ایک عبرت انگیز سرگزشت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 06
”حطّة“ کیا ہے اور اس کے کیا معنی ہیں؟یہودیوں کا پراکندہ ہونا

ایک عبرت انگیز سرگزشت

ان آیات میں بنی ا سرائیل کی ایک اور پُرحوادث سرگزشت کا ذکر ہے، اس میں بنی اسرائیل کی اس جماعت کا تذکرہ ہے جو سمندر کے کنارے رہتی تھی، مگر یہ کہ ان آیات میں خطاب پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے ہے اور ان سے کہا گیا کہ تم اپنے زمانے کے یہودیوں سے ان لوگوں کے متعلق سوال کرو، مقصد یہ ہے کہ اس واقعے کی یاد ان کے ذہنوں میں سوال کے ذریعے تازہ کرو تاکہ یہ اس سے عبرت حاصل کریں اور طغیان وسرکشی اور اس کے نتیجے میں انھیں جو سزا ملنے والی ہے اس سے اجتاب کریں ۔
جیسا کہ اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے یہ سرگزشت بظاہر ان یہودیوں کی ہے جو ایک سمندر (بظاہر بحیرہٴ احمر جو فلسطین کے پاس ہے) کے کنارے شہر ”راملہ“ (جسے آج کل ”ایلات“ کہتے ہیں) میں رہتے تھے، ان کی آزمائش کے لئے الله نے انھیں حکم دیا کہ ہفتہ کے روز مچھلی کا شکار نہ کریں، سارے دنوں میں شکاری کریں صرف ایک دن تعطیل کردیا کریں لیکن ان لوگوں نے اس حکم کی صریحاً مخالفت کی جس کے نتیجے میں وہ دردناک عذاب میں مبتلا ہوئے جس کی تفصیل ان آیات میں بیان کی گئی ہے ۔
پہلی آیت میںارشاد ہوتا ہے: جو یہودی تمھارے زمانہ میں موجود ہیں ان سے اس شہر کے ماجرے کے متعلق سوال کرو جو سمندر کے کنارے آباد تھا
(وَاسْاٴَلْھُمْ عَنْ الْقَرْیَةِ الَّتِی کَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ) ۔
کیونکہ ہفتہ کے روز ان کی تعطیل کا دن تھا جس میں ان کوحکم ملا تھا کہ اس روز وہ اپنا کاروبار ترک کردیں اور عبادتِ حدا میں مشغول ہوں لیکن انھوں نے اس حکم کی طرف کوئی توجہ نہ دی ۔
اس کے بعد قرآن کریم اس جملے کے جو اجمالی طور پر پہلے گزر چکا ہے اس طرح شرح کرتا ہے کہ یاد کرو ”جب ہفتہ کے دن مچھلیاں پانی کے اوپر ظاہر ہوتی تھیں اور دوسرے دنوں میں وہ کم دکھلائی دیتی تھیں“ (إِذْ یَعْدُونَ فِی السَّبْتِ إِذْ تَاٴْتِیھِمْ حِیتَانُھُمْ یَوْمَ سَبْتِھِمْ شُرَّعًا) ۔
”سبت“ کے معنی لغت میں استراحت کے لئے تعطیل کرنے کے ہیں اور یہ جو قرآن میں سورہٴ ”نباٴ“ (عمّ یتسائلون)میں ہم پڑھتے ہیں:
<وَجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا
ہم نے تمھاری نیندکواستراحت کا سبب قرار دیا ہے ۔
اس سے بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ مقصود ہے، چونکہ ہفتہ کے روز یہودیوں میں کاروبار بند ہوجاتا ہے اس لئے اس دن کو”سبت“ کہا جانے لگا اور یہی نام آج تک باقی رہ گیا ۔
یہ بات واضح ہے کہ لوگ سمندر کے کنارے زندگی بسر کرتے تھے ان کی خوراک اور آمدنی کا بڑا ذریعہ مچھلی کا شکار ہوتا تھا اور چونکہ ہفتہ کے روز مسلسل تعطیل ان کے درمیان رائج رہی تھی لہٰذا اس روز مچھلیاں امن محسوس کرتی تھیں اور وہ گروہ در گروہ پانی کی سطح پر ظاہر ہوتی تھیں لیکن دوسرے دنوں میں چونکہ ان کا شکار کیا جاتا تھا اس لئے وہ گہرے پانی میں بھاگ جاتی تھیں، بہرحال یہ کیفیت چاہے کسی فطری امر کے نتیجہ میں ہو یا کوئی خلاف معمول الٰہی بات ہو اس سے ان لوگوں کی آزمائش مطلوب تھی جیسا کہ قرآن بیان کرتا ہے:
ہم نے اس طرح ان لوگوں کی آزمائش کی اس چیز کے ذریعے جس کی وہ مخالفت کرتے تھے (کَذٰلِکَ نَبْلُوھُمْ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ)
در حقیقت جملہٴ ”بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ“ کے ذریعے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کی آزمائش اس چیز کے ذریعے کی گئی تھی جو انھیں اپنی طرف جذب کرتی تھی اور انھیں نافرمانی کی طرف دعوت دیتی تھی اور تمام آزمائش اسی طرح کی ہوتی ہیں، کیونکہ آزمائش کا کام یہ ہے کہ وہ کشش گناہ کے مقابلہ میں لوگوں کی قوت کو معین کرے، اگر گناہ اپنے میں کوئی کشش نہ رکھے تو آزمائش کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہتا ۔
جس وقت بنی اسرائیل اس بڑی آزمائش سے دوچار ہوئے جو ان کی زندگی کے ساتھ وابستہ تھی تو وہ تین گروہوں میں بٹ گئے:
اوّل: جن کی اکثریت تھی، وہ لوگ جنھوںنے اس فرمان الٰہی کی مخالفت پر کمر باندھ لی ۔
دوّم: جو حسب معمول ایک چھوتی اقلیت پر مشتمل تھا وہ گروہِ اوّل کے مقابلے میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرعی ذمہ داری ادا کرتا تھا ۔
سوّم: یہ وہ لوگ تھے جو ساکت اور غیرجانبدار تھے، یہ نہ تو گنہگاروں کے ساتھ تھے اور نہ انھیں گناہوں سے منع کرتے تھے ۔
دوسری زیرِ بحث آیت میں اس گروہ نے دوسرے گروہ سے جو گفتگو کی ہے اسے نقل کیا گیا ہے:اس وقت کو یاد جب ان میں سے ایک گروہ نے دوسرے سے کہا:
تم ان لوگوں کو کیوں وعظ ونصیحت کرتے ہو جنھیں آخرکار خدا ہلاک کرنے والا ہے یا دردناک عذاب میں مبتلا کرنے والا ہے (وَإِذْ قَالَتْ اٴُمَّةٌ مِنْھُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللهُ مُھْلِکُھُمْ اٴَوْ مُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِیدًا) ۔ (۱)
انھوں نے جواب میں کہا:ہم اس لئے برائی سے منع کرتے ہیں کہ خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری کو ادا کریں اور وہ اس بارے میں ہم سے کوئی بازپرس نہ کرے، علاوہ ازیں شاید ان کے دلوں میں ہماری باتوں کا اثر ہوجائے اور وہ طغیان وسرکشی سے ہاتھ اٹھالیں (قَالُوا مَعْذِرَةً إِلیٰ رَبِّکُمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَّقُونَ) ۔
مذکورہ بالا جملے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نصیحت کرنے والے دو غرض کے ماتحت یہ کام انجام دیتے تھے، ایک تو یہ کہ شاید گناہگاروں کے دل میں یہ بات اتر جائے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر احتمالِ تاثیر نہ بھی ہو تب بھی نصیحت کرنا چاہیے، جبکہ مشہور یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی اوّلین شرط یہ ہے کہ احتمال تاثیر ہو۔
لیکن اس بات کی طرف توجہ رکھنا چاہیے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حقائق اور اپنی ذمہ داریوں کا بیان کرنا واجب ہوجاتا ہے چاہے تاثیر کا احتمال نہ بھی ہو، ایسا اس وقت ہوتا ہے جب حالت یہ ہو کہ اگر حکمِ الٰہی بیان نہ کیا جائے اور گناہ پر تنقید نہ کی جائے تو وہ حکمِ الٰہی نذر طاقِ نسیان کردیا جائے گا، اس موقع پر ضروری ہے کہ حکمِ خدا کو آشکارا طور پر ہرجگہ بیان کیا جائے چاہے گنہگاروں پر اس کا کوئی اثر نہ ہو۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ نہی کرنے والے یہ کہتے تھے: ہم چاہتے ہیں کہ تمھارے پروردگار کی بارگاہ میں ہم معذور سمجھے جائیں، اس سے اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ تم بھی خدا کے سامنے مسئولیت رکھتے ہو یہ صرف ہماری شرعی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ تمھاری ذمہ داری بھی ہے ۔
اس کے بعد والی آیت کہتی ہے کہ: آخرکار دنیا پرستی نے ان پر غلبہ کیا ”اور انھوں نے خدا کے فرمان کو فرماوش کردیا، اس وقت ہم نے ان لوگوں کو جو لوگوں کو گناہ سے منع کرتے تھے، نجات دی، لیکن گناہگاروں کو ان کے گناہ کے سبب سخت عذاب میں مبتلا کردیا (فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ اٴَنْجَیْنَا الَّذِینَ یَنْھَوْنَ عَنْ السُّوءِ وَاٴَخَذْنَا الَّذِینَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِیسٍ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ) ۔ (2)
اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ ”‘فراموشی“ ایسی حقیقی فراموشی نہ تھی جو موجب عذر ہوتی ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ انھوں نے خدائی فرمان سے اس طرح بے اعتنائی برتی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ انھوں نے اسے بالکل فراموش کردیا ہے ۔
اس کے بعد انھیں سزا دیئے جانے کی کیفیت اس طرح بیان فرمائی گئی ہے: انھوں نے اس بات کے مقابلے میں سرکشی کی جس سے انھیں روکا گیا تھا (لہٰذا) ہم نے ان سے کہا دھُتکارے ہوئے بندروں کی شکل میں ہوجاؤ (فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُھُوا عَنْہُ قُلْنَا لَھُمْ کُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِینَ) ۔ (3)
ظاہر ہے کہ امر ”کونوا“ (ہوجاؤ) یہاں پر ایک فرمانِ تکوینی ہے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے:
<إِنَّمَا اٴَمْرُہُ إِذَا اٴَرَادَ شَیْئًا اٴَنْ یَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ (یاسین/۸۲)
قابل توجہ باتیں
۱۔ بنی اسرائیل نے کس طرح گناہ کیا تھا؟: اس امر میں کہ بنی اسرائیل نے کس وقت قانون شکنی کی، مفسرین کے درمیان بحث ہے، بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے ایک حیلہ اختیار کیا، انھوں نے سمندر کے کنارے بہت سے حوض بنالیتے تھے اور انھیں نہروں کے ذریعے سمندر سے ملادیا تھا، ہفتہ کے روز ان حوضوں کے راستے کھول دیتے تھے پانی کے ساتھ مچھلیاں ان حوضوں کے اندر آجاتی تھیں، غروب کے وقت جب واپس جانا چاہتی تھیں تو واپسی کا راستہ بندکردیتے تھے، جب اتوار کا دن ہوتا تھا تو پھر ان کا شکار کرلیتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ ہم نے ہفتہ کے روز شکار تھوڑی کیا ہے بلکہ ہم نے صرف انھیں حوضوں میں محصور کرلیا تھا اصل شکار تو اتوار کے زور ہُوا ہے(4)
بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ وہ لوگ ہفتہ کے روز پکرنے کے کانٹوں کو دریا میں ڈال دیتے تھے اس کے بعد جب اس میں مچھلیاں پھنس جاتی تھیں تو دوسرے روز انھیں نکال لیتے تھے اور اس حیلہ سے ان کا شکار کرتے تھے ۔
بعض روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ بغیر کسی حیلہ کے بروز شنبہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ شکار میں مشغول ہوجاتے تھے ۔
ممکن ہے یہ تمام روایات صحیح ہوںاس طرح کہ ابتداء میں حوضوں یا قلابوں کے ذریعے حیلے سے شکار کرتے ہوں، جب اس طرح سے ان کی نظر میں گناہ کی اہمیت کم ہوگئی ہو تو پھر انھوں نے اعلانیہ گناہ کرنا شروع کردیا ہو اور ہفتہ کے دن کی حرمت کو ضائع کرکے مچھلی کی تجارت سے مالدار ہوگئے ہوں ۔
۲۔ کن لوگوں کو عذاب سے نجات ملی؟: مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تین گروہ تھے ۔
۱۔ افراد گناہگار.
۲۔ سکوت کرنے والے.
۳۔ نصیحت کرنے والے.
ان میں تیسرے گروہ کو عذاب الٰہی سے رہائی نصیب ہوئی اور جیسا کہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انھوں نے دیکھا کہ لوگ ان کی بات نہیں مانتے اور برابر گناہ میں مشغول ہیں تو انھیں دُکھ ہوا اور انھوں نے کہا، اب ہم شہر سے باہر چلے جاتے ہیں اب ہم تم لوگوں کے ساتھ نہیں رہیں گے چنانچہ وہ لوگ رات کے وقت شہر سے باہرچلے گئے اور ان کے جانے کے بعد عذابِ خدا نازل ہوگیا جس نے باقی دونوں گروہوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔
بعض مفسرین نے یہ جو خیال کیا ہے کہ یہ عذا صرف گناہگار افراد پر نازل ہُوا تھا اور جو لوگ خاموش تھے وہ بھی محفوظ بچ گئے تھے، بظاہر مذکورہ بالا آیت سے موافقت نہیں رکھتا ۔
۳۔ کیا دونوں گروہوں کو ایک ہی طرح کی سزا ملی تھی؟: مذکورہ بالا آیات سے ظاہر ہے کہ مسخ ہونے کی سزا گنہگاروں کے ساتھ مخصوص تھی کیونکہ ارشاد ہوتا ہے : ”فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُھُوا عَنْہُ ...“ (جب انھوںنے اس چیز کے مقابلے میں سرکشی کی جس سے انھیں روکار گیا تھ...) لیکن اس کے ساتھ ہی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب سے نجات پانے والے صرف وہ لوگ تھے جو بدکاروں کو برائی سے روکتے تھے، کیونکہ ارشاد ہوتا ہے :
”اٴَنْجَیْنَا الَّذِینَ یَنْھَوْنَ عَنْ السُّوءِ “
ہم نے ان لوگوں کو عذاب سے نجات دی جو برائی سے منع کرتے تھے ۔
ان دونوں آیتوں کو ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سزا تو دونوں گروہوں کی ملی تھی لیکن مسخ کیے جانے کی سزا صرف گنہگاروں کو ملی تھی، جبکہ دوسرے لوگوں کی سزا احتمال کے طور پر صرف ان کی ہلاکت تھی اگرچہ گنہگار افراد بھی مسخ ہونے ہونے کے بعد چند روز بعد مرگئے تھے(5)
۴۔ یہ مسخ جسمانی تھا یا روحانی؟: ”مسخ“ یا دوسرے لفظوں میں ”انسانی شکل کا کسی حیوان کی شکل میں تبدیل ہوجانا“ مسلّہ طور پر ایک خلافِ معمول اور خلافِ طبیعت بات ہے اگرچہ میوٹیشن (MUTATION) بعض حیوانات کا دوسرے کی شکل اختیار کرلینا نادر طور پر دیکھا گیا ہے اور سائنس میں تکامل حیات کی بنیاد بھی اسی بات پر رکھی گئی ہے، لیکن میوٹیشن (MUTATION) جہاں دیکھا گیا ہے وہ بہت نادر المواقع موارد ہیں، وہ بھی حیوانات کی جزوی صفات میں پایا جاتا ہے نہ کہ ان کی کلی صفات میں، یعنی ایسا ہرگز نہیں ہوا کہ میوٹیشن (MUTATION) کی وجہ سے ایک حیوان اپنی نوع مثلاً بندر سے بکری بن گیا ہو، ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی حیوان کی خصوصیات دگرگوں ہوجائیں، پھر یہ کہ یہ تبدیلی اس کی نسل میں پیدا ہوتی ہے نہ کہ جو حیوان پیدا ہوگیا ہے اس کی شکل یک بیک بدل گئی ہو، بنابریں کسی انسان یا حیوان کی شکل کا بدل کر دوسری نوع اختیار کرلینا ایک خلافِ معمول بات ہے ۔
ہم نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جو طبیعت اور عادت کے برخلاف واقع ہوتے ہیں جو کبھی تو پیغمبروں کے معجزوں کی صورت میں اور کبھی بعض خارق العادت کاموں کی صورت میں بعض انسانوں سے ظاہر ہوتے ہیں چاہے وہ انسان پیغمبر نہ بھی ہوں (ایسے افعال میں اور معجزات میں فرق ہوتا ہے) لہٰذا جب خارق العادت امور اور معجزات کے وقوع کو قبول کرلیا جائے تو مسخ ہوجانا یا ایک انسان کا دوسرے انسان کی صورت اختیار کرلینا کوئی خلاف عقل بات نہیں ہے ۔
جیسا کہ ہم نے اعجاز انبیاء کی بحث میں بیان کیا ہے کہ اس طرح کا خارق العادت واقع رونما ہونا نہ تو قانون علل واسباب میں کوئی استثنا ہے اور نہ ہی عقل کعقل وخرد کے برخلاف، بلکہ اس میں صرف ایک ”عادی“ وطبیعی کلیہ کی شکست ہے جس کی نظیر ہم نے بعض استثنائی انسانوںمیں بارہا دیکھی ہے ۔ (6)
بنابریں اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کلمہ ”مسخ “کاجو ظاہری مفہوم ہے اسی کو ماناجائے جو اس آیت میںبھی آیاہے اور دیگر آیات میں بھی آیا ہے نیز دیگر مفسرین نے بھی زیادہ تریہی یعنی مرادلیے میں.
لیکن بعض مفسرین جو اقلیّت میں ان کا خیال ہے کہ مسخ سے ”مسخ روحانی“ اور صفات اخلاقی کی تبدیلی مراد ہے ،اس کامطلب یہ ہے کہ ان سرکش لوگوں میں بند ر خنزیرکی صفات پیداہوگئی تھیں، مثلاً اندھی تقلید کرنا، شکم پرستی اور شہوت رانی جو ان جانوروں کی نمایاں صفتیں ہیں وہ ان میں نمایاں ہوگئی تھیں، مذکورہ احتمال ایک قدیمی مفسّر ”مجاہد“ سے نقل کیا گیا ہے ۔
بعض افراد نے یہ کہا ہے کہ ”مسخ“ ہونا قانونِ تکامل کے خلاف اور خلقتِ تدریجی سے پیچھے ہٹنا ہے، یہ خیال صحیح نہیں ہے، کیونکہ ”قانونِ تکامل“ان افراد سے مخصوص ہے جو راہِ تکامل پر گامزن ہوں، نہ ان مخلوقات کے لئے جو اس جادہ سے منحرف ہوگئی ہوں، مثال کے طور پر یوں سمجھنا چاہیے کہ ایک سالم وتندرست انسان اپنے بچپن میں برابر نشو ونما کرتا ہے، لیکن اگر اس کے بدن میں کوئی نقص پیدا ہوجائے تو ممکن ہے کہ نہ صرف اس کی نشو ونما رک جائے بلکہ وہ عقب کی طرف پلٹ جائے اور اس کی ذہنی اور جسمانی ترقی تدریجاً ضائع ہوجائے ۔
لیکن ہرحال میں یہ ملحوظ نظر رکھنا چاہیے کہ وہ مسخ ہونا ہو یا جسمانی تغیّر، یہ ان اعمال کی مناسبت سے ہوگا جنھیں یہ شخص گنہگار بجالاتا رہا ہے، یعنی چونکہ گنہگاروںمیں کچھ افراد نے نفس پرستی اور شہوت رانی کے جذبہ سے متاثر ہوکر خدا کی نافرمانی کی، جبکہ دوسرے افراد وہ تھے جنھوں نے اندھی تقلید کی عادت کی بناپر گناہ کیا لہٰذا مسخ کیے جانے کے وقت ہر گروہ اپنے اعمال کی مناسب شکل میں ظاہر ہوا ۔
اگرچہ زیرِ بحث آیات میں صرف ”قردة“ (بندروں) کا ذکر آیا ہے اور ”خنازیر“ (سُوروں) کا تذکرہ نہیں ہے لیکن سورہٴ مائدہ کی آیت ۶۰ میں کچھ ایسے لوگوں کا بھی تذکرہ ہے جن کی صورت مسخ کے وقت مذکورہ بالا دونوں جانورں (بندر اور سُور) کی ہوگئی تھی، بعض مفسرین مثلاً ابن عباس کے قول کے مطابق یہ آیت بھی انہی اصحاب سبت کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی شکم پرست اور بوالہوس بوڑھے خنزیر کی شکل میں اور اندھی تقلید کرنے والے جوان بندروں کی شکل میں مسخ ہوگئی تھی ۔
لیکن اس امر کی طرف بھی توجہ رکھنا چاہیے کہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ مسخ ہونے والے انسان صرف چند روز زندہ رہ کر مرگئے اور ان کی نسل بھی دنیا میں باقی نہیں رہی تھی ۔
۵۔ شریعت کی آڑ میں الٰہی فرمان کی خلاف ورزی: اگرچہ مذکورہ آیات میں اصحاب سبت کی حیلہ گری کی جانب کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے لیکن جیسا کہ ہم نے سابقاً اشارہ کیا کہ بہت سے مفسّرین نے ان آیات کی شرح میں چھوٹے چھوٹے حوض بنانے یا ہفتہ کے دن دریا میں کانٹے ڈالنے کی داستان بیان کی ہے، نیز روایات اسلامی میں یہ امر دکھلائی دیتا ہے، بنابریں سزا اور کیفر جو اس شدّت کے ساتھ ان لوگوں کو مل اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حیلہ گری اور شریعت کی آڑ لینے کی وجہ سے حقیقتِ گناہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے گناہ بہرحال گناہ ہے چاہے وہ اعلانیہ طور پر کیا جائے یا شریعت کی آڑ لے کر کیا جائے ۔
لہٰذا وہ لوگ اس خام خیال میں مبتلا ہیں کہ گناہ اور حرام فعل کو توڑ موڑ کر شریعت کی آڑ میں جائز کیا جائز کیا جاسکتا ہے وہ در حقیقت خود فریبی کے مرض میں مبتلا ہی، بدبختی سے یہ حرکت بعض ایسے نادانوں میں دیکھی گئی ہے جو اپنے کو دین کی طرف منسوب بھی کرتے ہیں اور یہی بات ہے جس کی وجہ سے دین ومذہب کا چہرہ دور سے دیکھنے والوں کی نگاہ میں سخت بدنما معلوم ہوتا ہے ۔
اس عمل میں ایک بہت بُرائی مذہب کے چہرہ کو بدنما کرنے کے علاوہ جو ہے وہ یہ ہے کہ اس سے دوسروں کی نظر میں گناہ حقیر ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے دیگر افراد میں اسے کرنے کی جرئت پیدا ہوجاتی ہے ۔
”نہج البلاغہ“ میں ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے حضرت رسول الله صلی الله علیہ والہ وسلّم سے یہ حدیث نقل کی ہے:
ایک روز ایسا بھی آئے گا جبکہ لوگوں کی آزمائش ان کے مالوں کے ذریعے سے کی جائے گی، یہ خدا پر احسان جتاتے ہیں کہ دیندار ہیں اور اس عالم میں وہ خدا کی رحمت کے امیدوار بھی ہیں اور اس کے عذاب سے خود کوامان میں سمجھتے ہیں ۔
”یستحلون حرامہ بالشبھات الکاذبة والاھواء الساھیة فیستحلون الخمر بانبیذ والسحت بالھدیة والربا بالبیع“
یہ حرام خدا کو جھوٹ شبہات اور واہیات افکار کے ذریعے حلال سمجھتے ہیں، شراب پر ”نبیذ“ (7) رشوت پر ”ہدیہ“اور ”ربا“ پر ”بیع“ کا لیبل لگاکر اپنے اوپر حلال کرلیتے ہیں ۔ (نہج اللاغہ،۱۵۶ویں خطبہ کا آخری حصّہ)
اس بات کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ اس قسم کی حیلہ گریوں کا باعث یا تو یہ تھا کہ وہ اپنے باطنی چہرہ کو افکارِ عمومی سے چھپانا چاہتے تھے یا وہ اس سے خود کو اپنے کو دھوکا دیتے تھے ۔
۶۔ آزمائش الٰہی کی مختلف شکلیں: یہ بات درست ہے کہ دریا کے ساحل پر رہنے والوں کے لئے مچھلی کا شکار کرنا کوئی بُرا کام نہیں ہے لیکن یہ بات ممکن ہے کہ کبھی خدا آزمائش کے طور پر کچھ لوگوں کو اس عمل سے منع کردے تاکہ ان کی فداکاری کا حال معلوم ہوجائے، یہ خدائی امتحان وآزمائش کی شکل ہے، علاوہ ازیں روز شنبہ یہودیوں کے دین میں ایک مقدس دن تھا، اس دن شکار سے منع کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ اس دن دنیاوی کاموں کی تعطیل کرکے پوری طرح سے خدا کی طرف متوجہ ہوجائیں اور الله کی عبادت کریں، لیکن شہر ”ایلہ“ کے ساحل نشینوں نے ان تمام باتوں کو نظر انداز کردیا اور کھلے دل کے ساتھ الله کے حکم کی خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے انھیں ایسی سخت سزا ملی جو آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے درسِ عبرت بن گئی ۔

۱۶۷ وَإِذْ تَاٴَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْھِمْ إِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَنْ یَسُومُھُمْ سُوءَ الْعَذَابِ إِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ.
۱۶۸ وَقَطَّعْنَاھُمْ فِی الْاٴَرْضِ اٴُمَمًا مِنْھُمْ الصَّالِحُونَ وَمِنْھُمْ دُونَ ذٰلِکَ وَبَلَوْنَاھُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُونَ.
ترجمہ

۱۶۷۔ اور (اس وقت کو بھی یاد کرو )جب تیرے پروردگارنے بہ خبر دی کہ وہ قیامت تک کے لئے ان پر لوگوں کو مسلط کردے گا جو انھیں ہمیشہ سخت عذاب دیں گے، بے شک بہت جلد سزا دینے والا ہے اور (توبہ کرنے والوں کے لئے) بڑا بخشنے والا اور مہربان (بھی) ہے ۔
۱۶۸۔ اور ہم نے انھیں زمین پر مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا، ان میں کچھ گروہ نیکوکار اور کچھ اس کے علاوہ ہیں، اور ہم نے ان کی آزمائش کی نیکیوں اور بدیوں کے ذریعے کہ شاید وہ (ہماری طرف) پلٹیں ۔
تفسیر

 


۱۔ ان لوگوں کو ”امة منھم“ سے جو تعبیر کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گروہِ اوّل سے تعداد میں کم تھا کیونکہ پہلے گروہ کے لئے ”قوماً“ کی تعبیر استعمال کی گئی ہے (بغیر کلمہٴ ”منھم“ کے) بعض روایات میں اس طرح ملتا ہے کہ اس شہر کی تعداد اسّی سے زیادہ تھی جس میں ستّر ہزار نے گناہ کا ارتکاب کیا تھا
(تفسیر برہان، ج۲، ص۴۲)
2۔ لفظ ”بئیس“ کی ”باٴس“ ہے جس کے معنی ”شدید“ ہیں ۔
3۔ لفظ ”عتوا“ کی اصل ”عتو“(بروزن ”غلو“) ہے جس کے معنی ہیں: ”نافرمانی“ جن مفسرین نے اس کے معنی ”رکنے“ کے کئے ہیں وہ اہل لغت کے اقوال کے خلاف ہے ۔
4۔ تفسیر برہان/ج۲،ص۴۲. یہ بات ابن عباس سے تفسیر مجمع البیان میں بھی اس آیت کے ذیل میں نقل ہوئی ہے.
5۔ اگر بعض روایات سے اس کے برخلاف کوئی بات سامنے آتی ہے تو وہ جہاں آیت مذکورہ کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے قابل غور اعتماد نہیں ہوسکتا وہاں سند کے لحاظ سے بھی اس کی تضعیف کی گئی ہے اس بات کا احتمال ہے کہ اس کے راوی سے غلطی ہوگئی ہو۔
 6۔ بعض معاصر اہلِ قلم نے مدارک اور حوالوں کا ذکر کرنے کے ساتھ ایسے استثنائی انسانوں یا حیوانوں کے حالات پر کتاب لکھی ہے جو بہت دلچسپ ہے، ان میں سے ایسے لوگوں کا تذکرہ ہے جو اپنی غلطیوں کے ذریعے تحریر کو پڑھ سکتے ہیں! یا ایک عورت جس نے دو مہینوں کے فاصلہ سے دوبارہ بچہ پیدا کیا اور ہر دفعہ دو جڑواں پیدا ہوئے یا ایک بچہ متولد ہوا جس کا دل قفس سینہ کے اوپر تھا، یا ایک ایسی عورت جسے بچہ پیدا ہونے تک اپنے حاملہ کی کوئی اطلاع نہ تھی، اسی طرح کے دیگر خارقِ عادت واقعات مذکورہ بالا امور کے حوالوں کے لئے ملاحظہ کریں کتاب، ”آیا صبح نزدیک نیست“، ۸۴۔۸۶.
7۔ ”نبیذ“ کے معنی یہ ہیں کہ تھوڑا خرمہ یا کشمس کسی برتن میں پانی کے ساتھ بگھو دیتے تھے، اسے چند روز گذر جاتے تھے، اس کے بعد وہ پانی صاف کرکے پیتے تھے، اس کو اگرچہ شراب تو نہیں کہا جاسکتا تھا لیکن گرمی کے اثر سے اس میں جو میٹھا تھا وہ ایک ہلکے ”الکحل“ کی شکل میں تبدیل ہوجاتا تھا ۔
”حطّة“ کیا ہے اور اس کے کیا معنی ہیں؟یہودیوں کا پراکندہ ہونا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma