قوم ہود کی سرگزشت کا ایک گوشہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
حضرت نوح (علیه السلام) پہلے اولوالعزم پیغمبر قوم ثمود کی عبرت انگیز سرگزشت

حضرت نوح (علیه السلام) کی رسالت کی سرگزشت اور جو عبرت وحکمت کے درس اس میں موجود تھے انھیں بیان کرنے کے بعد ایک اور نبی یعنی حضرت ہود (علیه السلام) کی سرگزشت بیان کی جاتی ہے ۔
یہ قصہ قرآن مجید کی دیگر سورتوں میں بھی ذرا تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے جیسے سورہ ”شعراء“ یا خود ”سورہٴ ہود“ زیر بحث آیات میں صرف حضرت ہود (علیه السلام) اور ان کی قوم کے درمیان جو گفتگو اور مباحثہ ہوا ہے اس کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتاہے ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (علیه السلام) کو بھیجا(و إِلیٰ عَادٍ اٴَخَاھُمْ ھُودًا) ۔
قوم عاد کے لوگ سرزمین ”یمن “میں زندگی بسر کرتے تھے جسمانی حیثیت سے اور ثروت کے اعتبار سے جو انھیں زراعت اور غلہ داری کے ذریعہ حاصل ہوتی تھی وہ ایک قوی اور خوشحال قوم تھے لیکن عقیدے کی رو سے بہت پسماندہ تھے ۔
”ہود“ اسی قوم کے ایک فرد تھے اور ان لوگوں سے قرابت بھی رکھتے تھے، انھیں اللہ کی طرف سے حکم ملا کہ اپنی قوم کی ہدایت کریں اور انھیں تباہی سے بچائیں، عذاب الٰہی سے ڈرائیں اور جو فساد ان میں پھیلا ہوا ہے اس سے نبرد آزما ہوں، شاید ”اخاھم“ (ان کے بھائی) سے اسی قرابتداری کی طرف اشارہ ہے جو حضرت ہود (علیه السلام) اور ان کی قوم کے درمیان تھی ۔
نیز یہ احتمال بھی ہے کہ لفظ ”بھائی “ جو اس سورة میں حضرت ہود (علیه السلام) کے لئے استعمال ہوا اوربعض دیگر انبیا کے لئے بھی دوسری سورتوں میں استعمال ہوا جیسے حضرت نوح (علیه السلام) کے لئے (شعراء:۱۰۶میں)حضرت صالح (علیه السلام) کے لئے (شعراء:۱۴۲میں) حضرت لوط (علیه السلام) کے لئے ( شعرء : ۱۶۱ میں ) اور حضرت شعیب (علیه السلام) کے لئے (اعراف:۸۵میں ) یہ اس وجہ سے ہے کہ ان انبیا نے بڑی جانسوزی، ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ ایک بھائی کی طرح قوم میں تبلیغ کی اور انھیں ہر طرح سے سمجھانے کی کوشش کی، یہ تعبیر ان لوگوں کے لئے استعمال کی جاتی جو کسی سمجھانے کے لئے بڑی کوشش اور کدوکاوش کرتے ہیں،علاوہ برایں اس تعبیر میں ایک طرح کی برابری اور مساوات بھی ہے اور تفوق اور امتیازاور ریاست طلبی کی نفی بھی، مقصد یہ ہے کہ یہ حضرات اپنی دعوت میں کوئی دنیاوی غرض نہیں رکھتے تھے اور نہ کوئی ریاست وحکومت چاہتے تھے بلکہ ان کی انتہائی غرض یہ تھی کہ اپنی اپنی قوموں کو بدبختی وتباہی کے گرداب سے نجات دلا دیں ۔
ساتھ ہی یہ بھی واضح ہے کہ ”اخاھم“ سے دینی اور مذہبی برادری مقصود نہیں ہے کیوں کہ یہ قومیں عام طور سے مشرک تھیں اور انبیائے الٰہی کی بار بار کی کوششوں کے باوجود انھوں نے مذہب حق کو قبول نہیں کیا ۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت ”ہود(علیه السلام)“ نے اپنے دعوت کو مسئلہ توحید ، رسم ورواج ،شرک وبت پرستی سے اپنی بیزاری کے ساتھ شروع کیا، اور ان سے کہ کہا کہ اے میری قوم! خدائے یگانہ کی پرستش کرو کیوں کہ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے، آیا تم پرہیزگاری اختیار نہیں کرو گے (قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرُہُ اٴَفَلَاتَتَّقُونَ) ۔
لیکن اس خود خواہ اور متکبر گروہ نے ، خاص کر ان میں سے مالدار لوگوں میں جنھیں خدا نے ”ملاء“ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے، ہود (علیه السلام) سے وہی کچھ کہا جو قوم نوح نے حضرت نوح (علیه السلام) سے کہا تھا، بلکہ نادانی اور حماقت کی نسبت ان کی طرف دی ”انھوں نے کہا کہ ہم تمھیں نادانی میں دیکھتے ہیں اور ہمیں گمان یہ ہے کہ تم جھوٹوں میں سے ایک شخص ہو(یعنی جہاں اور لوگ جھوٹ بولتے تم بھی بولتے ہو)

 

“(قَالَ الْمَلَاٴُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِہِ إِنَّا لَنَرَاکَ فِی سَفَاھَةٍ وَإِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الْکَاذِبِینَ) ۔
”سفاہت“ اور ”نادانی“ ان کے خیال کے مطابق یہ تھی کہ انسان اپنے ماحول اور اکثریت کے رسم وروج کے برخلاف صدائے احتجاج بلند چاہے وہ رسم ورواج کیسے ہی غلط اور جاہلانہ کیوں نہ ہوں، یہاں تک کہ اپنی جان خطرہ میں ڈال دے، ان کی منطق کی بنا پر حضرت ہود (علیه السلام) کی نادانی یہ تھی کہ کوئی انسان اپنے ماحول کے ساتھ نہ گھل مل سکے اور ابن الوقتی سے کام نہ لے اور پرانے طور طریقوں کو توڑنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو اور اس وجہ سے ہر طرح کی پریشانیوں اور جنجال کو مفت میں بیٹھے بٹھائے خرید لے ۔
لیکن حضرت (علیه السلام) نے اپنے اس مخصوص سکون ووقار کے ساتھ جو ہر پاک وبرحق نبی کا شیوہ ہے بغیر کسی غصہ، دلتنگی اور مایوسی کے، ان سے کہا: اے قوم! میرے اندر کسی قسم کی نادانی نہیں پائی جاتی، میری گفتار ورفتار میرے سلامتی ہوش وحواس کی تین دلیل ہیں، میں تمام جہانوں کے پروردگار کا فرستادہ ہوں،( قَالَ یَاقَوْمِ لَیْسَ بِی سَفَاھَةٌ وَلَکِنِّی رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ) ۔
حضرت ہود (علیه السلام) نے اپنے کلام میں اس بات کا بھی اضافہ کیا :مجھ پر اللہ کی طرف سے یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ اپنے رب کا پیغام تم لوگوں تک پہنچادوں اور ان احکام کو بھی تم تک پہنچادوں جو تمھاری سعادت کے ضامن اور تمھیں شرک وفساد سے نجات دینے والے ہیں اور وہ بھی انتہائی خلوص،ہمدردی اور امانت کے ساتھ( اٴُبَلِّغُکُمْ رِسَالَاتِ رَبِّی وَاٴَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اٴَمِینٌ) ۔
اس کے بعد حضرت ہود (علیه السلام) ان لوگوں کے سامنے جو اس بات پر متعجب تھے کہ خدا نے خود ان لوگوں میں سے ایک اپنا رسول کیسے بھیج دیا، یہ کہتے ہیں کہ یہ بات حضرت نوح (علیه السلام) نے بھی اپنی قوم سے کہی تھی کہ: آیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ پروردگار کی جانب سے ایک ایسے شخص پر وحی ہوئی ہے جو تم میں سے ہے تاکہ وہ اس عذاب سے تم کو ڈرائے جو تمھارے اعمال بد کی وجہ سے تم کو درپیش ہے؟

 

( اٴَوَعَجِبْتُمْ اٴَنْ جَائَکُمْ ذِکْرٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَلیٰ رَجُلٍ مِنْکُمْ لِیُنذِرَکُمْ) ۔
اس کے بعد ان کے سوئے ہوئے جذبات کو بیدار کرنے کے لئے اور ان کی روح کے اندر احساس شکر گزاری کو برانگیختہ کرنے کے لئے خدا کی بعض نعمتوں کی یاد دہانی کرواتے ہیں:اس بات کو دھیان میں لاؤ کہ خدا وند کریم نے تمھیں قوم نوح (علیه السلام) کا جانشین بنایا اور جب وہ لوگ اپنی سرکشی کے باعث برباد ہوگئے ان کی تمام وسیع زمینوں کا مالک ووارث تمھیں بنادیا، ایسی زمینیں جو طرح طرح کی نعمتوں سے مالامال تھیں،

 

( وَاذْکُرُوا إِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ) ۔
اس کے علاوہ تم کو غیر معمولی قوت جسمانی عطا کی ( وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَسْطَةً) ۔
یہ جملہ ”وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَسْطَة“ (تم کو خلقت کے لحاظ سے وسعت عطا کی ) جیسا کہ ہم سابقہ کہا ممکن ہے اس سے قوم عاد کی جسمانی قوت کی طرف اشارہ مقصود ہو، کیوں کہ قرآن کی مختلف آیات اور تاریخ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مضبوط ہڈیوں والے قوی ہیکل لوگ تھے، چنانچہ سورہ ”حم السجدہ“ کی آیت ۱۵ میں ہے:
”مَن اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً“
ہم سے کون زیادہ قوی ہے ۔
اور سورہٴ حاقہ میں آیت ۷ میں ان کی اس سزا کے بارے میں ہے جو ان کے اعمال کے نتیجہ میں ان کو دی گئی:
<فَتَرَی الْقَوْمَ فِیھَا صَرْعیٰ کَاٴَنَّھُمْ اٴَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ
تم قوم عاد کو دیکھتے کہ وہ لوگ طوفان ہوا کے نتیجے میں اس طرح زمین پر پڑے ہوئے تھے گویا درخت خرما کے تنے کٹے پڑے ہیں ۔
نیزممکن ہے کہ اس (بسطة) سے ان کی افزائش ثروت ، مالی قدرت، ان کا ظاہری ترقی یافتہ تمدن مراد ہو جیسا کہ قرآن کی دیگر آیات اور تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے، لیکن پہلا احتمال ظاہر آیت سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔
آخر میں حضرت ہود (علیه السلام) اپنی خود غرض قوم سے فرماتے ہیں کہ: خدا کی طرح طرح کی نعمتوں کا دھیان میں لاؤ تاکہ تمھارا احساس شکر گزاری بیدار ہو اور اس کے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کرکے نجات پاجاؤ( فَاذْکُرُوا آلَاءَ اللهِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ) ۔
لیکن حضرت ہود (علیه السلام)کی ان تمام نصیحتوں، ہدایتوں اور یاددہانیوں سے انھوں نے کوئی اثر نہ لیا بلکہ اپنے مادی مفادات کو خطرہ میں پڑتا دیکھ کر الٹا مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور انھوں کھلم کھلا یہ اعلان کردیا کہ :کیا تم اس لئے آئے ہو کہ ہمیں خدائے یگانی کی طرف دعوت دو اور ان تمام معبودوں کو ہم چھوڑ دیں جن کی ہمارے آباؤاجداد سالہا سال سے پرستش کرتے چلے آئیں ہیںاو ر ان کی عظمت کا سکہ ہمارے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے؟! ایسا ہرگز نہ ہوگا(قَالُوا اٴَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللهَ وَحْدَہُ وَنَذَرَ مَا کَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُنَا) ۔
جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ ان کے افکار کی سطح اس قدر گری ہوئی تھی کہ وہ خدائے وحدہ لاشریک کی پرستش سے سخت ہراساں تھے اور جدا جدا اور متعدد خداؤں کی پرستش کو اپنا سرمایہ افتخار خیال کرتے تھے، لطیفہ یہ کہ ان کی ساری دلیل اپنے اس خلاف عقل فعل پر صرف یہی تھی کہ وہ اپنے بزرگوں کو ایسا کرتے دیکھ چکے ہیں، ورنہ ان کے پاس اور کونسی معقول دلیل ہوسکتی تھی جس کی بنا پر وہ چند پتھر یا لکڑی کے ٹکڑوں کی تعظیم کرنے کی توجیہ کرسکیں ۔
حضرت ہود (علیه السلام) کی امید کو کلی طور سے اپنے قطع کرنے کے لئے حرف آخر کے طور پر انھوں نے یہ کہہ دیا کہ :”اگر تم واقعاً سچ کہتے ہو اور اس عذاب کی کچھ حقیقت ہے جس سے تم ڈراتے رہے ہو تو جتنا بھی جلدی تم سے ہوسکے یہ عذاب ہماری طرف لے آؤاور ہم کو بالکل نیست ونابود کردو“(یعنی ہم کو تمھاری ان دھمکیوں کا ذرہ برابر خیال نہیں ہے) ( فَاٴْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ کُنتَ مِنَ الصَّادِقِینَ) ۔
جب بات یہاں تک پہنچی کہ انھون نے اپنی آخری بات بھی کہہ دی جو اس بات کی علامت تھی کہ انھوں نے ہدایت قبول کرنے سے قطعاً اعراض کر لیا ہے حضرت ہود (علیه السلام) بھی ان کی ہدایت سے مایوس ہوگئے تو حضرت ہود (علیه السلام) نے کہا کہ اچھا جب ایسا ہے تو جان لو عذاب الٰہی اور غضب خدا یقینی طور پر تمھارے اوپر نازل ہوگا(قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ ) ۔
”رجس“ کے معنی درحقیقت ہر ناپاک چیز کے ہیں، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس لفظ کے مصدر ”ر ج س“ کے معنی زیادہ وسیع ہیں یعنی ”ہر وہ چیز جو لوگوں کی دوری اور نفرت کا سبب بنے“ لہٰذا ہر طرح کی ناپاکی نجاست اور سزا کو ”رجس“ کہتے ہیں، کیوں کہ یہ سب امور انسان کی دوری اور نفرت کا سبب بنتے ہیں، ہر صورت یہ لفظ آیت مذکورہ میں ممکن ہے سزائے الٰہی اور عذاب الٰہی کے معنی میں مستعمل ہو، اس کا ذکر لفظ ”قد وقع“ (ماضی کے صیغہ ) کے ساتھ اس لئے ہے کہ یقینی طور پر تم عذاب کے مستحق ہوگئے ہو، اب یہ عذاب تمھیں دامنگیر ضرور ہوگا ۔
نیز ممکن ہے ”رجس“ ”روح کی پلیدی اور آلائش“ کے معنی میں ہو، یعنی تم گمراہی اور فساد کے گرداب میں اس قدر غرق ہوگئے ہو کہ تمھاری روح طرح طرح کی آلائشوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی ہے؟اس بنا پر خدا کے عذاب کے مستحق بن گئے ہو ۔
اس کے بعد ایک جملے کا اور اضافی کیا گیا ہے تاکہ بتوں کے بارے میں ان کی منطق بغیر جواب کے نہ رہ جائے وہ جملہ یہ ہے:کیا تم ان چیزوں کے بارے میں جن کا صرف نام ہی خدا ہے اور یہ نام تمھارے بزرگوں نے ان کے لئے گھڑا ہے، اور وہ جھوٹ موٹ کچھ خاصیتیں اور کرامتیں ان سے منسوب کرتے چلے آئے ہیں، مجھ سے جھگڑا کرتے ہو، جب کہ خدا کی جانب سے ان کی حمایت میں کوئی دلیل نازل نہیں ہوئی ہے-

 

 (اٴَتُجَادِلُونَنِی فِی اٴَسْمَاءٍ سَمَّیْتُمُوھَا اٴَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا نَزَّلَ اللهُ بِھَا مِنْ سُلْطَانٍ) ۔۔
واقعہ یہ ہے تمھارے بت صرف الوہیت کا اسم بدون مسمیٰ رکھتے ہیں، اسم بھی وہ جو تمھارا اور تمھارے بزرگوں کا ساختہ پرداختہ اور خیال خام ہے ورنہ یہ لکڑی کے کچھ ٹکڑے جنگل کے دیگر ٹکڑوں سے مختلف نہیں ہیں ۔
اس کے بعد کہا: اب جب کہ ایسا ہے تو پھر تم بھی انتظار کرو، میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرو، تم یہ انتظار کرو کہ آنے والی مصیبت میں یہ بت تمھاری مددرکریں گے اور میں اس انتظار میں رہوں گا کہ خدا دردناک عذاب تمھارے اوپر نازل ہو، آئندہ پتہ چلے گا کہ ان دونوں انتظاروں میں کونسا انتظار حقیقت سے نزدیک تھا( فَانتَظِرُوا إِنِّی مَعَکُمْ مِنَ الْمُنتَظِرِینَ) ۔
زیر بحث آیت کے آخر میں اس ضدی اور ہٹ دھرم قوم کا انجام مختصر لفظوں میں اس طرح بیان ہوا ہے : ہم نے حضرت ہود (علیه السلام) کو اور جو لوگ ان کے ہمراہ تھے ان کو اپنے لطف ورحمت کے ذریعے نجات دے دی اور ان لوگوں کی بیخ کنی کردی جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے اور آمادہ نہ ہوئے کہ حق کے سامنے سرتسلیم خم کردیں ہم نے ان کو تہس نہس کردیا( فَاٴَنجَیْنَاہُ وَالَّذِینَ مَعَہُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَمَا کَانُوا مُؤْمِنِینَ) ۔
”دابر“ لغت میں در اصل ہر چیز کے اختتام اور آخری حصے کو کہتے ہیں، بنا بریں آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے اس قوم کو آخر تک نابود کردیا اور ان کی جڑ تک کو اکھاڑ پھینکا ۔
(قوم ”عاد“کا بقیہ قصہ،ان کی خصوصیات زندگی اور عادتیں،ان پر نازل ہونے والے عذاب کی کیفیت انشا اللہ آنے والے صفحات میں سورة ”ہود“ کی تفسیر میں تفصیل کے ساتھ پیش کی جائے گی)

 

 

 

۷۳ وَإِلیٰ ثَمُودَ اٴَخَاھُمْ صَالِحًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرُہُ قَدْ جَائَتْکُمْ بَیِّنَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ ھٰذِہِ نَاقَةُ اللهِ لَکُمْ آیَةً فَذَرُوھَا تَاٴْکُلْ فِی اٴَرْضِ اللهِ وَلَاتَمَسُّوھَا بِسُوءٍ فَیَاٴْخُذَکُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ-
۷۴ وَاذْکُرُوا إِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّاٴَکُمْ فِی الْاٴَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِنْ سُھُولِھَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُیُوتًا فَاذْکُرُوا آلَاءَ اللهِ وَلَاتَعْثَوْا فِی الْاٴَرْضِ مُفْسِدِینَ-
۷۵ قَالَ الْمَلَاٴُ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا مِنْ قَوْمِہِ لِلَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِمَنْ آمَنَ مِنْھُمْ اٴَتَعْلَمُونَ اٴَنَّ صَالِحًا مُرْسَلٌ مِنْ رَبِّہِ قَالُوا إِنَّا بِمَا اٴُرْسِلَ بِہِ مُؤْمِنُونَ-
۷۶ قَالَ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا إِنَّا بِالَّذِی آمَنتُمْ بِہِ کَافِرُونَ-
۷۷ فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ اٴَمْرِ رَبِّھِمْ وَقَالُوا یَاصَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ کُنتَ مِنَ الْمُرْسَلِینَ-
۷۸ فَاٴَخَذَتْھُمْ الرَّجْفَةُ فَاٴَصْبَحُوا فِی دَارِھِمْ جَاثِمِینَ-
۷۹ فَتَوَلَّی عَنْھُمْ وَقَالَ یَاقَوْمِ لَقَدْ اٴَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَةَ رَبِّی وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلَکِنْ لَاتُحِبُّونَ النَّاصِحِینَ-
ترجمہ
۷۳۔ہم قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا انھوں نے کہا اے میری قوم! خدا کی پرستش کرو، اس کے علاوہ تمھارا کوئی معبود نہیں ہے، ایک روشن دلیل تمھارے لئے تمھارے پروردگار کی طرف سے آئی ہے، یہ اللہ کا ناقہ تمھارے لئے معجزہ ہے،اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو کہ وہ خدا کی زمین میں (جنگلی گھاس پھوس میں سے ) چرے، اور اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچانا ورنہ تمھیں دردناک عذاب آلے گا ۔
۷۴۔اور اس چیز کو اپنے دھیان میں لاؤ کہ خدا نے تمھیں قوم عاد کا جانشین بنایا اور (ان کی ) زمین میں تمھیں بسایا تاکہ اس کے ہموارخطہ میں تم اپنے لئے قصر بناؤ اور پہاڑوں میں (بھی) اپنے واسطے گھر تراشولہٰذا اللہ کی ان نعمتوں کو یاد کرو، اور زمین میں فساد نہ کرو ۔
۷۵۔ لیکن ان (صالح (علیه السلام) ) کی قوم کے متکبر سرداروں نے ان مستضعف (غریب لوگوں) سے پوچھا کیا (واقعی) تم کو یہ یقین ہے کہ صالح اپنے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں، انھون نے جواب دیا کہ ہم اس چیز پر (اچھی طرح سے) ایمان لائے ہیں جس کا ان کو (اللہ کی جانب سے) حکم دیا گیا ہے ۔
۷۶۔متکبر افراد نے کہا کہ (مگر) ہم تو اس چیز کے کافر ہیں جس پر تم لوگ ایمان لائے ہو ۔
۷۷۔ اس کے بعد انھوں نے ناقہ کی پونچیں کاٹ دی اور اپنے پروردگار کے حکم سے روگردانی کی اور کہا کہ اے صالح! اگر تم (واقعا) خدا کے فرستادہ ہو تو جس (عذاب ) سے ڈراتے ہو اس کو لے آؤ۔
۷۸۔آخر کار انھیں زلزلہ نے آلیااور وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں جسم بے جان ہوکر رہ گئے ۔
۷۹۔پس (صالح نے) ان سے منہ پھیر لیا اور کہا :اے میری قوم! میں نے اپنے رب کا پیغام تمھیں پہنچادیااور جو خیرخواہی کا حق تھا وہ ادا کردیا، مگر میں کیا کروں کہ تم اپنے خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے ۔
تفسیر

حضرت نوح (علیه السلام) پہلے اولوالعزم پیغمبر قوم ثمود کی عبرت انگیز سرگزشت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma