کے ساتھ تھے اپنی رحمت سے نجات دی، اور جن لوگوں نے تمھاری آیتوں کی تکزیب کی تھی اور وہ ایمان نہیں لائے تھے انھیں جڑ سے نابود کردیا ۔

 

 
۱۔ زیرِ نظر آیت میں کلمہٴ ”عظیم“ ”یوم“ کی سفت ہے نہ کہ ”عذاب“ کی
2۔ ”عمین“ جمع ہے ’عمیٌ“ (بروزن دلوٌ) کی یہ بالعموم اسے کہتے ہیں جس کی بصیرت اور چشم باطن ختم ہوگئی ہو، لیکن ”اعمیٰ“ اسے بھی کہتے ہیں جس کی ظاہری آنکھیں ختم ہوگئی ہوں اور اسے بھی جس کی باطنی بینائی ختم ہوگئی ہو (یہ بھی توجہ رہے کہ لفظ ”عمی“ پر اگر اعراب آجائے تو ”عم“ رہ جاتا ہے)
 

 

مربی اور قابلیت دونوں چیزوں کی ضرورت ہےقوم ہود کی سرگزشت کا ایک گوشہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma