اعراف، جنت کی طرف ایک اہم گزرگاہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
یہ ندا کرنے والا کون ہے؟اصحاب اعراف کون لوگ ہیں؟

پچھلی آیا ت میں دوزخیوں اور جنتیوں کی مختصر سرگزشت بیان کرنے کے بعد ان آیا میں ”اعراف‘ کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔ ”اعراف“ جنت اور دوزخ کے درمیان کا وہ علاقہ ہے جو دونوں مقاموں کے درمیان حدِفاصل کا کام کرتا ہے، اس مقام کی خصوصیات بیان فرمائی گئی ہیں ۔
سب سے پہلے جنتیوں اور دوزخیوں کے درمیان جو پردہ ہوگا اس کا ذکر کیا گیا ہے، فرماتا ہے: ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک پردہ ہوگا(وَبَیْنَھُمَا حِجَابٌ) ۔
بعد والی آیتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حجاب ”اعراف“ ہی ہے جو ایک بلند جگہ ہوگی ان دونوں گروہوں کے درمیان، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں گے، لیکن یہ جگہ ایک دوسرے کی آواز سننے سے مانع نہ ہوگی جیسا کہ آیات میں گذرا ہے، کیونکہ ہم نے بہت دیکھا ہے کہ ہمسایہ کے لوگ ایک دوسرے سے پس دیوار بات کرلیتے ہیں اور ایک دوسرے کا حال دریافت کرتے ہیں، جبکہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے، البتہ وہ افراد جو اعراف کے اوپر ہیں یعنی اس بلند مانع کے اوپر والے حصّہ پر واقع ہیں، وہ دونوں گروہوں کودیکھ سکتے ہیں (اچھی طرح سے غور کریں)
اگرچہ بعض آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض اہلِ جنت کو اتنا موقع ملے گا وہ گاہ بگاہ اپنے مقام سے اپنا سر باہر نکال دوزخیوں کو دیکھیں گے (جیسا کہ سورہٴ صافات کی آیت ۵۵ میں ہے) لیکن اس طرح کا استثناء دوزخ وجنت کی اصلی وضعیت کے منافی نہیں ہے ، اوپر کچھ بیان کیا گیا ہے اس میں جنت اور دوزخ کی اصلی وضعیت کو بیان کیا گیا ہے اگرچہ یہ قانون استثناء پذیر ہے، ممکن ہے کہ بعض حالات میں بعض بہشتی افراد دوزخیوں کو دیکھ سکیں ۔
”اعراف“ کی کیفیت بیان کرنے سے پہلے جو بات تاکیدی طور پر بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ روز قیامت اور جہاں آخرت کے متعلق جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور جس طرح کی تعبیریں استعمال کی گئی ہیں ان میںاس کی صلاحیّت نہیں ہے کہ وہ حقائقِ اُخروی کا پورے طور پر اور تمام خصوصیات کے ساتھ نقشہ کھینچ سکیں، اس لئے بعض اوقات ان الفاظ میں صرف تشبیہ اور مثال کا رنگ ہوتا ہے اور کبھی اس کا صرف ایک سایہ اور خاکہ پیش کرنا مقصود ہوتا ہے، کیونکہ آخرت کے جہان کی زندگی بہت زیادہ وسیع ہے، لہٰذا جو الفاظ ومعانی اس دُنیا کے لئے وضع کئے گئے ہیں اگر ان سے جہانِ آخرت کے حقائق کی ترجمانی نہ ہو تو یہ کوئی جائے تعجّب نہ ہوگی ۔
بعد ازان قرآن بیان کرتا ہے کہ: اعراف پر کچھ مرد کھڑے ہوں گے جو دوزخ والوں اور جنت والوں میں سے ہر ایک کو ان کے ٹھکانوں میں دیکھ رہے ہوں گے اور ان کی علامتوں سے انھیں پہچانیں گے (وَعَلَی الْاٴَعْرَافِ رِجَالٌ یَعْرِفُونَ کُلًّا بِسِیمَاھُمْ) ۔
”اعراف“ لُغت میں جمع ہے ”عرف“ (بروزن ”گُفت“)کی جس کے معنی اونچی کے ہیں، اسی وجہ سے گھوڑے کی گردن کے بالوں کو اور مرغے کی گردن کے پروں کو بھی ”عرف الفرس“ یا ”عرف الدیک“ کہتے ہیں کیونکہ یہ بال وپَر ان کے جسم کی اونچی جگہ پر ہوتے ہیں (سرزمین اعراف کی خصوصیات کے بارے میں اس آیت کی تفسیر کے بعد روشنی ڈالی جائے گی) ۔
اس کے بعد فرماتا ہے کہ ”جو مرد اعراف پر کھڑے ہوں گے وہ اہلِ بہشت کو ندا کریں اور کہیں گے کہ تم پر سلام ہو لیکن وہ خود جنت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے، اگرچہ ان کا دل بہت چاہتا ہوگا (وَنَادَوْا اٴَصْحَابَ الْجَنَّةِ اٴَنْ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ لَمْ یَدْخُلُوھَا وَھُمْ یَطْمَعُونَ) ۔
لیکن جس وقت وہ دوسری طرف نظرڈالیں گے اور دوزخیوں کو دوزخ کے اندر دیکھیں گے تو خدا کی بارگاہ میں التماس کریں گے کہ پروردگارا! ہم کو ستمگاروں کی جماعت میںقرار نہ دینا (وَإِذَا صُرِفَتْ اٴَبْصَارُھُمْ تِلْقَاءَ اٴَصْحَابِ النَّارِ قَالُوا رَبَّنَا لَاتَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ)(۱) ۔
یہاں پر یہ بات قابلِ توجّہ ہے کہ دوزخیوںکے دیکھنے کے متعلق مذکورہ بالا آیت میں ”وَإِذَا صُرِفَتْ اٴَبْصَارُھُمْ “ کا جملہ آیا ہے، یعنی جب ان کی نگاہیں دوزخیوں کی طرف پلٹائی جائیں گی، یہ فی الحقیقت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اعراف والوں کو دوزخیوں کے دیکھنے سے نفرت ہوگی اور انھیں ایک طرح کی مجبوری کی بناپر دیکھیں گے ۔
اس کے بعد کی آیت میں مزید فرمایا گیا ہے: اصحابِ اعراف بعض دوزخیوں کو ان کے چہرے مہرے سے لگاکر پہچان کر انھیں پکاریں گے اور انھیں اپنی ملامت اور سرزنش کا نشانہ بنائیں کہ آخر تم نے دیکھا کہ دُنیا میں تمھارے مال جمع کرنے، افرادی قوت جمع کرنے اور تکبّر کے باعث قبول حق سے گریز کرنے کا کیا نتیجہ نکلا، وہ سب مال کہاں گیا اور وہ لوگ کیا ہوئے جو تمھارے چاروں طرف اکھٹے تھے اور جو تکبّر اور خود رستی تم نے اختیار کی تھی اس سے تمھیں سوائے جہنم کے کیا حاصل ہُوا (وَنَادیٰ اٴَصْحَابُ الْاٴَعْرَافِ رِجَالًا یَعْرِفُونَھُمْ بِسِیمَاھُمْ قَالُوا مَا اٴَغْنَی عَنْکُمْ جَمْعُکُمْ وَمَا کُنتُمْ تَسْتَکْبِرُونَ) ۔
دوبارہ اسی ملامت وسرزنش کے لہجے میں جبکہ وہ ان ضعیف الحال موٴمنین کی طرف اشارہ کررہے ہوں گے جو اعراف پر ہوں گے، یہ کہیں گے: آیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے متعلق تم قسم کھاتے تھے کہ خدا ان پر کبھی رحمت نہ کرے گا (اٴَہَؤُلَاءِ الَّذِینَ اٴَقْسَمْتُمْ لَایَنَالُھُمْ اللهُ بِرَحْمَةٍ) ۔
آخرکار الله کی رحمت ان لوگوں کے بھی شاملِ حال ہوگی اور ان سے خطاب ہوگا، جنت میں چلے جاؤ نہ تمھارے لئے کوئی خوف ہے اور نہ وہاں تمھیںکوئی غم واندوہ ہوگا (ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لَاخَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَلَااٴَنْتُمْ تَحْزَنُونَ) ۔
جو کچھ ہم نے کہا اس سے یہ معلوم ہوا کہ ضعیف الحال موٴمنین سے مراد وہ افراد ہیں جو ایمان رکھتے تھے اورنیک اعمال بھی بجالاتے تھے، لیکن بعض گناہوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے دشمنوں کی جانب سے ہمیشہ ان کی تحقیر وتوہین ہوا کرتی تھی اور وہ ان کو دیکھ کر یہ کہا کرتے تھے کہ ایسے لوگ (بھلا جنت میں کیا جائیں گے اور) رحمتِ الٰہی کے سایہ میں کیسے جائیں گے؛ لیکن آخرکار اپنی روح ایمانی اور نیکیوں کی وجہ سے الله کی رحمت ان کے شامل حال ہوجائے گی اور ان کا انجام بخیر ہوگا ۔

 


۱۔ بعض مفسرین اور اہل ِ ادب کے نزدیک ”تلقاء“ در اصل مصدر ہے اور مقابلہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، لیکن بعد میں طرف مکان کے معنی بھی استعمال کیا جانے لگا، یعنی مقابلہ کی جگہ اور سامنے کی سمت۔
 
یہ ندا کرنے والا کون ہے؟اصحاب اعراف کون لوگ ہیں؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma