۱۰۔ ان چند آیتوں نے کِس طرح مدینہ کی حالت بدل دی :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
۹۔ یہودیوں کے دس گناہ :بہانہ سازوں کو ایک قطعی جواب

۱۰۔ ان چند آیتوں نے کِس طرح مدینہ کی حالت بدل دی : ۔کتاب ”بحار الانوار“ اور اسی طرح کتاب ”اعلام الوریٰ“ میں ایک دلچسپ داستان اس سلسلہ میں ملتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات مذکورہ بالا لوگوں کے دلوں میں کس قدر اثر انداز ہوئی تھیں! ہم بھی اس واقعہ کو خلاصہ کے طور پر علی بن ابراہیم کی روایت سے بحار الانوار میں موجود ہے، نقل کرتے ہیں:۔
قبیلہ خزرج کے دو آدمی اسعد بن زرارہ اور ذکو ان بن عبد القیس ایک دفعہ مکہ میں آئے جبکہ اوس اور خزرج کے درمیان ایسی طولانی جنگ چھڑی ہوئی تھی کہ شب و روز میں کسی وقت بھی وہ لوگ اپنے ہتھیار کمر سے نہیں کھولتے تھے، ان کا آخری معرکہ ”یوم بعاث“ کے نام سے ہوا تھا۔ اس میں سے قبیلہ اوس کے خلاف ایک معاہدہ کریں۔ جس وقت یہ دونوں عتبہ بن رہبہ کے گھر پہنچے اور اس سے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو عتبہ نے ان کے جواب میں کہا:۔
ہمارا شہر تمہارے شہر( مدینہ) سے کافی دور واقع ہے اس لیے تمہارے مدد کرنا ہمارے لیے مشکل ہے، خصوصاً ہمارے لیے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے جس نے ہمیں بُری طرح اپنی طرف متوجہّ کرلیا ہے۔
اسعد نے پوچھا: وہ کونسا مسئلہ؟ تم تو حرم کعبہ میں زندگی بسر کرتے ہو جو ایک جائے امن و امان ہے! عتبہ نے جواب دیا: ایک انسان ہم میں ظاہر ہوا ہے جو کہتا ہے: میں خدا کا فرستادہ ہوں وہ ہماری عقلوں کو ناچیز سمجھتا ہے اور ہمارے خداؤں کو بُرا کہتا ہے اس نے ہمارے جوانوں کو بگاڑ دیا ہے اور ہمارے اتحاد کو پراگندہ کردیا ہے۔
اسعد نے دریافت کیا: اس شخص کی تم سے کیا نسبت ہے؟
اس نے کہا: یہ عبداللہ بن عبدالمطلب کا فرزند ہے اور ہمارے شریف خاندانوں کا ایک ممتاز فرد ہے۔
یہ سن کر اسعد اور ذکوان کچھ سوچ میں پڑگئے اور انھیں یاد آیا کہ وہ مدینہ کے یہودیوں سے سنتے آئے ہیں کہ عنقریب ایک نبی مکہ سے ظہور کرنے والا ہے اور وہ مدینہ کی طرف ہجرت کرے گا۔
اسعد نے اپنے دل میں کہا کہ ایسا نہ ہوکہ یہ وہی نبی ہو جس کی پیشین گوئی یہودیوں نے کی تھی۔
اس کے بعد اس نے پوچھا: وہ ہے کہاں؟
عتبہ نے کہا: وہ اس وقت خانہ خدا کے پاس حجرِ اسماعیل میں بیٹھا ہے۔ آج کل اس کی جماعت کے لوگ پہاڑ کے ایک درّہ میں محصور ہیں۔ انھیں صرف ماہِ رجب میں جو حج و عمرہ کا زمانہ ہے آزادی دی گئی ہے تاکہ عمرہ بجالا سکیں اور لوگوں کے درمیان آسکیں لیکن میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ کہیں اس کی باتوں میں نہ آجانا اور اس سے بالکل بات نہ کرنا کیونکہ وہ ایک عجیب جادوگر بھی ہے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ مشرکینِ مکہّ نے مسلمانوں کو شعبِ ابوطالب میں بند کرکے گھیراؤ ڈال دیا تھا اور انھیں باہر نہیں نکلنے دیتے تھے۔
اسعد نے عتبہ سے کہا: اب میں کیا کروں کیونکہ میں نے تو خانہ کعبہ کا طواف کرنے کے لیے احرام باندھ لیا ہے لہٰذا طواف کرنا ضروری ہے اور تم یہ کہتے ہوکہ اس کے نزدیک بھی نہ جانا؟
عتبہ نے جواب دیا: تھوڑی سی روئی سے اپنے کانوں کو بند کرلو تاکہ اس شخص کی کوئی بات نہ سن سکو۔
اسعد مسجد الحرام میں پہنچا۔ اس نے روئی سے اپنے کانوں کو بند کر رکھا تھا۔ اس حالت میں اس نے طواف خانہ کعبہ کرنا شروع کیا۔ اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم بنی ہاشم کے لوگوں کے درمیان حجرِ اسماعیل میں خانہ کعبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔
اسعد نے ایک نگاہِ غلط انداز پیغمبر پر ڈالی اور ان کے پاس سے جلدی سے گذر گیا۔
جب طواف کے دوسرے دور میں پہنچا تو اس نے اپنے آپ سے کہا : مجھ سے بھی زیادہ کوئی احمق نہ ہوگا کیا یہ ممکن ہے کہ مکہ میں اتنا بڑا واقعہ رونما ہوجائے جو اہلِ مکہ کے زباں زد ہو اور میں اس سے بے خبر رہوں اور جب مدینہ واپس جاؤں تو اپنی قوم کو اس کے متعلق کچھ بھی نہ بتا سکوں۔ یہ خیال آتے ہی اس نے روئی اپنے کان سے نکال کر دور پھینک دی اور جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے سامنے کھڑا ہوگیا، پھر اس نے پوچھا: آپ ہمیں کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں؟
آنحضرت نے جواب میں فرمایا: میں اس بات کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ خدا وحدہٰ لاشریک ہے اور میں اس کا رسول کا رسول ہوں نیز میں لوگوں کو ان باتوں کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد آپ نے مذکورہ تین آیتوں کی تلاوت فرمائی جو دس حکموں پر مشتمل ہیں۔
جب اسعد نے یہ پُر معنی اور روح پر ور کلام سُنا جو اس کے جان و دل سے ہم آہنگ تھا تو اس کا عالم دگرگوں ہوگیا۔ اس کی زبان پر بے ساختہ جاری ہوا:۔ ”اشہد ان لا الٰہ الّا اللّٰہ و انّک رسول اللّٰہ“۔
یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ میں یثرب کا رہنے والا ہوں، قبیلہ ”خزرج“ سے میرا تعلق ہے، ہمارا تعلق ہمارے بھائیوں ”قبیلہ اوس“ سے طولانی جنگوں کی وجہ سے ٹوٹ گیا ہے، شاید خداوند کریم آپ کی برکت سے اس ٹوٹے ہوئے بندھن کو دوبارہ جوڑ دے۔
اے نبی خدا: ہم نے آپ کے اوصاف قوم یہود سے سُنے تھے۔ وہ ہمیشہ آپ کے ظہور کی خبر دیا کرتے تھے۔ ہمارے تمنا ہے کہ ہمارے شہر ”مدینہ“ آپ کی ہجرت گاہ بنے کیونکہ یہودیوں نے اپنی آسمانی کتابوں میں دیکھ کر ہمیں یہی بتایا ہے۔میں اللهکا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آپ کی خدمت میں آنے کا موقع دیا خدا کی قسم! میں تو یہ قصد لے کر آیا تھا کہ اہلِ مکہ سے اپنے بھائیوں کے خلاف جنگ میں مدد حاصل کرسکوں لیکن خدائے کریم نے مجھے اس سے بڑی کامیابی عطا کی۔
اس کے بعد اس کا ساتھی ذکوان بھی مسلمان ہوگیا اور دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے درخواست کی کہ کسی شخص کو ان کے ہمراہ مدینہ روانہ کریں تاکہ وہ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دے اور انھیں اسلام کی طرف دعوت دے شاید اس طرح یہ جنگ کی بھڑکتی ہوئی آگ خاموش ہوجائے چنانچہ آنحضرت نے مصعب بن عمیر کو ان کے ہمراہ مدینہ بھیجا اور اس وقت سے مدینہ میں اسلام کی داغ بیل پڑی جس سے مدینہ کی صورت بدل گئی۔ یہ سب واقعہ مذکورہ بالا تین آیتوں کی برکت سے ہوا۔ (2)

۱۵۴ ثُمَّ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ تَمَامًا عَلَی الَّذِی اٴَحْسَنَ وَتَفْصِیلًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَھُدًی وَرَحْمَةً لَعَلَّھُمْ بِلِقَاءِ رَبِّھِمْ یُؤْمِنُونَ ۔
۱۵۵ وَھٰذَا کِتَابٌ اٴَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ فَاتَّبِعُوہُ وَاتَّقُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ ۔
۱۵۶ اٴَنْ تَقُولُوا إِنَّمَا اٴُنزِلَ الْکِتَابُ عَلیٰ طَائِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا وَإِنْ کُنَّا عَنْ دِرَاسَتِھِمْ لَغَافِلِینَ ۔
۱۵۷ اٴَوْ تَقُولُوا لَوْ اٴَنَّا اٴُنزِلَ عَلَیْنَا الْکِتَابُ لَکُنَّا اٴَھْدیٰ مِنْھُمْ فَقَدْ جَائَکُمْ بَیِّنَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَھُدًی وَرَحْمَةٌ فَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَّبَ بِآیَاتِ اللهِ وَصَدَفَ عَنْھَا سَنَجْزِی الَّذِینَ یَصْدِفُونَ عَنْ آیَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوا یَصْدِفُونَ ۔
ترجمہ
۱۵۴۔ اس کے بعد ہم نے موسیٰ کو (آسمانی) کتاب دی، جو نیک تھے ان پر (اپنی نعمت کو) تمام کیا اور تمام چیزیں (جن کی ان کو ضرورت تھی) ان پر واضح کردیں۔ یہ کتاب ہدایت و رحمت کا سرمایہ تھی، تاکہ وہ (قیامت کے دن) اپنے پروردگار کی ملاقات پر ایمان لے آئیں۔
۱۵۵۔ اور یہ ایک پر برکت کتاب ہے جو ہم نے (تجھ پر) نازل کی ہے۔ اس کی پیروی کرنا، اور پرہیزگاری کو اپنا نا تاکہ اللہ کی رحمت کے مستحق ہو۔
۱۵۶۔ (ہم نے ان خصوصیات کی کتاب نازل کی) تاکہ یہ نہ کہو کہ ہم سے پہلے جو دوقومیں (یہود و نصاریٰ) تھیں ان پر کتاب آسمانی نازل ہوئی تھی اور ہم اس کے مطالعہ سے بے بہرہ تھے۔
۱۵۷۔ یا یہ نہ کہو کہ اگر ہم پر بھی آسمانی کتاب نازل ہوئی ہوتی تو ہم ان لوگوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے۔ (لو) اب یہ آیتیں اور روشن دلیلیں تمہارے پروردگار کی جانب سے آگئی ہیں۔ اسی طرح اس کی ہدایت و رحمت بھی (آگئی ہے)۔ اس صورت میں ان لوگوں سے بڑھ کر کون ستمگار ہوگا جو آیات الٰہی کی تکذیب کرنے لگیں، اور ان سے روگردانی کریں۔ لیکن عنقریب ہم ان لوگوں کو جو ہماری آیتوں سے روگردانی کرتے ہیں، ان کی اس بلاوجہ کی رُو گردانی کے سبب سخت سزا دیں گے۔
تفسیر


۱۔ تفسیر المنار ج ۸ ص ۱۰۵ ۔
2۔ بحارالانوار طبع جدید جلد ۱۵۔ ص ۹۰۰۔۱۰  ۔
 
۹۔ یہودیوں کے دس گناہ :بہانہ سازوں کو ایک قطعی جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma