بیدار کرنے والی سزائیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
ایک سوال اور اس کاجوابفال نیک و بد

جیسا کہ اسی سورہ کی آیت ۹۴ میں گزرا ہے کہ ایک کلی قانون تمام پیمبروں کے لئے یہ تھا کہ جب ان کو لوگوں کی مخالفت کا سامنا ہوا اور وہ کسی طرح سے راہ راست پر نہ آئیں تو خدا ان کو بیدار کرنے کے لئے مشکلات ومصائب میں گرفتار کرتا تھا تاکہ وہ اپنے میں نیازمندی اور محتاجی کا احساس کریں ، اور ان کی فطرت توحید جو آرام وآسائش کی وجہ سے غفلت کے پردوں میں چلی گئی ہیں دوبارہ ابھر آئے اور ان کو اپنی ضعف وناتوانی کا اندازہ ہو اور اس قدرو ناتوانا ہستی کی جانب متوجہ ہوں جو ہر نعمت ونقمت کا سرچشمہ ہے ۔
پہلی آیت میں مطلب کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے: ہم نے آل فرعون کو قحط، خشک سالی اور ثمرات کی کمی میں مبتلا کیا کہ شاید متذکر بیدار ہوجائیں (وَلَقَدْ اٴَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِینَ وَنَقْصٍ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُونَ ) ۔
”سنین“
جمع ہے ”سنة“ کی جس کے معنی سال کے ہیں، لیکن عام طور سے جب یہ لفظ ”اخذ“ کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی قحط سالی کے ہوجاتے ہیں، بنابرین ”اخذ ہ السنة “ (سال نے اس کو پکڑا )کے معنی ہیںکہ وہ خشک سالی میں مبتلا ہوگیا، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ قحط سالی کے سال بہ نسبت دوسرے سالوں کے کم ہیں لہٰذا جب کہا گیا کہ اس کو ساک نے پکڑ لیا اور اس سے عام سال مراد ہو تو یہ کوئی نئی بات نہیں اس لئے اس سے مراد وہ سال ہوں گے جو کم آتے ہیں تاکہ ایک نئی بات سمجھ میں آئے اور وہ خشک سالی کے سال ہیں ۔
لفظ ”آل“ در اصل ”اھل “ تھا پھر اس میں قلب واقع ہوا اور یہ اس حالت میں ہوگیا، اور ”اہل“ کے معنی ہیں”انسان کے قریبی اور خاص آدمی چاہے وہ اس کا قریبی عزیز ہو یا اس کا ہم خیال ہم مسلک واطرافی ہو“۔
باوجود یہ کہ قحط سالی نے فرعونیوں کو گھیر لیا تھا لیکن آیہ مذکورہ بالا میں صرف فرعون کے مخصوصین کا ذکر کیا گیا ہے مقصد یہ ہے کہ اگر یہ بیدار ہوگئے تو سب لوگ بیدار ہوجائیں گے کیوں کہ تمام لوگوں کی نبض انہی کے ہاتھوں میں ہے یہ چاہیں تو بقیہ افراد کو چونکہ ان زمینوں کے مالک اہلی تھے اسی لئے فی الحقیقت وہ سب سے زیادہ اس سے متاثر ہوئے تھے ۔
ضمناً یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ خشک سالی کئی سال تک باقی رہی کیوں کہ ”سنین“ جمع کا صیغہ ہے خصوصاً ” نقص من الثمرات“ کا بھی اضافہ ہوا ہے (میووں کی کمی) کیوں کہ خشک سالی اگر وقتی ہو تو درختوں پر اتنا اثر انداز نہیں ہوا کرتی لیکن اگر طولانی ہوجائے تو درختوں کو بھی نابود کردیتی ہے اگرچہ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ خشک سالی کے علاوہ کوئی اور آفت بھی درختوں کو آگئی ہو ۔
جملہ ”لعلھم یذکرون“ سے گویا اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ حقیقت توحید کی طرف توجہ ہر انسان کی سرشت میں ابتدا سے پوشیدہ ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ غلط تربیت کی وجہ سے، یا نعمتوں میں مست ہوجانے کے باعث انسان اس کو بھول جاتا ہے، لیکن جب مشکلوں میں پھنستا ہے تو دوبارہ پھر خدا یاد آتا ہے، مادہ ”یذکر“ جس کے معنی یاد آوری کے ہیں اس مفہوم سے مناسبت رکھتا ہے ۔
قابل توجہ یہ ہے کہ آیہ ۹۴ کے ذیل میں جو جملہ ”لعلھم یضرعون“ (شاید وہ خدا کے سامنے خضوع اور فروتنی اختیار کریں) آیاہے، فی الحقیقت پہلا جملہ ”لعلھم یذکرون“ اسی کا مقدمہ ہے کیوں کہ انسان پہلے حالت ”تذکر“ میں آتا ہے، اس کے بعد فروتنی اور سپردگی کی منزل پر فائز ہوتا ہے ۔
لیکن آل فرعون، بجائے اس کے کہ ان الٰہی تنبیہوں سے نصیحت لیتے اور خواب خرگوش سے بیدار ہوتے ، انھوں نے اس سے سوء استفادہ کیا اور حوادث کی من مانی تفسیر کی: ”جب حالات ان کے منشاء کے مطابق ہوتے تھے تو وہ راحت وآرام میں ہوتے تھے اور کہتے کہ یہ حالات ہماری نیکی ولیاقت کی وجہ سے ہیں !“فی الحقیقت ہم اس کے اہل ولائق ہیں ( فَإِذَا جَائَتْھُمَ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا ھٰذِہِ) ۔
”لیکن جس وقت وہ مشکل ومصیبت میں گرفتار ہوتے تھے تو اس کو فوراً موسیٰ (علیه السلام) اور ان کے ساتھیوں کے سر باندھ دیتے تھے“ اور کہتے تھے کہ یہ ان کی بد قدمی کی وجہ سے ہوا ہے ( وَإِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَةٌ یَطَّیَّرُوا بِمُوسیٰ وَمَنْ مَعَہُ) ۔
”یطیروا“ مادہٴ”تطیر“ سے ہے جس کے معنی بد فالی کرنے کے ہیں، اس کی اصل کلمہ ”طیر“ (پرندہ) ہے، چونکہ عربوں میں رسم تھی کہ وہ پرندوں کے رسم تھی کہ وہ پروندوں کے ذریعہ فال بد لیا کرتے تھے، کبھی کوے کی آواز کو منحوس جانتے تھے، کبھی کسی پرندے کے چپ سے راست کی طرف اڑنے سے بد فالی لیتے تھے، اس لئے کلمہٴ”تطیر“ ہر بد فالی کے لئے بولا جانے لگا ۔
لیکن قرآن کریم ان کے جواب میں کہتا ہے: ”ان کی بدبختیوں اور تکلیفوں کا سرچشمہ خدا کی طرف سے ہے خدا نے یہ چاہا ہے کہ اس طرح ان کو ان کے اعمال بد کی وجہ سے سزا دے، لیکن ان میں سے اکثر ان کو نہیں جانتے“ ( اٴَلَاإِنَّمَا طَائِرُھُمْ عِنْدَ اللهِ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَھُمْ لَایَعْلَمُونَ) ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ طرز فکر کوئی فرعونیوں ہی کے ساتھ مخصوص نہ تھا، آج کل کے زمانہ میںبھی خود خواہ اور خود پسند قوموں میں یہ صفت بد دیکھی جاسکتی ہے کہ وہ حقیقتوں کو بدلنے کے لئے اور اپنے وجدان کو یا دوسرے لوگوں کو فریب دینے کے لئے جب بھی ان کو کوئی کامیابی نصیب ہوتی ہے تو وہ اس کو اپنی لیاقت کی طرف منسوب کرتے ہیں چاہے ان کی لیاقت واستعداد کو اس میں ذرہ برابر بھی دخل نہ ہو، اور جس وقت کوئی بدبختی ان کا دامن پکڑتی ہے تو اس کو اپنی مخفی یا آشکار دشمن کی طرف نسبت دیتے ہیں چاہے وہ خود اس کا اصل سبب ہوں، قرآن بیان کرتا ہے کہ دشمنان پیغمبر اسلام بھی ان کے خلاف ایسی ہی باتیں کیا کرتے تھے (سورہ ٴ نساء آیت۷۸) دوسری جگہ قرآن کہتا ہے کہ گمراہ انسانوں کا یہی حال ہے

 

(سورہٴ فصلت آیت ۵۰)اور یہ در حقیقت خود خواہی، ضد اور گرور کا ایک زبردست مظہر ہے (۱)

 

 

 
۱۔ ضمناً یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ یہاں پر ”حسنہ“ پر تو الف ولام آیا ہے، اور ”سیئة“ پر تنوین آئی ہے اور نکرہ ہے اس سے اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ نعمتیں فراواں ان پر نازل ہوتی تھیں اور تکالیفیں کبھی کبھی آتی تھیں ۔
ایک سوال اور اس کاجوابفال نیک و بد
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma