سب سے پہلا قیاس کرنے والا شیطان تھا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
ابلیس کی سرکشی اور عصیان کا ماجراایک استثناء

اردو

اہل بیت طاہرین علیہم اسلام کی متعد و حدیثوں میں اس بات کی شدت سے مذہب کی گئی ہے کہ احکام دین میں ”قیاس“ سے کام لیا جائے اب ان روایات میں ہم پڑھیں گے کہ جس شخص نے سب سے پہلے قیاس کیا وہ ابلیس تھا ۔(۱)
مدارک و کتب اہل سنت میں بھی جیسے تفسیر المنار اور تفسیر طبری میں یہی بات ابن عباس اور حسن بصری سے نقل کی گئی ہے ۔(۲)
”قیاس“ سے مراد یہ ہے کہ دو موضوع جو بعض جہات میں ایک دوسرے سے مشابہ ہوں ان میں سے ایک کا دوسرے پر قیاس کیا جائے اور وہی حکم جو پہلے موضوع کا ہے دوسرے موضوع میں بھی اسے جاری کیا جائے ، بغیر اس کے کہ پہلے حکم کے اسرار اور فلسفے کا ہمیں علم ہو مثلاً یہ کہ ہمیں معلوم ہے کہ انسان کا پیشاب نجس و ناپاک ہے، اور اس سے پرہیز کرنا چاہئے، اس کے بعد ہم انسان کے ”پسینہ“ کا بھی اس پر قیاس کریں اور کہیں کہ چونکہ یہ دونوں سیّال بعض حیثیتوں سے اور اپنے بعض اجزائے ترکیبی کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں لہٰذا دونوں ناپاک و نجس ہیں، حالانکہ یہ دونوں سیّال اگر چہ بعض جہات سے ایک دوسرے کے مشابہ ہیں لیکن دیگر جہات سے مختلف بھی ہیں ، ایک رقیق ہے دوسرا قدرے گاڑھا ہے ۔ ایک سے اجتناب کرنا آسان ہے، دوسرے سے بہت مشکل ہے علاوہ بریں پیشاب سے اجتناب کرنے کا فلسفہ پورے طور سے ہمیں نہیں معلوم، لہٰذا یہ مقایسہ انداز ے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
اسی وجہ سے ہمارے پیشواؤں نے جن کے ارشادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرامین سے ماخوذ ہیں، قیاس کی سخت مذمّت کی ہے اور اسے بالکل باطل جانا ہے کیونکہ اگر ”قیاس“ کا دروازہ ہر شخص کے لئے کھل جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہر شخص اپنے محدود مطالعے اور کوتاہ فکر کے باوجود احکام شریعت میں قیاس سے کام لینے لگے گا اور جہاں بھی دوچیزوں میں تھوڑی مشابہت دیکھی ایک کا حکم دوسری پر لگادے گا اور اس طرح قوانین اسلام اور شریعت کے احکام میں ہرج مرج واقع ہوجائے گا ۔
عقل کی رو سے بھی قیاس کا ممنوع ہونا صرف دینی قوانین پر موقوف نہیں ہے، بلکہ ڈاکٹر بھی کہتے ہیں کہ ایک بیمار کا نسخہ دوسرے بیمار کو ہرگز نہ استعمال کرایا جائے چاہے دونوں کی بیماری ظاہری طور پر ایک جیسی ہو ۔ اس کی وجہ ظاہرہے کیونکہ دونوں بیمار ممکن ہے ہماری نظر میں آپس میں مشابہ ہوں، لیکن بہت سی چیزوں میں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں، جیسے دوا کے لئے قوت برداشت، خون کا گروپ اور خون میں شکر اور چربی کی مقدار۔ ایک عام شخص ہرگز ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتا اور نہ ان کی تشخیص کرسکتا ہے انھیں تو ایک ماہر طبیب ہی سمجھ سکتا ہے ۔ اگر ان خصوصیات پر نظر رکھے بغیر ایک مریض کی دوا دوسرے مریض کو دے دی جائے تو بجائے فائدہ پہنچانے کے ہوسکتاہے اسے الٹا نقصان پہنچ جائے، نقصان بھی ایسا جس کا کوئی تدارک اور علاج نہ ہوسکے ۔
یہ ایک مثال تھی، ورنہ احکام الٰہی اس سے بھی زیادہ پیچیدہ اور نازک ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ اگر احکام خدا کے بارے میں قیاس کیا جائے تو دین خدا مٹ جائے گا یا یہ کہ قیاس کی خرابیاں اس کے فائدے سے زیادہ ہیں ۔(3)
علاوہ بریں احکام الٰہی معلوم کرے کے لئے قیاس کا سہارا لینا اس بات کی نشانی ہے کہ دین اسلام نامکمل ہے کیونکہ اگر ہم یہ مان لیں کہ ہمارے دین میں ہر موضوع کے متعلق کوئی نہ کوئی حکم ضرور موجود ہے اور زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس پر قرآن و حدیث نے روشنی نہ ڈالی ہو تو پھر قیاس کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ”شیعہ“ مکتب کے ماننے والے قیاس پر عمل نہیں کرتے کیونکہ وہ اپنے تمام ضروری احکام دین اہلبیت طاہرین سے حاصل کرتے ہیں جو پیغمبر اکر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حقیقی نائب اور وارث ہیں ۔ لیکن فقہائے اہلسنت نے چونکہ مکتب اہل بیت (جس کے متعلق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان تھا کہ قرآن کے بعد مسلمانوں کی پناہ گاہ ہے) کو نذر طاق نسیاں کردیا ہے اور اس بناء پر احکام اسلامی کے مدارک کی ان کے پاس کمی ہوگئی ہے، لہٰذا ان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا ہ وہ ”قیاس“ کی طرف دست سوال دراز کریں ۔
اب رہا شیطان کا معاملہ جس کے متعلق روایات میں ملتا ہے کہ وہ پہلا فرد ہے جس نے قیاس سے کام لیا اس میں نکتہ یہ ہے کہ اس نے اپنی مادی خلقت کوآدم کی خلقت پر قیاس کیا اور بعض جہات سے خاک پرآگ کی برتری کو، آگ کی کلی برتری کی دلیل قرار دیا اس نے خاک کے دیگر امتیازات پر نظر نہ کی اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس نے آدم کے روحانی و معنوی امتیازات پر توجہ نہیں کی ۔ اصلاحاً اس قیاس کو ”قیاس اولویت“ کہا جاتا ہے ۔ اس نے اس قیاس کے ذریعے جو محض تخمین و گمان اور سطحی مطالعے پر منبی تھا، اپنے کو آدم سے بہتر و برتر سمجھ لیا حتیٰ کہ اس نے اسی باطل قیاس کے بل بوتے پر فرمان الٰہی کو ٹھکرانے کی جرئت کی ۔
قابل توجہ امر ی ہے کہ شیعہ اور سنی دونوں طریقوں سے امام جعفر صادق علیہ السلام سے جو روایات منقول ہیں ان میں ہے کہ:
”من قاس امرالدین براٴیہ قرنہ اللّٰہ تعالٰی یوم القیامة بابلیس“۔
جو شخص دین کے امور میں اپنے قیاس کو کام میں لائے گا، اسے خدا بروز قیامت ابلیس کے ساتھ ملائے گا ۔(4)
خلاصہ یہ کہ ایک موضوع کا دوسرے موضوع پر قیاس کرنا، بغیر اس کے کہ اس کے تمام اسرار و رموز سے آگاہی ہو ان دونوں موضوعوں کے لئے ایک جیسے حکم کی دلیل نہیں بن سکتا ۔ اگر مسائل مذہبی میں یاس کا راستہ کھُل جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ احکام الٰہی کا کوئی ضابطہ باقی نہ رہے گا کیونکہ اس امر کا امکان ہوگا کہ ایک شخص کسی موضوع میں اپنی سمجھ کے مطابق قیاس کرے اور اس سے تحریم کا حکم اخذ کرے جبکہ کوئی دوسرا شخص اسی موضوع کو دوسرے موضوع پر قیاس کرے اور اس سے حلال ہونے کا نتیجہ نکالے ۔

 


۱۔تفسیر نور الثقلین جلد دوم ص ۶۔
۲۔تفسیر المنار جلد ۸ ص ۳۳۱، تفسیر طبری جلد ۸ ص ۹۸، تفسیر قرطبی جلد ۴ ص ۲۶۰۷۔
3۔ وسائل الشیعہ ج ۱۸ باب قیاس کی طرف رجوع کریں ۔
4۔ تفسیر ”المنار“ جلد ۸، ص ۳۳۱، تفسیر نور الثقلین جلد ۲ ص ۷۔
 
ابلیس کی سرکشی اور عصیان کا ماجراایک استثناء
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma