۲۔ شجرئہ ممنوعہ کونسا درخت تھا؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
۱۔ شیطانی وسوسے اور انسانی آزادی۳۔ آیا آدم نے گناہ کیا تھا؟

اردو

قرآن کریم میں بلاتفصیل اور بغیر نام کے چھ مقام پر ”شجرئہ ممنوعہ“ کا ذکر ہوا ہے لیکن کتب اسلامی میں اس کی تفسیر دو قسم کی ملتی ہے ۔ ایک تو اس کی تفسیر مادّی ہے جو حسب روایات ”گندم “ہے ۔(۱)
اس بات کی طرف توجہ رہنا چاہیےٴ کہ عرب لفظ ”شجرہ“ کا اطلاق صرف درخت پر نہیں کرتے ، بلکہ مختلف نباتات کو بھی ”شجرہ“ کہتے ہیں، چاہے وہ جھاڑی کی شکل میں ہوں یا بیل کی صورت میں اسی بناپر قرآن میں ”کدّو“ کی بیل کو بھی شجرہ کہا گیا ہے ۔
<وَاٴَنْبَتْنَا عَلَیْہِ شَجَرَةً مِنْ یَقْطِینٍ (صافات ۔۱۴۶)
دوسری تفسیر معنوی ہے جس کی تعبیر روایات اہلبیت علیہم السلام میں ”شجرئہ حسد“ سے کی گئی ہے ۔ ان روایات کا مفہوم یہ ہے کہ آدم نے جب اپنا مقام بلند و درجہ رفیع دیکھا تو یہ تصوّر کیا کہ ان کا مقام بہت بلند ہے اس سے بلند کوئی مخلوق اللہ نے نہیں پیدا کی ۔ اس پر اللہ نے انھیں بتلایا کہ ان کی اولاد میں کچھ ایسے اولیاء الٰہی (پیغمبر اسلام اور ان کے اہلبیت کرام علیہم السلام) بھی ہیں جن کا درجہ ان سے بھی بلند و بالا ہے ۔ اس وقت آدم میں ایک حالت حسد سے مشابہ پیدا ہوئی ۔(2) اور یہی وہ ”شجرہ ممنوعہ“ تھا جس کے نزدیک جانے سے آدم کو روکا گیا تھا ۔(3)
حقیقت امر یہ ہے کہ آدم نے (روایات کی بناپر) دو درختوں سے تناول کیا ۔ ایک درخت تو وہ تھا جو اُن کے مقام سے نیچے تھا ، اور انھیں مادّی دنیا میں لے جاتا تھا اور وہ ”گندم“ کا پودا تھا ۔ دوسرا درخت معنوی تھا، جو مخصوص اولیا ئے الٰہی کا درجہ تھا اور یہ آدم کے مقام و مرتبہ سے بالا تر تھا ۔ آدم نے دونوں پہلوؤں سے اپنی حد سے تجاوز کیا اس لئے ایسے انجام میں گرفتار ہوئے ۔
لیکن اس بات کی طرف توجہ رہے کہ یہ ”حسد“ حسد حرام کی قسم سے نہ تھا، یہ صرف ایک ، نفسانی احساس تھا جبکہ انھوں نے اس طرف قطعاً کوئی اقدام نہیں کیا تھا جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے آیاتِ قرآنی چونکہ متعدد معانی کی حامل ہیں لہٰذا اس امر میں کوئی مانع نہیں کہ ”شجرہ“ سے دونوں معنی مراد لے لئے جائیں ۔
اتفا قاً کلمہ ”شجرہ“ قرآن مجید میں دونوں معنی میں آیا ہے، کبھی تو انہی عام درختوں کے معنی میں، جیسے:
<وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُورِ سَیْنَاءَ تَنْبُتُ بِالدُّھْنِ (موٴمنون۔ ۲۰) ۔
جس سے مراد زیتون کا درخت ہے، اور کبھی شجرئہ معنوی کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے:
<وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِی الْقُرْآنِ (اسراء۔ ۶۰) ۔
جس سے مراد مشرکین یا یہودی یا دوسری باغی قومیں (جیسے بنی امیہ) ہیں ۔ اگر چہ بعض مفّسرین نے اس کے اور معنی بھی بیان کیے ہیں مگر سب کی طرف توجہ دلانا مناسب ہے (اگر چہ جلد اول میں بھی اس کا ذکر کیا ۔یا ہے) اور وہ یہ ہے کہ موجودہ خود ساختہ توریت میں، جو اس وقت کے تمام یہود و نصاری کی قبول شدہ ہے اس شجرہٴ ممنوعہ کی تفسیر ”شجرہٴ حیات و زندگی“ کی گئی ہے توریت کہتی ہے:
”قبل اس کے کہ آدم شجرئہ علم و دانش سے تناول کریں، وہ علم و دانش سے بے بہرہ تھے، حتیٰ کہ انھیں اپنی برہنگی کا بھی احساس نہ تھا ۔ جب انھوں نے اس درخت سے کھایا اس وقت وہ واقعی آدم بنے اور بہشت سے نکال دیئے گئے، کہ مبادا درخت حیات و زندگی سے بھی کھالیں اور خداؤں کی طرح حیات جاوانی حاصل کرلیں ۔“(4)
یہ عبارت اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ موجودہ توریت آسمانی کتاب نہیں بلکہ کسی ایسے کم اطلاع انسان کی ساختہ ہے جو علم ودانش کو آدم لے لئے معیوب سمجھتا تھا اور آدم کو علم ودانش حاصل کرنے کے جرم میں خدا کی بہشت سے نکالے جانے کا مستحق سمجھتا تھا ، گویا بہشت فہمیدہ انسانوں کے لئے نہیں ہے ۔
قال توجہ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر و لیم میلر (جسے عہدین خصوصاً انجیل کا ایک مقتدر مفسّر مانا گیا ہے) اپنی کتاب ”مسیحیت چیست“ (مسیحیت کیا ہے؟) میں رقمطراز ہے:
شیطان ایک سانپ کی شکل میں باغ کے اندر داخل ہوا اور اس نے حوا کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ اس درخت کے میوہ میں سے کھالیں چنانچہ حوا نے خود بھی کھایا اور آدم کو کھانے کو دیا اور انھوں نے بھی کھایا، ہمارے اولین والدین کا یہ عمل ایک معمولی اشتباہ پر مبنی نہ تھا یا ایک بے سوچی سمجھی خطا بھی نہ تھی بلکہ اپنے خالق کے برخلاف ایک جانا بوجھا عصیان تھا، دوسرے لفظوں میں وہ یہ چاہتے تھے کہ وہ خود ”خدا“ بن جائیں، وہ اس بات کے لئے آمادہ نہ تھے کہ خدا کے ارادہ کے مطیع بنیں بلکہ یہ چاہتے تھے کہ اپنی خواہش کو پایہٴ تکمیل تک پہنچائیں ۔ نتیجہ کیا ہوا؟خدا نے ان کی شدت سے سرزنش کی اور باغ (فردوس) سے باہر نکال دیا تاکہ درد و رنج سے بھری دنیا میں زندگی بسر کریں ۔(5)
توریت و انجیل کے اس مفسّر نے در حقیقت یہ چاہا ہے کہ ”شجرئہ ممنوعہ“ کی توجیہ کرے لیکن اس کی بجائے عظیم ترین گناہ یعنی خدا سے جنگ کی نسبت آدم کی طرف دے دی ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بجائے اس طرح کی پوچ تفسیروں کے کم از کم اپنی ”کتب مقدسہ“ میں نحریف کے قائل ہوجاتے ۔

 


۱۔ تفسیر ”نورالثقلین“ جلد اول ص ۵۹۔۶۰ و جلد دوم ص ۱۱ تفسیر سورہ بقرہ و اعراف۔
2۔ یہاں پر حسد سے مراد رشک ہے جو مستحسن ہے، لیکن درباب محمد و آل محمد محمد علیم السلام رشک بھی ممنوع ہے، جیسا کہ قصّہ آدم سے ظاہر ہے، عربی میں حسد کا اطلاق رشک پر بھی ہوا ہے ۔ (مترجم)
3۔ تفسیر” نورالثقلین“ جلد اول ص ۵۹۔۶۰ و جلد دوم ص ۱۱ تفسیر سورئہ بقرہ و اعراف۔
4۔سفر تکوین صل دوم نمبر ۱۷۔
5۔ کتاب ”مسیحیت چیست؟“ ص ۱۶-
۱۔ شیطانی وسوسے اور انسانی آزادی۳۔ آیا آدم نے گناہ کیا تھا؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma