اس بارے میں مفسرین کے درمیان گفتگو ہوئی ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ ایک قسم کی نباتاتی آفت تھی جو زراعت کو کھاجاتی تھی ۔
جب یہ آفت بھی ختم ہوئی اور وہ پھر بھی ایمان نہ لائے تو اللہ نے مینڈک کی نسل کو اس قدر فروغ دیا کہ مینڈک ایک نئی بلا کی صورت میں ان کی زندگی میں داخل ہوگئے (وَالضَّفَادِعَ ) ۔(1)
جدھر دیکھتے تھے ہر طرف چھوٹے بڑے مینڈک نظر آتے تھے یہاں تک کہ گھروں کے اندر، کمروں میں، بچھونوں میں، دستر خوان پر، کھانوں کے برتنوں میں مینڈک ہی مینڈک تھے جس کی وجہ سے ان کی زندگی حرام ہوگئی تھی لیکن پھر بھی انھوں نے حق کے سامنے اپنا سر نہ جھکایا اور ایمان نہ لائے ۔
اس وقت اللہ نے ان پر خون مسلط کیا (وَالدَّمَ) ۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ خون سے مراد مرض نکسیر ہے جو ایک وبا کی صور ت میں ان میں پھیل گیا، لیکن بہت سے مفسرین نے لکھا ہے کہ دریائے نیل لہو رنگ ہوگیا اتنا کہ اس کا پانی کسی مصرف کے لائق نہ رہا!۔
آخر میں قرآن فرماتا ہے: ان معجزوں اور کھلی نشانیوں کو جو موسیٰ (علیه السلام) کی حقانیت دلالت کرتی تھیں ہم نے ان کو دکھلایا لیکن انھوں نے ان کے مقابل میں تکبر سے کام لیا اور حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا وہ ایک مجرم اور گنہگار قوم تھے ( آیَاتٍ مُفَصَّلَاتٍ فَاسْتَکْبَرُوا وَکَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِین) ۔
بعض روایات میں ہے کہ ان میں سے ہر ایک بلا ایک ایک سال کے لئے آتی تھی، یعنی ایک سال طوفان وسیلاب ، دوسرے سال ٹڈیوں کے دل، تیسرے سال نباتاتی آفت اسی طرح آخر تک لیکن دیگر روایا ت میں ہے کہ ایک آفت سے دوسری آفت تک ایک مہینے سے زیادہ فاصلہ نہ تھا، بہر کیف اس میں شک نہیں کہ ان آفتوں کے درمیان فاصلہ موجود تھا(جیسا کہ قرآن نے لفظ”مفصلات“ سے تعبیر کیا ہے) تاکہ ان کو تفکر کے لئے کافی موقع مل جائے ۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ بالائیں صرف فرعون اور فرعون والوں کے دامن گیر ہوتی تھیں، بنی اسرائیل ان سے محفوظ تھے (2) بے شک یہ اعجاز ہی تھا لیکن اگر نکتہٴ ذیل پرنظر کی جائے تو ان میں سے بعض کی علمی توجیہ بھی کی جاسکتی ہے ۔
ہمیں معلوم ہے کہ مصر جیسی سرسبز وشاداب اور خوبصورت جو دریائے نیل کناروں پر آباد تھی اس کے بہترین حصے وہ تھے جو دریا سے قریب تھے وہاں پانی بھی فراوان تھا اور زراعت بھی خوب ہوتی تھی تجارتی کشتیاں وغیرہ بھی دستیاب تھیں، یہ خطے فرعون والوں اور قبطیوں کے قبضے میں تھے جہاں انھوں نے اپنے قصر وباغات بنا رکھے تھے، اس کے برخلاف اسرائیلیوں کو دور دراز کے خشک اور کم آب علاقے دئے تھے جہاں وہ زندگی کے یہ سخت دن گزارتے تھے کیوں کہ ان کی حیثیت غلاموں کی سی تھی ۔
بنابریں یہ ایک طبیعی امر ہے کہ جب سیلاب اور طوفان آیا تو اس کے نتیجے میں وہ آبادیاں زیادہ متاثر ہوئیں جو دریائے نیل کے دونوں کناروں پر آباد تھی، اسی طرح مینڈک بھی پانی سے پیدا ہوتے ہیں جو قبطیوں کے گھروں کے آس پاس بڑی مقدار میں موجود تھا یہی حال خون کا ہے کیوں کہ رود نیل کا پانی خون ہوا تھا، ٹڈیوںاور زرعی آفتیں بھی باغات ، کھیتوں اور سرسبز علاقوں پر حملہ کرتی ہیں لہٰذا ان عذابوں سے زیادہ تر نقصان قبطیوں ہی کا ہوتاتھا ۔
جو کچھ آیات فوق میں ذکر ہوا ہے اس کا ذکر موجودہ توریت میں بھی ملتا ہے لیکن کسی حد تک فرق کے ساتھ۔(ملاحظہ ہو سفر خروج فصل ہفتم تا وہم توریت)
۱۳۴ وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْھِمْ الرِّجْزُ قَالُوا یَامُوسیٰ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَھِدَ عِنْدَکَ لَئِنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَکَ بَنِی إِسْرَائِیلَ ۔
۱۳۵ فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْھُمْ الرِّجْزَ إِلیٰ اٴَجَلٍ ھُمْ بَالِغُوہُ إِذَا ھُمْ یَنکُثُونَ ۔
۱۳۶ فَانتَقَمْنَا مِنْھُمْ فَاٴَغْرَقْنَاھُمْ فِی الْیَمِّ بِاٴَنَّھُمْ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَکَانُوا عَنْھَا غَافِلِینَ ۔
ترجمہ
۱۳۴۔جب ان پر بلا نازل ہوتی تھی تو وہ کہتے تھے اے موسیٰ ! اپنے خدا سے کہو کہ جو عہد اس نے تم سے کیا ہے اس کے مطابق کرے، اگر اس بلا کو ہم سے دور کردوگے تو ہم یقینا تمھارے اوپر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو تمھارے ساتھ بھیج دیں گے ۔
۱۳۵۔لیکن جب وہ ایک معینہ مدت تک پہنچتے تھے اور ہم ان سے بلا دور کردیتے تھے، تو اہ اپنے عہد کو توڑ دہتے تھے ۔
۱۳۶۔آخر کار ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان سب کو دریا میں غرق کردیا کیوں کہ انھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور وہ ان سے غافل رہے تھے ۔
۔