اردو
ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ آیت موردِ بحث میں جس صراحت کے ساتھ اور بڑی تاکید وقسم کے ساتھ یہ کہا گیا ہے کہ قیامت کے روز سب سے سوال کیا جائے گا، یہ دوسری بعض آیات سے اختلاف رکھتا ہے، مثلاً سورہٴ رحمان میں یہ آیت ہے:
”فَیَوْمَئِذٍ لَایُسْاٴَلُ عَنْ ذَنْبِہِ إِنسٌ وَلَاجَانٌّ، فَبِاٴَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ، یُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِیمَاھُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِی وَالْاٴَقْدَامِ“-
”اس روز کسی شخص سے نہ انسانوں سے نہ جنوں سے کوئی سوال کیا جائے گا بلکہ گنہگاروں کو ان کی علامتوں سے پہچان لیا جائے گا(۱)
اسی طرح کی دیگر ایات بھی ہیں جو بروز قیامت سوال کی نفی کرتی ہیں، سوال یہ ہے کہ اس طرح کی آیات سوال کا اثبات کرنے والی آیات مثلاً زیر نظر آیت سے کیسے میل کھاتی ہیں ۔
لیکن اگر ہم ان آیات میں غورو فکر سے کام لیں تو ہر طرح کا ابہام دُور ہوجائے گا کیونکہ جن آیتوں میں بروزِ قیامت سوال وجواب کا ذکر ہے اگر ہم ان سب کو ملاکر دیکھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس روز لوگ چند مرحلوں کو طے کریں گے، ان میں سے کچھ مرحلے تو ایسے ہوں گے جہاں ان سے کسی قسم کا سوال نہیں کیا جائے گا، حتّیٰ کہ ان کے منھ پر مہر لگادی جائے گی، صرف ان کے اعضاء وجوارح، جنھوں نے ان کے اعمال کے اثرات کو اپنے میں محفوظ کرلیا ہے، ایک بولنے والے اور ناقابلِ تردید گواہ کی حیثیت سے ان کے تمام اعمال کی تفاصیل بیان کریں گے ۔
اس کے بعد والے مرحلے میں ان کے منھ سے مُہر ہٹادی جائے گی جس کی وجہ سے وہ دوبارہ بول سکیں گے اور ان سے سوال کیا جائے گا، چونکہ وہ اپنے اعضاء کی گواہی دیکھ چکے ہوں گے لہٰذا انھیں اپنے اعمال کا اعتراف کرنا پڑے گا، بالکل ان مجرموں کی طرح جن کو اپنے جرائم کے چشم دید آثار کو دیکھنے کے بعد سوائے اعتراف کرلینے کے کوئی چارہ باقی نہیں رہتا ۔
بعض مفسّرین نے ان آیات میں یہ بھی احتمال دیا ہے کہ جن آیات میں سوال کی نفی کی گئی ہے اس سے مراد زبانی سوال وجواب ہے، جن آیات میں سوال وجواب کا اثبات کیا گیا ہے اس سے مراد اعضاء وجوراح سے سوال کیا جانا ہے، چنانچہ جیسے رنگ رخسار راز دل کو آشکار کردیتا ہے انسانی اعضاء وجوارح حقائق کو ظاہر کردیں گے ۔
ان میں سے کسی صورت میں ان دو طرح کی آیتوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
اس کے بعد والی آیت میں بحثِ حشر و نشر کی تکمیل کے لئے مسئلہ ”اچھّے بُرے اعمال کی پرکھ“ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کی مثال قرآن کی دوسری سورتوں میں بھی موجود ہے جیسے سورہٴ مومنون آیات ۱۰۲۔۱۰۳ اور سورہ قارعہ آیات ۶۔۸۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے کہ: اعمال کے تو لے جانے کا مسئلہ اس روز برحق ہے (وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ) ۔(2)