بے جا اور محال توقعات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
بہانہ سازوں کو ایک قطعی جوابعمل صالح کے بغیر ایمان کا کوئی فائدہ نہیں

پچھلی آیتوں میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے مشرکین پر اتمام حجّت کردیا ہے اور آسمانی کتاب یعنی قرآن کو سب کی ہدایت کے لئے بھیج دیا ہے تاکہ لوگوں کو اپنی مخالفت کی توجیہہ کے لئے کسی بہانہ کا موقع نہ ملے۔
یہ آیت کہتی ہے : لیکن یہ ضدی لوگ اپنے طریقہٴ کار میں اس قدر سخت ہیں کہ یہ واضح دستور العمل (قرآن) بھی ان پر اثر انداز نہیں ہوتا، گویا انھیں اپنی نابودی یا آخری موقع کے کھودینے یا محال باتوں کا انتظار ہے۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: انھیں سوائے اس کے اور کسی چیز کا انتظار نہیں ہے کہ موت کے فرشتے انھیں لینے آجائیں (ھَلْ یَنظُرُونَ إِلاَّ اٴَنْ تَاٴْتِیَھُمَ الْمَلَائِکَةُ)۔
یا یہ کہ تیرا پروردگار ان کے پاس آجائے تاکہ یہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور ایمان لے آئیں (اٴَوْ یَاٴْتِیَ رَبُّکَ)۔
در حقیقت یہ لوگ امرِ محال کی توقع کررہے ہیں نہ یہ کہ خدا کا آنا یا اس کا دیکھنا ایک ممکن امر ہے، اس کی مثال بالکل یوں ہے کہ ہٹ دھرم قاتل جسے اس کے جرم کے ثبوت کے لئے کافی دلیلیں پیش کی جائیں لیکن پھر بھی وہ قائل نہ ہو تو اس سے ہم کہیں کہ اگر یہ تمام ثبوت بھی قبول کرنے پر تیار نہیں ہو تو شاید اس بات کا انتظار ہےں کہ اب خود مقتول زندہ ہوکر عدالت میں آئے اور یہ گواہی دے کہ تم نے اسے قتل کیا ہے۔
اس کے بعد فرماتا ہے: یا تمھیں اس بات کا انتظار ہے کہ بعض وہ نشانیاں آجائیں جو روز قیامت سے کچھ پہلے ظاہر ہوںگی اور ان کے ظاہر ہونے کے بعد توبہ کے دروازے بند ہوجائیں گے اور اس دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا (اٴَوْ یَاٴْتِیَ بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ)۔
یہاں رپر کلمہٴ ”آیات ربّک“ اگرچہ کلی طور سے اور سربستہ استعمال ہوا ہے لیکن بعد کے جملوں کے قرینہ سے جن کی تفسیر آگے آئے گی، ان آیات کو ”آیات روز محشر“ کے مفہوم میں لیا جاسکتا ہے جیسے وحشتناک زلزلے، سورج، چاند ستاروں کا بے نور ہو جانا اوراسی طرح کی دوسی نشانیاں جو روز قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی ہیں۔
یا اس سے مراد ان کے وہ نامعقول مطالبے ہیں جو پیغمبر اسلام صلی الله علیہ !آلہ وسلم سے کیا کرتے تھے، منجملہ ان کا ایک مطالبہ یہ تھا کہ ان کے سروں پر آسمانی پتھر برسیں یا یہ کہ عربستان کا خشک ریگستان بہتے ہوئے چشموں اور ہرے بھرے نخلستان سے بھر جائے۔
اسی کے ذیل میں یہ اضافہ فرمایا ہے کہ: جس روز بھی یہ نشانیاں ظاہر ہوں گی اس روز بے ایمانوں کا ایمان لانا اور ان لوگوں کا ایمان جنھوں نے کوئی نیک کام نہ کیا ہوگا قابل قبول نہ ہوگا اور توبہ کے دروازے بھی ان کے لئے بند کردیے جائیں گے کیونکہ توبہ اور ایمان لانا اُن حالات میں اجباری اور اضطراری کیفیت کا حامل ہوگا جو اختیاری توبہ اور ایمان کے ہم پایہ نہیں ہے (یَوْمَ یَاٴْتِی بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لَایَنفَعُ نَفْسًا إِیمَانُھَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اٴَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِھَا خَیْرًا)۔
ہم نے جوکچھ بیان کیا اس سے معلوم ہوا کہ جملہ ”اٴَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِھَا خَیْرًا“ کے معنی یہ ہیں کہ اس روز نہ صرف ایمان فائدہ بخش نہ ہوگا بلکہ ایسے لوگ بھی جو ایمان لائے ہیں مگر انھوں نے کوئی نیک کام نہیں کیا ہے، اس روز کوئی نیک کام کرنا بھی انھیں فائدہ نہیں پہنچائے گا کیونکہ اس وقت حالات ہی ایسے ہوں گے کہ ہر شخص بے اختیارانہ طور پر یہ چاہے گا کہ بُرے کاموں کو چھوڑدے اور نیک اعمال بجالائے۔
آیت کے آخر میں تہدید آمیز لہجہ میں ان ضدی افراد سے فرماتا ہے:۔ اچھا اب جبکہ تمھیں اس قسم کا انتظار ہے تو یہی انتظار کئے جاؤ، ہم بھی

(تمھارے دردناک انجام کے) انتظار میں رہیں گے (قُلْ انتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ)۔

بہانہ سازوں کو ایک قطعی جوابعمل صالح کے بغیر ایمان کا کوئی فائدہ نہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma