دوزخ میں پیشواؤں اور پیروؤں کا جھگڑا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
”ظالم ترین افراد“وہ لوگ جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا

ان آیتوں میں بھی تکذیب کرنے والوں کا جو انجام بَد ہونے والا ہے اسے بیان کیا گیا ہے ۔ پچھلی آیتوں میں وقت مرگ ان لوگوں کو جو کچھ پیش آنے والا ہے اسے بیان کیا گیا ہے ۔ اس آیت میں گمراہ کرنے والوں اور گمراہ ہونے والوں میں جو جھگڑا ہوگا اسے بیان کیا گیا ہے: قیامت کے روز خدا ان سے کہے گا کہ جنوّں اور انسانوں کا جو گروہ تم جیسا تم سے پہلے گزرا ہے ان کے ساتھ آتش جہنم میں داخل ہوجاؤ (قَالَ ادْخُلُوا فِی اٴُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ فِی النَّارِ) ۔
ہوسکتا ہے کہ یہ فرمان ایک فرمان تکوینی ہو ۔ یعنی خدا ان دونوں گرو ہوں کو آتش جہنم میں ایک جگہ ٹھہرائے گا، یا یہ کہ یہ فرمان تشریعی کے مشابہ ہو جسے وہ اپنے کانوں سے سنیں گے اور مجبوراً اس کی اطاعت کریں گے ۔
جس وقت وہ دوزخ میں داخل ہوں گے تو جو لوگ ان کے ہم کیش اور ہم مسلک ہیں ان سے ان کا جھگڑا شروع ہوگا، ایک عجیب وعبرت انگیز جھگڑا ”ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہوگا تو دوسرے گروہ پر لعنت کرے گا اور اسے اس بدبختی کا ذمہ دار ٹھہرائے گا“ (کُلَّمَا دَخَلَتْ اٴُمَّةٌ لَعَنَتْ اٴُخْتَھَا) ۔(۱)
ہم نے یہ بات پہلے بھی کئی بار کہی ہے کہ قیامت کا منظر اس دنیا کی عکاسی کرے گا ۔ اس دنیا میں بھی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک گروہ اپنے برخلاف گروہ سے بر سرِ پیکار ہوجاتا ہے اور ایک دوسرے سے اپنی نفرت کا اظہار کرتا ہے، اس کے برعکس پیغمبران الٰہی اور اللہ کے نیک اور مصلح بندے جب بھی آئے انھوں نے ایک دوسرے کی تائید کی اور یہ بتلایا کہ ہم سب کا مقصد ایک ہی ہے ۔
مطلب یہیں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ جب سب کے سب بڑی ذلت و خواری کے ساتھ دوزخ کے شرر بار شعلوں میں پہنچ جائیں گے تو ایک دوسرے کی شکایت خدا کی بارگاہ میں کرنے لگ جائیں گے ۔ سب سے پہلے فریب خوردہ افراد جب اپنے لئے راہ نجات ہر طرف سے بند پائیں گے تو یہ شکایت کریں گے: پروردگارا! ان گمراہ کرنے والوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا، خدایا! ان کے عذاب کو دوگنا کردے، ایک عذاب خود گمراہ ہونے کی وجہ سے، دوسرا عذاب ہمیں گمراہ کرنے کی وجہ سے (حَتَّی إِذَا ادَّارَکُوا فِیھَا جَمِیعًا قَالَتْ اٴُخْرَاھُمْ لِاٴُولَاھُمْ رَبَّنَا ہَؤُلَاءِ اٴَضَلُّونَا فَآتِھِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِنَ النَّارِ) ۔
اس میں شک نہیں کہ ان کی یہ درخواست بالکل صحیح و منطقی ہے، بلکہ اگر ان کی یہ درخواست نہ بھی ہو تب بھی گمراہ کرنے والے دوسرے عذاب کے مستحق ہیں کیونکہ وہ ان کا بار بھی اپنے کاندھے پر اٹھائیں گے جن کو انھوں نے گمراہ کیا تھا اور ان کے اپنے عمل کا عذاب بھی کم نہ ہوگا ۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان کے جواب میں یہ کہا جائے گا: تم دونوں گرو ہوں کا عذاب دوگنا ہے لیکن تم نہیں جانتے کہ ایسا کیوں ہے ( قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَلَکِنْ لَاتَعْلَمُونَ) ۔
غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ اتباع کرنے والوں کا عذاب کیوں دوگنا ہوگا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیشوایاں ظلم وستم اور سردارانِ بے راہ روی و گمراہی اپنی اسکیموں کو اکیلے عملی جامہ نہیں پہنا سکتے ۔ یہ ضدی و ہٹ دھرم پیروکار ہیں جو ان کے باطل مقصد تک پہنچنے میں مدد کرتے ہیں، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ یہ پیروکار ہیں جو ان کا تنور گرم کرتے ہیں اور ان کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوتے ہیں ۔ اس لئے انھیں دوسروں کو گمراہ کرنے کا موقع ملتا ہے، لہٰذا اس گروہ کو بھی دوگنا عذاب ملنا چاہیٴے ۔ ایک سزا تو ان کی اپنی گمراہی کی وجہ سے، دوسری سزا ظالم، ستمگر اور گمراہ پیشواؤں کی حمایت کی وجہ سے یہی وجہ ہے کہ ایک مشہور حدیث میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ(علیه السلام) نے ایک دوست جس کا نام صفوان تھا کو ظالم ہارون رشید کے کاموں میں کسی طرح کس شرک کرنے سے روکا اور فرمایا:
اگر لوگ ان ظالموں کی مدد نہ کریں اور ان کی حمایت نہ کریں تو یہ عادل پیشواؤں کا حق کس طرح غضب کرسکتے ہیں ۔
بعد کی آیت میں ان گمراہ پیشواؤں کا جواب اس طرح نقل کیا گیا ہے: وہ اپنے پیروکاروں سے کہیں گے ہم میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ یعنی اگر ہم نے کوئی غلط بات کہی تو تم نے تائید کی اور اگر ہم نے کوئی غلط قدم اٹھایا تو تم ن ہمارا ساتھ دیا اور اگر ہم نے ستم کیا تو تم ہمارے یارومددگار تھے لہٰذا تم بھی اپنے کرتو توں کے بدلے خدا کا درناک عذاب چکھو (وَقَالَتْ اٴُولَاھُمْ لِاٴُخْرَاھُمْ فَمَا کَانَ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْسِبُونَ) ۔
یہاں پر لفظ ”اولیٰ“ سے مراد پہلے لوگ یعنی پیشوا گروہ اور لفظ ”اخریٰ“ سے مراد پیروی کرنے والا گروہ ہے ۔

۴۰ إِنَّ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَاسْتَکْبَرُوا عَنْھَا لَاتُفَتَّحُ لَھُمْ اٴَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَایَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِینَ-
۴۱ لَھُمْ مِنْ جَھَنَّمَ مِھَادٌ وَمِنْ فَوْقِھِمْ غَوَاشٍ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ-
ترجمہ
۴۰۔ وہ لوگ جنھوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی اور ان کے مقابلے میں تکبر کیا، آسمان کے دروازے ان کے لئے نہیں کھولے جائیں گے (اور وہ کبھی) بہشت میں داخل نہ ہوں گے الّا یہ کہ اونٹ سوئی کے ناکہ سے گزرجائے (یعنی ایسا کبھی نہیں ہوسکتا) مجرموں کو ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ۔
۴۱۔ ان کے لئے دوزخ (کی آگ) کے بستر ہوں گے اور ان کے اوپر اوڑھنا بھی (اسی کا) ہے اور ظالموں کو ہم اسی طرح سزا دیتے ہیں ۔

 


۱۔ چونکہ لفظ ”امة“ موٴنث ہے اس لئے اس کی مناسبت سے لفظ ”اخت“ آیا ہے جس کے معنی بہن کے ہیں جو ان گمراہ گرو ہوں کے ارتباطِ باہمی پر دلالت کرتا ہے ۔
 
”ظالم ترین افراد“وہ لوگ جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma